Court decision
ماضی میں ہونے والے چند مشہور عدالتی فیصلے جن سے با آسانی اس ملک کے عدالتی نظام کی اصل سمت کا تعین کیا جا سکتا ہے:
1948
میں سیکیورٹی فورسز نے خان عبدالغفار خان پر مرزا علی خان سے پیسے لے کر حکومت کے خلاف کام کرنے کا الزام لگا کر گرفتار کیا اور عدالت نے بغیر کسی ثبوت کے اگلے ہی روز خان صاحب کو تین سال کی سزا سنا دی۔ مزید ستم یہ کیا کہ بغیر کسی وجہ کے تین سال کے بجائے انہیں سات سال جیل میں رکھا گیا۔
1955
میں گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی دستور ساز اسمبلی معطل کی تو اسمبلی کے صدر مولوی تمیزالدین نے عدالت میں اپیل کردی۔ جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کے تحت گورنر جنرل کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ پاکستان کیونکہ خودمختار ریاست نہیں لہذا گورنر جنرل تاج برطانیہ کے نمائندے کی حیثیت سے اعلی ترین اتھارٹی ہے۔
1958
میں جب جنرل ایوب خان نے پہلا مارشل لاء نافض کیا تو جسٹس منیر ہی کی قیادت میں سپریم کورٹ بینچ نے فیصلہ کیا کہ کیونکہ یہ مارشل لاء پرامن طریقے سے لگایا گیا ہے اور پبلک نے اس کی مزمت نہیں کی لہذا نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لاء جائز جبکی 1956 کا آئین معطل قرار دیا جاتا ہے۔
1977
میں جب جنرل ضیاء الحق نے دوسرا مارشل لاء نافض کیا تو بیگم نصرت بھٹو اس کے خلاف سپریم کورٹ چلی گئیں۔ سپریم کورٹ کے بینچ نے جسٹس انوارالحق کی قیادت میں نظریہ ضروت کے تحت فیصلہ کرتے ہوئے ضیاء الحق کے فیصلے کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیئے مناسب قرار دیا اور نصرت بھٹو کی اپیل خارج کر دی۔
1979
میں ہائی کورٹ کے ایک بینچ نے جسٹس مولوی مشتاق کی قیادت میں سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو نواب احمد خان قصوری کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی۔ بعد میں سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے جسٹس انوارالحق کی قیادت میں چار ججوں کی ہمایت اور تین کی مخالفت سے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔ دو جج فیصلے کے وقت موجود نہیں تھے۔
1988
میں جنرل ضیاء الحق نے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کیا تو حاجی سیف اللہ نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ضیاء الحق کے اس قدم کو غیر آئینی قرار دیا لین اسمبلیاں بحال کرنے سے انکار کر دیا۔
1990
میں صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا تو بینظیر نے سپریم کورٹ سے رجوع کئا لیکن سپریم کورٹ نے غلام اسحاق کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے صدر کی طرف سے اسمبلی کی تحلیل کو جائز قرار دے دیا۔
1999
میں جنرل مشرف نے چوتھا مارشل لاء نافض کیا تو اس وقت کی سپریم کورٹ نے جسٹس سعید الزماں صدیقی کی قیادت میں حسب سابق نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لاء کو تین سال کے لیئے جائز قرار دے دیا۔
2000
میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ایک بار پھر مشرف کی طرف سے آئین کو معطل کرنے اور فوجی ہیڈ کوارٹر سے ملک کا نظام چلانے کے اقدام کو چیلنج کر دیا۔ اس بار جسٹس سعیدالزماں صدیقی نے مشرف کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس کے طور پر استعفی دے دیا لیکن ان کی جگہ آنے والے نئے چیف جسٹس ارشاد حسن نے ایک بار پھر جنرل مشرف کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
2007
میں جنرل مشرف نے ایمرجنسی نافض کرتے ہوئے آئین کو معطل اور عدالتوں کو پی سی او کے تحت کیا تو اس وقت کے پی سی او جج عبدالحمید ڈوگر کی قیادت میں سپریم کورٹ نے ایمرجنسی اور آئین کی معطلی کو جائز قرار دے دیا۔
2009
میں جسٹس افتخار چودھری کی قیادت میں سپریم کورٹ نے 2007 کے فیصلے اور مشرف کی طرف سے ایمرجنسی نافض کرنے کے اقدام کو غیر آئینی قرار دے دیا۔
2016
میں عمران خان نے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف آفشور کمپنیوں کے زریعے منی لانڈرنگ کے الزام میں سپریم کورٹ میں پیٹیشن دائر کی۔ پانچ رکنی بینچ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار نے نواز شریف کو مجرم قرار دیا لیکن جسٹس عظمت سعید، جسٹس اعجازالحسن اور جسٹس اعجاز افضل نے اختلاف کرتے ہوئے مزید تفتیش کے لیئے جے آئی ٹی بنانے کی تجویز دی۔
جے آئی ٹی آفشور کمپنیوں اور منی لانڈرنگ کو ثابت نہ کر سکی لیکن اس کے ارکان نے نواز شریف کو دبئی کا اقامہ رکھنے اور بیٹے کی طرف سے طے شدہ تنخواہ کو گوشواروں میں نہ دکھانے کے مضحکہ خیز الزام میں مجرم قرار دے دیا۔
2016
میں ہی عمران خان اور شیخ رشید کی اپیل پر چیف جسٹس ثاقب نثار کی قیادت میں سپریم کورٹ کے بینچ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت مسلم لیگ کی قیادت کرنے اور الیکشن لڑنے کے لیئے نااہل قرار دے دیا۔
2018
میں نیب کورٹ کے جج ارشد ملک نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل مل کے کیس میں دس سال کی قید سنا تے ہوئے ہمیشہ کے لیئے نااہل قرار دے دیا۔ ایک سال بعد جج ارشد ملک نے اعتراف کر لیا کہ یہ فیصلہ فوج کے دباو میں سنایا گیا تھا۔
2020
میں جج ارشد ملک کو لاہور ہائی کورٹ کمیٹی کے حکم پر ہونے والی انکوائری کے نتیجے میں جج کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ انکوائری کرنے والے جج سردار احمد نعیم کے مطابق جج ارشد ملک کی طرف سے بلیک میلنگ کے تحت فیصلہ سنانے والی بات غلط تھی۔ برطرفی کے کچھ عرصے بعد ارشد ملک کا انتقال ہو گیا۔ میڈیا کے مطابق ارشد ملک کی موت کرونا سے ہوئی لیکن بیٹے کے مطابق ارشد ملک کی موت دل کے دورے سے ہوئی۔
جنید ملک
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.