Skip to main content

Allama Iqbal, Khushal khattak Baba and Plagiarism. Jamil Yousafzai.

  Iqbal, Khushal Khattak and Plagiarism.

BloAllamag By Intizar Hussain and Professor Jamil Yousafzai

خوشحال بابا کو پشتو کا بڑا شاعر مانتے ھوئے 

یہ پوچھنا چاہتا ھو 

کہ سرخے گاندھی کانگریسیوں کی باقیات لر او بر والے اب خوشحال خٹک کو بھی چور سرقہ باز سمجھتے ہیں ؟؟؟


خوشحال خان خټک کے شعری تراجمیں 


از پروفیسر جمیل یوسفزے


ہر شاعر اپنے پیش رو شعرا۶ کا خوشہ چین ہوتا ہے،کبھی کبھار شاعر جوش عقیدت میں اپنے محبوب پیش رووں کے اشعار پر تضمین لکھ کر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے،اور کبھی لاشعوری طور پر وہ اپنے ممدوحین کے اشعار کے تراجم بھی کرڈالتا ہے،اسی طرح الفاظ و تراکیب تک،اپنے پیش رووں سے بھی لیتا ہے


اخوند درویزہ کے متعلق خوشحال خان خٹک نے یہی کہا تھا،کہ اس نے تراجم بلااستدراک کے کیے ہیں،چنانچہ سوات نامہ میں اس بات کا تذکرہ یوں ملتاہے

معما د آذری ترجمہ کڑے...تصوف یی و عالم وتہ نوموڑے

ترجمہ دشاہ ناصر یو سو اشکالہ...و عالم تہ جوڑہ کڑے لہ مقالہ


خود خوشحال خان خٹک کے کلام میں بہت سے تراجم بلا حوالہ کے پاے جاتے ہیں،چونکہ انہیں عربی فارسی اور ہندی پر عبور تھا،اس لیے ان کے ہاں فارسی کے زیادہ تر تراجم پاے جاتے ہیں،مگر اس وسیع و عریض موضوع پر کام بہت کم ہوا ہے،کیونکہ خطاے بزرگاں گرفتن خطا است...افلاطون نے کہا تھا.

 love my teacher but i love truth more than my teacher....چنانچہ سچاٸ کے کچھ نمونے ذیل میں درج کیے جاتے ہیں


حکیم سناٸ نے کہا تھا


منشیں با بداں کہ صحبت بد

گر چہ پاکی ترا پلید کند.....

آفتاب ارچہ روشن است او را

پارہ ای ابر نا پدید کند........


خوشحال خان خٹک کا ترجمہ.....

د بدانو سرہ کم کشینہ کہ شہ کڑے

د بدانو صحبت پاک سڑے پلید کا

راشہ نمر وتہ نظر کڑہ چی نمر می

پہ چو یو ذرہ ٸ ابر ناپدید کا.....


حکیم سناٸ


مال ہست از درون دل چون مار

وزبروں باز ہمچو روز وشب....

او چناں ست کآب کشتی را

ازدرون مرگ واز برون مرکب


خوشحال خان خٹک کا ترجمہ


کہ پہ مال د مالدار زڑہ نہ دے تڑلے

پہ داسہ کہ کوٹہ کوٹہ سرہ پریوزی

ترسڑی لاندے نہ دی اوبہ بدے....

بدے دا کہ د بیڑٸ پہ منج کشی کشیوزی


....عربی میں کسی کا شعر ہے


یلوح الخط فی قرطاس دھر..و کاتبھا رمیم فی التراب


خوشحال خان خٹک کا ترجمہ


پہ کاغذ بہ خط باقی تر ڈیر مدت شی

تار پہ تار بہ د کاتب شیرین صورت شی


سناٸ کا قطعہ ہے


ترا یزدان ہمی گوید کہ در دنیا مخور بادہ

ترا ترسا ہمی گوید کہ درصفرا مخور حلوا

زبہردین تونگذاری حرام از حرمت یزدان

ولے از بہر تن مانی حلال ازگفتہ۶ ترسا 


خوشحال خان خٹک کا ترجمہ

منجم کہ درتہ نحس ادینہ کا

یا طبیب وتاتہ بدے کا شکرے

پہ جمعہ بہ مانجہ وتہ ونہ وزے

لہ شکرو بہ ھم گرزے لرے لرے

پہ قران کشی چہ شراب دی منع شوی

تہ ٸ ولے لکہ پٸ د مور نغرے


یہ ترجمہ تھوڑی تبدیلی کے ساتھ ہوا ہے،حکیم سناٸ کے مصرعے چار ہیں،جب کہ خوشحال خان خٹک کے چھ ہیں


مولانا روم کا شعر ہے

علم چوں بر تن زند مارے شود

علم چوں بردل زند یارے شود


خوشحال خٹک کا ترجمہ


مار وی ھغہ علم چی پہ تن د چا لگیگی

یار وی ھغہ علم چی و زڑہ وتہ رسیگی


کسی فارسی استاذ کا شعر ہے


گرہزار بار بشویم دہن بمشک وگلاب

ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی ستر


فضل نامہ میں خوشحال خان خٹک نے فرمایا ہے


مشک گلاب دواڑہ سرہ کڑہ..خلہ صفا پہ غرغرہ کڑہ

ورک دخپلے خلے بوے بدکڑہ..بیا ثنا د محمد کڑہ


رابعہ خضداری کی ایک غزل کا ترجمہ ہو بہو خوشحال خان خٹک کے ہاں پایا جاتا ہے،افسوس کہ اس وقت رابعہ خضداری کی غزل میرے پاس نہیں،بہر حال خان خٹک کی غزل کا مطلع عرض ہے


ما بے دودہ توسنی کڑہ منجیدلم

عاقبت ٸ پہ کمند وچیکیڑلم


کسی کے پاس رابعہ قزداری کی غزل ہو،تو عنایت کیجیے گا.


سعدی شیرازی کا قطعہ ہے

خاک مشرق شنیدہ ام کہ کنند

بچہل سال  کاسہ۶  چینی...

صد بروزے کنند در مردشت

لاجرم قیمتش  ہمی  بینی،


خوشحال خٹک کا ترجمہ


چلویشت کالہ کشی چینی شی

پرے شیندلے شی سرے سپینے

کودی منگی پہ ورزے شل شی

خود ٸ قدر قیمت  وینے.....


خوشحال خان خٹک نے فردوسی عنصری حکیم سناٸ عطار

رومی،انوری ،سعدی اورشاہ ناصر سے بہت استفادہ کیا ہے،قطعات کا ایک تہاٸ حصہ دوسرے شعرا۶ کی خوشہ چینی ہے،کاظم خان شیدا نے مضمون کے استفادے کو سرقہ اور دزدی کہا تھا،ان تراجم کو آپ کیا کہیں گے؟

خان خٹک نے اخوند دریزہ کو طعنہ دیا تھا،کہ اس نے شاہ ناصر کے تراجم کو اپنا بنا کر لوگوں کو پیش کیا تھا،حالانکہ اس نے خود شاہ ناصر کی ایک پوری نظم ترجمہ کرکے اپنے دیوان میں شامل کیا ہے،نظم کا نام ہے،....کدوبُنی....یعنی کدو کی بیل


نشنیدہ ای کہ زیر چنار کدو بُنی

بررست و بروید بروبر بروز بست


خوشحال خٹک


کدو می د چنار پہ ونہ وخوت

وچنار تہ ٸ آغاز کڑو دا مقال


یہ تیرا اشعار کا قطعہ ہے،جو ہو بہو شاہ ناصر کا ترجمہ ہے


یہ موضوع وسیع وعریض ہے،اور پی ایچ ڈی کے مقالے کا متقاضی ہے،اس پر شاید ایک ادھ افغانی نے کچھ کام بھی کیا ہوا ہے،مگر یونیورسٹیوں میں اب تحقیق کا رجحان نہیں رہا،فارسی تو کجا،پروفیسرز حضرات خوشحالیات کی درست تفہیم سے قاصر ہیں،تا بہ عوام چہ رسد؟۔۔۔۔قاریین کی عدم دلچسپی کے باعث اس موضوع کو ادھورا چھوڑا جاتا ہے،ہاں تحقیق کرنے والوں کے لیے یہی بنیاد کافی ہے

وما علینا الاالبلاغ


....خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات؟


اس موضوع پر دو تین کالم پیشتر بھی لکھ چکا ہوں،اب دیگر کالم بھی ملاحظہ ہوں


انوری فارسی کے مشہور شاعر گزرے ہیں،ان کی رباعی کا ایک شعر ہے


ماییم درین گنبد دیرینہ اساس

جویندہ رخنہ چو مور اندر طاس


یعنی میں اس پرانی گنبد میں ایسا ہوں،جس طرح چیونٹی ایک برتن کے اندر ،باہر نکلنے کا رستا ڈھونڈ رہی ہو


خوشحال خان خٹک


جھان یو کٹورے دے زہ پہ مثل میژی یم

حیران پکشی جاروزم لاس و پشے پکشی وھم


حافظ شیرازی کا مصرعہ ہے


بخال ہندوش بخشم سمرقند وبخارا راہ


خوشحال بابا


بخارا بخشم ھغو تہ پہ دیدن د یوہ خالق


حافظ کی مشہور غزل کا مصرعہ ہے


کہ عشق آسان نمود ولے افتاد مشکلہا


خوشحال خان خٹک


لہ اولہ عشق بازی راتہ بازی وہ

اوسہ ھمہ راتہ پیشہ شوہ مشکلہ


...خوشحال خان کے تراجم/سرقات؟


شیخ سعدی نے طوطی اور زاغ کی کہانی،نصیحت آموز پیراۓ میں لکھی ہے،آغاز میں فرماتے ہیں


طوطی مرا بازاغی درقفس کردہ اند ..الخ

آخر میں فرماتے ہیں


یا غراب البین لیت بینی و بینک بعد المشرقین


یعنی اے کوے کاش ہمارے درمیان بڑا فاصلہ ہوتا


خوشحال خٹک نے اس واقعے کو یوں سمیٹا ہے


د طاوس سرہ کہ زاغ پہ قفس بند کڑے

تروصالہ ٸ خوشحال وی پہ فراق ....


شیخ سعدی کا شعر ہے


بوریا باف گر چہ بافندہ است 

نبرندش بکارگاہِ حریر ....


مطلب ...جولاہا اگر چہ بوریاں بناتا ہے۔مگر اسے ریشم کے کارخانے میں نہیں لایا جاسکتا


خوشحال خٹک


د بخملو پہ اودل بہ خبر نہ شی

پہ شمارہ کہ اتیا زرہ بوریا باف وی


ان اشعار میں نہ توارد ہے نہ استفادہ،بلکہ صاف ترجمہ ہے اور وہ بھی بغیر استدراک و حوالہ کے،ایسے سینکڑوں اشعار آپ کو دیوان خوشحال خان خٹک میں مل سکتے ہیں


....خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات؟


مولانا روم کا شعر ہے ...


