Fall of Dhaka by Sayed Mehdi Bukhari
تمام تر عدالتی تحقیقات اور ٹھوس گواہیوں کے باوجود 50 برس بعد بھی اسکول کے نصاب میں بچہ یہی پڑھ رہا ہے کہ 16 دسمبر کو سقوط ڈھاکہ ہمارے عسکری و سیاسی گناہوں کے سبب وقوع پذیر نہیں ہوا بلکہ مشرقی پاکستان کے کروڑوں سادہ لوح محب وطن بنگالیوں کو مٹھی بھر شرپسند ہندو اساتذہ نے گمراہ کیا اور انڈیا نے حالات کا فائدہ اٹھا کر ہمیں دو لخت کر دیا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
اگر سکول میں پڑھائی جانے والی مطالعہ پاکستان کی کتاب پر یقین کر لیا جائے تو بس اتنا پتہ چلتا ہے کہ کبھی کوئی مشرقی بنگال پاکستان کا حصہ تھا جسے انڈیا نے ایک سازش کے تحت پاکستان سے علیحدہ کر دیا۔ یعنی آج کی سکول جانے والی نسل جتنا موہن جو دڑو کے بارے میں جانتی ہے، مشرقی بنگال کے بارے میں اتنا بھی نہیں جانتی۔ اس کے بعد آپ یہ توقع بھی کریں کہ وہ شیخ مجیب الرحمان کے بارے میں تھوڑا بہت تو جانتی ہو گی تو یہ اس نسل کے ساتھ زیادتی ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ دیکھیے اگر مشرقی بنگال یا مشرقی پاکستان کی علیحدگی یا بنگلہ دیش بننے کے اسباب کے بارے میں درسی کتابوں میں تفصیلاً پڑھایا جائے گا تو پھر شیخ مجیب کے ساتھ ساتھ یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی بنگال میں فوجی ایکشن کا بھی تذکرہ کرنا پڑے گا۔ پھر اس ایکشن کے بعد حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کا ذکر بھی آئے گا۔ اور جب بات یہاں تک پہنچے گی تو کچھ کی ناموس کو خطرہ ہو گا اور کچھ کے وقار کو گزند پہنچے گا۔
تذکرہ ہوگا تو بچے سوالات بھی پوچھیں گے۔ چنانچہ اس سے کہیں بہتر یہ نہیں کہ فرض کر لیا جائے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کوئی مشرقی پاکستان بھی تھا اور پھر اس نے اپنا نام بنگلہ دیش رکھ لیا، قصہ ختم۔
جب میں نے شیخ مجیب کے بارے میں پڑھنا شروع کیا تو اچانک مجھے احساس ہوا کہ جناح اور مجیب کی سیاسی زندگی میں کئی مماثلتیں ہیں۔ جیسے جناح شروع میں کٹر کانگریسی تھے، وہ ہندوستانی قوم پرستی پر یقین رکھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ ہندو اور مسلمان "ہندوستانیت" کی چھتری تلے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ مگر پھر رفتہ رفتہ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ دونوں الگ قومیں ہیں۔
شیخ مجیب کٹر مسلم لیگی، پارٹی کی طلبا تنظیم مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنگال کے پرجوش رہنما تھے۔ سہروردی کی سرپرستی میں تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا۔ وہ پاکستانی قوم پرستی پر یقین رکھتے تھے مگر پاکستان بننے کے ایک سال کے اندر ہی انہیں محسوس ہونے لگا کہ مغربی پاکستان اور مشرقی بنگال کی سوچ، سیاسی رجحانات، ثقافت اور سماجی ڈھانچے میں خاصا فرق ہے اور یہ ایک ساتھ دور تک نہیں چل پائیں گے۔آبادی میں کم ہونے کے باوجود فوج اور بیورو کریسی اور پالیسی سازی میں مغربی پاکستان بالادست ہے لہٰذا نئے ملک کا وفاقی انتظام شاید بہت عرصے تک اس طرح سے نہ چل سکے یا تو یہ نظام تبدیل ہوگا یا پھر ٹوٹ جائے گا۔
پہلا دھچکہ بنگالی یا اردو کے قومی زبان بننے کے جھگڑے سے لگا۔ دوسرا دھکا ون یونٹ نے پہنچایا۔ بنگال نے 56 فیصد اکثریت کے باوجود وفاق کی بقا کے لیے ون یونٹ کا فارمولا قبول کر لیا۔ 1956 کا پارلیمانی آئین بھی متفقہ طور پر بن گیا۔ حتیٰ کہ باقی ملک کی طرح مشرقی بنگال نے بھی پہلے مارشل لا کو قبول کر لیا۔ مارشل لا کے تحت نئے آئین کو بھی قبول کر لیا۔ بنیادی جمہوریت کے نظام کو بھی قبول کر لیا۔ اور اس کے تحت جنوری 1965 میں ہونے والے پہلے صدارتی انتخابات میں بھی بھرپور حصہ لیا۔
