ـــ اتمـــــــان خیــــــل ــــ
صفحہ نمبر ۱۳
اتمانخیل نسلا کرلانز ہیں. لیکن قدیم الایام سے اقوام خشی کے ساتھ رہتا آیا ہے.
۱. "اتمان" نام تقریبا تمام بڑے قبائل میں پایا جاتا ہے.اتمان بروزن عثمان،عربی الاصل نہیں،پھر بھی یہ مقبول نام رہا ہے.اتمان خیل کا شجرہ یوں بیان کیا گیا ہے-
کـــــــرلانز
ـ ککے
ـ کودے
کـــــــودے
ـ برھان
ـ ورکزے
برھــــــان
ـ لقمان
ـ اتمان
ـ سلیمان
خٹک،افریدی اور اتمان خیل مجموعی طور پر برھان خیل کہلاتے ہیں.
۲. اتمان یوسفزئیوں کے ساتھ ہر تنگی ترشی میں شریک رہے.جنگ کاٹلنگ کی جیت اور دلازاک کی عظیم شکست میں اتمان خیل کی بہادری کو نمایاں مقام حاصل تھا.اخوند درویزہ کے مطابق یہ جنگ اسی قبیلہ کی جنگی چالوں کی وجہ سے جیتی گئی تھی.
" ساع است کہ ورین جنگ جہد بسیار سردم
اتمان خیل نمووند، چونکہ پوست گاوان رابرہم
دوختہ، کہ ازاں لفظ ، افغانی کمردہ گویند
۳. سنے میں آیا ہے.کہ اس جنگ (جنگ کاٹلنگ) میں اتمان خیل لوگوں نے بڑی کوششیں کیں ـ انہوں نے گایوں کے چمڑے کی چادریں بنائی تھیں،جن کو افغان لوگ کردہ کہتے ہیں ـ
انہی چادروں کے پیچھے پیچھے یوسفزئی لوگ دلازاکوں کے تیروں سے بچتے بچاتے دست بدست لڑائی تک پہنچتے تھے-"کـــردہ" اب بھی کوچی لوگ چھوٹے خیمے کو کہتے ہیں. جو چمڑے کا بنایا جاتا ہے.دلازاک تیرباری میں کم خطا تھے.اگر اتمان خیل یہ جنگی چال نہ چلتے، تو انہیں شکست دینا دشوار امر تھا- تواریخ حافظ رحمت خانی نے بھی ان کی بہادری کو سراہا ہے-
"اتمان خیل گائے بھینس کی سوکھی کھالوں کو ڈھال کی طرح پکڑے ہوئے ، پیادوں کے آگے آگے چل رہے تھے،تاکہ دشمن کے تیروں سے محفوظ رہیں-
وضاحــــــت: چونکہ اتمان کے بہت سے خیل اور ذیلی شاخیں موجود ہیں- لہذا اتمان خیل اور اتمان میں فرق کرنا ضروری ہے- اتمان خیل یوسفزئیوں کے قدیمی حلیف ہیں- جو سنگھاؤ سے لیکر باجوڑ تک یوسف نامے اور مندڑ کے درمیان بحیثیت حد فاصل رہتے آئے ہیں- اتمان مندڑ کی ذیلی شاخ ہیں- جس سے شیخ ملی اور گجو خان کا نسبی تعلق تھا ـ مذکورہ پہاڑی پٹی کے علاوہ اتمان خیل مندڑوں کے درمیان بھی آباد و خوشحال ہیں- چونکہ پانچ صد سال سے ان کی رفاقت رہی ہے- اب اتمان خیل گویا مندڑ نامے کا جزو بن گئے ہیں-
ضلع صوابی کے تحصیل رزڑ میں اتمان خیل لوگ ملکیتی رقبہ رکھتے ہیں۔ معلوم نہں کہ تحصیل رزڑ کے اتمان خیل بعد میں کسی واقعہ کے نتیجے میں آئے ہیں؟ یا اولاد رزڑ کے ساتھ تقسیم میں بسبب رشتہ داری محال نوار خیل کا حصہ بنے تھے؟ اتمان خیل آبادی کے تناسب کے لحانا سے تپہ اتمان (سوابی) سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
