Princely State Dir History.
Princely State Of Dir. Complete History Of Dir State In Urdu.
⭐️ ریاست دیر پر شاھی خاندان دیر اخون خیل قوم کی حکمرانی⭐️
( شاھی خاندان کی ابتداء اور انتہا )
دیر پر شاہی خاند ان اخون خیل نے تقریباً تین سو پچاس سال تک حکومت کی ہے ۔شاھی خاندان اخون خیل کی حکمرانی حضرت اخون الیاس بابا (لاجبوک) سے شروع ہوکر نواب شاہ خسرو پر ختم ہوتی ہے ۔
Akhun Ilyas Baba. Dir Princely State
(عمدہ العارفین قطب القطاب مبلغ اسلام حضرت اخون الیاس نقشبندی یوسفزئی رحمتہ اللہ علیہ لاجبوک ۔
(1626-1676)
دیر کے شاھی خاندان کے مورث اعلیٰ حضرت اخون الیاس رحمتہ اللہ علیہ نہاگدرہ کے گاوں کوہان میں پیدا ہوئے ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد اور علاقائی علماء سے حاصل کرنے کہ بعد اعلی دینی علوم کے حصول کے لیے ہندوستان چلا گیا ۔ہندوستان میں حضرت بنورؒ کی شاگردی میں کئی سال گزارنے کے بعد ان کے ساتھ مکہ مکرمہ چلےگئے ۔مکہ میں سعادت حج اور چھ ماہ عبادت میں گزارنے کے بعد اپنے استاد حضرت بنور رحمتہ اللہ علیہ کی اجازت سے حضرت اخون الیاس بابا وطن واپس پہنچے تواقوام ملیزئی نے ان کا پرتپاک استقبال کیا ، انکے درس و تدریس ،علم و حکمت، اور تقویٰ کے چرچے دور دور تک پھیل گئے اور اسلامی علوم کیلے مسجدوں میں مدارس قائم کرکے سینکڑوں شاگردوں کو دین اسلام کے علوم سے فیضیاب کیا ۔ اور بالائی دیر و کوہستان کے سینکڑوں کافروں کو مشرف بہ اسلام کیا ۔اخون الیاسؒ کے محفل میں ہر وقت لوگوں کا ہجوم رہتاتھا اور دور دور سے لوگ اپنے مرادیں اور تکالیف کی شرعی حل نکالنے اور حکمت کے علوم حاصل کرنے ان کے دربار تشریف لاتے ۔اپکے زہد اور تقوی کے پیش نظر اقوام دیر نے مشترکہ طور پر انکی دستار بندی کرکے اپنا حکمران اور سربراہ مقرر کیا ۔ اپکے اولاد دو گھرانوں میں تقسیم ہے (اخون خیل میاگان)لاجبوک اور نوابان و خوانین اخون خیل دیر بالا و پائین وغیرہ ۔اس روحانی بزرگ اور مبلغ اسلام نے 1676ء میں گاوں لاجبوک میں وفات پائی ۔اور ان کے وصیت کی مطابق گاوں لاجبوک میں سپردخاک کیا گیا۔آج بھی لاجبوک درہ میں ان کا مزار معروف و مشہور ہے ۔ اخون کے معنی ہے سکالر اخون خیل کا مطلب عالم دین کے اولاد۔
Hazrat Maulana Ismail Of Dir Princely State
حضرت مولااسماعیل خان رحمتہ اللہ علیہ ۔۔
(1676-1752)
مولا اسماعیل خان اپنے والد کے وفات کے بعد ان کے جانشین مقرر ہوئے ۔علم اپنے والد سے حاصل کرکے زہد و تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر فائز تھے ، والد کی طرح ملااسماعیل خان بھی علاقے میں کافی مشہور تھے اور ان کے دربار میں بھی ہر وقت لوگوں کا ہجوم رہتا تھا اسلامی علوم اور دین کی تبلیغ کو دیر بالا اور کوہستان تک پہنچانے یعنی دین اسلام کی پرچار اور درس و تدریس کو وسعت دینے کیلے اپ نہاگدرہ گاوں کوہان سے گاوں بیبیوڑ منتقل ہوئے اور اپنے والد کی طرح اپ نے بھی درس و تدریس کا آغاز کیا اور سینکڑوں شاگردوں کو اسلامی علوم کیساتھ ساتھ حکمت کے علوم بھی سکھائے ۔ وفات کے بعد ان کو دیر بالا کے گاوں بیبیوڑ میں سپر دخاک کر دیا گیا ۔ اپ کا قبر مبارک (لوئی بابا ) کے نام سے معروف و مشہور ہے۔
Khan Ghulam Khan Of Princely State Dir.
