Bangladesh is on the top of world by Using Solar Penal Technology for domestic and commercial use.
سولر پینل پر مشتمل گھریلو اشیاءکے استعمال میں بنگلہ دیش پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ گیا۔ بنگلہ دیشن دنیا بھر میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی وجہ سے معروف ہے، جہاں کپڑا بنانے والے ملازمین فیکٹریوں میں ایک ڈالر کے عوض سخت محنت کرتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیاءکا یہ چھوٹا سا ملک توانائی کے شعبہ میں ملازمتوں کے حوالے سے بھی پُرکشش بن چکا ہے، جیسے 2013ءمیں سپین کو سمجھا جاتا تھا۔ آئی آر ای این اے ( انٹرنیشنل رینیوایبل انرجی ایجنسی) کی طرف سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں شمسی توانائی کا حصول حیران کن حد تک بڑھ رہا ہے۔ بنگلہ دیشی اپنے گھروں میں شمسی توانائی سے حاصل ہونے والی بجلی کے حصول کے لئے آلات کی تنصیب پر ماہانہ 80 ہزار روپے خرچ کر رہے ہیں، حالاں کہ یہ وہ ملک ہے جہاں ایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق 53 فیصد آبادی بجلی کی سہولت سے محروم ہے۔ اور اس صورت حال میں شمسی توانائی کا بڑھتا ہوا حصول بڑے گریڈ سٹیشن کی ضرورت کا تقاضا کر رہا ہے۔ آئی آر ای این اے کی رپورٹ کے مطابق 10سال قبل بنگلہ دیش میں صرف 25ہزار سولر سسٹم تھے، جو آج بڑھ کر 28لاکھ تک پہنچ چکے ہیں۔ اور سولر پینل کی تنصیب، مرمت اور فروخت کے سلسلہ میں ایک لاکھ 14 ہزار ملازمتوں کے مواقع پیدا ہو گئے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2013ءتک دنیا بھر میں سولرانرجی سے متعلق ملازمتوں کی تعداد 65 لاکھ تھی، جن میں سے صرف 26 لاکھ ملازمتیں چین میں ہیں۔ مزید برآں 11لاکھ ملازمتیں یورپی یونین اور سوا 6 لاکھ امریکہ میں پائی جاتی ہیں
Thanks for Visiting PashtoTimes.
سولر پینل پر مشتمل گھریلو اشیاءکے استعمال میں بنگلہ دیش پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ گیا۔ بنگلہ دیشن دنیا بھر میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی وجہ سے معروف ہے، جہاں کپڑا بنانے والے ملازمین فیکٹریوں میں ایک ڈالر کے عوض سخت محنت کرتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیاءکا یہ چھوٹا سا ملک توانائی کے شعبہ میں ملازمتوں کے حوالے سے بھی پُرکشش بن چکا ہے، جیسے 2013ءمیں سپین کو سمجھا جاتا تھا۔ آئی آر ای این اے ( انٹرنیشنل رینیوایبل انرجی ایجنسی) کی طرف سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں شمسی توانائی کا حصول حیران کن حد تک بڑھ رہا ہے۔ بنگلہ دیشی اپنے گھروں میں شمسی توانائی سے حاصل ہونے والی بجلی کے حصول کے لئے آلات کی تنصیب پر ماہانہ 80 ہزار روپے خرچ کر رہے ہیں، حالاں کہ یہ وہ ملک ہے جہاں ایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق 53 فیصد آبادی بجلی کی سہولت سے محروم ہے۔ اور اس صورت حال میں شمسی توانائی کا بڑھتا ہوا حصول بڑے گریڈ سٹیشن کی ضرورت کا تقاضا کر رہا ہے۔ آئی آر ای این اے کی رپورٹ کے مطابق 10سال قبل بنگلہ دیش میں صرف 25ہزار سولر سسٹم تھے، جو آج بڑھ کر 28لاکھ تک پہنچ چکے ہیں۔ اور سولر پینل کی تنصیب، مرمت اور فروخت کے سلسلہ میں ایک لاکھ 14 ہزار ملازمتوں کے مواقع پیدا ہو گئے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2013ءتک دنیا بھر میں سولرانرجی سے متعلق ملازمتوں کی تعداد 65 لاکھ تھی، جن میں سے صرف 26 لاکھ ملازمتیں چین میں ہیں۔ مزید برآں 11لاکھ ملازمتیں یورپی یونین اور سوا 6 لاکھ امریکہ میں پائی جاتی ہیں
Thanks for Visiting PashtoTimes.
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.