Skip to main content

Nawaz Sharif, Zia Ul Haq, IJI and Establishment. Story Of Nawaz Sharif

Nawaz Sharif, A page Of Political History of Pakistan.

Story Of Nawaz Sharif, From General Zia to Che Guevara Of Panjab by Muhammad Boota.

پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک ورق - نوازشریف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ♣


Nawaz Sharif From General Zia to General Bajwa. Complete Story In Urdu.

ضیا الحق کی رخصتی کے بعد نواز شریف پاکستان کے سیاسی منظر پر اسٹیبلشمنٹ کا انتخاب تھے۔ انہیں پنجاب کی وزارت خزانہ اور پھر وزارت اعلیٰ تک تو ضیاالحق خود لائے تھے لیکن آئی جے آئی کے قیام اور نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کی مسند تک لے جانے کا منصوبہ اسلم بیگ، حمید گل اور غلام اسحاق خان کا تھا۔ نواز شریف کے پس پشت اسٹیبلشمنٹ بھی تھی، طاقتور کا اشارہ پا کر نشان زدہ چھتری پر اترنے والے سیاسی کبوتر بھی تھے، درمیانہ کاروباری طبقہ بھی تھا، بھٹو کی نیشنلائزشن کے ڈسے ہوئے سرمایہ دار بھی تھے، آمریت کے سائے میں پرورش پانے والی بیوروکریسی بھی نواز شریف کا ساتھ دے رہی تھی۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ پیپلز پارٹی کو مذہب دشن، روایت دشمن اور فوج کا مخالف سمجھنے والا مذہبی ذہن بھی نواز شریف کو گویا ضیاالحق کی توسیع سمجھتا تھا۔ نواز شریف بھی دل و جان سے ضیاالحق کا مشن پورا کرنے کا اعلان کرتے تھے۔ انہیں نام نہاد مغرب زدہ بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں میڈ ان پاکستان، شرافت کا علمبردار، مذہب کا پابند محب وطن قرار دیا جاتا تھا۔

سیاسی موقع پرستی، میڈیا ٹرائل اور انتخابی دھاندلی کا کونسا حربہ تھا جو پاکستان کی ہمہ مقتدر قوتوں نے نواز شریف کے حق میں استعمال نہیں کیا۔ بعد کے برسوں میں نواز شریف کی مخالفت اور عمران خان کی حمایت میں اخبار سیاہ کرنے والے کتنے ہی نام ہیں جنہوں نے نواز شریف کا بت تراشنے میں اپنے قلم کی روشنائی صرف کی۔ سنا جاتا ہے کہ کچھ سیانے آج کل افغان پالیسی اور جہاد کی کھلی حمایت کو غلطی تسلیم کرتے ہیں۔ گزشتہ صدی کے آخری بیس برس میں یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی جہاد اور اس کی آڑ میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی طرف اشارہ بھی کر سکے۔ نواز شریف ہوں یا بے نظیر بھٹو، جہاد کے نام پر سب کو سر جھکاتے ہی بنتی تھی۔ اور نواز شریف تو گویا عساکر جہاد کے سالار تھے۔

1988 

میں بے نظیر بھٹو کی مفلوج، کٹی پھٹی اور ناتجربہ کار حکومت کو ایک دن ٹک کر کام کرنے نہیں دیا گیا۔ ہر روز ایک نیا اسکینڈل، ہر گھڑی ایک نیا بحران اور آئے روز ایک نیا الزام۔ ہمارے ہاں ایک عہدہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کے نام سے پایا جاتا ہے۔ آج پاکستان میں شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ ان دنوں کون اس عہدے کو رونق بخش رہا ہے۔ 30 برس قبل اس عہدے پر فائز ایڈمرل افتخار احمد سروہی ٹھیک اسی طرح قومی مفاد کے نمایاں ترین ٹھیکے دار تھے جیسے چند ماہ قبل ایک صاحب پاکستان میں ڈیم بنا رہے تھے اور آبادی پر قابو پانے کے لئے کانفرنس وغیرہ کرتے تھے۔

آصف علی زرداری کی کردار کشی میں ایک افسانہ اس بزنس میں کا تھا جس کی ٹانگ سے بم باندھ کر اسے بینک لے جایا گیا اور اسے زبردستی رقم نکال کر دینے پر مجبور کیا گیا تھا۔ آج کے سینئر صحافی کامران خان سے دریافت کیجئے کہ انہیں یہ کہانی گھڑنے کا حکم کس نے دیا تھا؟ ایک الزام یہ تھا کہ وزیر داخلہ اعتزاز احسن نے سکھوں کی لسٹیں بھارت کو دے دی ہیں۔ یہ کون سی لسٹیں تھیں، اعتزاز احسن کو کہاں سے ملیں اور انہیں یہ مبینہ لسٹیں بھارت کو دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اعتزاز احسن آج بھی پاکستان ہی میں ہیں۔ ان پر کسی نے اس سنگین الزام میں مقدمہ کیوں نہیں چلایا؟