خان غلام خان۔۔۔
(1752-1804)
مولا اسماعیل خان کے وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے خان غلام خان گدی نیشن ہوئے ۔خان غلام خان کو باپ دادا سے وراثت میں کثیر مال و دولت اور جائیداد کی فروانی نے آپ کو روحانیت سے دنیا داری کی طرف مائل کردیا ۔ اور یہیں وجہ ہے کہ آپ حکمرانی میں دلچسپی لینے لگا اور دیر بالا کے گاوں بیبیوڑ میں باقاعدہ خانیزم کی بنیاد رکھی اور بیبیوڑ کو دارلخلافہ مقرر کرکے حکمرانی کا آغاز کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ شاھی خاندان میں یہ دنیاوی حکمرانی کا بانی کہلایا جاتا ہے ۔خان غلام خان کے دور اقتدار میں مشیر خاص مزھبی لوگ اور عالم دین تھے ۔ جوکہ یوسفزئی قوم سے تھے۔ اپ نیزہ بازی اور گھڑ سواری میں مہارت رکھتے تھے ۔ اور علاقائی کھیلوں کے شوقین تھے۔ جسمیں (تلوار بازی ، نیزہ بازی، سخے ، کبڈی ) و دیگر مشہور ہیں۔اپ نے 1804 میں بیبیوڑ میں وفات پائی اور اپنے والد کے پہلو میں دفن ہوئے۔۔۔
Khan Zaffar Khan of Princely State Dir.
خان ظفر خان۔۔
۔(1804-1814
خان غلام خان کے وفات کے بعد ان کے بیٹے خان ظفر خان ایک بیدار مغز اور جنگجو حکمران ثابت ہوئے ۔ خان ظفر خان نے باقدہ تنخواہ دار فوج بنائی ۔ اور آس پاس کے سرداروں، خوانین ، اور ملکان ، کو اپنے تابع کیا ، خان ظفر خان نے حضرت بنور رحمتہ اللہ علیہ کی پیشنگوئی اور حضرت اخون الیاس بابا کے خواب کی تکمیل کو حقیقت کا روپ دینے کیلے یوسفزئی جنگجوؤں کے لشکر کو لے کر کوہستانی کافروں کے محل موجودہ دیر محل پر ہلہ بول دیا ۔ اور دیر قلعہ کو فتح کرکے تین سو سالہ کافرستان ریاست کا خاتمہ کردیا ۔ بعد میں اسی قلعہ کو گراکر وہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا۔ خان ظفر خان اپنی اہل وعیال کیساتھ گاوں بیبیوڑ سے دیر منتقل ہوا ۔ اور دیر خاص کو دارلخلافہ بنا یا ۔ جوکہ شاھی خاندان دیر اخون خیل یوسفزئی کے زوال تک دارلخلافہ رہا ۔ خان ظفر خان نے دیر خاص میں لوہار کے کسب کو فروغ دینے کیلے کردار ادا کیا اور ریاست کے اندر تلوار ، نیزہ ، دیر چاقو ، اور دیگر جنگی آلات اور ضروریات زندگی کا سامان تیار ہونے لگا۔ دیر پر حقیقی بادشاہت کرنے والے خان ظفر خان 1814ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ان کے وصیت کے مطابق ان کو بیبیوڑ میں سپردخاک کیا گیا آج بھی ان کا قبر (وڑکی بابا) کے نام سے مشہور و معروف ہے ۔
Khan Qasim khan, Khan Shaheed of Princely State Dir
خان قاسم خان(خان شھید)۔۔۔
(1814-1822)
خان قاسم خان اپنے والد ظفر خان کے وفات کے بعد تخت نشین ہوئے ۔ آپ نے پہلی مرتبہ اسمار اور سخاکوٹ تک کے علاقے اپنے ریاست میں شامل کردی ۔ آپ کے بہادری اور شجاعت سے متا ثر ہوکر مہتر چترال شاکٹور نے اپنی بہن آپ کے نکاح میں دے کر چترال اور دیر کے دشمنی اور عداوتوں کی بیخ کنی کی۔ آپ ایک مدبر، زیرک اور بیدار مغز حکمران ثابت ہوئے ۔خان قاسم خان نے دیر میں پہلی دفعہ میوہ جات کے درختوں کے باغات کیساتھ شجر پیوند کاری متعارف کرائی ۔ اور ریاست میں شجرکاری کیلے کردار ادا کیا ۔ اپ انتاہی مہمان نواز اور انصاف پسند حکمران تھے۔ 1822 ء میں اندرونی رسہ کشی اور درباری سازشوں کے نتیجے میں شہید ہوگئے ۔ اور دیر کے شاہی مقبرے میں مدفون ہے ۔ اور خان شہید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے موجودہ شاھی قبرستان (خان شھید ) دیر اپکے نام سے منسوب ہے ۔
Khan Ghazan Khan Of Princely State Dir.
