جب ہم پاک افغان سرحد پر البدر کیمپ میں تربیت حاصل کر رہے تھے تو وہاں ابرار نام کا ایک لڑکا بہت قریبی دوست بن گیا۔ اس کا تعلق اندرون سندھ سے تھا، اس کی میٹھے سندھی لہجے میں بولی گئی اردو ہم سب کو بہت بھاتی تھی۔
ایک رات عشا کے بعد فضا میں بانسری کی آواز گونجنے لگی۔ یہ شیریں صدا ایسے ماحول میں بہت اجنبی لگی جہاں سارا دن اسلحہ و بارود کی آوازیں گونجا کرتی تھیں، تھوڑی دیر کے لیے یوں لگا جیسے کسی پرامن دھرتی پر ہم موسیقی سے لطف اندوز ہو رہے ہوں۔
کانوں میں رس گھولتی یہ آواز زیادہ دیر باقی نہ رہ سکی اور ایک دم سے بند ہو گئی۔ اگلی صبح ہمیں پتا چلا کہ ابرار چمکتے چاند کی روشنی میں نہائے پہاڑوں کے سحر میں مبتلا ہوا اور خیمے سے کچھ دور بیٹھ کر بانسری بجانے لگا۔ یہ بانسری وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔
کیمپ کے عہدیداران اور گارڈز میں کھلبلی مچ گئی۔ سب آواز کے تعاقب میں ابرار تک پہنچ گئے۔ اس سے بانسری چھین کر فوری سزا دی گئی۔ جس میں پتھروں پر طویل کرالنگ اور دہرے وقت کے لیے پہرہ سمیت کئی مشقتیں شامل تھیں۔
ابرار اور ہم دوست سارا دن کمانڈروں کے خلاف بات کرتے رہے کہ ان مولویوں کو موسیقی کا کیا پتا۔ انہوں نے ہمیشہ روح کو مسرت پہنچانے والے ہر شے سے نفرت کی ہے۔
ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد ہم کابل پہنچ گئے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ زندگی اور موت کے درمیان بہت باریک سا پردہ حائل ہے جو کسی بھی لمحے چاک ہو سکتا ہے۔ہے۔ وہاں ہر لمحہ چوکنا رہنا ہی انجانی موت سے بچانے کی کسی حد تک ضمانت تھا۔
ایک روز لڑائی شدت پکڑ گئی تو ہمارا کمانڈر اور ہم تین لوگ گھیرے میں آ گئے۔ وہاں قید ہونے کا مطلب ایک طویل عرصے کی اذیت اور شدید قسم کی ذلت کے بعد مر جانا تھا۔ اس لیے فیصلہ یہی ہوا کہ الگ الگ لڑتے ہوئے وہاں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک طویل جدوجہد کے بعد میں واپس ساتھیوں کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہو گیا مگر اس دوران مین ہیڈ کوارٹر چہارسیاب میں یہ افواہ پھیل چکی تھی کہ مجاہد گھیرے میں ا چکا ہے اور زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وہ اس لڑائی میں مارا گیا ہے۔
چہارسیاب میں میرا پندرہ سالہ کزن موجود تھا۔ جب اس تک یہ اطلاع پہنچی تو اس نے شور مچا دیا کہ مجھے کابل لے جایا جائے تاکہ میں اپنے کزن کو تلاش کر سکوں۔ اسے بتایا گیا کہ وہاں شدید جنگ جاری ہے، جب تک اس کی شدت کم نہیں ہوتی وہاں نہیں جا سکتے۔ اس پر وہ بظاہر خاموش ہو گیا اور جونہی اسے موقع ملا اس نے ہینڈ گرینیڈ اٹھائے اور اسلحہ خانے میں گھس گیا کہ مجھے کابل نہیں لے جاتے تو میں پورا اسلحہ خانہ اڑا دوں گا۔
اس پر ہیڈ کوارٹر میں کھلبلی مچ گئی کیونکہ اتنا بڑا اسلحہ خانہ تو شہر کو تباہ کر سکتا تھا۔ چنانچہ کسی طرح منت سماجت اور وعدے وعید کر کے اسے باہر نکالا گیا اور سخت پہرے میں رکھ لیا گیا۔ جب چند روز بعد لڑائی کی شدت میں کمی واقع ہوئی تو اسے کابل لایا گیا تاکہ ہماری ملاقات ہو اور اسے تسلی ہو جائے۔
جب وہ میرے سامنے آیا تو ہم گلے ملے اور کچھ دیر کے لیے مورچوں سے باہر کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے۔ اچانک پہاڑوں کی جانب سے کسی سنائپر نے تاک کر گولی چلائی اور میرے کزن کے سر پر موجود پختون ٹوپی اڑ کر دور جا گری۔ یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ کچھ لمحوں کے لیے سب اپنی اپنی جگہ پر منجمد ہو گئے۔
