Riyast E Mysore Of India. Qureshi Or Pathan State In Mysore India?
Pathan Or Qureshi Kingdom Of Mysore?
ریاست میسور ....قریشی یا پٹھان؟
حیدر علی قریشی 1752ء میں میسور کے ہندو حکمران راجہ کرشنا واڈیا کی فوج میں ایک سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوئے انہوں نے بڑی بہادری سے مرہٹوں کے حملوں سے ریاست کو بچایا۔وہ اپنی بہادری اور قابلیت کی بدولت (1755ء) میں ریاست میسور کی فوجوں کے سپہ سالار بن گئے۔ راجا اور اس کے وزیر حیدر علی کے بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ ہو گئے اور ان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنالیا۔ مگر چال الٹ گئی اور حیدر علی نے 1761ء میں میسور کے تخت پر قبضہ کر لیا۔ اس کے باوجود انہوں نے راجا کو جاگیر عطاء کر کے تخت پر برقرار رکھا، لیکن اقتدار پوری طرح اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اپنی ریاست کا نام مملکت خدادا میسور رکھا ، یہاں اسلامی قوانین کا نفاذ کیا اور ان قوانین کے تحت عدل و انصاف سے حکومت کرنا شروع کر دی ۔ اسی اثنا ان کا تعلق حضرت ابو سعید سے ہو چکا تھا جو جماعت شاہ ولی اللہ کے ایک سالار تھے۔ چنانچہ 1667ء میں انگریز سامراج کے خلاف حیدر علی میدان میں اترے اور تادم وفات 1782 ء تک لگاتار پندرہ سال انگریز کو ہندوستان سے نکالنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس دوران انہوں نے انگریزوں سے دو دفعہ طویل جنگیں لڑیں اور انہیں شکست فاش سے دوچار کیا۔ انگریز سے دوسری جنگ کے دوران ان کا سرطان کی وجہ سے انتقال ہو گیا۔ وہ ایک فولادی اعصاب،عقابی نگاہ اور بلا کا حافظہ رکھنے والی نیک باکردار شخصیت تھے۔ انہیں انگریز سے آزادی کی کا پرچم بلند کرنے والا پہلا شخص کہا جاتا ہے۔
وہ حضرت شاہ ابو سعیدؒ کے پوتے شاہ ابواللیث کا مرید تھے جو آخری دم تک فرنگی کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے
*شیر میسور شہید*
حیدر علی کی وفات کے بعد ان کے بڑے فرزند فتح علی المعروف ٹیپو سلطان میسور کے حکمران بنے ۔ٹیپو سلطان 20 نومبر 1750ء میں پیدا ہوئے اور انگریز سے آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے 4 مئی 1799ء کو جام شہادت نوش کیا۔ ان کے والد حیدر علی نے ان کی علمی تربیت کے لئے انہیں حضرت ابوسعید رحمہ کے حوالے کیا۔ جو تکیہ شاہ علم اللہ میں مقیم تھے۔ تکیہ شاہ علم اللہ معروف روحانی مرکز تھا اور حضرت شاہ ولی اللہ و حضرت عبدالعزیز کی شروع کی گئ تحریک کے پانچ مراکز میں سے ایک تھا ۔ حضرت شاہ ابو سعیدؒ ان ہی کی قائم کردہ خصوصی جماعت کے فرد تھے۔ بالاکوٹ کے امیر جہاد حضرت سید احمد شہیدؒ آپ ہی کے نواسے تھے۔ اس خانقاہی اور تحریکی مرکز کی تربیت کا ہی فیض تھا کہ ٹیپو سلطان ایک سچے ، بہادر ، محب وطن ، تلاوت، ذکر، نماز کے پابند راہنما بن کر ابھرے۔ انہوں نے بلاتفریق مذہب ریاست کے تمام شہریوں کو یکساں مذہبی و معاشی حقوق مہیا کئے۔ فوج کو جدید نظام پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ فوج کے لئے جدید سامان حرب کا بندوست کیا۔انہوں نے فوجی راکٹ ( طغرق) ایجاد کیا۔ انہوں نے جامع الامور نامی یونیورسٹی بھی قائم کی۔ انہیں حریت فکر و بہادری کی وجہ سے شیر میسور کا لقب دیا گیا۔ شیرِ میسور ہندوستان کی حریت پسندحکمران تھے۔ ان کا مندرجہ ذیل قول اس سلسلے میں عالمگیر شہرت حاصل کر گیا۔
"شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے
انگریز سے آزادی کا جو عہد ان کے والد نے کیا تھا اب انہوں نے اسے نبھانے میں اپنی عمر گزار دی۔ ریاست حیدر آباد کے مسلم حکمران اور مرہٹہ راج کے ہندوؤں نے ان کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا۔ مقابلے میں ٹیپو سلطان نے فرانسیسیوں سے جنگی اتحاد کیا اور تین بار ان سے زبردست مقابلہ کیا۔ انہوں نے حیدرآباد کے مسلم حکمران کو انگریزوں سے دوستی سے روکنے کے لئے خط لکھا اور ناصرف اس کے نقصانات سے آگاہ کیا بلکہ ان کو آپس میں رشتوں کی بھی پیشکش کی تاکہ مل کر انگریزوں کو اپنے وطن ہندوستان سے نکال دیا جائے۔ یہ ولولہ انگیز خط ناصرف ان کی اپنے وطن سے محبت اور حریت فکر کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ اس میں انگریز کی مکاری کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ مگر یہ خط بھی مردہ ضمیر حیدرآبادی حاکم کو نہ جگا سکا اس کا خمیازہ اسے بعد میں بھگتنا پڑا جب انگریزوں نے حیدرآباد پر مکمل قبضہ حاصل کر لیا۔ وہ خط ملاحظہ فرمائیں
” جناب عالی!
