Skip to main content

Mujahid Hussain Khattak blog

جب ہم پاک افغان سرحد پر البدر کیمپ میں تربیت حاصل کر رہے تھے تو وہاں ابرار نام کا ایک لڑکا بہت قریبی دوست بن گیا۔ اس کا تعلق اندرون سندھ سے تھا، اس کی میٹھے سندھی لہجے میں بولی گئی اردو ہم سب کو بہت بھاتی تھی۔

ایک رات عشا کے بعد فضا میں بانسری کی آواز گونجنے لگی۔ یہ شیریں صدا ایسے ماحول میں بہت اجنبی لگی جہاں سارا دن اسلحہ و بارود کی آوازیں گونجا کرتی تھیں، تھوڑی دیر کے لیے یوں لگا جیسے کسی پرامن دھرتی پر ہم موسیقی سے لطف اندوز ہو رہے ہوں۔

کانوں میں رس گھولتی یہ آواز زیادہ دیر باقی نہ رہ سکی اور ایک دم سے بند ہو گئی۔ اگلی صبح ہمیں پتا چلا کہ ابرار چمکتے چاند کی روشنی میں نہائے پہاڑوں کے سحر میں مبتلا ہوا اور خیمے سے کچھ دور بیٹھ کر بانسری بجانے لگا۔ یہ بانسری وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔

کیمپ کے عہدیداران اور گارڈز میں کھلبلی مچ گئی۔ سب آواز کے تعاقب میں ابرار تک پہنچ گئے۔ اس سے بانسری چھین کر فوری سزا دی گئی۔ جس میں پتھروں پر طویل کرالنگ اور دہرے وقت کے لیے پہرہ سمیت کئی مشقتیں شامل تھیں۔

ابرار اور ہم دوست سارا دن کمانڈروں کے خلاف بات کرتے رہے کہ ان مولویوں کو موسیقی کا کیا پتا۔ انہوں نے ہمیشہ روح کو مسرت پہنچانے والے ہر شے سے نفرت کی ہے۔

ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد ہم کابل پہنچ گئے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ زندگی اور موت کے درمیان بہت باریک سا پردہ حائل ہے جو کسی بھی لمحے چاک ہو سکتا ہے۔ہے۔ وہاں ہر لمحہ چوکنا رہنا ہی انجانی موت سے بچانے کی کسی حد تک ضمانت تھا۔

ایک روز لڑائی شدت پکڑ گئی تو ہمارا کمانڈر اور ہم تین لوگ گھیرے میں آ گئے۔ وہاں قید ہونے کا مطلب ایک طویل عرصے کی اذیت اور شدید قسم کی ذلت کے بعد مر جانا تھا۔ اس لیے فیصلہ یہی ہوا کہ الگ الگ لڑتے ہوئے وہاں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک طویل جدوجہد کے بعد میں واپس ساتھیوں کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہو گیا مگر اس دوران مین ہیڈ کوارٹر چہارسیاب میں یہ افواہ پھیل چکی تھی کہ مجاہد گھیرے میں ا چکا ہے اور زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وہ اس لڑائی میں مارا گیا ہے۔

چہارسیاب میں میرا پندرہ سالہ کزن موجود تھا۔ جب اس تک یہ اطلاع پہنچی تو اس نے شور مچا دیا کہ مجھے کابل لے جایا جائے تاکہ میں اپنے کزن کو تلاش کر سکوں۔ اسے بتایا گیا کہ وہاں شدید جنگ جاری ہے، جب تک اس کی شدت کم نہیں ہوتی وہاں نہیں جا سکتے۔ اس پر وہ بظاہر خاموش ہو گیا اور جونہی اسے موقع ملا اس نے ہینڈ گرینیڈ اٹھائے اور اسلحہ خانے میں گھس گیا کہ مجھے کابل نہیں لے جاتے تو میں پورا اسلحہ خانہ اڑا دوں گا۔

اس پر ہیڈ کوارٹر میں کھلبلی مچ گئی کیونکہ اتنا بڑا اسلحہ خانہ تو شہر کو تباہ کر سکتا تھا۔ چنانچہ کسی طرح منت سماجت اور وعدے وعید کر کے اسے باہر نکالا گیا اور سخت پہرے میں رکھ لیا گیا۔ جب چند روز بعد لڑائی کی شدت میں کمی واقع ہوئی تو اسے کابل لایا گیا تاکہ ہماری ملاقات ہو اور اسے تسلی ہو جائے۔

