Peter Brian Medawar. Nobel Prize Winning Scientist. Urdu Biography.
Urdu Biography Of Peter Brian Medawar.
پیٹر میڈاور: بنی نوع انسان کا ایک محسن
ڈاکٹر ساجد علی
سر پیٹر برائن میڈاوار (Peter Brian Medawar ) کا شمار انسانیت کے ان محسنین میں ہوتا ہے جن کی تحقیق بنی نوع انسان کے لیے بہت زیادہ فیض رسانی کا سبب بنتی ہے۔ وہ نوبل انعام یافتہ سائنس دان تھا۔ اسے میڈیسن اور فزیالوجی کے شعبے میں سن 1960 میں نوبل انعام ملا تھا۔ اس کی تحقیق Acquired immunological tolerance
کے موضوع پر تھی جس کے نتیجے میں اعضا کی پیوند کاری ممکن ہو سکی تھی۔
نسل پرستانہ ماحول میں مخلوط نسل سے ہونے کے باوجود میڈاور اس لحاظ سے بہت خوش قمست رہا کہ اس نے علمی اور دنیاوی ترقی کا سفر بڑی بہت تیز رفتاری سے طے کیا تھا۔ اسے چھوٹی عمر میں بڑے بڑے اعزازات مل گئے تھے۔ وہ 33 سال کی عمر میں پروفیسر بن گیا تھا؛ 34 سال کی عمر میں رائل سوسائٹی کا فیلو منتخب ہوا اور 45 سال کی عمر میں نوبل انعام کا حقدار ٹھہرا۔ اس کو ملنے والے انعامات اور اعزازت اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا تذکرہ کرنا کافی طویل ہو جائے گا۔ سن 1965 میں اسے سر کا اعزاز دیا ٓگیا اور 1981 میں آرڈر آف میرٹ کا اعزاز عطا ہوا
پیٹر میڈاور کا باپ لبنانی نژاد تھا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ میڈاور اصل میں عربی لفظ مدور ہے۔ وہ انگلستان تعلیم کے لیے گیا تھا۔ وہاں ایک انگریز عورت سے شادی کے بعد وہ برطانوی شہری بن گیا۔ بعد ازاں کاروبار کے سلسلے میں وہ برازیل منتقل ہو گیا تھا۔ پیٹر 28 فروری 1915 کو برازیل میں پیدا ہوا تھا۔ اپنے والدین کے تین بچوں میں وہ سب سے چھوٹا تھا۔ اس کی ابتدائی سکولنگ برازیل میں ہوئی لیکن پھر اس کو اور اس کے بڑے بھائی کو تعلیم کی خاطر انگلستان بھیج دیا گیا۔ وہاں انھوں نے بورڈنگ سکولوں میں اپنی تعلیم حاصل کی۔ میڈاور نے اپنی خود نوشت میں ان پبلک سکولوں کی ناگفتہ بہ حالت کا کافی ذکر کیا ہے۔
مشہور پبلک سکول مارلبرو کو، جہاں اس کی تعلیم ہوئی، وہ سخت ناپسند کرتا تھا کیونکہ اسے وہاں نسل پرستانہ منافرت کا سامنا کرنا پڑا۔ اساتذہ کا معیار بھی کچھ زیادہ اچھا نہ تھا۔ البتہ اس نے دو استادوں کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ فرینچ کے استاد نے اسے اتنی زبان پڑھا دی تھی کہ وہ بلاتکلف فرانسیسی کتابیں پڑھنے کے قابل ہو گیا لیکن اس کا کہنا تھا کہ اسے کسی فرانسیسی کے سامنے کبھی فرینچ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی کیونکہ اس کا تلفظ فرانسیسی کے لیے بہت نامانوس ہوتا۔ دوسرا بیالوجی کا استاد ایشلی گورڈن لاونڈس تھا جس نے اس کے دل میں بیالوجی کی محبت کا بیج بویا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بیالوجی کا ڈسپلن ابھی عالم طفولیت میں تھا۔ بیالوجی کا بطور سائنس مرتبہ بلند کرنے میں جن لوگوں کا نمایاں کردار ہے ان میں میڈاور کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس نے نوبیل انعام کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