نہ تنہا عشق از دیدار خیزد

بسا کہ ایں دولت ازگفتارخیزد


یعنی عشق صرف دیکھنے سے نہیں ہوتا،بلکہ اکثر یہ دولت گفتگو سے بھی پیدا ہوتی ہے


خوشحال خان خٹک نے یہ مطلب متعدد شعروں میں ادا کیا ہے،ان میں سے ایک شعر یہ بھی ہے


نہ د عشق مدار یوازے پہ دیدن دے

پہ دا کار کش لاپہ ھورتہ شنیدن دے


شیخ سعدی رح کا شعر ہے


نظر بہ نیکواں رسمی است معہود

نہ ایں بدعت من آوردم بہ عالم


خوبصورت چہروں کو دیکھنا پرانی رسم ہے،یہ بدعت میں نے دنیا میں آغاز نہیں کیا


خوشحال خان خٹک


و شہ مخ وتہ نظر دے ھر چا کڑے


بہ فروغ چہرہ زلفت رہ دل زند ہمہ شب

چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد


تمہارے چہرے کی روشنی میں زلفوں کا چور راتوں کو دل چوری کرتا ہے،یہ کتنا دلیر چور ہے کہ اندھیرے میں ہتھیلی پہ چراغ لیے پھرتا ہے


خوشحال خان خٹک


پہ زلفو کش دے ورک زما زڑگے شو مخ سرگند کا

د ورک کالی غوشتنہ تل پہ تورہ شپہ پہ چراغ شی


باقی آیندہ

نہ دا دود دے پہ جھان کش ما راوڑے


خواجہ حافظ کا مشہور شعر ہے


....خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات؟


خوشحال خان خٹک کے ہاں دیگر شعرا۶ کے ترجمے بھی ہوں گے،مگر دواوین کی عدم دستیابی کے سبب ہم نے سعدی و حافظ تک،خود کو محدود رکھا ہے...شیخ سعدی فرماتے ہیں


برگ درختان سبز در نظر ہوشیار

ہر ورقے دفتریست معرفت کرد گار 


خوشحال خان خٹک نے لفظ بہ لفظ ترجمہ،اس شعر کا کیا ہے،البتہ مصرعوں کی ترتیب کو الٹ دیا ہے،نیز لفظ گل کا اضافہ بھی کیا ہے


ھر ورق ٸ معرفت د کردگار دے

و ھرگل وتہ کاتہ وکڑہ حکیمہ ...


سعدی 


بمیر تا بہ رہی اے حسود کیں رنجیست

کہ از بمشقت او جز بمرگ نتواں رست


ترجمہ..اے حاسد،حسد بیماری ہے،اور بیماری تکلیف دہ ہوتی ہے،مرجاو،کیونکہ بغیر موت کے اس بیماری سے نجات ممکن نہیں


خوشحال خان خٹک


پہ کینہ او حسد د چا سہ ونہ شی

ھرسڑے چہ حسد کاندی جان ابہ کا


خوشحال خٹک کے شعر میں لفظ کینہ کا ایزاد ہے،باقی شعر سعدی علیہ الرحمہ کا ہو بہو ترجمہ ہے..یعنی متعصبوں کے مرض حسد کا انجام بتایا گیا ہے


خواجہ حافظ کا شعر ہے


اے غایب ازنظر کہ شدی ہمنشین دل

می گویمت دعا و ثنا می فرستمت


اے میری نظروں سے غایب دوست! تو میرے دل میں پیوست ہوچکا ہے،میں تجھے دعا دیتا ہوں،اور تجھ پر ستایش بھیجتا ہوں


خوشحال خان خٹک


پہ زڑہ می ھسے نھال یے اے د دوو سترگو غایبہ

کہ زہ بلہ نامہ وایم،نامہ ستا راشی پہ ژبہ ......


دوسرے مصرعے میں خان علیین مکان نے تھوڑی سے ترمیم کی ہے،مگر طرز تخاطب ملاحظہ ہو...


اے غایب از نظر ....حافظ

اے د دوو سترگو غایبہ ..خوشحال خٹک


....خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات؟


خواجہ حافظ کا شعر ہے


برو ای ناصح و بر درد کشان خردہ مگیر

کارفرماٸ قدر می کند این من چہ کنم


ترجمہ ...جاو ناصح..شرابیوں پر تنقید نہ کرو،یہ تقدیر خداوندی ہے،اس میں، میں کیا کرسکتا ہوں؟


خوشحال خٹک کا مشہور مطلع ہے


زہ خوشرابی یم شیخہ سہ راسرہ جنگ کڑے

بخرے ازلی دی کشکے ما د زان پہ رنگ کڑے


اسی مضمون میں حافظ کا ایک اور مصرعہ بھی ملاحظہ ہو


گر تو نمی پسندی تغیر کن قضا را 


اگر تجھے میری یہ روش پسند نہیں،تو جاو،تقدیر کو بدلوا لو 


شیخ سعدی کا گلستان میں ایک قطعہ ہے،جس کے دو شعر پیش خدمت ہیں 


ببازوان توانا و قوت ....

خطااست پنجہ مسکیں ناتواں بشکست


نترسدآں کہ بر افتادگاں نبخشاید

کہ گرزپاے درآید کسش نگیرد دست


ترجمہ 


زور بازو سے مسکینوں کے ہاتھ توڑنا غلط ہے..جو ضعیفوں کو نہیں بخشتا،اگر وہ گر جاے تو کوٸ اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہ ہوگا،کیا وہ اس صورتحال سے نہیں ڈرتا؟


خوشحال خٹک 


چی زور لری د لیچو ...زور دے نہ کا پہ نا توانو


او کنہ تر ھر چا لوے دے...سیال نہ دے د ضعیفانو


اب آپ خود فیصلہ کرلیں،کہ ان اشعار میں فارسیبانوں کا تتبع و ترجمہ ہے کہ نہیں ؟


...خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات؟


شیخ سعدی کے گلستان کا شعر ہے


گر سنگ ہمہ لعل بدخشاں بودے

پس قیمت لعل وسنگ یکساں بودے 


ترجمہ

اگر تمام پتھر بدخشان کے لعلوں کی طرح ہوتے،تو پھر پتھر اور لعل کی قیمت ایک جیسی ہوتی ...


خوشحال خٹک


د دے لعل قدر بہ نہ وو پہ عالم کشی

کہ دا کانڑی واڑہ لعل د بدخشان وے


لفظ بہ لفظ ترجمہ سواے لفظ عالم کے...


اچھے سامعین کے متعلق شیخ سعدی فرماتے ہیں


خداوند تدبیر و فرہنگ و ہوش

نہ گوید سخن تا نہ بیند خاموش


ترجمہ


عقلمند اور تجربہ کار کی طرف لوگ متوجہ نہ ہوں،تو نہیں بولتا


خوشحال خٹک


ھوشیارانو سرہ ڈیرہ ھوشیاری دہ ......

پہ مجلس کشی چہ سامع نشتہ خاموش دی


کسی استاد کا شعر ہے


دریں دنیا کسی بے غم نہ باشد

اگر باشد بنی آدم نہ باشد ...


اس دنیا میں کوٸ بیغم نہیں،اگر ایسا کوٸ ہے،پس وہ آدمی نہیں ہوگا 


خوشحال خٹک


چہ پہ ھیچ صورت خالی نہ وی لہ غمہ 

مگر غم لرہ پیدا دے آدمی ........


......خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟


پشتو ادب کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں،کہ خوشحال خان خٹک کے دیوان میں ہزاروں اشعار عشق نسواں ،اور خوبصورت عورتوں کی تعریف و توصیف میں لکھے گۓ ہیں،خوشحال خٹک عورت کو محبوبہ کے رنگ میں پسند کرتے تھے،ان کے دیوان دو تین اشعار خوبصورت لڑکوں یعنی امارد کی توصیف میں لکھے گۓ ہیں


عورت اور اس کی رعاناییاں یہ تو الگ موضوع ہے،ہمیں دیکھنا یہ ہے،کہ شیخ سعدی کے نقطہ نظر سے خوشحال خان خٹک کو کس حد تک اتفاق تھا؟


شیخ سعدی کی مشہور منظوم کتاب بوستان میں صفحہ 220 پر ایک لمبی نظم عورتوں کی مذمت میں لکھی گٸ ہے،اس سے متاثر ہوکر خوشحال خٹک نے سہ شعری قطعہ لکھا ہے،جو ارمغان خوشحال کے صفحہ 747 پر درج ہے،آییے،شیخ سعدی اور خوشحال خٹک کے اشعار کا موازنہ دیکھیے


شیخ سعدی 


درخرمی سراے بہ بند ..کہ بانگ زن بز وے بر آید بلند


ترجمہ


اپنے گھر کا دروازہ بند رکھو،اگر وہاں سے عورت کی آواز باہر آتی ہو،یعنی عورت کو پابند و پوشیدہ رکھو


خوشحال خٹک


تر دیوال دننہ شے دی ...چی پہ کور کشی لکہ خم شی


شیخ سعدی ...


چو زن راہ بازار گیرد ...وگرنہ ٹو درخانہ بنشیں چو زن 


ترجمہ


اگر عورت نے بازار کا رستا دیکھ لیا،تو تم عورت کی طرح گھر میں بیٹھے رہو


خوشحال خٹک 


چی بیرونہ تر دیوال شی ...خزہ، نور زن دے مردم شی


اس شعر میں خوشحال خٹک نے بازار کو چھوڑ کر،بیرونٸ دیوار کا ذکر کیا ہے،باقی شعر اسی طرح ہے


شیخ سعدی 


زن خوش طبع رنج است و بار..رہاکن زن زشت ناساز گار 


ترجمہ


عورت اگر خوش طبع بھی ہو،تب بھی بوجھ  اور مصیبت ہے..اگر بد صورت ہے تو اسے بھی گھر سے نکالنا چاہیے


خوشحال خٹک 


اول شے لہ پسہ بدے .. خو دے رنگ د دواڑو گم شی


عورت اچھی ہو یا بری،دونوں کو نابود ہونا چاہیے..اسے کہتے ہیں،عورت ذات سے دشمنی ...جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں،خوشحال عورتوں کو محبوباوں کی شکل میں دیکھنا پسند کرتے تھے،ہاں ان کے بیاہی عورت کی توصیف میں بھی چند شعر ملتے ہیں،ان کا تذکرہ پھر کہیں کرلیں گے


....خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات؟


ارمغان خوشحال میں کھوکھ شاستر کے نام سے ایک باب ہے،جو ہندی ادپ سے ماخوذ ہے،فی الحال دو شعروں پر اکتفا کرتے ہیں


دہلی کے لال قلعہ کے دیوان میں دیوار پر ایک شعر درج ہے،جو شاہجہان بادشاہ کے کسی شاعر نے کہہہ کر گزرانا تھا،شاہجہان کو پسند آیا تو نقش دیوار کروا دیا


شعر یوں ہے


اگر  فردوس بروے زمین است ......

ہمین است و ہمین است وہمین است


ترجمہ


اگر جنت کہیں زمین پر مجود ہے یا ہوتا....تو یہاں ہے یہاں ہے بعینہ یہی ہے


خوشحال خٹک


 پہ دھلی باندے گواھی د جنت ولہ

کہ راغلے پہ دنیا چرے جنت دے ..


.شیخ سعدی ژالہ یا قطرات شبنم کے متعلق فرماتے ہیں


اگر ژالہ ہر قطرہ در شدے

چو خرمہرہ بازار پر شدے


ترجمہ


اگر ژالہ کا قطرہ در ہوتا،تو خر مہروں کی طرح ان سے بازار پر رہتا


خوشحال خٹک


پہ بیخرت بہ د ھرچا کرہ پراتہ وو....

