Fall of Dhaka, An Alternative View. How Bangladesh Came Into Being on 16 December 1971.
By Junaid Malik
سقوط ڈھاکہ: ایک متبادل نقطہ نظر
باقائدہ یا منظم طریقے سے کسی قوم یا گروہ کے افراد کو ختم کرنا، یہاں تک کہ وہ قوم یا گروہ مکمل طور پر تباہ ہو جائے نسل کشی کہلاتی ہے۔ نسل کشی کوئی اچانک یا راتوں رات سرانجام دیا جانے والا فعل نہیں بلکہ اس کے لیئے باقائدہ منصوبہ بندی اور اس پر ترتیب وار عمل درامد، بےتحاشہ وسائل اور ایک منظم فوج یا مسلح جتھوں کی ضروت ہوتی ہے جنہیں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیئے بےحس بنایا جاتا ہے اور ان کے دلوں میں مخالفین کے لیئے نفرت و حقارت بھری جاتی ہے۔ اس کے علاوہ خیالات، نظریات، تہزیب، ثقافت اور تاریخ کو بڑے پیمانے پر متاثر کر کے مخالفین کو کم مائیگی کا احساس دلانا بھی نسل کشی کا اہم حصہ ہوتا ہے۔
بحیثیت پاکستانی مجھے یہ قبول کرنے میں کوئی عار نہیں کہ 1971 میں پاکستان کی فوجی حکومت کی طرف سے مشرقی پاکستان کے لوگوں کی باقاعدہ نسل کشی کی گئی۔ وہاں یونیورسٹیوں کے طلبہ، اساتذہ، صحافیوں، ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو چن چن کر مارا گیا۔ عورتوں کی عزتیں لوٹی گئیں اور بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا۔ اس نسل کشی کی شروعات دراصل 1960 سے ہوئی جب بنگالیوں کو کمتر حیثیت کے انسان ظاہر کر کے ان کو تمام انتظامی شعبوں سے بے دخل کرنا شروع کیا گیا۔ ان کی زبان، ان کی تہزیب، ثقافت، ان کے قد کاٹھ، رنگ، نسل کا مزاق بنانے کا سلسلہ شروع ہوا اور مغربی پاکستان والوں کو یہ یقین دلایا جانا شروع کیا گیا کہ وہ ہر لحاظ سے بنگالیوں سے برتر ہیں۔ وجہ محض یہ تھی کہ مغربی پاکستان خاصکر پنجاب والوں کے برعکس بنگالی سیاستدان اور دانشور انتہائی باشعور تھے لہذا انہوں نے فوج کے اقتدار پر قبضے کو منظور کرنے سے انکار کر دیا تھا اور فوجی حکومت کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی، معاشی حقوق کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا تھا۔
مشرقی پاکستان میں ہونے والے واقعات کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں نسل کشی کے اہداف بہت پہلے سے مکرر کیئے جا چکے تھے۔ باقائدہ منصوبہ بندی کے تحت اس علاقے میں تعینات فوج کے افسروں اور جوانوں کے دلوں میں نفرت پیدا کی جا رہی تھی جبکہ قتل غارت گری کے لیئے البدر، الشمس اور دیگر مسلح جتھوں کا قیام عمل میں لایا جا رہاتھا اور ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کی جا رہی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سوال آج تک کسی نے نہیں اٹھایا کہ اگر پاکستانی فوج کا بنگلیوں کی نسل کشی کا ارادہ نہ ہوتا تو مسلح جتھے بنانے اور ان کی ٹریننگ کا عمل کیوں؟ بہرحال یہ تمام تیاریاں 1971 سے پہلے ہی مکمل ہو چکی تھیں جبکہ بنگالیوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ بھی بہت پہلے سے شروع ہو چکا تھا۔ اس دوران مزدور رہنما بی ایم عبدالرحیم سمیت ہزاروں بنگالی دانشوروں اور رہنماؤں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔
