Skip to main content

Posts

Showing posts with the label Faiz Ahmad Faiz

Imam Of Atheism. There Is No God, There Is A God. Faisal Faran

Imam Of Atheism. There Is No God, There Is A God. Faisal Faran امام الالحاد! مشہور زمانہ برطانوی فلسفی اينڻونی فليو (1923ء۔2010ء) زندگی بهر ملحد رہے  اور خدا کے وجود کے رد ميں تين درجن سے زياده کتابيں لکهيں۔ انہيں "دنيا کا بدنام ترين ملحد" کہا جاتا تها، ليکن مرنے سے دو تين سال قبل انہوں نے اپنا ذہن بدلا اور مرتے مرتے الله تعالیٰ کے وجود کے اثبات ميں کتاب لکھ گئے۔ ان کی کتاب There is a God اس موضوع پر بہت گہری فلسفيانہ دستاويز ہے۔ عمانويل کانٹ اور ڈيوڈ ہيوم سے لے کر عصر حاضر کے معروف ملحدين تک کی ہر دليل کا مسکت جواب اس کتاب ميں موجود ہے۔ يہ کتاب چونکہ ايک ايسے فرد کی لکهی ہوئی ہے، جو عصر حاضر ميں الحاد کا بڑا قد آور امام مانا جاتا تها، اس ليے اس کی اہميت دوچند ہوگئی ہے  تاہم یہ ضرور ہے کہ اينڻونی فليو کے "تصوِر خدا" اور اسلام کے "تصوِر اٰلہ" ميں زمين آسمان کا فرق ہے۔ یہ کتاب جب وہ لکھ رہے تھے تو ان کی عمر نوے سال کے قریب تھی۔ اس لٸے وہ خود لکھنے سے قاصر تھے۔ انہوں نے یہ کتاب ابراہیم نامی مسلمان کو املا کرواٸی۔  ملحدین نے یہ کہہ کر خود کو تسلی دینے کی کوشش

Faiz Ahmad Faiz And Dalip Kumar. Dilip Kumar And Faiz Ahmad Faiz.

Faiz Ahmad Faiz And Dalip Kumar. Dilip Kumar And Faiz Ahmad Faiz. Faiz Ahmad Faiz Aur Dalip Kumar Ki Kahani. Urdu Adab. ‏‎فیض صاحب کی بیٹی منیزہ ہاشمی فرماتی ہیں ایک مرتبہ میرے بیٹے نے مجھ سے پوچھا کہ شہرت کا کیا جملہ بناؤں۔ ‎ تو میں نے کہا کہ یہ لکھ دو کہ میرے نانا کی بہت شہرت ہے۔ تو اس نے کہا کہ واقعی ہمارے نانا کی بہت شہرت ہے؟ ‏‎ مگر جب میں چھوٹی تھی تو میں بھی یہی سمجھتی تھی- ایک دفعہ ابّا اِنڈیا گۓ تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارے لۓ وہاں سے کیا لاؤں- ان دنوں دلیپ کمار کا بہت دور دورہ تھا- میں نے کہا کہ میرے لۓ دلیپ کمار سے آٹوگراف لے آئیں۔  جب ابّا واپس آئے تو آٹوگراف کے ضمن میں بالکل چُپ رہے۔  جب میں نے پوچھا ابّا آپ دلیپ کمار کی آٹوگراف لاۓ۔ تو کہنے لگے نہیں۔ میں نے کہا کیا آپ کو دلیپ کمار نہیں ملا۔  تو بولے ملا تھا۔  میں نے کہا آپ نے دلیپ کمارکی آٹوگراف کیوں نہیں لی تو کھسیانے سے بولے،  بیٹا دراصل بات یہ ہے کہ وہ تو مجھ سے آٹوگراف مانگ رہا تھا- ‏‎ تو میں نے حیران ہو کر کہا " ابّا کیا دلیپ کمار آپ کو جانتا تھا۔” تو اس وقت میں بھی نہیں جانتی تھی میرے ابّا اتنے مشہور ہیں۔

Faiz Ahmad Faiz, his Wife and Love Affairs With Girls.