کہ دا در می د ژلٸ غوندے ارزان وے


اگر چہ اس شعر میں خرمہرہ کا ذکر نہیں ہے،مگر مضمون وہی ہے،خرمہرہ سستا اور سہل الحصول ہوتا ہے...وما علینا الاالبلاغ


....خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات؟


شیخ سعدی نے گلستان کے باب اول میں شیر اور گدھے کا موازنہ کرتے ہوے لکھا ہے


سرجملہ حیوانات گویند کہ شیر است وازل جانوراں خر و باتفاق خر بار پر بہ کہ شیر مردم در


ترجمہ

کہتے ہیں کہ حیوانات کا سردار شیر ہے،اور سب سے ذلیل جانور کھوتا ہے،بوجھ اٹھانے والا گدھا بہتر ہے یا پھاڑنے والا شیر؟


اسی مطلب میں سعدی کا شعر اسی صفحے پر درج ہے


مسکیں خر اگر چہ بے تمیز است 

چوں بار ہمی برد عزیز است 

ترجمہ 

گدھا اگر چہ بے تمیز ہوتا ہے،چونکہ بوجھ اٹھاتا ہے،اس لیے عزیز اور قیمتی ہے


خوشحال خٹک 


سپے بہ شہ کڑم د مزری نہ 

سپے د کور مزرے د غرہ دے 


خر کہ بد دے بیا ورے وڑی 

بد سڑے بدتر تر خرہ۶ دے 


مطلب 

کتا شیر سے اچھا ہے کیونکہ وہ گھر میں رہتا ہے اور شیر پہاڑ پر 

گد ھا اگر برا بھی ہے،تو باربردار ہے ،مگر برا آدمی گدھے سے بھی بدتر ہوتا ہے، 


.....................................باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات ...؟ 


شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب گلستان میں ایک باب عشق وجوانی کا باندھا ہے،جس میں عمررسیدہ مردوں کی نوجوان لڑکیوں سے شادی رچانے بارے لکھتا ہے 


پیر ہفتاد سالہ جنی مکنہ..کور مقری بخوانبی چش روش

زورباید نہ زر کہ بانو را ...گزرے دوست ترکہ دہ من گوش 

صفحہ 181 


ترجمہ 

 ستر سالہ بوڑھے شادی نہ کر،ایسا خواب تو نابینا بھی نہیں دیکھتا،دلہن کے لیے جوانی چاہیے،وہ دس من گوشت پر گاجر کو ترجیح دیتی ہے 

نوٹ..اس شعر میں لفظ جنی ،پشتو لفظ جینٸ اور گوش بجاے گوشت استعمال ہوا ہے


خوشحال خٹک 


سپین ژیری وتہ بویہ چی نظر پہ خپل قوت کا

او ھوس د شوخ و شنگے پہ دا جوان پوھیژی بس

 .....ارمغان خوشحال ص 402 


شیح سعدی محبوب/محبوبہ کی تعریف میں کہتا ہے ...


من آدمی بچنین شکل و خوی و قدر و روش

ندیدہ ام مگر این شیوہ از پری آموخت ...گلستان ص 162


ترجمہ 


میں نے اس شکل و شمایل اور قدو قامت کے ساتھ آدم زاد کو نہیں دیکھا،شاید تم نے یہ حسن وخوبی پریوں سے سیکھی ہے 

 


خوشحال خٹک 


تہ پہ دا حسن و جمال چی درتہ گورم 

نہ پو ھیژم شاپیرٸ ٸ کہ سڑٸ ۔۔۔۔؟ 

ارمغان خوشحال ص 587 


مندرجہ بالا اشعار میں لغات سے شوق رکھنے والوں کے لیے شیخ سعدی کا لفظ جنی اور خوشحال خٹک کا لفظ سڑٸ قابل لحاظ ہے،پشتو ادب میں شاید  کسی نے لفظ سڑٸ کا استعمال سڑے کی تانیث کی حیثیت سے کیاہو ..کم از کم مجھے نہیں معلوم ...آپ کو پتا ہو تو اشتراک کیجیے..والسلام 


........................................باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات ...؟


خوشحال خان خٹک کو گلستان سعدی زبانی ازبر تھا،اسی سبب ان کی نظم ونثر میں گلستان و بوستان کی جھلکیاں بھی زیادہ دیکھنے کو ملتی ہیں


گلستان سعدی میں ایک قصہ باپ بیٹے کا ہے،جس میں پہلوان اور باکسر بیٹا سفر پر جانا چاہتا ہے،باپ منع کرتا ہے ،اور کہتا ہے،کہ جس کے اندر پانچ خوبیاں ہوں،وہ اگر سفر کرے یعنی تلاش رزق کرے،تو لوگ اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ان خوبیوں میں تیسری اور چوتھی کا ذکر کچھ یوں ہے


صفت سوم ...خوبروٸ کہ درون صاحبدلان بمخالطت او میل کند 

صفت چہارم ...خوش آوازے کہ بہ حنجرہ داودی آب از جریان ومرغ از طیران باز دارد


ترجمہ

تیسری خوبی چہرے کی زیباٸ ہے،کہ ذوق رکھنے والے اس کی مجلس پر ٹوٹ پڑتے ہیں

چوتھی خوبی خوش آوازی ہے،جو لحن داودی کی طرح پانی اور پرندوں کو روانی سے روکتی ہے 


قطعہ 


چو خوش باشد آہنگ نرم وحزیں 

بگوش حریفان مست صبوح ....

بہ از روٸ زیباست آواز خوش 

کہ این حظ نفس است و آں قوت روح ...

گلستان ..صفحات 130 و 131


ترجمہ 

نرم اور درد ناک آواز کانوں کو بھلی لگتی ہے،خصوصاً صبح کے وقت مخمور لوگوں کو ...

خوبصورت چہرے سے خوش آوازی بہتر ہے،خوبصورت چہرہ  حظ نفس ہے اور خوش آوازی غذاے روح 


خوشحال خان خٹک 


یو شہ مخ دے بل شہ آواز دے

چہ جان لہ تنہ صبر لہ زڑہ وڑی 

چہ دا دوہ توکہ سرہ سرہ شی 

جان او زڑہ می دواڑہ سرہ وڑی


دیگر قطعہ 

 پہ جھان کشی دی دوہ توکہ 

شہ آواز دویم شہ مخ .......

چی لری دا دواڑہ توکہ 

د ھغو کسانو سخ ....


ارمغان خوشحال صفحہ 718 و صفحہ 749 


ان دونوں قطعات میں وہی بیان ہوا ہے،جو شیخ سعدی کی نثر و قطعہ میں ہے،خوشحال خان خٹک پر شیخ سعدی کے معجزبیان کلام کا اثر اتنا تھا،کہ وہ ان کے مضامین کو باربار دہرا گیا ہے 


.......................................باقی آیندہ


...خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات ...؟ 


شیخ سعدی رح نے بخیلی اور خوش طبعی کے متعلق فرمایا تھا..


شعر 


اگر خنظل خوری از دشت خوشروٸ 

بہ از شیرینی ز دست ترشروٸ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گلستان ص 115  

  ترجمہ 

اگر خوش طبع کے ہاتھ سے کڑوا دانہ ملے تو وہ بخیل کے ہاتھ کی شیرینی سے بہتر ہے


خوشحال خان خٹک 

شعر 


نہ د شوم د لاسہ سل بیرے خوڑلے 

نہ د مرد د لاسہ پانڑے د پالک ........ارمغان خوشحال ص422


ترجمہ 


اگر بخیل کے ہاتھ سے سو بیر ملے،تو وہ جوانمرد کے ہاتھ کے ساگ سے بدتر ہوں گے 


سعدی 


شعر 

 ہرچہ از دوناں بہ منت خواستی 

درتن افزودی و ازجان کاستی ...گلستان ص 115


ترجمہ


اگر بخیل سے منت کرکے کچھ مانگا جاے،تو اس سے تن پروری ممکن ہے،مگر روح گھٹ جاتی ہے 


خوشحال خٹک 


کہ د تن وینے یو جام وچشے لا شے دی 

نہ وگرہ د بخیلانو یو کاشک .............ارمغان ص ایضاً 


مضامین دونوں کے ایک جیسے ہیں، 


........................................باقی آیندہ


...خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات ...؟ 


شیخ سعدی کی مشہور کتاب بوستان نظم کی کتاب ہے،جس میں حکایت کے سوا،پند و نصایح بھی ہیں..بوستان سعدی کے صفحات 675 و 676 پر ایک مثنوی ہے،چالیس اشعار کی،جسے شیخ موصوف نے ”گفتار“ کا نام دیا ہے 


اسی مثنوی کے مطالب کو خوشحال خان خٹک نے اپنے دیوان میں سمو دیا ہے،چنانچہ ارمغان خوشحال میں ص 226 تا 228 تک ایک قطعہ 24 اشعار کا درج ہے،جس میں شیخ سعدی کی مثنوی کا خلاصہ کیا گیا ہے،آیندہ ان پر بحث کریں گے،سردست شیخ سعدی کے ایک جملے کا چربہ دیکھیے 


شیخ سعدی 

کسب کمال کن کہ عزیز جہان شوی 


ترجمہ 


ہنروکمال حاصل کرو،تاکہ دنیا تجھے آنکھوں پر بٹھا دے 


خوشحال خٹک 


 

د کمال کسب پایہ د سعادت دہ 

ھغہ شہ چہ د کمال پہ اکتساب شہ 


بات وہی ہے جو شیخ سعدی نے کہی ہے،بلکہ الفاظ بھی قریب قریب وہی ہیں 


.................................باقی آیندہ


...خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


بوستان سعدی میں ص 226 تا 229 ایک نظم بہ عنوان گفتار ہے،جس کا خلاصہ یہ ہے،کہ دنیا والے ہرحالت میں دوسروں کے عیوب دیکھتے اور نکالتے ہیں،اس نظم کے چالیس شعر بطرز مثنوی ہیں 


خوشحال خان خٹک نے یہی مثنوی ایک قطعہ میں سمودیا ہے،جس کے چوبیس اشعار ہیں،اور یہ قطعہ ارمغان خوشحال میں صفحات 675 تا 676 موجود ہے،اب ان کے اشعار کی طرف آتے ہیں 


شیخ سعدی 

اگر درجہاں از جہاں رستہ ایست 

در از خلق بر خویشتن بستہ ایست 

 

ہرکس از دست جورزبانہا نے رست 

اگرخود نمایست اگر حق پرست 

اگر بہ پری چوں ملک ز آسماں 

بدامن درآویزدت بد گماں 


ترجمہ 

دنیا میں وہ لوگ بھی دوسروں کے طعن سے ازاد نہیں،جنہوں نے اپنا دروازہ بند رکھا ہے

کوٸ کسی کی زبان سے بچا ہوا نہیں ہے،چاہے وہ ریاکار ہو یا حق پرست 

اگر اسماں سے فرشتہ بن کر اتروگے،تو یہ لوگ تمہارا دامن بدگوٸ اور عیب جوٸ میں پکڑیں گے 


خوشحال خٹک 


پہ ھیچ رنگ بہ د عالم لہ خلے خلاص نہ شے 

کہ پہ خوٸ لہ فرشتو شے برابر .... 


کہ پہ کور کشینے ھیچ لوری وتہ نہ زے 

واٸ کشیناست پہ خپل کور لکہ دختر 


ترجمہ...کسی بھی حالت میں دنیا کے لوگوں کی عیب جوٸ سے بچ نہ سکوگے...اگر فرشتہ خوٸ کروگے ،تب بھی..


اگر گھر میں بیٹھ کر دروازہ بند کرلوگے،تو لوگ کہیں گے،لڑکی کی طرح گھر میں مستور بیٹھ گیا ہے 


خوشحال خان کا خلاصہ کمال کا اختصار رکھتا ہے،انہوں نے افلاطون کی طرح اپنے روحانی استاذ کے پیغام پہنچانے کا حق ادا کردیا ہے،یہ الگ بات ہے،کہ پشتون اساتذہ اس سے بے خبر ہیں 


........................................باقی آیندہ


...خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


شیخ سعدی کے گفتار اور خوشحال خان خٹک کے قطعہ پر بات ہورہی تھی،جنہوں نے نہیں پڑھا وہ پچھلی قسطیں پڑھ لیں،شکریہ 

۔


شیخ سعدی کے گفتار کے نمونے 


گر کنج خلوت گزیند کسے..کہ پرواے ندارد کسے 

مذمت کنند کہ زرقست وریو..چو مردم چناں میگیرند چو دیو 


ترجمہ 


اگر کوٸ خلوت میں بیٹھ جاے،اور کسی کی پرواہ نہ کرے 

لوگ کہیں گے،کہ ریاکار و مکار ہے،اور لوگوں سے دیو وپری کی طرح بھاگتا ہے 


خوشحال خٹک 


کہ د خلقو گوشہ گیر شے دا بہ واٸ 

چہ زان روغ پہ خلقو نہ وینی مگر 

کہ د خبرو خلہ ونیسے خاموش شے 

نوم بہ زر کیژدی پہ تا د غوبل ستور 


صفحات ایضاً در کتب ہاے مذکور 


تذجمہ 

اگر لوگوں سے خلوت میں بیٹھ کر کنارہ کشی کروگے،کہ لوگوں کو سے نفرت کرتا ہے....اگر باتیں بند کرکے خاموش بیٹھے رہوگے،تو لوگ تمہیں بیل کہیں گے 


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات....؟ 


شیخ سعدی کے گفتار کے مزید اشعار،اور ان کا چربہ خوشحال خٹک کے ملاحظہ کیجیے،دونوں نظموں کے صفحات کا حوالہ پچھلی قسطوں میں گزرا ہے،یہاں بھی وہی صفحات زیر بحث ہیں 


شیخ سعدی 


غنی را بہ غیبت بہ کارند پوست

کہ فرعون اگرہست درعالم اوست 


بخایندش ازکینہ دندان بہ زہر 

کہ دوں پروراست ایں فرومایہ دہر 

 

ترجمہ 

مالدار کا چمڑا،غیبت کرکر کے نکال لیتے ہیں ..اگردنیا میں فرعون ہے تو وہی ہے 

کینہ وحسد سے کے دندان زہر آلود سے کاٹنے دوڑتا ہے ...کہ یہی مالدار بدکرداروں کو پالتا ہے،اور یہ دنیا کا ٹٹ پونجیا ہے 


خوشحال خٹک 

کہ توانگرشے د قارون پہ نوم بالہ شے 

بے شعور ناتوان بالہ شے نا تونگر 


کہ شے شے خبرے وکڑے پہ جواب کشی 

واٸ سہ حرامزادہ دے لنڈہ ور ..... 