وقت وقت کی بات ہے، اگرچہ ہمارے فزکس اور کیمسٹری کے برادران میری اس بات پر مسکرائے بغیر نہیں رہیں گے، کہ بیالوجی بھی اب سائنس بن چکی ہے جس میں نظریات وضع کیے جا سکتے ہیں: ایسے نظریات جن کی بنا پر پیش گوئیاں کی جا سکتی ہیں جو بعض اوقات سچ نکلتی ہیں۔ ان حقائق سے میرے اس یقین کو تقویت ملتی ہے کہ بیالوجی تمام علوم کی وارث ہے۔
میڈاور کو جب نوبل انعام ملا تو اسے افسوس ہوا کہ اس کے دو رفقا روپرٹ بلنگھم اور لیزلی برینٹ ، جو اس کے شاگرد بھی تھے، کا نام انعام یافتگان میں شامل نہ ہو سکا کیونکہ اصلاً وہ ان تینوں کا مشترکہ کام تھا۔ تاہم اس نے انعام کی رقم سے ان دونوں کو بھی حصہ دیا تھا۔
میڈاور بہت طویل قامت تھا۔ چھ فٹ پانچ انچ قد اور بڑے بڑے ہاتھ تھے لیکن اس کے باوجود وہ لیباریٹری میں مشکل اور نازک تجربات کو بڑی مہارت اور نفاست سے سرانجام دیتا تھا۔ وہ کرکٹ، سکواش، شطرنج اور سنوکر کا اچھا کھلاڑی تھا۔ میوزک سے والہانہ محبت تھی۔ واگنر اور وردی کے اوپراز کا بہت مداح تھا
جن دنوں میڈاور آکسفرڈ یونیورسٹی کے میگڈلن کالج کا سٹوڈنٹ تھا، سمرویل کالج کی ایک طالبہ جین ٹیلر نے لائبریری میں اس سے ایک فلسفیانہ اصطلاح کے معنی دریافت کیے۔ میڈاور کی یہ شہرت پھیل چکی تھی کہ وہ نصاب کے علاوہ بھی بہت کچھ پڑھتا رہتا ہے۔ میڈاور نے لفظ کے معنی تو بتا دیے لیکن اسے یہ دھیان نہ آیا کہ اس لڑکی کا ٹیلی فون کا نمبر ہی پوچھ لیتا۔ بہرحال کچھ دنوں وہ دوبارہ اسی لفظ کا مطلب پوچھنے آ گئی۔ اس پر میڈاور نے کہا کہ اسے فلسفہ پڑھنا پڑے گا اور اسے فلسفہ پڑھانا شروع کر دیا۔ دونوں میں دوستی ہو گئی۔ جب میڈاور نے شادی کی پیشکش کی تو جین کے گھر والوں نے مخالفت کی کہ اس کا نہ کوئی اعلیٰ خاندانی پس منظر ہے، نہ اس کے پاس مال و دولت ہے۔ اور یہ کہ مشرقی لوگ اچھے شوہر ثابت نہیں ہوتے۔ بہرحال دونوں کی شادی ہو گئی اور ان کی شادی شدہ زندگی بہت شاندار تھی۔
سن 1941 میں آکسفرڈ یونیورسٹی نے اس کا پی ایچ ڈی کا مقالہ منظور کر لیا لیکن اس کو ڈگری نہ مل سکی کیونکہ ڈگری کی استدعا کے ساتھ 25 پونڈ کی فیس جمع کروانی پڑتی تھی جو اس کے پاس نہیں تھے۔ چند برس بعد یونیورسٹی نے اسے ڈاکٹر آف سائنس کی ڈگری دے دی تھی۔ میڈاور مذاق میں کہا کرتا تھا کہ میں ڈاکٹر ہوں لیکن میرے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری نہیں ہے۔
سن 1969 میں وہ برٹش ایسوسی ایشن کا صدر منتخب ہوا۔ صدارتی لیکچر دیتے ہوئے اس پر پہلی بار فالج کا حملہ ہوا جس سے وہ کبھی مکمل طور پر صحت یاب نہ ہو سکا۔ اسی وجہ سے وہ سن 1970 میں رائل سوسائٹی کی صدارت کا منصب نہ سنبھال سکا۔ اس کے بعد بھی کئی حملے ہوئے۔ لیکن اس نے کبھی ہمت نہ ہاری۔ اس کی بیوی جین نے بڑی محبت، خلوص اور پامردی سے اس کا ساتھ دیا۔ اسی مشکل دور میں اس نے اپنی زیادہ تر کتابیں تحریر کیں۔ وہ ایک بھرپور اور ثمربار زندگی گزارنے کے بعد سن 1987 کے اکتوبر کی دو تاریخ کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گیا تھا۔
