Women Under Street Light. Urdu Afsana by Iqbal Khurshed. 2022 Urdu Afsana
اسٹریٹ لائٹ کے نیچے کھڑی عورت (افسانہ)
وہ اکثر رات کو اسٹریٹ لائٹ کے نیچے کھڑی دکھائی دیتی۔
رات گیارہ بجے میری شفٹ ختم ہوتی۔ جب میں دفتر سے باہر نکلتا، تو فضا میں خاموشی کا خفیف سا شور ہوتا۔ بوسیدہ عمارتوں کی اوپری منزلوں سے بے نام آواز سنائی دیتیں۔ پیڑ خاموش ہوتے۔ اور تاریکی میں مصنوعی روشنی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہوتی۔
جب میں آئی آئی چندریگر روڈ سے آرٹس کونسل کی سمت مڑ تا، تب، ایک اسٹریٹ لائٹ کے نیچے وہ عورت موجود ہوتی۔
منتظر اور خوف زدہ۔ برقعے میں ڈھکی ہوئی، مگر عیاں۔ ہونٹوں پر تاریک رات سی لپ اسٹک، اور آنکھوں میں شب سی مٹتی ہوئی روشنی۔
اس سڑک پر پہنچ کر میں اپنی رفتار دھیمی کر دیتا، مگر میں ایسا کرنے والا اکیلا فرد نہیں تھا۔ موٹر سائیکل سوار، کار والے، ٹرکوں میں ادھر سے گزرنے والے، چرند پرند سب یہی کیا کرتے تھے۔
اس اندھیری رات، جو کبھی نیم گرم ہوتی، کبھی سرد اور کبھی ایسی ہوتی کہ خیال پڑتا کہ ہے ہی نہیں سڑک سے گزرتے ہوئے، اسٹریٹ لائٹ کے نزدیک سب ہی گاڑیوں کی رفتار دھیمی پڑ جاتی۔
اور کبھی کبھی، یا شاید اکثر ان میں سے چند گاڑیاں رک جاتیں۔ ان سواریوں کے سوار ہر عمر کے لوگ ہوتے۔ چند شادی شدہ، چند غیر شادی شدہ۔ چند صاحب اولاد، چند بے اولاد۔ ظالم، اور مظلوم۔ دلیر، اور ڈرپوک۔ سفاک، اور رحم دل۔
اور وہ سارے مرد ہوتے۔
اور ان کی گاڑیاں اسٹریٹ لائٹ کے نیچے رک جاتیں۔
اور تب وہ عورت آگے بڑھتی۔ ایک ایسی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے، جو باسی ہوتی۔ اور اس پر خوب جچتی۔ وہ ایسی آواز میں بات کرتی، جس کی تازگی میں تھکن عیاں ہوتی۔
آج بھی جب میں دفتر سے نکلا اور بے ذائقہ سگریٹ کے کش لیتے ہوئے سڑک سے گزرا، تو میں نے ایک کار سوار کو اس عورت سے بھاؤ تاؤ کرتے دیکھا۔
میں جانتا تھا کہ اگر معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے، تو وہ اپنی رات سی اداس مسکراہٹ لیے گاڑی میں سوار ہو جائے گی، چلی جائے گی۔ بہت دور، یا شاید یہیں نزدیک۔ کچھ نوٹوں کے عوض۔ جو اس کی ضرورت ہیں۔
اور گر ایسا نہیں ہوا، معاملہ طے نہیں پایا، تو سوار آ گے بڑھ جائے گا۔ بڑبڑاتے ہوئے : ”رنڈی سالی!“
وہ اکثر مجھے دکھائی دیتی۔ رات جب میں دفتر سے نکلتا، اور آرٹس کونسل کی سمت مڑتا، تب، ایک اسٹریٹ لائٹ کے نیچے وہ موجود ہوتی۔
ایک بار میرے بھی جی میں آئی کہ رک جاؤں۔ اوروں کی طرح۔ اس کے نزدیک۔
اور وہ اسی طرح، اپنے روایتی اور ا نو کھے انداز میں میرے نزدیک آئے۔ اور کہے: ”چلنا ہے؟“
اور تب میں اسے جواب دوں گا۔ ”ہاں!“
”جگہ؟“
”ہے، میرے دوست کا فلیٹ۔“ میرا اگلا جواب ہو گا۔
”پانچ ہزار لوں گی۔ جو چاہو، کر لینا۔“
میرے تخیل میں چلنے والا مکالمہ یہاں پہنچ کر تمام ہو جاتا۔ کیوں کہ میرے ذہن میں یک دم اس عورت کا خیال گزرتا، جو یہاں سے کچھ میل دور، یا بہت دور، اس تنگ فلیٹ میں، جسے میں گھر کہتا ہوں، میری منتظر ہوگی۔
میری بیوی۔
وہ کھانا میز پر سجائے، نیند سے جوجھتے ہوئے انتظار کرتی ہوگی۔ اس امید پر کہ میں اسے مسکرا کر دیکھوں گا، یا اس امید پر کہ آج میں اس پر رحم کھاؤں گا، اسے ستانے کے بجائے اسے اطمینان سے سونے دوں گا، تاکہ وہ صبح بنا تھکن اوڑھے جاگ سکے۔
تو میرے تخیل میں چلتا مکالمہ یہاں پہنچ کر تمام ہو جاتا۔ اور میں اس عورت کے نزدیک سے، جواسٹریٹ لائٹ کے نیچے گاہکوں کی منتظر ہوتی، گزر جا تا۔ اس عورت کی سمت، جو ایک چھوٹے سے فلیٹ میں میری منتظر ہے۔ تنہا، بے اولاد۔ اداس۔
