غني خان تقابلي موازنه اور استعماري رويه
پارٹ ۱
باچاخان کے بڑے فرزند رابندرا ناتھ ٹيگورکے شاگردمہاتماگاندھى كے منظورنظر اندراگاندھي كے ھمجولى خان عبدالغنی خان شاعر و ادیب، مصور، موسيقار،مجسمہ ساز، دانشور،مؤرخ اور مفكر پيشه كے لحاظ سےکیمیکل انجنئیرتھے۔ تصانیف میں ’’د پنجرے چغار، پلوشے ،پانوس اور لٹون ‘‘ شعری مجموعے ہیں" گڈےوڈے" طنزومزاح کاپشتو نثري شعري مجموعه هے "خان صاحب "اردو مين پشتون کليوال کردار کی طنزيه شبيهه سازي "پٹھان اے سکيچ "کے نام سے انگریزى زبان ميں پختون تاریخ، تہذیب، روایات نفسيات اور معاشرتی زندگی کا خاکہ پیش کیا ہے۔"خان صاحب" اردو کى ايك اور كتاب هے جسميں ميں پختون کردار کانفسياتي وسماجي خاكه لكها ہے ۔سن انيس سو چوالیس میں غیر منقسم ہندوستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی کے سب سے کم عمرممبر منتخب ہوكرمسٹر جناح كے ڈسک فيلو رهے بيگم رعنالياقت على خان كے انتهائ قريبى ذاتى دوست رهے اوراپنى هى كى ،مجبور کرنےکيوجه سے لياقت علي خان نےخداي خدمتگارتحريك اورحكومت كے درميان سمجهوتے کی كوشش بهي كي
تقسيم كے وقت ميں مسلم ليگ کي ذيلي شرپسند تنظيم "غازي" جو هندومخالف کاروائی کيلئے بدنام زمانه رائل ارمي ميجرخورشيد نے منظم کي تهي كے خلاف غني خان نے
’’ زلمےپختون ‘‘ کے نام سے ایک نیم فوجی تنظیم بھی بنائی۔ زندگی کے کئی سال مختلف جیلوں میں گزارے۔ اکثر و بیشتر نظر بند رہے۔ غرض پختون تاريخ وثقافت ميں انکا حوالہ خوشحال و رحمان کے ساتھ آتاھے انكے فن وفکر کاباقاعدہ مطالعہ "غنيات"كہلاتاہے
غنیات کے سلسلے میں موازنہ کی یہ چھٹی کڑی ہے۔ جسے روبینہ ناز محمد زئ نے" فیض احمد فیض اورغنی خان کے افکار و نظریات کا تقابلی جائزہ "کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ اس سے پہلے استاد محترم ڈاکٹر خادم حسین "غنی و شیلے" پروفيسرڈاکٹرشازیہ بابر "غنی و کیٹس "همارے دوست پروفيسر گوہر نوید "غنی و اقبال" اور راقم "غنی و خیام اور "غنی و ٹیگور" کے موازنوں پر مقالے لکھ چکے ہیں۔ پشتو زبان میں اس قسم کے موازنوں کی تاریخ سو ڈیڑھ سو سال پيشتر شمس العلماء میر احمد رضوانی اور پروفیسر عبدالمجید افغانی تک جا پہنچتی ہے جن کی تحریروں میں رحمان بابا اور حافظ شیرازی کے شعری مماثلت کى بحث ملتي ہے۔ جسے بنیاد بنواکر دوست محمد خان کامل ایسے پائےکے محقق نے رحمان بابا سے متعلق اپنی کتاب میں ایک خصوصی باب باندھا۔ اور مغرب کے ادب سے مماثلتوں کی مثالیں لا لا کر گویا شعری مماثلت کے لیے جواز ڈھونڈنے کی کوشش کرکے اپنے تئين اخذماخذکے بحث سے نمٹنے کي کوشش کى تھى