نوبل انعام ملنے کے بعد اسے روس کی اکیڈمی آف سائنس میں لیکچر دینے کی دعوت موصول ہوئی۔ وہ اپنی بیوی کے ہمراہ ماسکو گیا۔ ماسکو کے بعد انھیں لینن گراڈ کا دورہ کرنا تھا۔ جب وہ اپنی بیوی اور روسی ترجمان کے ساتھ ایرپورٹ پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہاں سے آنے والا جہاز برف کے طوفان کی وجہ سے پہنچ نہیں سکا۔ روسی ترجمان کو اس بات پر کچھ خفت محسوس ہوئی۔ اس نے ان دونوں کو ایک کمرے میں بٹھایا اور کچھ دیر انتظار کرنے کا کہہ کر چلا گیا۔ چند گھنٹوں بعد وہ واپس آیا اور کہا کہ جہاز تیار ہے۔ جب وہ لوگ جہاز میں سوار ہوئے تو میڈاور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جہاز میں صرف وہی تین مسافر تھے۔ اس روسی ترجمان نے غیر ملکی مہمانوں کے سامنے اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے کہیں اور جانے والا جہاز خالی کرا لیا تھا۔ میڈاور نے اسے کہا کہ اگر برطانیہ میں ایسا واقعہ ہوتا تو اگلے دن حکومت ختم ہو جاتی لیکن اس روسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ حکومت کے خاتمے سے کیا مراد ہے؟
پیٹر میڈاور کی کارل پوپر سے بہت دوستی تھی۔ پوپر کو رائل سوسائٹی کی فیلو شپ دلوانے میں اس کا بڑا رول تھا۔ ٹامس ہکسلے کو ڈارون کا بل ڈاگ کہا جاتا تھا کیونکہ اس نے بڑے جارحانہ انداز میں ڈارون کا دفاع کیا تھا۔ میڈاور کا بھی پوپر کے ساتھ اسی طرح کا تعلق تھا لیکن ایک فرق کے ساتھ۔ پوپر کو دفاع کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ کسی قسم کے حملوں کا ہدف نہیں تھا۔ پوپر کا معاملہ یہ تھا کہ اسے نظر انداز کیا جاتا تھا۔ جب میڈاور جیسے نامور اور قد آور سائنس دان نے پوپر کے خیالات کی ترویج کا بیڑا اٹھایا تو اس کی بات دھیان سے سنی گئی، اس پر غور کیا گیا اور بہت سے سائنس دانوں نے قائل ہو کر اپنے خیالات کو تبدیل کر لیا۔
اس نے اپنی تحریروں میں واضح کیا کہ صرف پوپر ہی ایسا زندہ فلسفی ہے جس کے وضع کردہ منہاجیاتی اصول بصیرت سے معمور، حقیقت پسندانہ اور عملی طور پر کارآمد ہیں۔ اس نے بتایا کہ کس طرح پوپر کے خیالات نے سائنسی تحقیق اور تجربات کو ڈیزائن کرنے میں اس کی مدد کی۔
سن 1949 میں برطانوی فلسفی اے جے ایر نے ایک میٹالوجیکل سوسائٹی بنائی جس میں رسل، اور پوپر کے علاوہ تین چار سائنسدان بھی شامل تھے۔ یہ سوسائٹی کامیاب نہ ہو سکی کیونکہ سائنس دان اور فلسفی ایک دوسرے کی بات سمجھنے سے قاصر تھے۔ بہرحال پوپر اور میڈاور کی مسلسل کوششوں سے سائنسدانوں میں اس بات پر تقریباً اتفاق ہو گیا کہ ان کے سائنسی منہاج کا استقرا سے کوئی تعلق نہیں۔ اب سائنس دانوں میں پوپر کے مداحوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن شاید ان میں بہت کم ایسے ہوں گے جنھوں نے پوپر کو براہ راست پڑھا ہو، زیادہ تر کا گزارہ میڈاور کی تشریحات پر ہی ہو رہا ہے۔
میڈاور کا شمار ان معدودے چند لوگوں میں ہوتا تھا جو عام قاری کے لیے، جس کی کوئی سائنسی تعلیم اور تربیت نہیں، بہت آسان مگر فصیح زبان میں سائنسی مسائل و معاملات کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس کی نثر اس کی طبعی ظرافت اور خوش دلی کی آئینہ دار ہے۔ رچرڈ ڈاکنز نے اسے بیسویں صدی میں سائنس پر لکھنے والوں میں سب سے زیادہ دلچسپ نثر لکھنے والا قرار دیا تھا۔ خود میڈاور کا کہنا تھا کہ زندہ رہنے والی نثر لکھنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑی ہے۔
Peter Brian Medawar. Nobel Prize Winning Scientist. Urdu Biography.
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.