 

شیخ سعدی 

چوں بینند کارے بدستست درست 

حریصت شمارند و دنیا پرست ... 


ترجمہ 


اگر تمہارے معاملات درست چل رہے ہیں..تو لوگ تمہیں حریص اور مال کا بھوکا کہیں گے 


خوشحال خٹک 


کہ دنیا ڈیرہ گٹے پہ جان ٸ نہ خورے 

د شوم نوم بہ پہ تا کیژدی خپل پسر  


معمولی تصرفات کے ساتھ یہ اشعار سعدی سے نقل کیے گیے ہیں،....ان سے معلوم ہوتا ہے،کہ خوشحال خان خٹک شیخ سعدی کے کتنے معتقد تھے؟ 


.................................................باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات....؟ 


شیخ سعدی ،خوشحال خان کے روحانی پیرومرشد تھے،سو ان کے گفتار کے چند شعر پیش خدمت ہیں، 


تحمل کناں را نخوانند مرد..کہ بیچارہ ازبیم سر نہ کرد 


تحمل کرنے والوں کو یہ لوگ نامرد سمجھتے ہیں،اور تحمل کرنے والے کو ڈرپوک سمجھتے ہیں،کہ ڈر کے باعث سر اٹھا کے نہیں جی سکتا 


خوشحال خٹک 


کہ جواب وچاتہ ور نہ کڑے سر کوز کڑے 

واٸ ھیچ نہ دے غوولے بے ھنر ......... 

ترجمہ 


اگر سر جھکا کے،کسی کے طعنے کا جواب نہیں دوگے،تو لوگ کہتے ہیں،یہ مفعول اور بے ہنر کچھ بھی نہیں 


شیخ سعدی 


وگر کاخ وایواں منقش کند 

تن خویش را کسوت خوش کند 

بجاں آید ازطعنہ بروے زناں 

کہ خود را میاراست ہمچوں زناں 


ترجمہ 


اگراپنے گھر کے درودیوار کو آراستہ کرکے،اچھا لباس پہنوگے،

تو لوگ عورتوں کی طرح طعنہ دیں گے،کہ زنانیوں کی طرح سنگار کرتا ہے 


خوشحال خٹک 


کہ زربفت او میلک اغوندے تکلیف کڑے 

واٸ دا د شجو خوے دے نہ د نر ...

ترجمہ 

اگر زربفت وکمخواب پہنوگے،تو یہ لوگ کہیں گے،کہ یہ تو خواتین کی نازک مزاجیاں ہیں 

شیخ سعدی 

 وگر پارساٸ سیاحت نہ کرد..سفرکردگانش نخوانند مرد 

ترجمہ 


اگر کوٸ پارسا سیاحت نہ کرے،تو سیاح اسے مرد ہی نہیں سمجھتے 


خوشحال خٹک 


کہ سفر د ھردیار کڑے درتہ واٸ۔

چہ حرص یی گرزوی پہ خپلہ لیر 


ترجمہ 


اگر دیس دیس کی مسافرت کروگے،تو لوگ بول اٹھتے ہیں،کہ یہ حرص کے سبب اپنے رستے پر چلتا ہے...


الغرض اس طویل گفتار کو خوشحال خان خٹک نے اپنے قطعہ میں سمو لیا ہے..


...........................................باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات ...؟ 


گذشتہ سے پیوستہ 


شیخ سعدی کے گفتار سے ماخوذ ،خوشحال خان خٹک کے فرمودات...صفحات ایضاً 


 عزب را نکوہش کند خردہ بیں ......

کہ می رنجد از خفت وخیزش زمیں 

ترجمہ 

کنوارے پر بھی خردہ گیر اعتراض کرتے ہیں،کہ یہ مادہ رجولیت نہ ہونے کے سبب،ڈر رہا ہے،اس لیے شادی نہیں کررہا..ایستادگی کی قوت نہیں رکھتا 


خوشحال خٹک 


کہ لونڈ گرزے وادہ تہ ھوس نہ کڑے 

بیا دے بولی حیزنامرد مردہ ذکر ... 


ترجمہ 

اگر کنوارپنے میں خوش رہنا چاہوگے،تو لوگ کہتے ہیں،کہ یہ ہیجڑا،نامرد ،قوت باہ سے محروم ہے 


شیخ سعدی 


وگر زن کند گوید ازدست  دل ... 

بگردن در افتاد چوں خر بگل 


ترجمہ 

 

کتخداٸ پر لوگ اپنی راے یوں دیتے ہیں،کہ چلو گدھا چقڑ میں پھنس گیا 


خوشحال خٹک 


کہ وادہ وکڑے بیا دا درباندے واٸ ...

آزادہ شہ نہ وو؟ شو پہ بلا سر .... 


ترجمہ 


شادی کروگے،تو لوگ کہیں گے،یا کہتے ہیں،..کنوارپنا تو آزادی ہے،کیوں پابندی اختیار کی؟ اب آزمایش میں پڑ گیا 


 شیخ سعدی 


نہ از جور مردم رہد زشت گوے ..

نہ شاھد ز نامردم زشت گوے 

ترجمہ 


ان معترضین سے بدصورت بھی نہیں بچتا،اور نہ خوش شکل ان ظالموں کی بدگوٸ سے بچتا ہے 

 

خوشحال خٹک 

دا چہ؟ زر دا ھسے رنگ ملامت نور شتہ 

کہ یی کشم درتہ بہ سازکڑم یو دفتر .. 


ترجمہ 


یہ کیا ہے؟ اسی طرح کی ہزاروں ملامتیں اور طعنے ان کے پاس ہیں،اگر لکھوں،تو کتاب بن جاے گی.. 


.............................باقی آیندہ

.....خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات ...؟ 


شیخ سعدی کے گفتار پچھلی تین چار قسطیں گزرگییں،اس سے آگے شیخ سعدی کی ایک حکایت بوستان ص ...229 پر موجود ہے،خوشحال خان خٹک نے اپنے مسلسل قطعہ میں اس کے آخری تین شعر  بہ مطلب اخذ کیے ہیں،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے 


1...

کیا خوشحال خان خٹک نے بالاردہ،بوستان دیکھ دیکھ کے اخذ و استفادہ کیا ہے؟ 


2.. 


یا یہ کہ خوشحال خان خٹک کو شیخ موصوف کا سارا کلام ازبر تھا؟ 


میری رایے میں دوسری صورتحال قرین عقل ہے،خوشحال خٹک شیخ سعدی کو اپنا استاد مانتے تھے،کیونکہ کٸ تراجم میں انہوں نے لکھا ہے،کہ کسی دانا نے کہا ہے،اور پھر اخذ و استفادہ کیا،بہر حال بقیہ اشعار کی طرف آتے ہیں 


شیخ سعدی 


خدا را کہ مانند و انباز وجفت 

ندارد شنیدی کہ ترسا چہ گفت 


ترجمہ 


مسیحیوں نے تو خدا تعالا کے لیے،باپ بیٹے اور بیوی کا تصور تک اپنایا 


خوشحال خٹک 


خداے لا ھم زنے خلاص نہ دے کہ یی گورے 

چی ترسا یی د عیسی بولی پدر .........

ترجمہ 


وہی خیال وہی ترجمہ،تھوڑے فرق کے ساتھ 


شیخ سعدی 


کہ یارد بکنج سلامت نشست 

کہ پیغمبر ازخبث باطن نرست 


ترجمہ 

 وہ شخص کیا کرتا؟۔۔کنج عافیت میں بیٹھ گیا،کیونکہ ان لوگوں کی خباثت سے تو پیغمبر کو بھی خلاصی نہ تھی 


خوشحال خٹک 


زہ او تہ د چا پہ یاد پہ سہ شمار یو؟ 

د عالم لہ خلے خلاص نہ وو پیغمبر 


ترجمہ 


میں اور تو،ہم کیا چیزہیں؟۔۔۔لوگوں کی غیبت سے تو پیغمبر پاک بھی ایمن نہ تھے 


آخری شعر میں خوشحال خان خٹک نیک نیتی کی تلقین کرتا ہے،کیونکہ بقول ان کے نیت کی حیثیت رہبر کی ہوتی ہے.. 


............................باقی آیندہ


....خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


غوریوں کے دور حکومت کے آخر میں منگولیا کے میدانوں سے ایک قوم تموجن یعنی چنگیز خان کی سرکردگی میں اٹھی،اس عہد میں خوارزم ایک خوشحال ریاست تھی،جس نے غوریوں کو دبالیا تھا،


سرحدی چھیڑچھاڑ جو دراصل تجارتی قافلوں کے سبب شروع ہوٸ۔بالاخر مسلمانوں کی تباہی پر منتج ہوٸ۔اس وقت پشتون یوسفزٸ قندہار وقلات کے علاقوں میں تھے۔اور کوہ سلیمان میں لودھی سوری وغیرہ اباد تھے 


تصوف کی دنیا میں سناٸ علیہ الرحمہ کے بعد فرید الدین عطار کا طوطی بول رہا تھا،فرید الدین عطار نیشاپور کا رہنے والا بزرگ،تصوف میں بلند مقام رکھتا ہے۔تصوف کے مورخین نے لکھا ہے،کہ انہوں نے تاتاریوں کے ہاتھ اپنی شہادت کی پیشگوٸ کی تھی،جسے خوشحال خان خٹک نے یوں بیان کیا ہے 


د عطار خونی عطار وتہ اظھار دے 

کہ جلاد ٸ د خطا د ملک تاتار دے 


شیخ عطار کو اپنا قاتل معلوم ہے،کہ اس کا جلاد ملک خطا کا تاتار ہوگا 


نوٹ..یہ شعر میرا دریافت کردہ ہے،اور مجھ سے پہلے اس کی کسی نے تشریح نہیں کی تھی 


تاتاریوں کے ہاتھوں شہر تباہ ہورہے تھے،خاک وخون کا کھیل جاری تھا،جلال الدین رومی کے والد نے جب یہ تباہیاں دیکھیں،تو اپناگھربار سمیٹ کر،بلخ سے بطرف روم یعنی ترکستان روانہ ہوے، 


نیشاپور میں انہوں نے شیخ عطار کے ہاں کچھ روز تک قیام کیا۔جلال الدین رومی کی عمر اسوقت آٹھ دس سال تھی،شیخ عطار نے اس جوہر قابل کی شعر گوٸ کی تعریف کی،اور اسے دعا بھی دی 


شیخ عطار کی سات آٹھ کتابیں تصوف کے موضوع پر،شعری شکل میں موجود ہیں،جن میں کچھ نقلی بھی ہیں،ان کی طرف منسوف ایک جعلی کتاب خوشحال خان خٹک کے مطالعہ میں رہی تھی،جس کے کچھ شعر خوشحال خٹک نے لے کر،اپنے دیوان میں سجاے ہیں،آیندہ ان پر بات ہوگی..


