Skip to main content

Meri Qalaat Aur Balochistan. Kalat And Baluchistan History In Urdu.

 Meri Qalaat Aur Balochistan. Kalat And Baluchistan History In Urdu.


میری کلات اور بلوچستان

(تحریر پناہ بلوچ)

 کلات بلوچی زبان میں قلعے کوکہتے ہیں ۔یہ وہ عمارت ہوتی ہے ،جہاں پر حاکم، سربراہ ، خان، امیر اور قوم کےسربراہان رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ کلات کے علاوہ اس عمارت کو میری، ماڑی اور کوٹ بھی کہاجاتا ہے۔جب ہم بلوچ سرزمین پرآباد بلوچ قوم کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں ایسے لاتعدادقلعوں کا ذکر ملتا ہے، جو ہمیں بلوچوں کے چھوٹے بڑے مرکزیت کے دوران سربراہان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ 

 جیسے کہ سبی میں چاکر خان کا کلات جس میں سولہویں صدی کے دوران رند ولاشار مرکزیت کا نشان نظر آتا ہے۔اسی طرح کیچ میری جس کو پنوں کا کلات بھی کہاجاتا ہے، ہوت دور کی علامت ہے۔مغربی بلوچستان میں بمپور کا کلات جو کبھی بلوچوں کا پایہ تخت رہا ہے۔ مغربی بلوچستان میں چابہار کا کلات جہاں پر میر حمل جیئند نے حکمرانی کی، اسی طرح ایران شہر کا کلات جو میر دوست محمد کے دور میں دارالحکومت رہا۔خیر پور سندھ میں میر سہراب خان ٹالپور کا کوٹ ڈیجی کا کلات اور ان ہی کا (سندھ وبھارت کے سرحدی علاقے میں) امام گڑھ کا کلات، کوئٹہ میری جس کوکوٹ بھی کہاجاتا ہے،(بزرگ بتاتے ہیں کہ پرانے دور میں میری کی وجہ سے سریاب کے حدود کے شمالی علاقے کو کوٹ اور جنوبی علاقے کو شال کہاجاتا تھا)۔ اسی طرح مغربی بلوچستان کے ضلعے سب وسوران میں سب کلات، خاران کلات کے علاوہ سندھ، پنجاب،بلوچستان، ایران اور افغانستان کے بلوچ آبادی والے علاقوں میں دیگر لاتعداد کلات، میری ،ماڑی،اورکوٹ کے نام سے قلعے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں دمب(ٹیلے) بھی موجود ہیں جو ان علاقوں میں بلوچ قبائلی سربراہان اور والیانِ حکومت کی عظیم نشانیاں کہلاتی ہیں۔


 ہمارا موضوع بحث وہ کلات ہے جو آخری بلوچ فرماں روا کی نشانی کے طور پر یاد کیاجاتا ہے، جس کو مورخین نے میری کلات، سیواکلات اور کلات نیچارہ کے نام سے تاریخ کے اوراق کی زینت بنایا ہے، جو کہ اس وقت تقریباً ملیامیٹ ہونے کے قریب ہے


 کلات بلوچ قوم کے لیے آزادانہ تشخص کا نشان اور بلوچ تاریخ میں درخشاں باب کی حیثیت رکھتا ہے، جس پر صدیوں سیوائی پانچ سوسال تک اکراد بلوچ ،سیوائی بلوچ، رئیس بلوچ، میرواڑی بلوچ،رند بلوچ اور پھر تقریباً تین صدیوں تک احمد زئی بلوچ خاندان کے چشم وچراغ نے جاہ وجلال کے ساتھ حکمرانی کی۔ جن میں میر سمندر خان احمد زئی بلوچ نے ”امیرالامرا“ میر عبداﷲ خان نے”پہاڑی عقاب“ میر نصیر خان احمد زئی بلوچ نے”نوری نصیر خان“ کاخطاب پایا اور میر محراب خان احمد زئی بلوچ نے انگریزوں سے مرد انہ وار مقابلہ کرکے حریت کے کارنامے سرانجام دیے۔