خان غزن خان۔
۔(1822-1868)
والد خان قاسم خان المعروف خان شھید کے شہادت کے بعد اپ کو 13 سال کی عمر میں اپنی والدہ جوکہ چترال کی شہزادی تھی چترال لے گئی۔ مہتر چترال( جوا ن کا ماموں تھا) مہتر چترال نے اپ کے پرورش پر خصؤصی توجہ دی۔ تیر اندازی نیزہ سواری اور جنگ وجدل کے سارے حکمت عملی اعلی استادو ں سے سیکھائے ۔اپکے والدہ نے سترہ سال کے عمر میں شہزادی قشقار سے آپکا نکاح کرایا۔ ریاست دیر طویل وقت بغیر حکمران بدامنی اور داخلی سازشوں کا شکار تھا ۔ریاست دیر کو اس وقت ایک زیرک اور قابل رہنما کی ضرورت تھی اس بنا پر اقوام دیر کے عمائیدین کا جرگہ مہتر چترال کے پاس پہنچا اور خان غزن خان کی واپسی کیلے درخواست کیا۔ اور ریاست دیر کے حالات سے آگاہ کیا ۔ خان ظفر خان اب جوان ہو چکے تھے تاہم انہوں نے اپنے ماموں مہتر چترال سے فوج لیکر عمائیدین دیر کیساتھ واپس جانے پر امادہ ہوئے ۔دیر پہنچے پر شرپسندوں اور امن خراب کرنے والوں کا قلع قمع کردیا۔ اور امن بحال کیا۔خان غزن خان اپنے والد کی نقش قدم پر چلتے ہوئے ریاست کو مزید وسعت دی ۔ اور چند سالوں میں اپنے فوج کو واپس منظم کیا۔ اور سلطنت کو پھر سے مظبوط کیا ۔ جگہ جگہ مظبوط قلعے تعمیر کئے اور ریاست کو وسیع کرنے کیلے پیش قدمی کی سوات ،باجوڑ ، سے لیکر دوسری جانب سخاکوٹ تک پیش قدمی کی وہ سخاکوٹ سے آگے جانا چاہتے تھے۔ مگر یوسفزئی سرداروں کے درخواست پر آگے کے علاقوں تک پیش قدمی رکی انگریز تاریخ دان کے مطابق خان غزن خان پشاور تک کو ریاست دیر میں شامل کرتے انکا کوئی روکنے والا نہیں تھا ۔ خان غزن خان اس وقت دلھی دربار اور افغانستان میں کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا ۔ انگریزوں سے جنگ آزادی کے خلاف درجنوں جنگوں میں حصہ لیا اور جنگ امبلیہ میں اقوام یوسفزئی جسمیں شانگلہ بونیر ،سوات ،دیر ،باجوڑ ،چترال ، مہمند،چارسدہ، اور دیگر پختون قبائل سمیت کے کمانڈر ان چیف کے طور پر ناقابل فراموش فتوحات حاصل کئے ۔ اور اپ کو جنگ امبیلہ کا ہیرو کا خطاب بھی ملا ۔ اپ نے دیر کے حکمرانوں میں سب سے لمبے عرصے تک حکمرانی کی اور اپکے دور اقتدار کو عہد زریں بھی کہا گیا اور کئی علاقوں کو ریاست دیر میں شامل کیا گیا ۔ آپ نے 1868ء میں وفات پائی اور دیر کے شاھی قبرستان میں سپردخاک کئے گئے ۔
Nawab Khan Rahmatullah Khan Of Princely State Dir.