نومبر 1988 سے اگست 1990 

تک کے بیس مہینے ایک قیامت کی طرح گزرے۔ اس دوران کراچی میں ایم کیو ایم ایک عفریت کی طرح ابھری۔ آج جس شخص کو بانی ایم کیو ایم کی اصطلاح سے یاد کیا جاتا ہے، تب وہ ایک صاحب کرامات تھا جس کی شبیہ مسجدوں کی دیواروں پر خود بخود نمودار ہوتی تھی۔ عزیز آباد کا پیر صاحب جس کے بستر سے چڑیاں اٹھنے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ جس کے دروازے پر نواز شریف سے لے کر بے نظیر بھٹو تک، اور قاضی حسین احمد سے لے کر ولی خان تک، سب حاضری دیتے تھے۔ کراچی کا تشدد زدہ تشخص، مجرمانہ ماحول اور خون آلود چہرہ ایک بڑے کھیل کا حصہ تھا جس کا مقصد حسب ضرورت ناپسندیدہ منتخب حکومتوں کو بے دست و پا کرنا تھا۔

زیادہ نہیں صرف یہ پوچھ لیجئے کہ کسی نے آج تک یہ سوال کیوں نہیں پوچھا کہ 26 مئی 1990 کو کون لوگ تھے جو ایک طرف سے حیدر آباد شہر میں داخل ہوئے اور سینکڑوں افراد کو قتل کرتے ہوئے دوسری طرف سے نکل گئے؟ صرف ایک اشارہ: لیفٹنٹ جنرل اسد درانی نے کہا تھا کہ پکا قلعہ آپریشن کے بعد بے نظیر حکومت برخاست کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا

 1990

1996

 1999 

اور پھر

 2007 

میں کراچی سیاسی اتار چڑھاؤ میں بیرو میٹر کا کردار اختیار کر گیا۔ جہاں کٓراچی میں مار دھاڑ شروع ہوئی، سب سمجھ جاتے تھے کہ حکومت کا چل چلاؤ ہے۔

پاکستان میں احتساب کے نام پر سیاسی مخالفوں کو کسنے کی روایت لیاقت علی خان کے وقت سے چلی آتی ہے۔ ایوب خان نے احتساب کے نام پر ایبڈو کا قانون بنایا اور سیاست دانوں کی ایک پوری نسل کو منظر سے غائب کر دیا۔ ضیاالحق نے احتساب کے نام ہی پر انتخاب ملتوی کر کے اپنے اقتدار کو توسیع دی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل اسی احتساب کا شاخسانہ تھا۔ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت طویل آمریت کے بعد جمہوری حکمرانی کا مختصر، کمزور لیکن امید بھرا تجربہ تھا۔ بے نظیر بھٹو نے اس عرصے میں “جمہوریت بہترین انتقام ہے” کا نعرہ متعارف کرایا تھا۔

تاہم 6 اگست 

1990

 کو بے نظیر حکومت معزول کئے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ احتساب ہی کو انتقام کا صحیح طریقہ سمجھتی ہے۔ سندھ میں جام صادق علی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا جو خود کو غلام اسحاق خان کا تھانیدار قرار دیتے تھے۔ آصف علی زرداری کو بدعنوانی کے الزامات میں گرفتار کیا گیا اور وہ نواز شریف کی پہلی وزارت عظمیٰ کے دوران سارا وقت جیل میں رہے۔ جام صادق علی کی چیرہ دستیوں کی کچھ تفصیل پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا سے معلوم کی جا سکتی ہے


معروف کالم نویس ایاز امیر نے جام صادق سے پوچھا کہ آپ کی حکومت پر الزام ہے کہ مخالف سیاسی خواتین کے نازک اعضا میں سرخ مرچیں ڈالی جا رہی ہیں۔ جام صادق علی نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ نہیں، ہم تو آج کل اس مقصد کے لئے ٹوبیسکو ساس (Tabasco Sauce) استعمال کر رہے ہیں۔ سردار شوکت حیات کی صاحبزادی سے جنسی زیادتی کا الزام غلام اسحاق خان کے داماد عرفان اللہ مروت پر لگا تو دیانت کے پتلے غلام اسحاق خان نے کہا کہ میرے داماد کو چھوڑیں، یہ دیکھیں کہ دوسروں کے داماد کیا کرتے پھر رہے ہیں۔ غلام اسحاق خان کی ضرب المثل دیانت داری کا نقطہ کمال یہ تھا کہ اپریل 1993 میں آصف علی زرداری کو جیل سے نکال کر سیدھا ایوان صدر میں لایا گیا جہاں غلام اسحاق خان نے ان سے نجکاری کے نگران وفاقی وزیر کا حلف اٹھوایا۔