جب وہ میرے سامنے آیا تو ہم گلے ملے اور کچھ دیر کے لیے مورچوں سے باہر کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے۔ اچانک پہاڑوں کی جانب سے کسی سنائپر نے تاک کر گولی چلائی اور میرے کزن کے سر پر موجود پختون ٹوپی اڑ کر دور جا گری۔ یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ کچھ لمحوں کے لیے سب اپنی اپنی جگہ پر منجمد ہو گئے۔

پھر فوراً تمام افراد نے پوزیشن سنبھالی اور جوابی فائرنگ کرتے ہوئے اوٹ میں چھپ گئے۔ بعد میں ٹوپی اٹھائی گئی تو اس میں سوراخ ہو چکا تھا۔ اگر گولی چند ملی میٹر نیچے ہوتی تو بھیجا اڑ گیا تھا۔

گھیرے میں آنے کے دوران اور خود ایک بار سنائپر سے بال بال بچنے جیسے واقعات دیکھ کر سمجھ میں آیا کہ تربیت کے دوران جس ماحول کے لیے ہمیں تیار کیا جا رہا تھا وہاں واقعی بانسری نہ صرف غیر ضروری تھی بلکہ خطرناک تھی۔ وہاں تو ہر رات سوتے وقت یہ خدشہ دل میں موجود رہتا تھا کہ رات کو دشمن کہیں شب خون نہ مار دے اور ہم نیند کی حالت میں مارے جائیں یا پھر گرفتار ہو جائیں۔ اس خوف سے روزانہ ٹوٹی پھوٹی نیند آتی تھی۔

اس وقت سے یہ بات پتا چلی کہ موسیقی، بنیادی حقوق، عورتوں کو جینز پہننے کی آزادی، خواتین کو کرکٹ اور فٹ بال کھیلنے کی اجازت۔۔ یہ تمام معاملات اس وقت ممکن ہوتے ہیں جب ملک میں امن اور معاشی خوشحالی ہو۔

جو معاشرہ چالیس سالوں سے مسلسل جنگ و جدل کا شکار رہا ہو، جس کی معیشت برباد ہو چکی ہو، وہاں چند خواتین کا لباس کے انتخاب میں آزادی کے لیے احتجاج کرنا اور پھر اسے عالمی خبر بنا لینا انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔

مغربی دنیا جس مقام پر آج کھڑی ہے، اسے یہاں پہنچنے میں کئی سو سال لگے ہیں۔ آج وہ انفرادی رائے کو ایک بڑی قدر کے طور پر دیکھتے ہیں مگر ترقی پزیر ممالک کے اپنے مسائل ہیں۔ وہاں مغرب کی سطح کی انفرادی آزادیاں اور بنیادی حقوق ترجیحات میں نہیں آتے۔ جب مغرب دباؤ ڈال کر ان روایات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے تو فقط انتشار پھیلتا ہے۔

ویسے بھی انسان معروضی تجزیہ کم کرتے ہیں۔ سب اپنے اپنے تعصبات کے اسیر ہوتے ہیں۔ جذباتی سطح پر پسند ناپسند پہلے ہوتی ہے، دلائل اس کے بعد تلاش کیے جاتے ہیں۔

کابل ایئرپورٹ پر حملے کے بعد امریکی ڈرونز نے ایک ہی خاندان کے سات معصوم بچوں سمیت دس بے گناہ افراد کو جان سے مار دیا اور بعد میں پتا چلا کہ وہ ایک انجینئر کا خاندان تھا جو امریکہ جانے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ ان بے گناہوں کا کسی دہشت گرد گروہ سے تعلق نہیں تھا۔

اس سے پہلے بھی نیٹو افواج کئی بار باراتیوں پر، مدرسوں میں پڑھتے بچوں پر اور معصوم خاندانوں پر آسمان سے قہر برسا چکے ہیں۔ ان کی اس سفاکی پر ایسے قلم چپ رہے جو آج سٹوڈنٹس کو جبر کا طعنہ دیتے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں میں زیادہ تر بے گناہ لوگ مارے گئے، مگر اس پر بھی یہ زبانیں گنگ رہیں اور انگلیاں ٹھٹھری رہیں۔ آج یہی لوگ بڑھ چڑھ کر ہمسائیہ ملک میں بنیادی حقوق اور خواتین کو لباس کی آزادی جیسے معاملات پر بات کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے۔

اس وقت ہمارے ہمسائیہ ملک کو امن کی ضرورت ہے، اس کے بعد ریاست کی رٹ مستحکم کرنا بنیادی اہمیت کا حامل معاملہ ہے۔ بھوکوں کا پیٹ بھرنا، روزگار کے مواقع پیدا کرنا، دہشت گردی کا خاتمہ اور امن لوٹا پہلی ترجیحات ہونی چاہیئے۔ خواتین کے لباس اور موسیقی کے سکول کی بندش پر بحث ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہونی چاہیئے۔
یہ صرف بھرے ہوئے پیٹوں اور اے سی تلے سونے والوں کی ذہنی عیاشی ہے، اور کچھ بھی نہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

New Pashto Poetry Lines And Lyrics. Pashto Tappay In Written Text.