تقـسیم ممــالک: جنگ کاٹلنگ کے بعد ملک احمد کی سر براہی میں مما لک مفتوحہ کا مسئلہ درپیش ہوا۔ محمد زئی لوگ اگر چہ یوسفزئیوں کے قرابت دار تھے لیکن بسبب رہائش ننگرہار کے رہنے والے تھے ۔ ان کی بڑی خواہش تھی-کہ ہشت نگر جیسا زرخیز خطہ ان کو مل جاۓ۔ ملک احمد نے ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ،مذکور حطہ ان کے حوالے کیا۔ اتمان خیل ان کے دست و باز و تھے ،اس لیے تقسیم میں کوئی مسلہ نہیں رہا۔ تا ہم یہ خیال رکھا گیا، کہ اتمان خیل یوسف نامے اور مندڑ نامے دونوں کے دوست و حلیف ہیں، اس لیئے ان کو درمیان میں آباد کروانا سودمند رہے گا ۔ بعد میں حالات نے ثابت کر دیا کہ اتمان خیلوں کا جھکاؤ مندڑ نامے کی طرف تھا. تحریک روشنائیہ مندڑوں میں زیادہ مقبول تھی ، اسی طرح اتمان خیل قبائل نے بھی اس تحریک کو خوش آمدید کہا تھا۔ بایزید انصاری خود ٹوٹئ (اتمان خیل ) گیا تھا۔ جلال الدین عرف جلالہ مندڑ نامے کے موضع غلاماں میں کچھ عرصہ تک مقیم رہا۔ یہاں اپنے کھوئے ہوئے ساتھیوں کو اکٹھا کر کے، وہ ٹوئی (اتمان خیل) روانہ ہوا۔ گو یا اتمان خیل ان کی دوسری پناہ گاہ تھا۔ یہ واقعات 1581ء کے ہیں۔
فتح باجوڑ:
تقسیم مالک سے بہت پہلے اتمان خیل یوسفزئیوں کے ساتھ ہر جنگ میں شریک رہے۔ 1490 اور 1500 کے درمیان یوسفزئیوں کی بڑی آبادی وارسک کے نواح میں پڑی تھی۔ اور کچھ لوگ باجوڑ میں اپنی کوششوں سے علاقے ہتھیا ر ہے تھے۔ باجوڑ کے مندڑ نامے نے ملک احمد سے کمک بھیجنے کی درخواست کی،تواریخ نے اس موقع کو یوں بیان کیا ہے-
"القصہ یوسفزئی اپنے تمام شرکاء اور ہمسایوں مثلا گدون ،کخاراور
اتمان خیل وغیر کے ساتھ ، جو اس وقت تک یوسف زئی کے ساتھ رہتے تھے.لشکر بنا کر کر پنڈیالی اور کڑپہ کے راستے روانہ ہوۓ ۔اور دانشکول باجوڑ پہنچ کر پڑاؤ کیا-
اس بیان میں قابل غور نکتہ "جو اس وقت یوسفزئی کے ساتھ رہتے تھے۔گدون اور اتمان خیل گویا یوسفزئیوں کو جزو بدن بن گئے تھے-
امـــاکن اتمان خـــیل: افضل خان نے تاریخ مرصع میں خوشحال خان خٹک کے حوالے سے لکھا ہے-
"د ټوټه به عزہ ننوت ........ اتمان خیل هم په سټ په سنګ و سټ ورته میشته وو.
بایزید روشن بالاخر کوہ ٹوٹئ میں گھس گیا ، وہاں سے تیراہ گیا، آفریدی اور اورکزئی ان کے مرید بن گئے۔مغلوں کے ساتھ دشمنی ہوگئی.