نواب خان رحمت اللہ خان۔۔۔
(1870-1884)
خان غزن خان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے رحمت اللہ خان نے عنان حکومت سنبھالی ۔ تحت نشین ہونے کے بعد آپ نے امور ریاست پر خاص توجہ دے کر کافی اصلاحات کیں۔ اور علاقے میں ریاست دیر کو جدید طرز ریاست کے طور پر متعارف کرایا ۔ آپ نے جنگی سازوسامان کی خریداری پر خصوصی توجہ دی ۔اور ریاست دیر کو ناقابل تسخیر ریاست بنانے کیلے مثالی اقدامات کئے۔ اور ریاستی حدودوں پر فوج کیلے چھاؤنیاں بنا کر ریاست کو ہر خطے سے محفوظ بنایا ۔ ریاست دیر کے میوۂ جات باہر کی منڈیوں تک پہچانے اور برتنوں ،قالین ،اور دوسرے ضروریات زندگی کے سامان کی درآمد گی کیلے گران قدر خدمات انجام دیں ۔1884ء میں حرکت قلب بند ہونےکی وجہ سے اپ کا انتقال ہوا۔ اور دیر شاھی قبرستان میں سپردخاک کئے گئے ۔
Nawab Awal Khan Muhammad Sharif Khan Of Princely State Dir.
نواب اوّل خان محمد شریف خان۔۔۔
(1884-1904)
خان محمد شریف خان والد کے وفات کے بعد تخت نشین ہوئے ۔خان محمد شریف خان دیر کا پہلا با ضابطہ نواب تھے کیونکہ انگریز حکومت نے 1885 ء میں انہیں چکدرہ قلعہ میں نواب دیر جیسے انگریزی ڈیوک کہتے ہیں کے لقب سے نوازا ۔خان محمد شریف خان کی دور اقتدار کا بیشتر عرصہ اندرونی و بیرونی سازشوں اور جنگوں میں گزرا جسیمیں عمرا خان جندولی کیساتھ لڑائی تاریخی ہے نواب محمد شریف خان کا انگریزوں کو شاہراہ دیر چترال پر ٹیلی گراف کی معاہدہ سے انکار پر انگریزوں نے عمرا خان جندولی کو اٹک قلعہ بلاکر ساز باز کرکے فوجی تعاون کی یقین دہانی کرائی اور محمد شریف خان پر حملہ کروایا ۔ اور عمرا خان جندولی کو دیر پر حکمران مقرر کیا ۔ عمرا خان جندولی نے انگریزوں کیساتھ بھی بے وفائی کی اور چترالیوں پر خون کا بازار گرم کیا۔ تو انگریزوں نے مہتر چترال کے درخواست پر ملاکنڈ فیلڈ فورس آپریشن شروع کیا۔ اس وقت نواب محمد شریف خان نے اپنے لشکر کیساتھ سوات سے حملہ کرکے ریاست کو دوبارہ حاصل کیا ۔ اور غدار وطن و غدار ریاست یوسفزئی دیر کو افغانستان بھگانے پر مجبور کیا ۔ جہاں وہ تادم مرگ مقیم رہیے اور وہاں پر وفات پائی۔نواب محمد شریف خان پچپن سال کی عمر میں فالج کی بیماری سے تیمرگرہ کے مشہور مذہبی بزرگ "تیمرگرہ صاحب " کی گود میں انتقال کرگئے ۔اور دیر شاھی قبرستان میں تدفین کی گئی۔
Nawab Muhammad Aurangzeb Khan of Princely State Dir
نواب اورنگزیب خان۔۔۔
(1904-1924)
نواب محمد شریف خان کے وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد اورنگزیب خان شاھی کرسی پر براجمان ہوئے ، نواب دوئم کے قوت گویائی میں فرق تھا اس لیے تاریخ کے کتابوں میں اسے "چاڑا نواب " کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ نواب اورنگزیب خان نہایت ہی انصاف پسند اور راست گو انسان تھے ۔ وہ صوم وصلوہ کے پاپند انصاف اور عدل سے مشہور تھے وہ ہفتے میں دو دن روزہ رکھتے ۔ وہ ایک سخی اور دریا دل حکمران کے نام سے بھی مشہور تھے ۔نواب اورنگزیب خان نے اسلامیہ کالج پشاور کے تعمیر میں دل کھول کر چندہ بھی دیا ۔ جسمیں ۵ لاکھ نقد کیساتھ ۵۰۰ سلیپر اعلی معیار کی لکڑی بھی دیا۔ لیکن بدقسمتی سے نہ اسلامیہ کالج میں ان کے نام سے کوئی لائیبرری بنائی گئ اور نہ نواب نے کوئی مطالبہ کیا۔ اپ نے 1924 میں وفات پائی اور دیر خاص میں سپردخاک کئے گئے ۔۔۔
Nawab Sir Muhammad Shah Jehan Khan, Nawab Of Dir Princely State.