New Pashto Poetry Lines And Lyrics. Pashto Tappay In Written Text. Pashto Poetry Two Lines. Pashto Tappay In Text. ‏د خوېندو لوڼو سوداګره کږه شمله چې په سر ږدې خندا راځينه ټپه# که د پیزوان خاطر دې نه وے تابه زما د غاښو زور لیدلې وونه #ټپه ‏ستا یارانۍ ته مۍ زړه کیږۍ په څه خبره به اشنا درسره شمه خلک پېزوان خونړی بولي تا په نتکۍ د کلا برج ونړونه  Pashto New Tapay On Images 2022. Pashto Tappay In Text. Eid Mubarak Pashto Tapay. Pashto Eid Poetry. اختر ته ځکه خوشالیګم چی مسافر جانان می کلی ته راځینه Eid Mubarak In Pashto Tapa. Folk Songs Akhtar. اختر پرون وو پرون تیر شو تا تر څنګلو پوري نن سره کړل لاسونه Akhtar Janan Aw Pukhto Tapay. Eid Mubarak Poetry Pashto. خلکو اختر کښی غاړی ورکړی زه بی جانانه ګوټ کښی ناست ژړا کوومه خپل د راتلو لوظ دې ياد دے؟ سبا اختر دے انتظار به دې کومه Eid Mubarak In Pashto Language. Akhtar Di Mubarak Sha. اختر دی مبارک شه مورې څلور کمڅۍ مې وکړه دوه مې د خيال او دوه د کچ اختر ټالونه په ما دې ورځ د لوی اختر کړه چې دې په سترګو راله کېښودل لاسونه يوه روژه بله غرمه ده جا

Zama Zargiya Meaning In Urdu. Pashto Words Meanings

Zama Zargiya Meaning In Urdu. Pashto Words Meanings. Learn Pashto Words and Meanings. Info Different Contextual Uses Of Pashto Phrase Zama Zargiya or Zama Zargia. Pashto Language Words Internet Is Searched For Pashto Words Meaning Daily as People Speaking Languages Other Than Pashto Want To Learn Some Basic and Most Used Phrases. Search For Pashto Phrase " Zama Zargiya " Increased By 1150 % Today. Zama Zargiya Meaning In Urdu.  میرا جگر یا میرے دل کا ٹکڑا میرا جگر،  میرا محبوب یا میرے محبوب The Phrase Simply Means My Darling Or Sweetheart In English. Pashto. Zama Zargiya زما زړګیه English. Darling Or My Darling Or My Dear Or My Sweetheart. In Urdu Zama Zargiya Means " Meray Aziz " Meray Mehboob" Or Meray Humnasheen. Best Phrase For Zama Zargiya In Urdu. Meray Jigaar Or Jiggar Pashto Word Zama Means Mera Or Meray.  Pashto Word Zargay Means Dil Or Jigar.  Pashto Language Words زما زړګیه میرے محبوب میرے ہم نشین میرے جگر کا ٹکڑا "Zama Zargia Endearment Urdu&qu

Pashto Calendar. Calendar Of Months In Pashto

Pashto Calendar. Calendar Of Months In Pashto. Pashto Names Of Calendar Year 2022, 2023, 2024, 2025 Pashto Calendar: Names Of Months And Its Span In Pashto بېساک              Besak       (Apr—May) جېټ                Jheet       (May—Jun) هاړ                  Harh           (Jul—Jul) پشکال.            Pashakal         (Jul—Aug) بادرو               Badro        (Aug—Sep) اسو                Asu         (Sep—Oct) کتک               Katak         (Oct—Nov) مګن               Magan        (Nov—Dec) پوه                Po         (Dec—Jan) ما                  Ma       (Jan—FebF) پکڼ               Pagan        (Feb—Mar) چېتر             Chetar         (Mar—Apr) Pashakal Starting Date Is 14 July 2022.  Pashakaal Ending Date Is 14 August 2022. د پشکال ګرمي پۀ زور ده  زلفې دې غونډې کړه چې نۀ دې تنګوينه ټپه۔ په مخ یې پَشم دَ خولو دې دَ لمر په خوا دَ ملغلرو پړک وهینه۔ په اننګو کښي قوتۍ دي د پشکال خولي پري ډنډ ولاړي دینه Badro Starting Date Is 15 August 2022. Badro Ending Date Is 14 September 2022. Aso