علاوہ بریں شیخ عطار کا ایک مصرعہ بڑی شہرت رکھتا ہے 


کہ ازبس پیداٸ ناپدید شد 


دوسرا مصرعہ تو مجھے بھی نہیں ہے،یہ مصرعہ تصوف سے تعلق رکھتا ہے،کہ خدا کی دستیابی اس کی عدم دستیابی ہے

خوشحال خٹک نے اس کو یوں بیان کیا ہے 


پہ ھر مخ کشی نندارہ دھغہ مخ کڑم 

چہ د ڈیرے پیداٸ نہ ناپدید شہ ...


ترجمہ 

میں ہر چہرے میں وہی چہرہ ڈھونڈتاہوں،جو بسیاری کے باوجود کمیاب ہے 


اس دوسرے مصرعے پر حمزہ شینواری نے پوری کتاب لکھ ماری ہے،چونکہ حمزہ شینواری کی مذکورہ کتاب میری نظروں سے نہیں گزری ہے،اس لیے کہہ نہیں سکتا،کہ شاعرموصوف نے شیخ عطار بارے کیا کہا ہے،اور خوشحال خٹک کے مصرعے کی نسبت کیا مباحث چھیڑے ہیں.. 


.....................................باقی آیندہ


......خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


پچھلی قسط میں فرید الدین عطار کی مثنوی کا ذکر ہوا تھا،سو اس مثنوی کا نام”مظہرالعجایب“ ہے۔ایران کے مشہور محقق آقاے سعید نفیسی کے خیال میں یہ مثنوی مجعول ومنحول ہے،پروفیسر حافظ محمود شیرانی نے اسے من گھڑت قرار دیا ہے، 

موجودہ مثنوی کراچی کے شاھد نامی ایک صاحب نے ..1941 ..میں کراچی سے چھپوا کر شایع کی ہے۔اسی جعلی مثنوی کا ایک شعر ہے 


بعد من ترکان کنند عالم خراب 

بس دل مسکین کہ سازنش کباب 


ترجمہ 

میرے بعد ترک لوگ دنیا کو برباد کردیں گے،اور مسکین دلوں کو کباب بنا دیں گے،۔۔دوسرے مصرعے سے یہ بھی برآمد ہوتا ہے،کہ میرے دل کے کباب بنادیں گے،اسی شعر خوشحال خان خٹک نے اپنی مطلع کی بنیاد رکھی ہے 


د عطار خونی عطار وتہ اظھار دے 

کہ جلاد ٸ د خطا د ملک تاتار دے 


ترجمہ..شیخ عطار کو اپنا قاتل معلوم تھا،اور وہ خونی ملک خطا یعنی منگولیا کا تاتار تھا 

اس جعلی مثنوی میں ترکوں کا ذکر ہے،ترکوں اور منگولوں میں فرق تو تھا،مگر بعد کی رشتہ داریوں کے سبب لفظ ترک بجاے تاتار استعمال ہونے لگا 


مثنوی 

مصطفی ختم رسول شد در جہان 

مرتضی ختم ولایت در عیان .. 

ترجمہ 


پیغمبرپاک ص پر رسولوں کا اختتام ہوا،اور حضرت علی رض پر ولایت مختتم ہوٸ  

خوشحال خٹک 


کہ دا ھومرہ وییل کا ورتہ رخصت دے 

محمد دے پیغمبر علی ولی ...


ترجمہ 

ایسا کہنے میں کوٸ حرج نہیں،کہ محمد ص پیغمبر تھے اور علی رض ولی تھے 


مثنوی 

 جرم ما را بخش بر آل نبی 

تا شود آیینہ ما منجلی .. 

ترجمہ 


میرے گناہوں کو اہل بیت کے وسیلے سے معاف فرما،تاکہ میرے دل کی کدورت صاف ہوجاے،اور دل آینے کی طرح چمکے 


خوشحال خٹک 


دزڑہ زنگ پہ بل صیقل نہ لرے کیژی 

پہ دوستٸ د علی دہ مصقلی ... 


ترجمہ 


دلوں کا زنگ کسی اور چیز سے صیقل نہیں ہوتا،ان آیینوں کی صفاٸ، حضرت علی رض کی دوستی میں پوشیدہ ہے 


.......................باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم/ سرقات؟ 


بقیہ مثنوی مظہر العجایب اور خوشحال خان خٹک .... 


مثنوی 


گر تو از جان درپۓ مہرش روی 

از عذاب دوزخ ایمن شوی ... 


ترجمہ 


اگر تم اخلاص سے علی رض کی محبت میں ان کی پیروی کوگے،تو دوزخ کی آگ سے محفوظ رہ سکوگے 


خوشحال خٹک 


د علی د آل پہ مدح کشی جنت دے 

دخوشحال خٹک پہ دا دہ تسلی .... 


ترجمہ 

اہل بیت کرام کی مدح سراٸ میں جنت کا حصول پوشیدہ ہے،اور خوشحال خٹک کو اس بات کا اطمینان ہے 


مثنوی 

اگر تو مہرش را نہ داری اندرون  

بیشک ملعونی و مردودی دون  


ترجمہ 


اگر تم علی رض کی محبت کو دل کی گہراٸ سے قبول نہیں کرتے ہو،تو بیشک تو ایک ملعون اور مردود شخص ہے 


خوشحال خٹک 


چہ پہ بغض د علی یا د عمر دی 

رافضی دی خارجی دی خللی 


ترجمہ 


جو لوگ علی رض اور عمر رض سے بغض رکھتے ہیں،وہ رافضی اور خارجی ہیں،نیز وہ دین کے رخنہ گر ہیں 


.................................باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


مظہرالعجایب کے اشعار اور خوشحال خان خٹک ... 


مظہرالعجایب 


جملہ فرزندان حیدر ز اولیا۶ 

جملہ یک نور اند حق کرد ایں ندا 


ترجمہ 


حیدر کرار رض کی تمام اولاد،پشت در پشت اولیا۶ تھی،تمام ایک ہی نور سے بحکم خدا ،منور تھے 


خوشحال خٹک 


ھمہ واڑہ امامان وو د خپل دور 

ھمہ واڑہ د دنیا د دین سرور دی 


ترجمہ 

آل علی رض سبہی اپنے اپنے دور کے امام تھی،سب دین و دنیا کے سردار تھے 


مظہر العجایب 

خارجی و رافضی دیگر مباش 

جوٸ علم معنوی دیگر مباش 


ترجمہ 


خارجی اور رافضی نہ بنو،علم معنوی یعنی تصوف کے متلاشی بنو،کچھ اور بننا چھوڑ دو 


خوشحال خٹک 


رافضی او خارجی دواڑہ باور کڑہ 

ترسگانو تر کوسانو لا بتر دی ..... 


ترجمہ 


یقین مانو،کہ رافضی اور خارجی کتوں اور سورووں سے بدتر ہیں 


مظہر العجایب 


مرتضی را بود سلمان تکیہ گاہ 

بوذر و قنبر غلام خاک راہ ... 


ترجمہ 

 علی رض کی حفاظت پر سلمان فارسی مامور تھے،ابوذر غفاری اور قنبر ان کی خدمت میں لگے ہوے تھے 


خوشحال خٹک 


تر ھلال او تر بلال ٸ صدقہ شم 

لارانجہ می د پلہ خاورے د بوذر دی 


ترجمہ 

میں حضرت ھلال و حضرت بلال کے صدقے جاوں،جو علی رض کے پایہ شناس تھے،ابوذر غفاری کی خاک پا،میرے لیے کحل الجواہر سے کم نہیں 


.........................................باقی آیندہ

.......خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات ...؟ 


مظہر العجایب کے بقیہ اشعار 


شعر 


لا فتی الا علی راگوش دار 

خود گوٸ لا سیف الا ذوالفقار 


ترجمہ 

علی رض کی طرح اور جوانمرد نہیں،اور نہ ہی ان کی تلوار ذوالفقار کے مد مقابل کوٸ تلوار ٹھہر سکی ہے 


خوشحال خٹک 


درستم د مڑنتوب خبرے ھیچ دی 

ذوالفقار چہ یاد شوے پہ قصص دے 


ترجمہ 


رستم کی بہادری کی باتیں کچھ بھی نہیں،علی رض کی ذوالفقار کے قصے زبان زد عام ہیں 


مظہرالعجایب 


یا الہی مہدی از غیب آر 

تاجھان عدل گردد آشکار 


ترجمہ 

اے خدا مہدی کو غیبوبیت سے نکال،تاکہ دنیا کو عدل سے بھر دے 


خوشحال خٹک 


مھدی ووزہ لہ غارہ ...

کیژدہ پشہ پہ پالنگونہ 


ترجمہ 

اے مہدی غار یعنی اپنے مستقر سے نکل آ،آکر اپنی امت کی پیشواٸ کر 


نوٹ..اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے،کہ مہدی ابھی پیدا نہیں ہوا،جبکہ شیعہ حضرات انہیں غار میں مستور مانتے ہیں 


مظہرالعجایب 


لوکان رفضاً حب آل محمد 

فلیشھد الثقلان انی رافض  


ترجمہ 


اگر آل محمد ص کی محبت رفض ہے،سو دونوں جہانوں گواہ رہو،کہ میں رافضی ہوں..

نوٹ ..یہ شعر امام شافعی رح کا ہے،مگر سید شاھد اسے مظہرالعجایب کے ص 32 پر لاچکا ہے 


خوشحال خٹک 


پہ ولا کہ د علی رافضی کیژی ... 

سکہ خوشحال ٸ پہ ولا کشی مشخص دے 


ترجمہ 


اگر حب علی رض سے کوٸ رافضی بنتا ہے،تو یقیناً خوشحال علی رض کی دوستی میں شہرت رکھتا ہے 


........

...................................باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


گلستان سعدی کے صفحہ ..92 پر ایک قطعہ صبر و سخاوت کے متعلق درج ہے،ملاحظہ کیجیے 


سعدی 


گرغنی زر بدامن افشاند 

تا نظر در ثواب او نہ کنی 


کز بزرگان شنیدہ ام بسیار 

صبر درویش بہ کہ بذل غنی 


ترجمہ 


اگر مالدار مال و دولت کی سخاوت کرتا ہے،درویش اس کی طرف التفات نہیں کرتا 

میں نے بزرگوں سے سنا ہے،کہ مالدار کی سخاوت سے،صبر درویش بہتر ہے 


خوشحال خٹک نے اس قطعہ کو رباعی کی شکل دی ہے،چنانچہ ارمغان خوشحال حصہ رباعیات کے صفحہ ..117 پر یہ رباعی ملتی ہے 


خوشحال خٹک 


غنی کہ ھر چو د زرو ویش کا 

پروا می نہ لری صبر درویش کا 

دا صبر شہ دے د غنی تر ورکڑو 

صبربہ نورنور نعمت درپیش کا 


ترجمہ 


غنی کی سخاوت سے صبر درویش بہتر ہے،کیونکہ صبر کے ساتھ اور بھی نعمتیں ہوتی ہیں 


....................................باقی آیندہ


...خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


گلستان سعدی کے صفحہ..218 پر تین شعر کی مثنوی ہے،جس کے دو شعر پیش خدمت ہیں 


سعدی 


خری را ابلہی تعلیم می داد..بروبر صرف کردے سعی دایم 

  

اور 

نیاموزد بہایم ازتو گفتار ..تو خاموشی بیاموز از بہایم 


ترجمہ 


ایک بیوقوف گدھے کو کام کے لیے سدھا رہا تھا،مگر وہ نہیں سیکھ رہا تھا 

( اتنے میں ایک دانا آدمی آیا،اور اسے کہا) 


کہ  جانورتو تجھ سے باتیں نہیں سیکھتے،تو چوپایوں سے خاموشی سیکھ .. 