اس تجربے کے بعد بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے دوسرے عہد اقتدار میں احتساب کا آزمودہ نسخہ اختیار کر لیا۔ قائد حزب اختلاف نواز شریف کے والد میاں محمد شریف کی توہین آمیز گرفتاری کا واقعہ تاریخ کا حصہ ہے۔ تاہم انتقام کا یہ کھیل یک طرفہ نہیں تھا۔ مرتضی بھٹو قتل کیس کے حقائق کبھی سامنے نہیں آ سکے اگرچہ شعیب سڈل آج بھی پاکستان کا تحقیقی دماغ سمجھے جاتے ہیں۔ حیدر آباد کے پکا قلعہ قتل عام، مرتضیٰ بھٹو قتل، 12 مئی 2007، ماڈل ٹاؤں لاہور فائرنگ اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کی تفصیلات کبھی سامنے نہیں آ سکتیں۔ ان تمام واقعات کا دھاگہ ناگزیر طور پر لیاقت علی خان کی شہادت اور مارچ 1973 میں لیاقت باغ فائرنگ کیس سے بندھا ہے۔ اتنا اشارہ کافی ہے کہ 20 ستمبر 1996 کو مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد فاروق لغاری سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے ایک قہقہے کی صورت میں اپنا ردعمل دیا تھا۔

5 نومبر 

1996 

کو بے نظیر بھٹو حکومت ختم کرنے کی رات آصف علی زرداری لاہور کے گورنر ہاؤس سے گرفتار کئے گئے اور انہیں احتساب کے نام پر 2004 تک پابند سلاسل رکھا گیا۔ اس احتساب کی کہانی آصف زرداری کی زبان پر ان زخموں کے نشان بیان کرتے ہیں جن کے باعث ان کے لہجے میں آج بھی معمولی لکنت محسوس کی جا سکتی ہے

 1997

سے

 1999 

تک نواز شریف حکومت میں کئے گئے احتساب کی کچھ تفصیل لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک قیوم کی اس ٹیلی فون کال میں موجود ہے جس کا انکشاف آئی بی کے سابق ڈائریکٹر مسعود شریف نے کیا تھا۔ اس احتساب کی کچھ گواہی حامد میر سے بھی لی جا سکتی ہے جنہوں نے کمرہ عدالت میں سیف الرحمن کو گڑگڑا کر آصف زرداری سے معافی مانگتے دیکھا تھا۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ 1988 سے 1999 تک بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ بے نظیر بھٹو نے 1988 میں سب سے بڑی پارلیمانی جماعت ہوتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتہ کیا۔ وزارت خارجہ اور وزارت خزانہ سے دست برداری قبول کی۔ عہدہ صدارت کے لئے نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں غلام اسحاق خان کی حمایت کی۔ افغانستان سے سوویت فوج کی واپسی کے بعد جہادی سرگرمیوں کی مقبوضہ کشمیر منتقلی کی مزاحمت نہیں کی۔ 1993 میں نواز شریف کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے اسحاق خان اور مقتدرہ سے گٹھ جوڑ کیا۔ اکتوبر 1999 میں پرویز مشرف کی طرف سے اقتدار پر قبضہ کرنے کا خیر مقدم کیا

اس عرصے میں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں پنجاب حکومت کو بے نظیر کی وفاقی حکومت کے خلاف مورچے میں تبدیل کر دیا۔ آئی ایس آئی سے وہ فنڈ قبول کئے جن کی تفصیل یونس حبیب کی ڈائری میں محفوظ رہی۔ ذرائع ابلاغ کو ناجائز مراعات کی مدد سے حکومتیں بنانے اور گرانے کا ہتھیار بنا لیا۔ پارلیمانی نظام کے استحکام کی بجائے تصادم کی سیاست کو اپنی طاقت سمجھا۔ پندرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے جمہوری نظام پر کلہاڑا چلانے کی کوشش کی۔ انتخابی دھاندلی کے منصوبوں کا حصہ رہے، پس پردہ اشاروں پر تحریکیں چلائیں اور جہاں تک ممکن ہو سکا، اقتدار کے لئے عوام کے مفادات کو رہن رکھا

محمد بوٹا

Nawaz Sharif From General Zia to General Bajwa. Complete Story In Urdu. Urdu Blog about Nawaz Sharif political Career and Future.

