جینز کپڑا نہیں ہے، خدا کا احسان ہے۔ رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری جین بنائی، کس نے جینز کری ممنوع، پہنو اچھی لگتی ہو۔
جینز جب سے بنی ہے تب سے پابندیوں کی زد میں رہی ہے لیکن غور کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ روزمرہ پہننے کے لیے اس سے زیادہ آرام دہ چیز کوئی نہیں ہے۔
ہم لوگ تو پھر بھی کافی سارے کپڑے خرید لیتے ہیں، گوروں میں اس خرچے کا رجحان تھوڑا کم ہوتا ہے۔ وہ کپڑے کم لیتے ہیں لیکن انتہائی زیادہ چھان پھٹک کے، اور جینز کا تو یہ ہے کہ اگر ایک بار پسند کی فٹنگ مل گئی تو اسے اپنے یا پتلون کے فنا ہونے تک نہیں اتارتے۔
جینز الگ ہی پہناوا ہے یار، ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ دیکھیں ایک طرف سوٹ بوٹ والے کلچر کی اکڑفوں ہے، کریز والی پینٹ ہے، ٹائی ہے، اوور کوٹ ہے، دوسری طرف شیروانی ہے، اچکن ہے، واسکٹ ہے، چھتیس گز گھیر کی شلوار ہے، تیسری طرف چوڑی دار پاجامہ ہے، گھٹنوں تک آتی ایک قمیص ہے، سو لوازمات ہیں ۔۔۔ ایسے میں دور کھڑی ایک اکیلی جینز سیٹیاں بجا رہی ہے۔ بہت دل کیا تو اس کے ساتھ کوئی بھی شرٹ پہن لی۔
جینز ان سب رسمی کلچروں سے باغی ہونے کی علامت ہے، جینز دکھاوے کی دنیا سے بہت دور کا راستہ ہے، جینز لباسوں کے مارشل لا میں ایک جمہوریت ہے بلکہ جینز سکون پانے کا واحد راستہ ہے۔
آپ کہیں گے باؤلا ہو گیا ہے۔ ادھر کی گرمی میں جینز کا کیا کام؟ یار کپڑا وزن کے حساب سے بنایا جاتا ہے، اگر بہت گرمی لگتی ہے تو ہلکے گرامیج والی جینز پہنی جا سکتی ہے لیکن جینز اگر آپ روزمرہ زندگی میں نہ پہن سکتے ہوں تو استاد اس سے بڑی بدقسمتی کوئی نہیں ہے۔
جینز سفید پوشوں کا بھرم ہے۔ آپ کو پتہ ہے اس پاکستان میں ہی کتنے لوگ ایسے ہیں جو ایک کالی اور ایک نیلی جینز میں ساری عمر نکال دیتے ہیں؟ کوئی بھی دوسرا کپڑا آپ آج پہننا شروع کریں، ایک مہینے بعد اس کے خرچوں سے ناک میں دم ہو جائے گا۔ یہ تو بھائی فقیری بوریا ہے۔ دھلوائی، سوکھنے سے پہلے رول کرکے گولا بنا دیا، اگلے دن استری کی بھی ضرورت نہیں، اٹھاؤ دوبارہ پہن لو۔ سردیاں ہیں، دھونے کی ہمت نہیں تو شاپر میں لپیٹ کے فریزر میں رکھ دو، اگلے دن نکالی، جھٹکی، ہیٹر کے آگے گرم کی اور یہ جا وہ جا۔ جنہیں علم نہیں وہ جان لیں کہ جینز یا کسی بھی کپڑے کے جراثیم مارنے کا شارٹ کٹ طریقہ فریزر والا ہے۔