خوشحال خٹک 


رباعی...ارمغان خوشحال ,رباعیات..ص ..132 


کہ چار د عقل لرے بسیارہ..

چارپاے بہ کڑے گویا ھوشیارہ 


تہ خاموشی زدہ کڑہ لہ چارپایانو 

چہ خاموشی لری فایدہ تیارہ ... 


ترجمہ 


اگر تیرے پاس کافی عقل ہو،تو ہو سکتا ہے،چوپایہ تجھ سے کچھ سیکھ لے ( شاید یہاں حرف ”نہ“ دوسرے مصرعے میں رہ گیا ہو،پھر مطلب ہوگا،تو چوپایوں کو ہوشیار نہ بناسکے گا) 


تم چوپایوں سے خاموشی سیکھ لو،کیونکہ خاموشی میں فایدہ زیادہ ہے 


........................................باقی آیندہ


...خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات ...؟ 


شیخ سعدی نے لوگوں کی تعریف اور حقیفت حال کے متعلق لکھا ہے 


شعر 


طاوس رابہ نقش و نگارے کہ ہست خلق 

تحسین کنند او خجل از زشت پاے خویش 


گلستان ص ...76 


ترجمہ 


لوگ طاوس کے پروں کے نقش و نگار کی تعریف میں لگے رہتے ہیں...مگر مور اپنے پیروں کی بدوضعی پر ہمیشہ سبکی محسوس کرتا رہتا ہے 


خوشحال خٹک 


ثنا صفت کا عالم لہ میورہ..نقش و نگار لری پہ سوسو طورہ 

نظر چہ وکا و خپلو پشو تہ ...زڑہ یی اختہ شی پہ ڈیرڈیر جورہ .....


ارمغان خوشحال،حصہ رباعیات ص ...133 


ترجمہ 


لوگ مور کی ثنا وصفت میں لگے رہتے ہیں،کیونکہ وہ کٸ طرح کا نقش و نگار رکھتا ہے 

مگر جب وہ اپنے پیروں کو دیکھتا ہے،تو اس کے دل میں کٸ طرح کے وسوسے اٹھتے ہیں 


شیخ سعدی کے ایک شعر کو رباعی کی شکل میں ڈھال رکھاہے،مضمون و معانی بالکل وہی ہیں 


.................................................باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم /سرقات ...؟ 


بوستان سعدی کے ص 140 پر شیخ سعدی کی ایک حکایت سرود وسماع بارے درج ہے،جو ان پر خود گزری تھی،تسلسل حکایت میں انہوں نے موسیقی بارے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا ہے 


سعدی 


بگویم سماع اے برادر کہ چیست 

مگر مستمع را بانم کہ کیست 


گراز برج معنی بود طیر او 

فرشتہ فروماندہ از سیر او 

 

وگر مرد لہو است وبازی و لاغ 

قوی تر شود لہوش اندر دماغ 


چہ مرد سماع است شہوت پرست 

باوازخوش خفتہ خیزد نہ مست 


ترجمہ 

سماع کے متعلق اتنا کہتا ہوں،کہ سرود سننے والا کیسا ہونا چاہیے؟ 

اگر سامع پاکیزہ سیرت ہے، تو مضایقہ نہیں 

 

اگر سرود سننے والا، لہو پرست، سبک سر و لاابالی ہو،تو موسیقی سے اس کے جذبات سفلی اور مچل جاتے ہیں 


نیک سیرت موسیقی سے نہ مست ہوتا ہے،نہ دوں فطرت بنتا ہے 


خوشحال خٹک 


سرود ھورتہ دے روا ...چہ نہ غاو وی نہ غوغا 

سامعان ٸ صاحب دل وی..نہ ٸ نفس وی نہ ھوا 

او کنہ دا ھسے نہ وی ..اوریدل ٸ دی خطا  

......................ارمغان خوشحال ص 710 


ترجمہ 

سرود وہاں جایز ہے،جہاں سننے والا مست ہوکر ہنگامہ نہ کرے 


سننے والے اہل نظر ہوں،بے نفس ہوں ،لہوپرست نہ ہوں 

 اور اگر یہ نہ ہوں،تو موسیقی سننا درست نہیں 


شیخ سعدی نے جو شرایط عاید کی تھیں،وہی شرایط خوشحال کے ہاں تقریباً ان جیسے الفاظ میں آے ہیں،شیخ سعدی کے ہاں طوالت ہے،جبکہ خوشحال خٹک کے ایجاز..مگر شیخ کے الفاظ وتراکیب زیادہ شستہ و بلیغ ہیں 


...........................................باقی آیندہ

خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


گلستان سعدی کے ص 37 پر ایران کے بادشاہ ہرمز کی حکایت درج ہے،اسی بادشاہ نے اپنے والد کو قید میں ڈلوا دیا تھا، ایک دن کسی قید پدر کا سبب پوچھا،تو جواب دیا 


بیقین دانستم کہ مہابت من در دل ایشاں بے کراں است و برعہد من اعتماد کلی ندارند،ترسم کہ ازبیم گزند خویش ہلاک من کنند..قول حکما۶را کار بستم 

ازاں کہ تو ترسد بترس اے حکیم 

وگر باچنو صد براٸ بہ جنگ ....


ترجمہ 


یقینی طور پر کہتا ہوں کہ اس کے دل میں میری ہیبت بیٹھ گٸ ہے،وہ میرے عہد پر اعتماد نہیں کرتا،پس میں ڈر گیا،کہ وہ مجھے نہ مروا دے،پس بقول دانشمندان 


جو تجھ سے ڈرتا ہے،اس ڈرو،اے ہوشمند ...اگر چہ وہ تجھ سے سینکڑوں مرتبہ کمزور کیوں نہ ہو 


خوشحال خٹک 

رباعیات ص 188..


لہ تا چہ بیم کا ور زنے بیم کا ..................................    

مہ ی محروم کڑہ مہ ی ندیم کڑہ 

پہ زور کہ ھرسو د دہ د پاسہ یے 

حذر ترے بویہ کار د حکیم کڑہ 


ترجمہ 


جو تجھ سے ڈرتا ہے اس سے ڈرو..اسے نہ محروم کرو نہ ندیم بناو،...اگر تم اس زیادہ طاقتور ہو.پھر بھی اس سے بچ کے رہو 


فرق صرف یہ ہے،کہ خوشحال خٹک نے قطعہ کے شعر کو پھیلا کر رباعی بنا لیا،البتہ محروم و ندیم نہ کرنا خوشحال خٹک کا اضافہ ہے 


.....................................باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم /سرقات...؟ 


ہاتھی افریقہ یا ہندوستان میں پایا جاتا ہے،ایران کے بادشاہوں کے پاس جو ہاتھی ہوتے تھے،وہ ہندوستان سے درآمد کیے جاتے تھے،یا تحایف و جرمانوں کی شکل میں وصول ہوتے تھے، 


اس لیے ایران میں یہ بات مشہور تھی،کہ ہاتھی کا اصلی وطن ہندوستان ہے،اور جب ہاتھی خواب میں اپنے ملک کا پانی اور جوہڑ دیکھتا ہے،تو زنجیر توڑ کر بھاگ نکلتا ہے،مولانا روم کا شعر ملاحظہ ہو 


خواب دیدہ پیل تو ہندوستاں 

کہ رمیدستی ازحلقہ دوستاں 


......مثنوی دفتر ششم ص 271 


ترجمہ 

 

کیا تیرے نفس نے ہاتھی کی طرح،ہندوستان کو خواب میں دیکھا ہے?..کہ تو اپنے حلقہ دوستاں سے بھاگتا ہے؟ 


خوشحال خٹک 


لکہ مست ھاتھی زنجیر کا ترمے ترمے .....

چہ پہ خوب کش ورشکارہ شی ھندوستان ..ارمغان ص636


ترجمہ 


جس طرح مست ہاتھی  ہندوستان کو خواب میں دیکھ کر،اپنی زنجیر ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے... 


.........................باقی آیندہ

خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات ...؟ 


شیخ سعدی کی گلستان میں ایک درویش کی ہواخیزی کا بیان آیا ہے،جس کے آخر میں شیخ موصوف نے دو شعر میں اس حکایت کا خلاصہ پیش کیا ہے 


شیخ سعدی 


شکم زندان باد است اے خردمند

ندارد ہیچ عاقل باد در بند .....

چوں باد اندر شکم پیچد فروہل 

کہ باد اندرشکم باریست بر دل 


گلستان ص 93 


ترجمہ 

 

اے ہوشمند پیٹ ،باد کا قید خانہ ہے،کوٸ بھی ہوشیار شخص ہوا کو قید نہیں رکھتا،


جب ہوا پیٹ میں گرانی پیدا کرے،تو اسے چھوڑ دو،کہ پیٹ کے اندر مقید باد،دل پر بوجھ بن جاتی ہے 


خوشحال خٹک 


عاقلان چہ د دنیا خصلت ووینی 

د دنیا دولت و دوی تہ لکہ باد شی 


دا دنیا لکہ زندان ورتہ شکاریگی 

پہ واتہ لہ دے زندانہ پہ زڑہ شاد شی 

...ارمغان ص 746 

ترجمہ 


عقلمند لوگ جب دنیا کی خصلتیں دیکھ لیتے ہیں،تو دنیا کی دولت انہیں باد کی مانند لگتی ہے 

 

یہ دنیا انہیں زندان نظر آنے لگتی ہے،اور اسی زندان سے جب خلاصی ہوتی ہے،تو ان کا دل شاد ہوجاتا ہے 


استدراک 


شیخ سعدی کے دو شعر باد و پاد کے متعلق ہیں،پیٹ کو باد وپاد کا زندان قرار دیا گیا ہے،جبکہ خوشحال خٹک کے ہاں دنیا کو زندان قرار دیا گیا ہے،مقولہ ہے 

الدنیا سجن المومن 

دنیا مومن کے لیے زندان کی مانند ہے،اور چونکہ مومن عقلمند بھی ہوتا ہے،اس لیے دونوں تشبیہیں درست ہیں،مگر بادوزندان،خروج و شادمانی کا مضمون سعدی کی حکایت کی طرف رہنماٸ کرتی ہے 


............................باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات ...؟ 


شیخ سعدی کی گلستان باب ہشتم میں بہت سے پند و نصایح ہیں،ایک جگہ دشمن کے متعلق فرماتے ہیں 


و ہر کہ دشمن کوچک راحقیر شمارد بداں ماند کہ آتش اندک را مہمل می گذارد 

.............ص ..210 


ترجمہ 


چو کوٸ چھوٹے دشمں کو حقیر سمجھے،اس کی مثال ایسی ہے،جو چنگاری کو بے معنی سمجھتا ہو 


خوشحال خٹک 


کہ دشمن ڈیر زبون ور زنے ڈار کا 


.........پہ یو بسری باندے وسوزی شھرونہ 


ترجمہ 


دشمن بے حیثیت ہو تب بھی اس سے ڈرنا چاہیے،کیونکہ ایک چنگاری سے کٸ شہر جل سکتے ہیں..