آداب میں ٹیپو سلطان بن حیدر علی خان بہادر آپ کو یہ بتا دینا بہتر اور ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ملک کا ایک ادنیٰ خادم ہوں اور اپنے ملک کو اپنی ماں کا درجہ دیتا ہوں، اور میری فوج اور علاقے کے ہر محبِ وطن کو وطن پر قربان کر کے بھی اگر ملک اور قوم کو بچا سکا تو یہ میری خوش نصیبی ہو گی۔
اصل بات تو یہ ہے کہ میرے ملک میں رہنے والے ہر فرد کو ملک کا خادم ہونا چاہیے، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ مرہٹوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی ملک کے باشندوں کو تباہ کرنے، ملک کو کھوکھلا کرنے اور اس کی معاشی اور ثقافتی حالات کو تباہ و تاراج کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
معلوم ہو کہ آپ دونوں کی ملی بھگت کی وجہ سے میرا ملک اور وطن پامال اور میری رعایا کو شکستہ حال کیا جا رہا ہے۔ میں نے آپ کو رازداری میں یہ بھی سمجھا یا تھا کہ اگر آپ اور میں دونوں مل کر ہم خیال بن جاتے ہیں تو مرہٹوں کی کیا مجال کہ وہ ہماری ریاستوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکیں
یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ اپنی عیاری اور چالاکی کی وجہ سے انگریز آپ کو مجھ سے ملنے نہیں دیتے اور آپ کے دل میں کدورت بھرتے آ رہے ہیں۔ اور تعجب ہے کہ آپ اس بات کوسمجھ نہیں رہے ہیں۔وہ آپ کو اکسا رہے ہیں کہ آپ مرہٹوں کے ساتھ مل کر میرے خلاف فوج کشی کرتے رہیں
اگر بات آپ کو سمجھ میں آ جا تی ہے تو میں یہ مشورہ دوں گا کہ آپ کی اور میری دوستی امن اور آشتی میں بدل سکتی ہے تو اس ایک بات پر کہ آپ کے خاندان کے لڑکے، بھتیجے، بیٹوں کومیرے خاندان کی لڑکیوں کے ساتھ اور میرے بھتیجے، بیٹوں کو آپ کے خاندان کی لڑکیوں کے ساتھ بیاہا جائے تاکہ دونوں ریاستوں میں دوستی بڑھ جائے۔ فقط ۔
ٹیپو سلطان۔
میسور کی چوتھی جنگ جو سرنگاپٹم میں لڑی گئی جس میں سلطان نے کئی روز قلعہ بند ہوکر مقابلہ کیا مگر سلطان کی فوج کے دو غداروں میر صادق اور پورنیا نے اندورن خانہ انگریزوں سے ساز باز کرلی تھی۔ میر صادق نے انگریزوں کو سرنگاپٹم کے قلعے کا نقشہ فراہم کیا اور پورنیا اپنے دستوں کو تنخواہ دینے کے بہانے پیچھے لے گيا۔ شیر میسور کہلانے والے ٹیپو سلطان نے داد شجاعت دیتے ہوئے کئی انگریزوں کو جہنم واصل کیا اور سرنگاپٹم کے قلعے کے دروازے پر جامِ شہادت نوش فرمایا۔
میر جعفر از بنگال میر صادق از دکن
ننگ ملت ننگ دیں ننگ وطن (اقبال)
منقول
Riyast E Mysore Of India. Qureshi Or Pathan State In Mysore India?
Was Riyasat Mysore was Pathan State? Sultan Tipu Shaheed of Mysore and Pashtuns.
Pathan States, Sultanate of India. Pashtun Or Qureshi Kingdom Of Mysore In India.
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.