1970 کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ نے نمایاں اکثریت حاصل کی لیکن فوجی حکومت نے دانستہ طور ان کو اقتدار سے محروم رکھا۔ یہ اس منصوبے کی شروعات تھی جس کے تحت فوجی حکومت پر تنقید کی سزا کے طور پر بنگالیوں کی نسل کشی کی جانی تھی۔ یہ ایک طے شدہ بات تھی کی الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود جب اقتدار عوامی لیگ کو نہ دیا گیا تو بنگالیوں کے دلوں میں احساس محرومی پیدا یونا تھا اور انہوں نے احتجاج بھی کرنا رھا۔ پھر اسی احتجاج کو بنیاد بنا کر بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن کیا گیا اور پہلے سے تیار مسلح جتھوں کو ان پر چھوڑ دیا گیا۔ آپریشن کے نام پر انسانی تاریخ میں ظلم کا ایک نیا باب رقم کیا گیا۔ بنگالی خواتین کی عزتوں کو پامال کیا گیا، بوڑھوں، بچوں اور جوانوں کا اتل عام کیا گیا۔ اساتزہ، دانشور، طلبہ، شعراء، ادیب، صحافی، ڈاکٹر انجنیئر وغیرہ چن چن کر قتل کیئے گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق ڈھاکہ یونیورسٹی کا گھیراو کر کے طلبہ اور اساتذہ کو بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا جو کہ خود ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
دکھ اس بات کا ہے کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی ان واقعات اور ان کے پیچھے چھپے عوامل سے بےخبر ہے۔ لوگ آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ بنگالیوں نے پاکستان سے غداری کی جبکہ درحقیقت انہوں نے فوجی تسلط کے خلاف احتجاج کیا تھا اور یہ غداری نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ بنگالی پاکستان سے محبت کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کی انہوں نے 1964 کے صدارتی الیکشن میں قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح کا غیر مشروط ساتھ دیا تھا۔ شیخ مجیب کی آخر تک کوشش رہی کہ بٹوارے کی بجائے خودمختاری حاصل کر کے فوجی تسلط سے جان چھڑا لی جائے لیکن فوج کا منصوبہ کچھ اور ہی تھا۔
مشرقی پاکستان کے بارے میں فوج کا کیا منصوبہ تھا یہ راز 2016 میں اس وقت کے امریکی نائب وزیر خارجہ ہنری کسنجر میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں افشاء کر چکے ہیں۔ ہنری کسنجر کے مطابق یحی خان نے مارچ 1971 میں صدر نکسن سے وعدہ کیا تھا کہ اس سال کے آخر تک مشرقی پاکستان کو علیحدہ کر دیا جائے گا۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن سے چھ ماہ پہلے جنرل یحی کا امریکی صدر سے یہ وعدہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی باقائدہ منصوبہ بندی کے تحت کی گئی۔ فوج کو اندازہ ہو گیا تھا کہ بنگالی باشعور لوگ ہیں اور فوجی حکومت کو قبول کرنے والے نہیں۔ جرنیکوں کو خدشہ تھا کہ بنگالیوں کی مخالفت ان کے لیئے داخلی اور خارجی سطح پر مسائل کھڑے کرے گی لہذا علیہدگی بہترین آپشن ہے۔ اس منصوبے کے حوالے سے امریکی انتظامیہ کو چھ مہینے پہلے ہی اعتماد میں لے لیا گیا تھا جبکہ وہاں ڈھائے گئے ظلم اور قتل غارت گری کا مقصد محض بنگالیوں کو فوجی تسلط قبول نہ کرنے کی سزا دینا تھا۔
Pashto Times Tags For This Blog post
Urdu Article about Fall Of Dhaka. How East Pakistan became Bangladesh Explained In Urdu. The Story of East Pakistan in Urdu. History of How Dhaka fell? War of East Pakistan 1971. Looking Fall of Dhaka with different Views.
Fall of Dhaka today. 16 December 1971 story in Urdu. Urdu story of pak India War in 1971. Remembering 16 December 1971 war. Urdu article about 71 jang. Fall of Dakha East Pakistan in Urdu. Story of East Pakistan fall. Fall of Dhaka main reasons in Urdu. Urdu Stories of East Pakistan Military Operation in 1971.
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.