سو برس ہو گئے، کسی بھی فیشن میں نیلی جینز آپ نے آؤٹ ہوتے دیکھی ہے کبھی؟ کیا جادو ہے؟ غور کیا کبھی؟ جینز کیوں نہیں نکلتی فیشن سے؟ کارڈرائے نکل گیا، کینوس نکل گیا، ٹویڈ نکل گیا، جینز اپنی جگہ پہ جمی ہوئی ہے۔ ڈیزائنر اس پہ مرتے ہیں یہ اتراتی پھرتی ہے۔ وائے ایس ایل (مشہور مغربی برانڈ اور اس کے مالک کا نام) کی حسرت تھی کہ ’جینز کاش میں نے ایجاد کی ہوتی۔ اس میں وہ سب کچھ ہے جو میں اپنے کپڑوں میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ سادگی، ایکسپریشن، سیکس اپیل اور وقار!‘
سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ جتنی دھلے گی اتنی نکھرے گی، جتنی گھِسے گی اتنی آرام دہ ہو گی، جتنی پھٹے گی اتنی ’کول‘ ہو گی، جتنے پیوند لگائیں گے اتنے ’ہاٹ‘ ہوں گے، اس سے زیادہ غریب نوازی کیا ہو گی یار؟ شلوار قمیص یا ڈریس پینٹ کو اگر رفو کرایا ہو تو پہننے سے پہلے دس بار سوچیں گے، یہ تو پھٹی ہوئی بھی فیشن ہے، اور کیا چاہیے آدمی کو؟ یا چمڑی، یا اوپر ایک جینز؟
جینز میں واحد چیز اس کی فٹنگ ہوتی ہے بس۔ اگر جسمانی ساخت کے لحاظ سے آپ نے اچھا فٹ پہنا ہوا ہے تو وہ سدا بہار ہے۔ مثلاً لمبے قد والے دبلے لوگوں کے لیے سٹریٹ فٹ یا ہلکا سا بوٹ کٹ، درمیانے قد والوں کے لیے نسبتاً سکن فٹ، بہت دبلے افراد کے لیے ریلیکس فٹ اور جو تھوڑے وزن میں زیادہ ہیں ان کے لیے بھی سکن فٹ سے ایک درجے اوپر لیکن سٹریچ ایبل کپڑے میں۔ باقی مردوں کی دنیا میں کمر سے بہت اوپر جینز باندھنے کا رواج کبھی نہیں آئے گا یاد رکھیے، اگر آپ کو علم نہیں ہے تو وہ بیس سال پہلے مُک گیا تھا۔ خواتین میں ’مامز جینز‘ ابھی پہنی جا رہی ہیں لیکن وہ بھی سو میں سے ایک ہی بندی کو صحیح معنوں میں سوٹ کرتی ہیں، یہاں سے باڈی شیمنگ کی سرحد شروع ہوتی ہے، کٹتے ہیں، آگے بڑھتے ہیں۔
آپ کہتے ہیں جینز ہمارا کلچر نہیں ہے، بھائی، جینز کا نیلا رنگ ہماری دھرتی سے پھوٹتا ہے، نیل کا پودا، انڈیگو ۔۔۔ ساری دنیا میں ادھر سے نیلا رنگ جاتا تھا، سولہویں صدی سے جینز کا یہ کپڑا بن رہا ہے اور ہمارا نیل استعمال ہو رہا ہے۔ ہم سے زیادہ کپاس کس نے اگائی، ہم سے زیادہ نیل کس نے پیدا کیا اور ہم سے زیادہ نخرے بھی کون کرے گا! ایک عرصے تک لیوائز کمپنی کو بھی اعلیٰ اور سستے داموں جینز بن کے ہمارے یہاں سے ہی جاتی تھی۔
دو منٹ کے لیے سوچیں جینز نہ ہو تو آپ کیا پہنیں گے؟ جو بھی پہنیں گے اسے روز دھونا اور روز استری کرنا پڑے گا؟ آپ کے پاس وسائل ہیں، آپ باہر سے کرا لیں گے، جس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں وہ کیا کرے گا؟ چلیں دھو گھر میں لیا۔ باہر سے ایک کپڑا استری ہونے کے ریٹ تیس سے پچاس روپے ہیں، گھر میں کریں تو پندرہ بیس روپے کی بجلی جلتی ہے۔ ابھی مرد کی بات کریں تو جینز اور ٹی شرٹ کا مطلب ہے روز کم از کم ساٹھ سے سو روپے کی بچت؟