" اتمان خیل بھی قرب و جوار میں بسے ہوۓ تھے"
اس عبارت کی تشریح میں دوست محمد کامل نے صفحہ 1169 پر لکھا ہے۔
خوشحال خان کے بیاض سے معلوم ہوتا ہے، کہ موضع ٹوٹئ میں اتمان خیل آباد تھے ۔لیکن آگے چل کر معلوم ہوگا کہ اتمان خیل تیراہ میں تھے۔ مرحوم کامل کو تسامح ہوا ہے، اگر اتمان خیلوں کی بڑی تعداد جنگ کاٹلنگ میں موجود تھی ۔ اور ان کو بونیر سے لیکر باجوڑ تک شرقا غریبا پہاڑی پٹی ملی ہوئی تھی- تو پھر تیراہ جانے کی کیا تُک بن سکتی ہے۔ ہاں 1592ء کی یلغاروں سے کچھ اتھل پتل ہوئی ہوگی ۔لیکن یوسفزئیوں کے دوبارہ آنے کے بعد شاید یہ لوگ اپنی پٹی میں مسرور و شاداں زندگی گزار رہے ہوں گے۔
کاکاخیلــوں کا نفــوذ:
شیخ خلیل گل صاحب معروف بہ زمرے بابا ، آپ شیخ رحمکا رکی حیات ہی میں اس علاقہ سے ٹوٹئی علاقہ اتمان خیل ( یاغستان) کی طرف تشریف لے گئے تے‘‘ -
چونکہ کوہ ٹوٹئ دشوار گزیر علاقہ تھا- صاحب کے فرزند 1063ھ اسلئے یہاں بایزید بھی پناہ گزیں ہوئے تھے- کاکا صاحب کے فرزند 1663ء سے پہلے (باپ کی زندگی میں) نامعلوم اسباب کی بناء پر یہاں چلے آئے ۔اور پھر سید احمد شہید بھی کچھ دنوں کے لیئے یہاں قیام پزیر رہے تھے۔
په اړنګ بړنګ کښي هم شته اتمان خیلے
د سړیو په جامه ، جامے ریمنے
ترجمعہ: ارنگ برنگ میں اتمان خیل عورتیں ہیں، جو مردوں کی طرح پوشاک پہنتی ہیں- تاہم لباس ان کا بوسیدہ ہوتا ہے-
ارنگ برنگ اتمانخیل ہی کے پاس ہے۔ آجکل کی تقسیم کے مطابق ارنگ برنگ دریائے سوات کے شمال مغرب میں آ تا ہے، اور یہ باجوڑ کا علاقہ محسوب ہوتا ہے۔ درمیان دریاۓ سوات بہتا ہے- تحصیل اتمان خیل سے بالکل متصل ارنگ برنگ کا علاقہ ہے۔ اس شعر سے واضح ہوتا ہے، کہ 1669ء کے لگ بھگ بھی اتمانخیل ادھر ہی تھے۔ جدھر ــــــ بسے نظر آتے ہیں ۔ خوشحال خان خٹک کا تبصرہ بڑا جامع تبصرہ ہے۔ اتمان خیل ـــــــ اب بھی پہاڑوں سے گھاس اور ایندھن کی لکڑی لاتی ہیں ۔ وادی اتمان خیل زرخیز اور نظر فریب مناظر کے باعث بہت ہی خوبصورت ـــــ میں شمار ہوتی ہے ۔ کوہ ٹوئی دراصل ہزارنو ( نولکھا) ہی ہے ۔آجکل یہاں کے لوگ تعلیم یافتہ اور بڑے بڑے عہدوں پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اتمانخیل کا مرکز ــــــــ زمرے بابا‘ ہے۔ جبکہ قصبہ ٹوٹئ اس وادی کے شمال میں چناروں اور چشموں سے ــــــ ایک اور خوبصورت جگہ ہے ۔ٹوٹی سے آگے اگر ہ ہے۔ جہاں سے ایک سڑک مشرق بٹ خیلہ کے لیے نکلتی ہے۔
دراصل ان دو وادیوں کے شمال میں دریائے سوات دشوار گزار گھاٹیوں میں سے بہتا ہے۔ جبکہ جنوب مشرق سے بھی اس وادی کو مسخر کرنا مشکل تھا۔ اکبری یلغاریںـــــ کی چٹانوں سے ٹکرا کر پسپا ہوئی تھیں ۔ نا قابل تسخیر ہونے کی وجہ سے یہ وادیاں ہمیشہ ـــــ مخالف لوگوں کے لیئے پناہ گاہیں رہی تھیں ۔
یہی حال کاٹلنگ کے اتمان خیلوں کا بھی تھاـ
خوشحال خان خٹک کے قید و بند کے زمانے میں ان کا گھرانہ موضع "سنگھا‘‘ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیا تھا- خود خوشحال خان خٹک برمول (اتمان خیل) میں کئی ماہ تک قیام پر رہا تھا- یہ واقعات 1669ء سے پہلے کے ہیں۔ پھر خوشحال خان کا قیام 1669ء میں دورہ سوات کے دوران اس علاقے میں رہا۔ اور بقول رحیم شاہ رحیم، خوشحال خان اور ملا میاں نور کا مشہور مناظر اتمان خیل کے موضع پیپل ہی میں ہوا تھا۔
دغه کلے "لنګر" نه دی لا بل وی
بیا ممکنه دہ چی کلے د "پیپل" وی -
د جميل يوسفزۍ ليک
#د_جميل_يوسفزۍ_په_نظر_کښې_اتمان_خېل
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.