شیخ سعدی کے نثری خیال کو نظم کا جامہ پہنایا گیا ہے،فقط


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات ...؟ 


شیخ سعدی کو استاد مشرق کہاجاتا ہے،خوشحال خٹک نے انہیں اپنا استاد مانا ہے،موصوف کے دیوان میں ساٹھ اشعار کی ایک لمبی نظم پاٸ جاتی ہے،جس کا عنوان ،د استاذ د خلے پندونہ،ہے،یہ نظم ارمغان خوشحال میں ص 74 سےص 76 تک پھیلی ہوٸ ہے 


نظم کے آغاز میں خوشحال خٹک نے کہا ہے 


خپل استاذ و ماتہ ووے سو پندونہ 

...ھر یو پند ٸ ملغلرے دے لالونہ 


میرے استاد نے مجھے چند نصیحتیں کیں،جن میں ہر نصیحت در و گوہر کی مانند ہے 


استاد کون ہے؟ شیخ سعدی ...خوشحال خٹک کی یہ نظم گلستان کے مختلف اشعار و انثار کا نچوڑ ہے،اس نظم سے معلوم ہوتا ہے،کہ موصوف کو شیخ سعدی کا گلستان زبانی یاد تھا،ساٹھ اشعار کی نظم کی کٸ قسطیں ہوں گی،پہلی قسط ملاحظہ ہو 


شیح سعدی کا قطعہ 


برو با دوستاں آسودہ بنشیں..چوبینی درمیان دشمناں جنگ

وگربینی کہ باہم یک زبانند..کماں رازہ کن و بربارہ برسنگ 


ترجمہ 

جب تمہارے دشمنوں کے درمیان جنگ ہو،تو اپنے دوستوں کے ساتھ خوش وخرم بیٹھ جاو،اگر تمہیں محسوس ہو،کہ وہ سب متفق ہیں،توکمان تیاررکھو،اور مورچہ پر پتھر برساو 


خوشحال خٹک 

پہ دشنو کشی چہ د جنگو خرخشے وی

تہ بے غمہ خپل ھوس کڑہ خپل کارونہ 

کہ دِواوریدل چی بیا وبلہ روغ شول 

نور پہ خپلہ وسلہ ووھہ لاسونہ .....


ان کا ترجمہ وہی ہے،جو شیخ موصوف کے قطعے کا ہے 


......................باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


شیخ سعدی کے نصایح خوشحال خٹک کے ہاں ایک لمبی نظم میں سموے ہوے ملتے ہیں،نظم کا نام ہے،”د استاذ د خلے پندونہ“ 


شیخ سعدی دشمن پر دسترس کے متعلق فرماتے ہیں 


حذرکن زانچہ دشمن گوید آں کن 

کہ بر زانو زنی دست تغابن ...

ترجمہ 

دشمن جو کہے اس کو نہ کر،ورنہ اپنے زانو پر حسرت کے ہاتھ ماروگے،دست تحسر سے خود کو کوٹوگے 


خوشحال خٹک 

 عاقبت بہ خپل ورغوے پہ غاش پرے کا 

ھر چہ کا د دشمن پہ ورمونہ ......

ترجمہ وہی ہے،البتہ یہاں خوشحال خٹک یہاں ہاتھ پر چق مارنا کہتا ہے،جو عربی محاورہ بھی ہے 

 


شیح سعدی 

برعجز دشمن رحمت مکن....

ندانست آں کہ رحمت کرد بر مار 

کہ آں ظلم است بر فرزند آدم ..گلستان ص 212


ترجمہ 

دشمن کی عاجزی پر ترس نہ کھاو،کیا تو نہیں جانتا؟ کہ سانپ پر رحم کرنا،انسانوں پر ظلم کے برابر ہے؟ 


خوشحال خٹک 


چہ دے لاس پہ دشمن بر شی پرے ٸ مژدہ 

عاقلان بہ ژوندی نہ پریژدی مارونہ.... 


ترجمہ 

دشمن سانپ کی مانند ہے،اور عقلمند سانپ کو زندہ نہیں چھوڑتے 


.....................باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


شیخ سعدی کی تلخیص لمبی نظم میں...د استاذ د خُلے پندونہ....


شیخ سعدی 


بنان خشک قناعت کنیم و جامہ دلق 

کہ رنج محنت خود بہ کہ بار خلق ..گلستان ص 111 

 

ترجمہ 

میں سوکھی روٹی کھاتا ہوں اور گدڑی پہنتا ہوں،دوسروں کے احسان و خدمت سے،میری اپنی محنت اچھی ہے 


خوشحال خٹک 


د پیپلو پانڑے خورہ نہ ھغہ پاستی 

چہ ٸ خورے د نوکرٸ پہ شرطونہ 


ترجمہ 

نوکری یا خدمت کی روٹی کھانے سے،پیپل کے پتے کھانا بہتر ہے 


شیخ سعدی 


ہمہ حمال عیب خویشتنید 

طعنہ بر عیب دیگراں مزنید 

ص..173 


سب کے لیے اپنے اپنے عیب کافی ہیں،کیونکہ وہ انہیں اٹھاییں گے،دوسروں پر طعنہ زنی نہ کر 


خوشحال خٹک 

 

لہ بدخویہ سرہ ھیچ بدی تہ مہ کڑہ 

غلیمان ورلرہ بس دی خپل خویونہ 


ترجمہ 


بدراہوں کے ساتھ بدی مت کر،ان کے لیے ان عادات کافی ہیں،یعنی ان کی بدخوٸ انہیں انجام تک پہنچاے گی 


..........................باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


خوشحال خان خٹک کی لمبی نظم ”د استاذ د خُلے پندونہ“ کا شیخ سعدی کے مواعظ و نصایح سے مطابقت ...


شیخ سعدی 


علم چنداں کہ بیشترخوانی..چوں عمل درتو نیست نادانی 

نہ محقق بود نہ دانشمند ...چارپاے برو کتابے چند .... 

 

ایک اور جملہ 

 

علم ازبہردین پروردن است نہ از بہر دنیا خوردن 


گلستان ص208 


ترجمہ 

 زیادہ پڑھنا اور علم حاصل کرنا،اس وقت تک بے فایدہ ہے جب تک عمل نہ ہو..بے عمل عالم کی مثال اس چوپاے کی ہے جس کے اوپر کتابوں کی گٹھڑی ہو 

 

علم دین کی خدمت کے لیے ہوتا ہے،دنیا کی نعمتیں کھانے کے لیے نہیں .. 


خوشحال خٹک 


کہ ھر سو دے علم ڈیر چہ عمل نہ کڑے 

تہ حمار ٸ پہ تا لشلی کتابونہ ...... 


دشہ دین دپارہ علم دانش شہ دے .. 

نہ پہ دا چہ پر لوٹے پردی کورونہ ....ارمغان خوشحال ص75 


ترجمہ 


اگر تمہارا علم زیادہ ہے اور عمل نہیں..تو تمہاری مثال اس گدھے جیسی ہے جس پر کتابوں کا گھٹا ہو 


اچھے دین کے لیے علم و دانش کی ضرورت ہوتی ہے،علم اس لیے نہیں ہوتا،کہ اس سے دوسروں کے گھروں کو لوٹا جاے 


فقط .....باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


شیخ سعدی کے نصایح کو خوشحال خٹک نے اپنی ایک لمبی نظم میں جمع کیا ہے۔شیخ سعدی کے تین شعر فواید خاموشی بارے پیش خدمت ہیں 


صدف وار گوہرشناسان راز...دہن جز بلولو نکردند باز 

فراواں سخن باشد آگندہ گوش ..

نصیحت نگیرد مگر خموش 

تامل کناں درخطاو صواب 

بہ از ژاژخایان حاضرجواب ..بوستان ص 204 


ترجمہ 


راز کے رکھوالے صدف کی طرح،موتی اگلنے کے لیے منہ کھولتے ہیں 


زیادہ باتیں کرنے والا بہرہ ہوتا ہے،اس کو نصیحت سننے کا موقع کب ملتا ہے؟ 


درست و نادرست کہنے میں تامل کرنے والے..بیہودہ گو حاضر جوابوں سے اچھے ہوتے ہیں 


خوشحال خٹک 


ھمیشہ اوسہ خلہ پٹہ لکہ ناوے 

چہ ضرور شی ھلہ وکڑہ دوہ حرفونہ 

 

ترھغہ بہ نامعقول پہ جھان سوک وی 

چہ ھمیش پہ خندا سپین لری غاشونہ 


کہ خبرہ کہ خندا کڑے جگی جگی 

ھرہ چارہ تر حساب مکڑہ بیرونہ ..ارمغان خوشحال ص 76 


ترجمہ 


ہمیشہ دلہن کی طرح لب بستہ رہو،ضرورت کے وقت بھی کم بولو 


دنیا میں اس سے زیادہ بدتمیز کون ہو سکتا ہے؟ جو موقع بے موقع قہقہے لگاتا ہو 


بات کرنا یا ہنسنا چاہتے ہو،تو کبھی بھی اعتدال سے نہ ہٹنا..یعنی کثرت گفتار و خندہ سے بچو 


شیخ سعدی کے کلام میں گفتار و خموشی کے مضامین کٸ جگہوں پر بیان ہوے ہیں،یہاں دونوں کے ہاں توافق ظاہر ہے 


...........................باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


خوشحال خٹک کی لمبی نظم”د استاذ د خُلے پندونہ“کے دو شعر،شیخ سعدی کے اشعار کی روشنی میں ملاحظہ کیجیے 


شیخ سعدی 


مکن گفتمت مردی خویش فاش 

چو مردی نمودی مخنث مباش 

بوستان ص 188 


مکن عیب خلق اے خردمند فاش 

بعیب خود از خلق مشغول باش 

بوستان ص 208 


ترجمہ  


میں نے تجھے کہہ دیا ہے،کہ اپنی جوانمردی کا بیجا اظہار مت کر..

اور جب لاف زنی کی،تو خواجہ سرا بن کے نہ بیٹھ  


لوگوں کے عیب فاش نہ کر ،اگر ہوشمند ہو،تو اپنے عیوب کی فکر کر.. 


خوشحال خٹک 


چہ توانیژے د ھغے خبرے لاف کڑہ 

او کہ نہ پہ دروغ مہ وھہ لافونہ  

 

کہ دے زڑہ دے چہ دے عیب شکارہ نہ شی 

چاتہ مہ شمارہ د خلقو پٹ عیبونہ  ... 


ارمغان ص 76


ترجمہ 

 

جو کام تمہاری دسترس میں ہو،اس کی لاف زنی خیر ہے،وگرنہ جھوٹی لاف زنی سے بچے رہو 

 


اگر اپنے عیبوں کی پردہ پوشی چاہتے ہو،تو دوسروں کے عیوب لوگوں کے سامنے نہ گنو 


فقط ............باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


خوشحال خان کی لمبی نظم د استاذ د خلے پندونہ،کی بات ہورہی تھی،شیخ سعدی کے دو مزید شعر پیش خدمت ہیں 


سعدی 


معشوق ہزار دوست را دل نہ دہی 

ور می دہی آں بہ جداٸ بر نہی.....گلستان ص 209 


معشوق ہزاردوست کو دل نہ دو،اگر دو گے،تو جفا کےلیے تیار رہو 

 

خوشحال خٹک 


پہ ھغے معشوقے سہ باور د کڑو دے 

چہ پہ ھر لوری یاران لری زرگونہ ...ارمغان ص 74 


تقریباً وہی مطلب ہے 


شیخ سعدی 


اے کہ مشتاق منزلے مشتاب 

پندمن کاربند و صبر آموز ......گلستان ص 179 


ترجمہ 


اے منزل کے متلاشی ...مت دوڑ ...میرا پند سنو،منصوبہ بندی کر صبر کے ساتھ 


خوشحال خٹک 


پہ ھر کار کشی چہ درپیش شی بیڑہ مہ کڑہ 

پہ تلوار سرہ ورانیژی جوڑ کارونہ ........ 

ارمغان ایضاً 

 

یعنی کسی مہم جوٸ میں جلدی نہ کرو،کیونکہ عجلت سے کام بگڑ جاتے ہیں 


............................باقی آینده


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


شیخ سعدی کی لمبی نظم کے بعد اب پھر چیدہ چیدہ اشعار کے مطالب مع خوشحالیات کی طرف مراچعت ہے، 


شیخ سعدی 


سعدیا مرد نیکو نام نہ میرد ہرگز 

مردہ آں است کہ نامش بہ نکوٸ نہ برند 


ترجمہ...اے سعدی نیک نام لوگ مر کر فناہ نہیں ہوتے،مردہ لوگ تو وہ ہوتے ہیں، جن کا نام سلسلہ ذکر خیر میں نہ آۓ  


خوشحال خٹک 


مڑہ ھغہ چی نہ ٸ نوم نہ ٸ نشان وی 

تل تر تلہ پہ شہ نوم پاٸ شاغلی ......