 جدید تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ میر احمد خان(اوّل) قمبراڑی بلوچ نے 1666ءسے1667ءمیر محراب خان (اوّل) احمد زئی بلوچ نے1695ءسے 1696ءتک،میر سمندر خان احمد زئی بلوچ نے1697ءسے 1713ءتک، میر احمد خان (دوم) احمد زئی بلوچ نے1713ءسے 1714ء، میر عبداﷲ خان احمد زئی بلوچ نے1715ءسے 1730ءتک، میر محبت خان احمد زئی بلوچ نے1730ءسے1749ءتک، میر نصیر خان احمد زئی بلوچ” المعروف نوری نصیر خان“ نے1749ءسے 1794 تک، میر محمود خان(اوّل) احمد زئی بلوچ نے1794ءسے1831ءتک،میر محراب خان (دوم) احمد زئی بلوچ نے1831ءسے1839ءتک،میرشاہنواز خان احمد زئی بلوچ1840ءسے1857 ءتک، میر نصیر خان(دوم) احمد زئی بلوچ نے مئی1857ءسے مارچ 1863ءتک، میر شیردل خان احمد زئی بلوچ نے مئی1863ءسے 1864ءتک میر خداداد خان احمد زئی بلوچ نے (دوبارہ) نومبر1863ءسے نومبر1931ءتک، میر محمود خان(دوم) احمد زئی بلوچ نے نومبر1931ءسے1933ءتک، جب کہ میر احمدیارخان احمد زئی بلوچ نے ستمبر1933ءسے تاالحاق پاکستان کلات پر حکمرانی کی۔ 

واضح رہے کہ 27 مارچ19488ءکو ریاست کلات کو پاکستان نے ساتھ ملایا۔ تاہم3،اکتوبر1952ءکو مکران، لسبیلہ، خاران اور ریاست ِ کلات نے مل کر بلوچستان اسٹیٹس یونین بنایا جس کا سربراہ خان اعظم ریاستِ کلات کا حاکم تھا۔جن کا پاکستان کے ساتھ باضابطہ اطلاق 4،اکتوبر1955ءکوہوا۔میر احمد یار خان بلوچ آخری فرمانرواکلات اپنی کتاب،”تاریخ بلوچ وخوانین بلوچ“ میں میر احمد خان سے قبل کلاتِ پر میر حسن خان میرواڑی بلوچ، میر بجار میر واڑی بلوچ، میر مندورند بلوچ، میر عمر خان میرواڑی اور سردار میروخان میرواڑی کو بالترتیب کلات کے حکمران لکھتے ہیں۔ جب کہ میر نصیر خان احمد زئی اپنی کتاب”تاریخ بلوچ و بلوچستان“ میں کلات پر 854 قبل مسیح سے 550 قبل مسیح تک میر کیکان اوّل(جس کو میرِ میران کا لقب حاصل تھا) کرد بلوچ نے854ق م سے 803 ق م تک، امیر زوراک (میر میران) نے803 ق م سے750 تک، امیر وشتاب نے751 ق م سے 710 ق م تک ،امیر ذگرین710 ق م سے 675 ق م تک، امیر زیبار نے675 ق م سے 638ق م تک، امیر براخم،638ق م سے 594 ق م تک ، امیر گوران594 ق م سے 550 ق م، امیر اُرشان550 ق م سے519 ق م تک ، امیرزوراک( دوم) نے 519 ق م سے485ق م تک،امیر اَرجان نے485ق م سے460 ق م تک، امیر شاموز460ق م سے 424 ق م، امیر براخم (دوم) نے424 ق م سے400 ق م تک، امیر سابول نے400 ق م تا 370 ق م، امیر نورگان نے370 ق م سے350ق م تک، امیر کیانوش نے350م ق سے338 ق م تک اور امیر کیکان دوم نے338 ق م سے330 ق م تک کلات پر کرد بلوچ حکمرانوں کا ذکر کرتے ہیں۔

خلیفہ حضرت علیؓ(656ع تا660ع) اور بنی امیہ خاندان کے پہلے خلیفہ امیر معاویہ(640ع تا680) کے خلافت میں قدیم بلوچستان کے دوخطے توران(سطح مرتفع کلات) اور مکران میں کرد بلوچوں کی قبائلی انتظامیہ کے کونسل کے یہ امرا تھے۔1۔ امیر مردان براخوئی