  Faiz Ahmad Faiz, his Wife and Love Affairs With Girls. ‏فیض احمد فیض کی بیوی ایلیس فیض سے ہم نے ایک دفعہ یہ ضرور پوچھا تھا کہ اپنے میاں کو ہر وقت حسیناؤں اور مداحوں کے جھرمٹ میں دیکھ کر وہ رشک و حسد کا شکار تو ضرور ہوتی ہوں گی مگر ان کا کہنا تھا، "حمید! شاعر عشق نہیں کرے گا تو کیا ورزش کرے گا؟" "پرسش احوال" از حمید اختر

Police Raid In Heera Mandi Lahore. Poets Arrested

Police Raid In Heera Mandi Lahore. Poets and Writers Arrested.  ہیرا منڈی میں گرفتاری  پطرس بخاری کو محفل آرائی کا بڑا شوق تھا۔ دن بھر جتنی بھی مصروفیت رہی ہو رات کو گپ شپ کے لیے بزمِ دوستاں ضرور آباد کرتے۔اس شوق میں دوستوں کو گاڑی میں پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی فراہم کرنی پڑتی ۔2010 میں، معروف شاعر شہزاد احمد نے، الحمرا میں ادبی کانفرنس میں گزرے زمانے کی یادیں تازہ کیں تو اس موقعے پر صوفی تبسم کی زبانی سنا ایک دلچسپ واقعہ بھی سنایا۔  صوفی تبسم نے شہزاد احمد کو بتایا کہ ایک دفعہ دوست احباب پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر بیٹھے محوِ گفتگو تھے کہ ادھر پولیس والے آ گئے اور درشتی سے پوچھا کہ تم لوگ یہاں کیا کررہے ہو؟ پطرس کی گاڑی کی طرف اشارہ کرکے بولے ’یہ کھٹارا کس کا ہے؟‘اس کے بعد پطرس سے پوچھا کہ ان کی تعریف انھوں نے جب’ اعتراف‘کیا کہ وہ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل ہیں تو پولیس والوں نے یقین نہیں کیا اور کہا کہ شکل سے شریف آدمی معلوم ہوتے ہو لیکن ہو آوارہ گرد۔اس کے بعد سیدعابد علی عابد نے اپنا تعارف دیال سنگھ کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے کروایا تو اس کا بھی یقین نہ کیا گیا۔ فیض احمد فیض کو پاکستان ٹ

Faiz Ahmad Faiz, Life, Poetry and Stuggle. 20 November In History

20 November, Faiz Ahmad Faiz Anniversary and Ahmad Nadeem Qasmi Birth Day Today. Urdu Blog About Faiz Ahmad Faiz Life, Poetry and Struggle. Faiz Ahmad Faiz Blog  20 نومبر تاریخی دن فیض احمد فیض کا یوم وفات اور احمد ندیم قاسمی کا یوم ولادت ہے۔ فیض صاحب کی وفات 20 نومبر 1984ء کو لاہور میں ہوئی۔ 20 نومبر 1984ء کو جب ہمارے عہد کے سب سے بڑے شاعر اور روح عصر فیض احمد فیض کا انتقال ہوا تو کسی نے کہا تھا کہ فیض کی شہرت تو اب شروع ہو گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ فیض انتقال کے وقت شہرت کی بلندیوں پر تھے۔ پوری دنیا میں اور خود ان کے اپنے وطن میں وہ کون سی عزت تھی جو انہیں نہیں ملی۔ نوبل انعام کے لیے وہ نامزد کیے گئے تھے۔ روسی انقلاب کے بانی لینن کے نام سے وابستہ لینن امن انعام انہیں پہلے ہی مل چکا تھا۔ فلسطینیوں، ویت نامیوں اور دنیا بھر میں اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے وہ محبوب شاعر تھے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کی زبانوں میں ان کی شاعری کے تراجم چھپ چکے تھے، اور تو اورخود ان کی اپنی مادری زبان پنجابی میں بھی ان کے کلام کا انتخاب ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا تھا۔ غرض وہ کون سی شہرت تھی، وہ کون سا احترام تھا