ترجمہ...مردہ تو وہ ہیں جن کا نام ونشان نہ رہے،اچھے نام سے ہمیشہ نیکوکار لوگ زندہ رہتے ہیں 


خاقانی 

 


مریم بکر معانی رامنم روح القدس 

نوعروس فضل راصاحب منم نعم الفتی 


ترجمہ...دوشیزہ معانی مریم کے لیے بمنزلہ روح القدس ہوں،علم وفضل کی دلہن کے لیے میں بہترین جوان یا شوہر ہوں 


خوشحال خٹک 


شبستان می د ابکارو معنو جاۓ دے 

تی ٸ نموڑم پہ غدو او پہ اصال... 


ترجمہ...میری شبگاہ میں دوشیزہ معانی کی کثرت ہے،میں صبح وشام ان کی پستانوں سے کھیلتا رہتا ہوں


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


شیخ سعدی کی بوستان میں ایک حکایت ہے بادشاہ کے بیٹے کی،جس میں رات  کے وقت تاج سے لعل گرجاتا ہے،بادشاہ نے بیٹے سے کہا،کہ سب سنگریزوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھو،کیونکہ ہمیں اس وقت نہیں معلوم کہ کون سا لعل ہے اور کونسا کنکر؟ 


ز تاج ملک زادہ در مناخ...شبے لعل افتاد در سنگ لاخ 


ص 112


ترجمہ 


شہزادے کے تاج سے رات کے وقت،پڑاو میں لعل گرگیا،اور پڑاو سنگ زار میں تھا 


خوشحال خٹک 


د بادشاہ د سرہ لعل پہ شکار کشی پریوت 

چی شعلے یی جلیدے  تر بلہ اورہ .....


ترجمہ 


بادشاہ کے سر سے لعل گرگیا،جو آگ سے زیادہ چمک دار تھا 


ارمغان خوشحال ص 724 


اس حکایت سے سعدی نے معرفت خداوندی کی تلاش کا پند نکالا ہے،یہی کام خوشحال خٹک نے بھی کیا ہے،اگر چہ حکایات میں زبانوں کی ساییکی کے مطابق اختلاف لایا گیا ہے،خوشحال کا قطعہ اس شعر پر ختم ہوتا ہے 


دا د سر پہ سترگو مہ گورہ خوشحالہ 

د باطن سترگے پیدا کڑہ تہ ییے گورہ 


سعدی کی مثنوی کا شعر ملاحظہ ہو 


تو ہرگز مبیں شاں بچشم پسند 

کہ ایشاں پسندیدہ ۶ حق بسند 

 


دونوں کے ہاں مضمون ایک ہے،کہ معمولی آنکھوں سے ایسے واقعات کو نہ دیکھنا چاہیے،کیونکہ ان میں معرفت کے اسرار ہیں 


...............باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


خوشحال خان خٹک کی لمبی نظم،..د اُستاذ د خلے پندونہ..کے مزید شعر،اور ان کے مآخذ...


شیخ سعدی 

چو بد ناپسند آیدت خود مکن 

پس آنگہ بہ ہمسایہ گوبد مکن 


....بوستان ص 230 


ترجمہ ...اگر براٸ پسند نہیں آتی،تو خود باز رہو،بعد ازاں ہمسایہ کو باز رہنے کی تلقین کیجیے 


خوشحال خٹک 


کہ دے زڑہ دے چی بد نہ مومے لہ چانہ 

اول تہ پریژدہ د بدو  خصلتونہ.....ارمغان ص 74 


ترجمہ ...اگر چاہتے ہو کہ کوٸ تیرے ساتھ براٸ نہ کرے،تو پہلے تو بری خصلتوں کو چھوڑ...


شیخ سعدی 


جز ایں علتش نیست کاں بد پسند 

حسد دیدہ نیک بینش بہ کند ...

نہ مر خلق را صنع باری سرشت 

سیاہ وسفید آید خوب و زشت...بوستان ص 231 


ترجمہ ...حاسد کی علت یہ ہے کہ وہ براٸ دیکھتا ہے،بری آنکھوں کا علاج سواے اکھیڑنے کے اور کیا ہے؟ 

خدا تعالا نے ہر ایک سرشت بناٸ ہے،ان میں سیاہ و سفید،نیک و بد سب شامل ہیں 


خوشحال خٹک 

تہ کینہ رخہ حسد لہ ھیچا مہ کڑہ 

دازل پہ ورز مقسوم دی قسمتونہ ...ارمغان خوشحال ص74 


ترجمہ 


کسی سے حسد و کینہ نہ رکھو،(کسی کی عظمت و دولت پرحسد نہ کر)..یہ قسمتیں خدا تعالا نے روز ازل سے مقرر کر رکھی ہیں 

........باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


شیخ سعدی نے تعلیم وتربیت بارے متعدد جگہاوں پر نصیحت آموز قصے لکھے ہیں،ایک حکایت میں کسی ڈاکو کے بیٹے کی تربیت کا ذمہ وزیرلےلیتا ہے،بچہ جوان اور تعلیم یافتہ ہونے پر اپنے محسن سمیت اس کے بیٹوں کو قتل کرکے بھاگ جاتا ہے ...


سعدی 


پرتو نیکاں نگیرد ہر کہ بنیادش بد است 

تربیت نااہل راچوں گردکاں بر گنبد است 


ترجمہ بدطینت لوگ،نیک دلوں کی عادات نہیں اپنا سکتے،نااہلوں کی تربیت گویا گنبد کے اوپر گولیاں کھیلنا ہے

گلستان ص 30 

مزید 


سعدیا شیرازیا پندے مدہ کم زاد را 

کم زادچوں عاقل شود گردن زدن استاد را 


ترجمہ..سعدی،کم زاد کو علم نہ دو،کیونکہ ایسے لوگ عقلمند ہوکے،سب سے پہلے استاذ کی گردن ماردیتے ہیں 


خوشحال خٹک 


چوک چی بدذات تہ علم وھنر ورکا 

خونی رھزن تہ تورہ خنجر ورکا ...ارمغان خوشحال ص 114 


ترجمہ ..کم ذات کو علم و ہنر دینا،قاتل اور ڈاکو کے ہاتھ میں تلوار دینے کے برابر ہے 


د جان غلیم بہ د گرگ بچڑے ساتی 

خپل بہ ٸ نہ شی کہ خپل جگر ورکا...ص ..ایضاً 


ترجمہ...نااہل کی تربیت گویا بھیڑیا کے بچے کی تربیت ہے،بھیڑیا کا بچہ،محبت وتربیت کے باوجود گرگ زادہ رہتا ہے 


اس شعر کا ماخذ شیخ سعدی کا یہ شعر ہے 


عاقبت گرگ زادہ گرگ شود..گرچہ بآدمی بزرگ شود..

ایضأ ص 32 


ترجمہ  بھیڑیا کا بچہ باالاخر بھیڑیا ہی بنے گا،اگر کہ اسے آدمیوں کی صحبت میں پالا جاے..


۔۔۔۔۔باقی آیندہ


خوشحال خان خٹک کے تراجم/سرقات...؟ 


پھر خوشحال خان خٹک کی لمبی نظم”د استاذ د خُلے پندونہ“ کی طرف لوٹتے ہیں،اسی لمبی نظم میں خوشحال خان خٹک،شیخ سعدی علیہ الرحمة کو اپنا استاد مان کر،ان کے مختلف اشعار کو،چن چن کر نظم میں سموتے نظر آتے ہیں 


شیخ سعدی 


جہان سوز را کشتہ بہتر چراغ ..باقی کمنټ میں ملاحظہ کیجئے.

Comments

  1. دا مونږ ته پته نه وه.. خو چې سرقې کړي نو خلاف يې يو.. که اقبال دی که خوشحال

    ReplyDelete

Post a Comment

Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.

Popular posts from this blog

New Pashto Poetry Lines And Lyrics. Pashto Tappay In Written Text.

New Pashto Poetry Lines And Lyrics. Pashto Tappay In Written Text. Pashto Poetry Two Lines. Pashto Tappay In Text. ‏د خوېندو لوڼو سوداګره کږه شمله چې په سر ږدې خندا راځينه ټپه# که د پیزوان خاطر دې نه وے تابه زما د غاښو زور لیدلې وونه #ټپه ‏ستا یارانۍ ته مۍ زړه کیږۍ په څه خبره به اشنا درسره شمه خلک پېزوان خونړی بولي تا په نتکۍ د کلا برج ونړونه  Pashto New Tapay On Images 2022. Pashto Tappay In Text. Eid Mubarak Pashto Tapay. Pashto Eid Poetry. اختر ته ځکه خوشالیګم چی مسافر جانان می کلی ته راځینه Eid Mubarak In Pashto Tapa. Folk Songs Akhtar. اختر پرون وو پرون تیر شو تا تر څنګلو پوري نن سره کړل لاسونه Akhtar Janan Aw Pukhto Tapay. Eid Mubarak Poetry Pashto. خلکو اختر کښی غاړی ورکړی زه بی جانانه ګوټ کښی ناست ژړا کوومه خپل د راتلو لوظ دې ياد دے؟ سبا اختر دے انتظار به دې کومه Eid Mubarak In Pashto Language. Akhtar Di Mubarak Sha. اختر دی مبارک شه مورې څلور کمڅۍ مې وکړه دوه مې د خيال او دوه د کچ اختر ټالونه په ما دې ورځ د لوی اختر کړه چې دې په سترګو راله کېښودل لاسونه يوه روژه بله غرمه ده جا

Zama Zargiya Meaning In Urdu. Pashto Words Meanings

Zama Zargiya Meaning In Urdu. Pashto Words Meanings. Learn Pashto Words and Meanings. Info Different Contextual Uses Of Pashto Phrase Zama Zargiya or Zama Zargia. Pashto Language Words Internet Is Searched For Pashto Words Meaning Daily as People Speaking Languages Other Than Pashto Want To Learn Some Basic and Most Used Phrases. Search For Pashto Phrase " Zama Zargiya " Increased By 1150 % Today. Zama Zargiya Meaning In Urdu.  میرا جگر یا میرے دل کا ٹکڑا میرا جگر،  میرا محبوب یا میرے محبوب The Phrase Simply Means My Darling Or Sweetheart In English. Pashto. Zama Zargiya زما زړګیه English. Darling Or My Darling Or My Dear Or My Sweetheart. In Urdu Zama Zargiya Means " Meray Aziz " Meray Mehboob" Or Meray Humnasheen. Best Phrase For Zama Zargiya In Urdu. Meray Jigaar Or Jiggar Pashto Word Zama Means Mera Or Meray.  Pashto Word Zargay Means Dil Or Jigar.  Pashto Language Words زما زړګیه میرے محبوب میرے ہم نشین میرے جگر کا ٹکڑا "Zama Zargia Endearment Urdu&qu

Pashto Calendar. Calendar Of Months In Pashto

Pashto Calendar. Calendar Of Months In Pashto. Pashto Names Of Calendar Year 2022, 2023, 2024, 2025 Pashto Calendar: Names Of Months And Its Span In Pashto بېساک              Besak       (Apr—May) جېټ                Jheet       (May—Jun) هاړ                  Harh           (Jul—Jul) پشکال.            Pashakal         (Jul—Aug) بادرو               Badro        (Aug—Sep) اسو                Asu         (Sep—Oct) کتک               Katak         (Oct—Nov) مګن               Magan        (Nov—Dec) پوه                Po         (Dec—Jan) ما                  Ma       (Jan—FebF) پکڼ               Pagan        (Feb—Mar) چېتر             Chetar         (Mar—Apr) Pashakal Starting Date Is 14 July 2022.  Pashakaal Ending Date Is 14 August 2022. د پشکال ګرمي پۀ زور ده  زلفې دې غونډې کړه چې نۀ دې تنګوينه ټپه۔ په مخ یې پَشم دَ خولو دې دَ لمر په خوا دَ ملغلرو پړک وهینه۔ په اننګو کښي قوتۍ دي د پشکال خولي پري ډنډ ولاړي دینه Badro Starting Date Is 15 August 2022. Badro Ending Date Is 14 September 2022. Aso