حالانکہ رحمان بابا اور حافظ شیرازی کی یہ شعری مماثلت استفاضہ ،اخذ، استفادہ، تاثر کے ذیل میں نہیں۔ اس کا تعلق تو کلاسيکی غزل کی تنقیدی روایت سے ہے۔ جسکی رو سے پیش رو شاعر کی کسی فنی فکری يا لسانی سہو کی تصیحح بعد کا شاعر اس مضمون کو اپنے شعر میں باندھ کر کرتا ہے۔ رحمان بابا نے حافظ شیرازی کا جوبهي مضمون ليا ہے ان شعروں میں اسی طرح کوئی نہ کوئی سہو یا کمی ملتی ہے۔ یوں بھی وہ درویش شاعرفکري روسے حافظ کی بہ نسبت سعدی و ثنائی سے زیادہ نزدیک ہے۔ دوست محمد خان کامل کی تحریر سے شہ پا کر ایک فارسی گزيده پروفیسر نے ايک پوری کتاب لکھ ماری جس میں حافظ شیرازی کو گروگنٹھال بناکر رحمان بابا کو ان کا چیلا چانٹا باور کرانے کی کوشش کی خانہ فرہنگ ایران کی توسط سے کتابیں چھاپنے والے یہ حضرت اس قسم کی بے سروپا سطحى تحریر اکثر و بیشتر مرتب کرتے ہے۔ اس کےبعد کی کتابوں میں وہ خوشحال خان خٹک کو زيدي شیعہ اور پوري پشتون ملت کو ایرانیوں سے بچھڑا ہوا آوارہ گرد جتھہ قرار دے گئے۔ حالانکہ خود پارسیوان پشتوں ملت کو ضحاک ماران(سهاک/ساکا) کی نسل بتلاتے ہے۔ جو کہ دراصل اساکزئ قبیلہ تھا جس نے ما قبل تاریخ پارس موجوده ايران پر حکومت کی۔ پروفيسرمارگنسٹائرن سے پروفیسر احمد حسن دانی تک سب پشتون ملت کو اساک و سیتھی سمجھتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ شاہانامه فردوسی میں دکھائے گئے تمام علاقے بھی اج بهي پارس میں نهيں بلکه موجوده افغانستان میں واقع ہوئے ہیں۔ اساک زئی معروف پشتون قبیلہ غورى کاشاخچه ہے فردوسی رستم پہلوان کو شاہنامہ میں اساک زئی دکھاتا ہے دنیا کی قدیم آریائی تہذیب اصفہان میں نہیں مرجينيا(مشمول ګونر و بلخ) میں مانی جاتی ہے
__۔ بہرحال،ادب کی کسی صنف یا تحریر کا دوسرے سے تقابل نہیں کیا جانا چاھيے تقابلی ادب میں ھمیشہ یہ خدشہ رہتا ہے کہ مذکورہ پروفیسر عصمت مآب کیطرح سے تقابل و موازنے کے بہانے اپنے ممدوح کو بانس چڑھا کر علمي بددیانتی کی جائے یہ رویہ استعماری، نو آبادیاتی یا علمی برتری کے جھوٹے زغم کا ماحصل اور بدترین جہالت ہے جوعمر خیام کے مترجم ایڈورڈ فٹزجیرالڈ کے رویے سے کوئی الگ نہیں جنہوں نے ایک نجی خط میں لکھا تھا کہ میں ان فارسی شاعروں سے جس طرح چاہے کھیل کر اپنا دل بہلاؤں کیونکہ ان کی شاعری مجھے اتنا متاثر نہیں کرتی کہ میں ایسا کرنے سے ڈروں بلکہ ان نا پختہ شاعروں کی شاعری کو سنوارنے کی ضرورت ہے۔ یہ رويہ جوجیرالڈ کا فارسی شعراء کے بارے میں تھا۔ بعینہ فارسی گزیدہ پروفیسر عصمت مآب حافظ شیرازی اور رحمان بابا والی کتاب میں اپنائے ہوئے ہے _
_لسانی و ثقافتی برتری کا یہ بچگانہ تصور ھمارے نذيرتبسم،ظهور اعوان ، صابرکلوري و منگلوري ،عطش دراني ،پروفيسرايوب صابر،ناصرعلي سيد و بادشاه منيربخاري قسم كے بھانت بھانت سبزگانٹھ کے پکے علاقائی اردو پروفیسروں میں خاص طور پر ملتا ہے ان میں اکثر کا مطالعہ صرف نصاب کی حد تک رہتا ہے۔ اور سوچ کے کالےکوےکا پر کالم نگاري سے ذرا اوپر جاتے ھوئے جلنے لگتاھے ان کی نظروں میں ساری دنیا کا بہترین ادب اردو میں ہی ملتا ہے۔ لہذا ان کی تحریروں میں اردو زبان سے فرط عقیدت کی ایک عجیب سي مخلصانہ جاہلانہ والهانہ گگياتى کیفیت پائی جاتی ہے جو بےساختہ سبحان الله جزاك الله کہنے پر مجبوركرتى هے