میں گزر جاتا، مگر میں میرا ذہن اسٹریٹ لائٹ پر اڑتے پتنگوں کی مانند اسی عورت کے گرد منڈلاتا رہتا، جو برقعے میں بھی عیاں تھی۔ شہوت انگیز شریف اور شاطر۔
میں اس کی بابت سوچتا۔ کروٹیں لیتے ہوئے کبھی فحش، کبھی بہت فحش۔ اور پھر اس عورت کے بارے میں سوچتا، جو میرے پہلو میں، منہ کھولے، بے ربط خراٹے لیتے ہوئے ایک لاحاصل نیند لے رہی ہوتی۔
تو میں دو عورتوں کے درمیان موجود تھا۔
بس موجود۔ میں جی نہیں رہا تھا۔ بس، یونہی تھا۔ ایک تماشائی۔
اور پھر ایک سہ پہر میری تخیلاتی ترتیب تلپٹ ہو گئی۔
٭٭٭
وہ ایک پرانی سی صبح تھی، جس پر بیت چکی صبحوں کا گمان ہوتا تھا۔
آسمان پر بادل تھے۔ کہیں کہیں سڑک گیلی تھی۔ موٹر سائیکل سواروں کو یہ خدشہ لاحق تھا کہ وہ جلد ہی بادلوں کی لپیٹ میں آ جائیں گے، وہ ڈرے ہوئے اور مسرور تھے۔ اور وہ گیت گنگا رہے تھے، جو انھوں نے کبھی نہیں سنے تھے۔
میری موٹر سائیکل خراب ہو گئی تھی۔ میں نے ٹیکسی بک کرلی۔ اور اسی ٹیکسی میں سوار میں اس اطمینان بخش سہ پہر میں داخل ہوا، جو میری تخیلاتی ترتیب کو تلپٹ کرنے والی تھی۔
ٹیکسی ڈرائیور کچھ دیر کو ایک بیکری کے پاس ر کا تھا۔ اسے اپنی بیوی کے لیے کیک لینا تھا۔ اترتے ہوئے اس نے شکوہ کیا کہ ہر چیز کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ غریب کے لیے اب زندگی جرم بن چکی۔ شاید اس نے اپنی بیوی کو بھی مغلظات بکی تھیں۔
وہ بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔ میں کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ ایک اسکول وین آن کر رکی۔ اس کا رنگ سفید تھا۔ اس میں سے یونیفارم پہنے بچے اتر رہے تھے۔ وہ چہک رہے تھے۔ پھر اس سے ایک ایسا بچہ اترا، جو کچھ نا مکمل سا تھا۔ معذور سا۔
شاید اس کا ایک بازو نہیں تھا، یا پھر شاید اس کے ایک پاؤں میں لنگ تھا۔ یا شاید وہ گونگا یا پھر بہرا تھا۔ مگر وہ نامکمل تھا۔
وہ نامکمل سا بچہ وین سے اترا، تو ایک عورت اس کی سمت لپکی۔ اس نے بچے کو بانہوں میں بھر لیا۔ اس کے گال پر اپنے ہونٹ ثبت کر دیے۔ اس سے وہ سوالات پوچھنے لگی، جن کے جواب وہ رٹ چکا تھا۔
عورت کے ہر عمل میں ایک خاص نوع کا والہانہ پن تھا۔
اس عورت نے جیسے بچے کو مکمل کر دیا۔ اس کی گود میں آتے ہی بچے کا ہر نقص ختم ہو گیا تھا۔ ماں اور بچہ ایک گھنے درخت کے نیچے کھڑے تھے۔ دنیا سے لاتعلق۔ اپنی دنیا آباد کیے۔
مجھے اس منظر نے مسحور کر دیا۔ یہ کسی آبشار کی طرح تھا۔ یا کسی سرسبز کھیت کی طرح۔ یا پھر حاملہ بادلوں کی طرح۔
اچانک میری نظر بچے کی ماں کے چہرے پر پڑی یک دم میرے ذہن میں اسٹریٹ لائٹ روشن ہو گئی۔
اسٹریٹ لائٹ، جس کے نیچے ایک عورت کھڑی تھی، جس کا بچہ گھر میں اس کا منتظر تھا۔
شاید اس عورت نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا، اور مجھے پہچان لیا تھا۔ یا پھر شاید مجھے غلط فہمی ہوئی تھی۔
دور کہیں فائر ہوا تھا۔ ٹریفک رواں دواں تھی۔ ہارن بج رہے تھے۔ ٹیکسی ڈرائیور لوٹ آیا۔ وہ بیک مرر میں دیکھ کر ہنسا۔
”لے لیا کیک بڑا رش تھا۔ ارے سر، آپ رو کیوں رہے ہیں؟“
”کچھ نہیں۔ آنکھ میں کچھ پڑ گیا تھا۔“
یہ کہہ کر میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔
دور ابد تک فقط سیاہ رات تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقبال خورشید
Pashto Times Tags.
Urdu Afsana 2022. Girl Under Street Light. Women In Street Light. Urdu New Afsana. Urdu Afsana in 2021. Women Under Street Light. Urdu Afsana by Iqbal Khurshed. 2022 Urdu Afsana. Urdu Love Story 2022. New Urdu Love Story.
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.