غازی ملت ،ہلال قائد اعظم ،سر نواب محمد شاہ جہان خان۔۔۔(1924-1969)
نواب محمد اورنگزیب کے رحلت کے بعد ان کے بیٹے شاہ جہان تحت نشین ہوئے ۔آپ ایک بیدار مغز، زیرک اور بارعب نواب کے طور پر ریاست کے اندر اور باہر پہچانے جاتے تھے ۔ اپ کے دور حکومت میں دیر کو عزت اور طاقت کا رتبہ حاصل تھا مثالی امن ، انصاف اور عدل کا بھول بالا تھا ۔ آپکے قوم پرستی اور اسلام پسندی کا یہ عالم تھا کہ اپ نے جہاد کشمیر کیلے اپنی فوج کیساتھ سینکڑوں لشکر بیجھے ۔جنگلات کا تحفظ یقینی تھا۔ انگریزی تعلیم ، انگریزی لباس، پر مکمل پاپندی تھی ۔اور اسلامی علوم اور مدارس میں تعلیم عام تھا ۔ جنرل ایوب خان نے 1960 میں اپ سے ملاقات کا خواہش کرکے جہاز بیجھا اور اسلام آباد بلانے کے بعد 1963ء میں معزول کرکے نظر بند کردیا ، اپ کے جگہ ولی عہد نواب شاہ خسرو کو نواب دیر مقرر کر دیا گیا ۔حکومت پاکستان نے 1969ء میں دیر سے نوابی ختم کرکے دیر کو الگ ضلع بنانے کا اعلان کر دیا ۔ اور اسطرح دیر کو پاکستان میں ضم کردیا گیا ۔ آپکو حکومت پاکستان کی طرف سے اعزازی بریگیڈیئری اور ہلال قائداعظم سے بھی نوازا گیا ۔ اور جہاد کشمیر میں اعلی خدمات کی وجہ سے اپ کو (غازی ملت ) کا لقب بھی دیا گیا۔
Nawab Muhammad Shah Khesro Khan, Last Nawab Of Princely State Dir
آخری نواب محمد شاہ خسرو خان۔۔۔(1960-1996)
والد کی زندگی میں حکومت پاکستان کی جانب سے مقرر ہونے والے نواب شاہ خسرو کا دور اقتدار آئین و قانون پاکستان کے ماتحت تھی ۔اپ حکومت پاکستان کے اعزازی برگیئڈئر بھی تھے ۔اپ نے حکومت پاکستان کیساتھ ملکر ریاست دیر کو پاکستان کے تابع لانے کیلے بھر پور کردار ادا کیا ۔ سرکاری اداروں کو دیر میں قائم کرنے اور سرکاری اسکولوں دفاتر سرکاری عمارات قائم کرنے میں اہم کردار اداکیا۔ زندگی کا طویل عرصہ اسلام آباد میں گزرا ۔اور اپ نے 1996ء میں وفات پائی اور دیر دربار کے عقب میں سپردخاک کئے گئے ۔۔
( تحریر ۔سمیع اخون خیل )
بحوالہ تاریخ یوسفزئی دیر ۔ یوسفزئی قوم کی سرزگشت ۔ تحریر گمنام کوہستانی ۔ بحوالہ تواریخ حافظ رحمت خانی ۔ ملٹری رپورٹ 1906 سوات دیر باجوڑ ۔تاریخ سوات۔ افغان کی نسلی تاریخ ۔ تاریخ دیر۔ گمنام ریاست۔ تاریخ یوسفزئی ۔ انگریزی کتاب
who is who 1933/37
اور دیگر درجنوں کتابوں سے ماخوذ
Pashto Times. History of Nawab Od Dir. Dir ki tarikh. Gumnam reyasat book online. Dir Royal Family. Urdu Article about History of Dir. Nawab Shah Jehan Khan Of Dir. Nawab Aurangzeb Khan Charrha Nawab of Dir. Swat and Dir States. Urdu Blog about Dir State. Dir Lower History. Dir Upper History.
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.