Laud Speaker Aw Mula.
By Abdul Wahid
لاؤڈ سپیکر 1890 میں ایجاد ہوا، 1920 کے عشرے میں اس میں کافی جدت آچکی تھی اور ریڈیو، تھیٹرز وغیرہ میں اس کا استعمال عام ہوچکا تھا۔ انہی دنوں کسی نے برصغیر میں لاؤڈسپیکر پر اذان اور نماز پڑھانے کی تجویز پیش کی تو جیسے آگ لگ گئی اور تقریباً ہر فرقے کے علما نے اس کی شدت سے مخالفت کی
برصغیر کے نامور عالم، مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے 1928 میں فتوی جاری کردیا کہ لاؤڈ سپیکر پر نہ تو اذان جائز ھے، نہ جمعہ کا خطبہ اور نہ ہی نماز کی امامت۔جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو ان کا جواب تھا کہ لاؤڈ سپیکر پر آواز پہلے ریکارڈ ہوتی ھے اور پھر نشر کی جاتی ھے، اس لئے شرعی اعتبار سے ریکارڈڈ آواز میں نہ تو اذان جائز ھے اور نہ ہی خطبہ اور امامت۔ کچھ " لبرل" حضرات نے مولانا کی تھیوری کو چیلنج کرنے کی کوشش کی تو ان پر حسب توقع اور حسب توفیق، کفر کے فتوے لگ گئے
اپنی بات کی تصدیق کیلئے مولانا تھانوی صاحب نے ایک مناظرے کا انتظام کیا اور کہیں سے ریڈیو پر کام کرنے والے ایک مکینک ٹائپ کے شخص کو لے آئے اور لوگوں سے کہا کہ یہ بہت بڑا ساؤنڈ انجینئر ھے جس سے ہم نے تصدیق کرلی ھے کہ لاؤڈ سپیکر پہلے آواز ریکارڈ کرتا ھے، پھر آگے نشر کرتا ھے۔ یہ دن اس ریڈیو مکینک کی زندگی کا یادگار دن تھا کیونکہ اس دن ہزاروں کے مجمع کے سامنے اسے ' ساؤنڈ انجینئر ' ہونے کی ڈگری عطا کردی گئی۔
مولانا تھانوی کی رحلت کے بعد ان کے شاگرد، مشہور عالم جناب مفتی شفیع نے بھی اپنے استاد کے فتوے پر مہر تصدیق ثبت کی۔ دوسری طرف سائنسدانوں نے مسلسل علما کے اس دعوے کو غلط ثابت کرنا جاری رکھا کہ لاؤڈ سپیکر پہلے آواز ریکارڈ کرتا ھے اور پھر نشر کرتا ھے
جب دباؤ بڑھا تو مفتی شفیع نے اپنے فتوے میں کچھ ترمیم کرتے ہوئے کہا کہ اگر لاؤڈ سپیکر آواز ریکارڈ نہ بھی کرتا ہو، اس کے اندر موجود سسٹم آواز کی " ایکو" کو اس طریقے سے پراسیس کرتا ھے کہ اصل آواز کی ہئیت بدل جاتی ھے۔ مزید براں یہ کہ اگر دوران نماز لاؤڈسپیکر کسی وجہ سے خراب ہوجائے تو پوری نماز ضائع ہوجائے گی اور دوبارہ پڑھنے پڑے گی
حالت اور وقت ایک سے نہیں رہتے، یہی کچھ بے چارے لاؤڈسپیکر کے ساتھ بھی ہوا۔
جب عرب کے علما نے 1950 میں لاؤڈسپیکر کے زریعے اذان اور خطبہ وغیرہ دینا شروع کردیا تو ہمارے علما کو اچانک لاؤڈسپیکر کے اندر چھپی ہوئی روحانیت نظر آنے لگی پھر راتوں رات تھانوی صاحب کے فتوے کو منوں مٹی تلے دبا کر نیا فتوی دیا گیا جس کے تحت لاؤڈ سپیکر کا استعمال جائز قرار دے دیا گیا
پھر کچھ یوں ہوا کہ 90 کی دہائی میں نوازحکومت نے بڑھتی ہوئی فرقہ واریت پر قابو پانے کیلئے مساجد میں لاؤڈسپیکر کا استعمال ممنوع قرار دیا تو پورے ملک میں آگ لگ گئی۔ علما نے ملک گیر ہڑتالیں کیں، ٹائر جلائے، املاک کو تباہ کیا، تب جا کر حکومت کو اس کے اس ' شیطانی ' اقدام پر نظرثانی کرنا پڑی
چند برس قبل لاہور میں جلالی صاحب کا ختم نبوت ﷺ کا دھرنا اختتام پذیر ہوا۔ وہ شروع تو رانا ثنا اللہ کے استعفی کے مطالبے پر ہوا تھا لیکن ختم اس شرط پر ہوگیا کہ پنجاب حکومت کی کمیٹی مساجد میں لاؤڈ سپیکر کی تعداد بڑھانے پر غور کرے گی
Pashto Times.
Loudspeaker And Mulla's Fitwa. Radio and Mula Fitwa. Molvi And Loud Speakers, Radio, Gramophone, Muslim. Radio haram, When TV was Haram, when Laudspeaker was haram. When Mobile was Haram by Mulla.
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.