2۔ امیر خلف زنگنہ

3۔امیر آلاک اورگانی

4۔امیرتاکول ماملی

5۔امیر آکول کرمانیاس کے بعد171 ق م سے124 ق م تک، امیر بہرام براخوئی،124ق م سے 88ق م تک امیر شاہداد براخوئی 88ق م سے 69 ق م تک امیر بہرام براخوئی،69 ق م سے 55 ق م تک امیر مہرداد،55 ق م سے 25 ق م تک امیر بہمن،25 ق م سے 1 ق م تک، امیربسام، 1 ع سے12ع تک، امیر خفی،12 ع سے 78 ع تک امیر شاوش78 ع سے 128ع تک امیر مردان،128ع سے 162 ع تک ،امیر شاہ میر،162ع سے182ع تک،امیربیغ،182 ع سے227ع تک ،امیر شاہ 227ع سے240ع تک، امیر براک،240ع سے272ع تک،امیر مہران،272 ع سے 301ع تک، امیرشادان،301 ع سے 309 ع تک،امیر رستم،309ع سے379ع تک، امیر سلم،379 ع سے399 ع تک،امیر سیامک،399ع سے420ع تک، امیر منگیب،420ع سے457ع تک، امیر شاہ برز،457 ع سے 483ع تک، امیر کوشان،483ع سے501ع تک، امیر رشان،501ع سے531ع تک، امیر کیاسر،531ع سے579ع تک، امیر بہرام،579ع سے590ع تک، امیربیدار کی حکمرانی کا ذکر ملتا ہے۔ اسی 590 ع کے بعد613 ع تک ،امیر بشام،613ع سے 628ع تک،امیر جادبر،628ع سے644ع تک،امیر جان بیگ،466 ع سے680ع تک، امیر مہرداد،680ع سے688 ع تک،امیر مردان،688ع سے715 ع تک ، امیر اسد،715ع سے743ع تک، امیر نوذر،743ع سے750ع تک، امیر ایرج،750ع سے869ع تک، امیر موسیٰ،869ع سے892ع تک، امیر عمر،892ع سے908ع تک، امیر سعد،908ع سے945 ع تک، امیربراخم،945ع سے974ع تک،991ع تک امیر بہرام،991ع سے1031ع تک امیر رستم ۔


اسی طرح1245ع تک۔یہاں پر امرائے کونسل اکراد بلوچ کی یہاں پر موجودگی کا ذکر ملتا ہے۔ تاہم ان کی توران پر حکمرانی کے متعلق تاریخ کے اوراق خاموش دکھائی دیتے ہیں۔پھر یہاں پر سیوا خاندان کے قبضے کا ذکر آتا ہے، اورسنان بن سلمہ کے ساتھ سیوا زوراک اور اس کے بیٹے سنگین کے مڈبھیڑ کا تذکرہ ہوتا ہے۔ لیکن مورخین طبری، بلاذری، قاضی اظہر مبارکہوری،اعجاز الحق قدوسی، ڈاکٹر  محمد اسحٰق بھٹی، شاہد حسین رزاقی، اور ڈاکٹر عبدالرحمن براہوئی، اپنی اپنی تصانیف میں عرب حکمران راشدبن عمرو بن قیس عبدی الآزدی اور سنان بن سلمہ کے ساتھ میدوں کے مڈبھیڑ کا ذکر کرتے ہیں۔ کوردگال نامک میں شہادت حسین کے بعد اکراد بلوچ توران ومکران(قدیم بلوچستان) نے سوگ منایا، جن اکراد بلوچ قبائل نے ماتم میں حصہ لیا، ان میں:1۔ براخوئی۔2۔ ادرگانی۔3۔ زنگنہ۔4۔سنجاوی۔5۔ ماملی۔6۔ کرمانی۔7سباہی۔8۔بازیجانی۔9سفاری۔10سنجانی۔


11۔ سورانی۔12۔شاری۔13۔شاماری۔14۔سُریانی۔15۔بابینی۔16۔آسکانی۔17۔توکانی۔18۔جلابک۔

19۔صلاحی۔20۔ شینوانی۔21۔جاوی۔22۔گُرجینی۔23۔ہوتکاری۔24۔ شکانی۔25۔ندامانی۔26۔شوون۔

27،مجارانی۔28۔مرّائی۔29۔کِشانی۔30۔شمبد۔31۔کِدک۔32۔خاوری۔33۔دینوری۔34۔جسفانی۔35۔سویانی۔