مثلانصيرالدين هاشمي نامي ايك درباری ماهراقباليات نے پروفيسرگوہرنويدكي متذكره كتاب پرتبصرہ کرتے ھوئے غني خان كانام پہلي بارسننے کامعصومانه اقرارکيا يه اقرار اسكاثبوت هے کہ يه صاحب كهرے سچے "ماهراكباليات"هے جنھوں نے ساري زندگي اقباليات كے لئے بطورھمدرد وقف کی هے اسلئے انکو پشتو کے سب سے بڑے شاعرکانام سننے کاموقع بھي سراقبال كے توسط سے ملا اللہ اللہ يه رتبہ بلند جسكو مل گيا موصوف ايك جگہ مصنف كي سيدهي بات کو نہ سمجھتے ھوئے مجھے بھي ماهراقبال قرارديكراپني والي صف ميں کھڑاکرديتے ھے جس سے ميں انکاری ھوں بلكه سند ميں ميري کتابوں کاتقاصہ الگ سے کرتے ھے يعني وه كہاوت هے ---زہ مرم دغچے تہ وائے غچے غچے
اردو لکھاریوں کے منہ لگنے والے پاکستاني قومی زبانوں کے کسی بھی لکھاری کا یہ تصور تک نہیں کرسکتے۔اسلئے يه پروفيسرز بھی ثقافتی نو آبادیت کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہے جو برآمدی مصنفین کے مقابلے میں مقامی لکھنے والوں کو ہر جگہ نیچا رکھبے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں فرق یہ ہے کہ پہلے یورپی مصنفین کے مقابلے میں انگریزی استعمار کے پروردہ مدبرين مقامی لکھاریوں پر ھیڈلاک کا داؤ استعمال کرتے تھے اب یہ پروفیسرز قومی زبانوں کے لکھاریوں کو دھوبی پٹڑا مارتے ہیں۔ لارڈ میکالے اور انگریزی زبان سے نالاں یہ کم ذہن اردو پروفیسر درحقیقت لارڈ میکالے والی ذہنیت کا مظاھرہ ہی کرتے ہیں۔ لارڈ میکالے کے مطابق یورپی اقوام کی شاعری کا مقابلہ کسی بھی طور پر عربی، سنسکرت وغیرہ نہیں کرسکتی تو ان کے مطابق اردو ادب کا مقابلہ کسی بھی طور پر مقامی (يه اصطلاحات بهى قومى زبانوں کو کمترثابت كرنے استعمال کى جاتى هيں) کا ادب نہیں کر سکتا۔ یہی خناس ذہن میں لئے ہوئے یہ بولائے ہوئے اونٹ کی طرح مقامی لکھاریوں کے معتبر حوالوں پر بلبلانے لگتے ہے۔ اردو سے ان کے خاص حوالے اقبال، غالب، فیض، منٹو، قاسمی ہے۔ بالکل اسی طرح ھندوستان میں برآمد کیا ہوا نو آبادیاتی نظام کا متعارف کرايا نصابي ولیم شیکسپیر انگریزي اقدار کی مثال تو تھا لیکن اسکا انقلابی حصہ وہی انگلستان میں کاٹ کر پھینک دیا گیا تھا۔یہ اردو پروفیسر بھی ان مخصوص لکھاریوں کی مختص شدہ تصاویر کے ذریعے مقامی شعرو ادب کی تضحیک کا بیڑا اٹھائے ہوئے رزق حلال کر رہے ہیں۔ اس نئی نوآبادیاتی رویہ کی وضاحت ضروری هے ۔۔۔۔۔۔جاري
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.