The Political Journey Of Nawaz Sharif and PML N. Urdu Blog about What Next For Nawaz Sharif, Maryam Nawaz And PML N. How And Why establishment's Blue Eyed Nawaz Sharif turned into Pro Democracy Nawaz?  Urdu Blog about Maryam Nawaz Future in Pakistan's politics. From General Zia to General Bajwa. Who were behind IJI of Nawaz Sharif in 90?


Comments

Popular posts from this blog

New Pashto Poetry Lines And Lyrics. Pashto Tappay In Written Text.

New Pashto Poetry Lines And Lyrics. Pashto Tappay In Written Text. Pashto Poetry Two Lines. Pashto Tappay In Text. ‏د خوېندو لوڼو سوداګره کږه شمله چې په سر ږدې خندا راځينه ټپه# که د پیزوان خاطر دې نه وے تابه زما د غاښو زور لیدلې وونه #ټپه ‏ستا یارانۍ ته مۍ زړه کیږۍ په څه خبره به اشنا درسره شمه خلک پېزوان خونړی بولي تا په نتکۍ د کلا برج ونړونه  Pashto New Tapay On Images 2022. Pashto Tappay In Text. Eid Mubarak Pashto Tapay. Pashto Eid Poetry. اختر ته ځکه خوشالیګم چی مسافر جانان می کلی ته راځینه Eid Mubarak In Pashto Tapa. Folk Songs Akhtar. اختر پرون وو پرون تیر شو تا تر څنګلو پوري نن سره کړل لاسونه Akhtar Janan Aw Pukhto Tapay. Eid Mubarak Poetry Pashto. خلکو اختر کښی غاړی ورکړی زه بی جانانه ګوټ کښی ناست ژړا کوومه خپل د راتلو لوظ دې ياد دے؟ سبا اختر دے انتظار به دې کومه Eid Mubarak In Pashto Language. Akhtar Di Mubarak Sha. اختر دی مبارک شه مورې څلور کمڅۍ مې وکړه دوه مې د خيال او دوه د کچ اختر ټالونه په ما دې ورځ د لوی اختر کړه چې دې په سترګو راله کېښودل لاسونه يوه روژه بله غرمه ده جا

Zama Zargiya Meaning In Urdu. Pashto Words Meanings

Zama Zargiya Meaning In Urdu. Pashto Words Meanings. Learn Pashto Words and Meanings. Info Different Contextual Uses Of Pashto Phrase Zama Zargiya or Zama Zargia. Pashto Language Words Internet Is Searched For Pashto Words Meaning Daily as People Speaking Languages Other Than Pashto Want To Learn Some Basic and Most Used Phrases. Search For Pashto Phrase " Zama Zargiya " Increased By 1150 % Today. Zama Zargiya Meaning In Urdu.  میرا جگر یا میرے دل کا ٹکڑا میرا جگر،  میرا محبوب یا میرے محبوب The Phrase Simply Means My Darling Or Sweetheart In English. Pashto. Zama Zargiya زما زړګیه English. Darling Or My Darling Or My Dear Or My Sweetheart. In Urdu Zama Zargiya Means " Meray Aziz " Meray Mehboob" Or Meray Humnasheen. Best Phrase For Zama Zargiya In Urdu. Meray Jigaar Or Jiggar Pashto Word Zama Means Mera Or Meray.  Pashto Word Zargay Means Dil Or Jigar.  Pashto Language Words زما زړګیه میرے محبوب میرے ہم نشین میرے جگر کا ٹکڑا "Zama Zargia Endearment Urdu&qu

Pashto Calendar. Calendar Of Months In Pashto

Pashto Calendar. Calendar Of Months In Pashto. Pashto Names Of Calendar Year 2022, 2023, 2024, 2025 Pashto Calendar: Names Of Months And Its Span In Pashto بېساک              Besak       (Apr—May) جېټ                Jheet       (May—Jun) هاړ                  Harh           (Jul—Jul) پشکال.            Pashakal         (Jul—Aug) بادرو               Badro        (Aug—Sep) اسو                Asu         (Sep—Oct) کتک               Katak         (Oct—Nov) مګن               Magan        (Nov—Dec) پوه                Po         (Dec—Jan) ما                  Ma       (Jan—FebF) پکڼ               Pagan        (Feb—Mar) چېتر             Chetar         (Mar—Apr) Pashakal Starting Date Is 14 July 2022.  Pashakaal Ending Date Is 14 August 2022. د پشکال ګرمي پۀ زور ده  زلفې دې غونډې کړه چې نۀ دې تنګوينه ټپه۔ په مخ یې پَشم دَ خولو دې دَ لمر په خوا دَ ملغلرو پړک وهینه۔ په اننګو کښي قوتۍ دي د پشکال خولي پري ډنډ ولاړي دینه Badro Starting Date Is 15 August 2022. Badro Ending Date Is 14 September 2022. Aso