عورتوں کی بات کریں تو وہ بے چاری جینز کے ساتھ کوئی بھی کرتا اور سٹول (چھوٹا دوپٹہ) لے کر تھری پیس لان کے مہنگے ریٹوں اور ڈیڑھ سو روپے (پچاس روپے فی پیس ضرب تین) کی روزانہ استری سے بچتی ہیں۔ ٹی شرٹ تو خیر انہیں کون پہننے دے گا لیکن ذرا حساب لگائیں یار ۔۔۔ اس وقت ایک اچھا نان برانڈڈ کرتا بارہ سو سے دو ہزار کے بیچ میں آ جاتا ہے، تین چار کرتے لیے ساتھ دو جینز لیں، مہینے بھر کی شلواروں کا خرچہ بچ گیا، ایک کالا ایک سفید دوپٹہ لیا، پورا سیزن نکل گیا۔ برانڈڈ لان کا ایک سوٹ چار پانچ ہزار سے شروع ہوتا ہے اور نان برانڈڈ لیں تو وہ چپکتا ہے اور جلدی گھس کے ختم بھی ہو جاتا ہے۔ بندہ سیل سے بھی کتنا خرید سکتا ہے؟ سب سے بڑی بات کہ لان جتنی پتلی ہوتی ہے اس کی نسبت جینز اور کرتا کہیں زیادہ ستر پوشی کے تقاضے پورا کرتے ہیں۔ تو کیوں؟ جینز ہی کی شامت ہمیشہ کیوں آتی ہے؟
جینز کے بعد اگر ہمارے کلچر میں کوئی آرام دہ اور خرچہ بچانے والی چیز بچتی ہے تو وہ دھوتی ہے۔ اگلے زمانوں میں خواتین مرد سبھی پہنتے تھے۔ دو تین دھوتیاں، ساتھ کرتے، چادر، اللہ اللہ خیر صلا۔ جینز ممنوع کرنی ہے تو پھر دھوتیاں پہننے کی اجازت دے دیں۔ موسم اور جیب دونوں کے تقاضے نبھاتی ہیں۔
حکومت کے پاس ویسے بھی زور چلانے کے لیے لے دے کے استاد ہی بچتے ہیں جن بے چاروں کی تنخواہیں مشکل سے گھر کے خرچے پورے کرتی ہیں۔ انہیں جینز سے محروم کرنے کا مطلب ہے کم از کم ماہانہ دس سے پندرہ ہزار کا اضافی خرچہ ان کے سر پہ ڈالنا، یا تو شاگردوں کی طرح استادوں کی بھی یونیفارم ہو جائے بھائی یا پھر یہ روز روز کے رنگ برنگے نوٹس ختم کر کے بیس ہزار روپیہ ڈریسنگ الاؤنس ہر مہینے ان کو دے حکومت۔ اس سے کم میں ’فارمل ڈریسنگ کوڈ‘ پہ اترنے والے کپڑے روزانہ پہن سکنا ممکن ہی نہیں!
ذاتی تجربہ: خدا گواہ ہے آج تک صرف انہی استادوں سے کچھ سیکھ پایا ہوں جو کہ جینز پہنتے تھے اور اپنے اپنے سے لگتے تھے۔ پتلون، کوٹ اور ٹائی اب صرف سیلزمین لگاتے ہیں، بینک والے، یا پھر پراپرٹی ڈیلر، مہذب دنیا بہرحال جینز کو قبول کر چکی ہے۔
استاد جینز نہ پہنیں تو اس تنخواہ میں دھوتی پہن لیں؟
حسنین جمال
انڈپینڈنٹ اردو
(تصویریں تب کی ہیں جب بھائی ٹیچر ہوتا تھا)
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.