حزبِ اختلاف کی جس کمیٹی نے محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑنے پر بہت کوشش کر کے آمادہ کیا، اس کمیٹی میں شیخ مجیب الرحمان بھی شامل تھے۔ جن دو افراد نے فاطمہ جناح کے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ان میں سے ایک صاحب کا نام شیخ مجیب الرحمان تھا۔ وہی مشرقی پاکستان میں فاطمہ جناح کی صدارتی مہم کے منتظم بھی تھے۔ اگر آپ اس زمانے کی تصاویر دیکھیں تو ہر جلسے میں شیخ مجیب محترمہ کے آگے پیچھے نظر آئیں گے۔
بنگالیوں نے فاطمہ جناح کا بھرپور ساتھ دیا اور یہ بات ایوب خان سے ہضم نہ ہو سکی اور ایوب خان کی جیت بنگال سے ہضم نہ ہو سکی۔
مگر گرتی ہوئی دیوار کا آخری دھکا ستمبر 1965 کی جنگ تھی جو اس نظریے سے لڑی گئی کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان کے محاز پر کیا جائے گا۔ اس نظریے نے بطور ایک وفاقی یونٹ بنگال کے احساس تنہائی کو مکمل کر دیا اور پھر اس کے ردعمل میں اگلے برس چھ نکات کا جنم ہوا۔ مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان کی حکمران قیادت نے ان نکات کو سنجیدگی سے لینے یا ان پر بات کرنے یا کوئی مصالحتی راہ نکالنے یا ٹھوس یقین دہانیاں کروانے کے بجائے اجنبیت کا راستہ اختیار کیا جس کے سبب خلیج بنگال بڑھتی چلی گئی۔
تو کیا شیخ مجیب الرحمان بنگلہ دیش بنانا چاہتے تھے؟ کیا وہ غدار اور بھارتی ایجنٹ تھے؟ عام پاکستانیوں کو 1971 کے بعد سے یہی گھٹی پلائی گئی۔ اس عرصے میں دونوں حصوں کے مابین اطلاعات کی ترسیل کا نظام یحیٰی حکومت کے کنٹرول میں تھا اور سیکریٹری اطلاعات روئداد خان تھے۔
شیخ مجیب کا نام اگرتلہ سازش کیس میں ڈال کر یہ تاثر دیا گیا کہ چھ نکات دراصل انڈیا کے ساتھ مل کر ملک توڑنے کی سازش ہے۔ اس کیس کی سماعت کے لیے ایک خصوصی ٹریبونل بھی تشکیل دیا گیا۔ مگر جب ایوب خان کے خلاف طلبا تحریک چلی اور اقتدار پر ایوب خان کی گرفت اتنی ڈھیلی ہو گئی کہ انہیں اعلان کرنا پڑا کہ وہ اگلے صدارتی انتخاب میں امیدوار نہیں ہوں گے، انہیں قومی سیاستدانوں کی گول میز کانفرنس طلب کرنا پڑی۔ اور مشرقی پاکستان کی قیادت کو اس کانفرنس میں شرکت پر آمادہ کرنے کی قیمت پر اگرتلہ کیس واپس لے کر ٹریبونل ختم کرنا پڑا۔ اس کے بعد شیخ مجیب کا سیاسی گراف مشرقی پاکستان میں چھت سے لگ گیا۔
شیخ مجیب کی 1971 تک جتنی بھی تقاریر ہیں، ان میں سے ہر تقریر میں یہ کہا جاتا تھا کہ ہم اپنی قسمت کے مالک خود بننا چاہتے ہیں۔ کسی بھی تقریر میں انتہائی دباؤ کے باوجود یہ جملہ نہیں ملتا کہ "میں آج سے بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کرتا ہوں" یا "ہمیں ایک الگ ملک بنانا ہو گا" یا "ہمیں پاکستان سے آزادی چاہیئے"۔ یہ اعلان تو فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد بنگالی میجر ضیا الرحمان نے چٹاگانگ ریڈیو سٹیشن پر قبضے کے بعد کیا۔
شیخ مجیب کو آپریشن کے بعد ڈھاکہ سے گرفتار کر کے ساہیوال جیل اور پھر لائل پور منتقل کیا گیا جہاں انہیں لائل پور ٹیکسٹائیل مل کے ایک کوارٹر اور اس سے متصل تہہ خانے میں رکھا گیا۔ ان پر ملک دشمنی اور بغاوت کے جرم میں مقدمہ چلانے کے لیے ایک خصوصی ٹریبونل قائم کیا گیا۔ شیخ صاحب نے ٹریبونل کا بائیکاٹ کیا۔ مگر ان کی جانب سے اے کے بروہی کو سرکاری وکیل مقرر کیا گیا۔