پھر فوراً تمام افراد نے پوزیشن سنبھالی اور جوابی فائرنگ کرتے ہوئے اوٹ میں چھپ گئے۔ بعد میں ٹوپی اٹھائی گئی تو اس میں سوراخ ہو چکا تھا۔ اگر گولی چند ملی میٹر نیچے ہوتی تو بھیجا اڑ گیا تھا۔
گھیرے میں آنے کے دوران اور خود ایک بار سنائپر سے بال بال بچنے جیسے واقعات دیکھ کر سمجھ میں آیا کہ تربیت کے دوران جس ماحول کے لیے ہمیں تیار کیا جا رہا تھا وہاں واقعی بانسری نہ صرف غیر ضروری تھی بلکہ خطرناک تھی۔ وہاں تو ہر رات سوتے وقت یہ خدشہ دل میں موجود رہتا تھا کہ رات کو دشمن کہیں شب خون نہ مار دے اور ہم نیند کی حالت میں مارے جائیں یا پھر گرفتار ہو جائیں۔ اس خوف سے روزانہ ٹوٹی پھوٹی نیند آتی تھی۔
اس وقت سے یہ بات پتا چلی کہ موسیقی، بنیادی حقوق، عورتوں کو جینز پہننے کی آزادی، خواتین کو کرکٹ اور فٹ بال کھیلنے کی اجازت۔۔ یہ تمام معاملات اس وقت ممکن ہوتے ہیں جب ملک میں امن اور معاشی خوشحالی ہو۔
جو معاشرہ چالیس سالوں سے مسلسل جنگ و جدل کا شکار رہا ہو، جس کی معیشت برباد ہو چکی ہو، وہاں چند خواتین کا لباس کے انتخاب میں آزادی کے لیے احتجاج کرنا اور پھر اسے عالمی خبر بنا لینا انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔
مغربی دنیا جس مقام پر آج کھڑی ہے، اسے یہاں پہنچنے میں کئی سو سال لگے ہیں۔ آج وہ انفرادی رائے کو ایک بڑی قدر کے طور پر دیکھتے ہیں مگر ترقی پزیر ممالک کے اپنے مسائل ہیں۔ وہاں مغرب کی سطح کی انفرادی آزادیاں اور بنیادی حقوق ترجیحات میں نہیں آتے۔ جب مغرب دباؤ ڈال کر ان روایات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے تو فقط انتشار پھیلتا ہے۔
ویسے بھی انسان معروضی تجزیہ کم کرتے ہیں۔ سب اپنے اپنے تعصبات کے اسیر ہوتے ہیں۔ جذباتی سطح پر پسند ناپسند پہلے ہوتی ہے، دلائل اس کے بعد تلاش کیے جاتے ہیں۔
کابل ایئرپورٹ پر حملے کے بعد امریکی ڈرونز نے ایک ہی خاندان کے سات معصوم بچوں سمیت دس بے گناہ افراد کو جان سے مار دیا اور بعد میں پتا چلا کہ وہ ایک انجینئر کا خاندان تھا جو امریکہ جانے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ ان بے گناہوں کا کسی دہشت گرد گروہ سے تعلق نہیں تھا۔
اس سے پہلے بھی نیٹو افواج کئی بار باراتیوں پر، مدرسوں میں پڑھتے بچوں پر اور معصوم خاندانوں پر آسمان سے قہر برسا چکے ہیں۔ ان کی اس سفاکی پر ایسے قلم چپ رہے جو آج سٹوڈنٹس کو جبر کا طعنہ دیتے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں میں زیادہ تر بے گناہ لوگ مارے گئے، مگر اس پر بھی یہ زبانیں گنگ رہیں اور انگلیاں ٹھٹھری رہیں۔ آج یہی لوگ بڑھ چڑھ کر ہمسائیہ ملک میں بنیادی حقوق اور خواتین کو لباس کی آزادی جیسے معاملات پر بات کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے۔
اس وقت ہمارے ہمسائیہ ملک کو امن کی ضرورت ہے، اس کے بعد ریاست کی رٹ مستحکم کرنا بنیادی اہمیت کا حامل معاملہ ہے۔ بھوکوں کا پیٹ بھرنا، روزگار کے مواقع پیدا کرنا، دہشت گردی کا خاتمہ اور امن لوٹا پہلی ترجیحات ہونی چاہیئے۔ خواتین کے لباس اور موسیقی کے سکول کی بندش پر بحث ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہونی چاہیئے۔
یہ صرف بھرے ہوئے پیٹوں اور اے سی تلے سونے والوں کی ذہنی عیاشی ہے، اور کچھ بھی نہیں۔
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.