یہ ٹریبونل کب ٹوٹا یا نہیں ٹوٹا، اس میں کیا کارروائی ہوئی، اس کا ریکارڈ کہاں ہے؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ بس اتنا ہوا کہ بیس دسمبر کو بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالا اور دس جنوری 1972 کو ایک خصوصی پرواز سے شیخ مجیب الرحمان اور ڈاکٹر کمال حسین کو لندن روانہ کر دیا گیا جہاں سے وہ براستہ دلی ڈھاکہ پہنچ گئے۔
فروری 1974 میں شیخ مجیب الرحمان کو لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر اہل پاکستان نے آخری بار محب وطن یا غدار کے بجائے ایک آزاد ملک کے وزیراعظم کے روپ میں بھٹو صاحب کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دیکھا۔ اس کے بعد سے باقی ماندہ پاکستان کی تاریخ میں سے مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش کا تذکرہ بھی کہیں غروب ہو گیا۔
ارے ہاں، یاد آیا۔ حکومت پاکستان نے چیف جسٹس حمود الرحمان ، جسٹس انوار الحق ، جسٹس طفیل علی عبدالرحمان اور لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ الطاف قادر پر مشتمل حمود الرحمان کمیشن بنایا جس کا ٹاسک سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داران کا تعین کرنا اور سزا تجویز کرنا تھا۔ کمیشن نے تین سو سے زائد گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق جنرل یحییٰ خان، جنرل عبدالحمید خان، لیفٹننٹ جنرل ایم ایم پیرزادہ، میجرجنرل گل حسن، میجر جنرل غلام عمر، میجر جنرل اے او مٹھا، لیفٹننٹ جنرل ارشاد احمد خان، میجر جنرل عابد زاہد، میجر جنرل بی ایم مصطفی، لیفٹننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی، میجر جنرل محمد جمشید، میجر جنرل ایم رحیم خان، بریگیڈیر باقر صدیقی،بریگیڈیر محمد حیات، بریگیڈیر محمد اسلم نیازی، بریگیڈیر ایس اے انصاری اور بریگیڈیر عبدالقادر خان اس کے ذمہ دار تھے اور ان سب کے کورٹ مارشل کی سفارش کی گئی۔ (یہ سب باعزت رئیٹائرڈ ہوئے اور کچھ رئیٹائرمنٹ کے بعد بیرون ممالک میں پاکستان کی جانب سے سفیر مقرر کیئے گئے)
ڈھاکہ ڈوبا، اس نے ڈوبنا ہی تھا۔ پٹ سن اور چاول پیدا کرنے والی زمین معیشت تا شرح خواندگی آج ہم سے کافی بہتر حالات میں ہے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ بنگلہ دیش کی آج کی نسل کتنا خوش ہوتی ہو گی اور فخر کرتی ہو گی کہ پاکستان سے جان چھوٹی تو کچھ بن گئے، ترقی کر گئے ورنہ پاکستان جیسا حال ہی ہوتا ؟ کیا آپ ان کو غلط کہہ سکتے ہیں اس سوچ پر ؟ کیا پاکستان نے انہیں احساس ندامت دینے کی بجائے خود کو مزید شرمندہ نہیں کروایا ؟
کہنے کو بہت کچھ ہے مگر کہنا کسے ہے۔ سب لکھا پڑھا بیکار ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ناصر کاظمی نے ایک غزل کہی تھی۔ یہ غزل وہ سوال ہے جس کا جواب تاحال ہماری نسلوں کو نہ مل پایا نہ کوئی دے پایا۔
وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے
عمارتیں تو جل کے راکھ ہو گئیں
عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے
اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی
ترا دیا جلانے والے کیا ہوئے
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
Pashto Times Tags for This post.
Fall of Dhaka today. 16 December 1971 story in Urdu. Urdu story of pak India War in 1971. Remembering 16 December 1971 war. Urdu article about 71 jang. Fall of Dakha East Pakistan in Urdu. Story of East Pakistan fall. Fall of Dhaka main reasons in Urdu. Urdu Stories of East Pakistan Military Operation in 1971.
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.