36۔حسرانی۔37۔دیگانی۔38۔گوجاری۔39۔شاہولی۔40۔شنبانی۔41۔اتیتری۔42۔شاہکی۔43۔بیوانی۔

44۔سارونی۔45۔سمدینی۔46۔الزاری۔47۔جسکانی۔48۔کربانی۔49۔بوزیری۔50۔جلوانی۔51۔سلاری۔

52۔ہوتانی۔53۔ساہتک۔54۔روہیلی۔55۔شولانی۔56۔بوتانی۔57۔ترحانی۔58۔جیانی۔59۔باجانی۔60۔باہو۔

61۔تیغانی۔62۔شَملُو۔63۔رودینی۔64۔جلاّب۔65۔شخل۔66۔شابیکی۔67،تیہو۔68۔ساوانی۔69۔بادینی۔

70۔ مسِکانی۔71۔آدینی۔72٬ہیحب۔73۔یلانی۔74۔جیندی۔75۔دُرکی۔76۔شیکبانی۔77۔شامیری۔78۔تورانی۔

79۔جیکانی۔80۔کیکانی۔81۔بیزن۔82۔جلائی۔83۔زرینی۔84۔سمالی۔85۔تشکری۔86۔شاہکی۔87۔سنجری۔

88۔سوجانی۔89۔شمبوانی۔90۔بجیری۔91۔کودانی۔92۔توہو۔93۔زیرکی۔94۔بورکی۔95۔ہوتمانی۔96۔ہمدانی۔

97۔حادی۔98۔عبدانی۔99۔بُجوری۔100۔تیلگی۔101۔شورانی۔102۔نودو۔103۔سَنگُر۔104۔شیفاک۔

105۔زیروی۔106۔کِرتک۔107۔کوچانی۔108۔زرکانی۔109۔جونگل۔110۔دُرّاک۔111۔بمبکانی۔112۔کورانی۔

113۔سیوائی۔114۔شیلک۔115۔مُجار۔116۔زرنان شامل ہیں۔پھر وہ لکھتے ہیں کہ1295 ع سے1304ع تک گزن، اس کے بعد اس کے بھائی اُلجیئے تو حکمران بنتے ہیں، جو1316 ع تک حاکم ہوتے ہیں،


اس کے بعد امیر کمبر میروانی براخوئی (براھوی) بلوچ کی مسند نشینی جو1440ع سے 1460ع تک ہوتی ہے، اس کے 1485 ع سے1512 ع تک رند بلوچوں کی حکمرانی کا ذکر کرتے ہیں۔ دوبارہ میروانی بلوچوں کی حکمرانی شروع ہوتی ہےَ امیر ذگر میروانی1530 ع سے1538 ع تک، امیر حسن کمبرانی بلوچ1549 ع سے1560 ع تک، امیر ملوک کمبرانی1581 ع سے1590 ع تک، امیر سوری کمبرانی1610ع سے1618 ع تک کے حکمرانوں کا ذکر کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ بلوچ تاریخ کے مورخین میروانی بلوچوں سے قبل سے میرکمبررئیس کو کلات کے حکمران ہونے کا ذکر کرتے ہیں، مذکورہ بالا حوالہ جات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ گزین سے قبل کلات کا حاکم رہے ہوںگے۔ اسی دوران کلات سیوا یا سیواخاندان کاذکر بھی آتا ہے۔متشرقین ودیگر مورخین نے کلات ِ سیوا کاذکر کیا تو محققین نے اس سیوا کی جڑیں توران سے ملحقہ سندھ کے ہندوحکمران رائے خاندان (جن کو سیوا بھی کہاجاتا ہے) کی راجدھانی سیوستان سے جوڑنے کی بھر پور کوشش کرکے اصل حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مندرجہ بالاحقائق کے مطابق854 ق م سے590ع تک میدوں کی مدد سے کردوں نے کلات اور ملحقہ علاقوں پر حکمرانی کی ہے، پھر590ع سے1245ع تک یہاں پر اکراد بلوچ کے کونسل کے پنجگانہ کاذکر ملتا ہے اور 1295ع سے گزن حکمران بنتے ہیں۔ پھر تاالحاق پاکستان بلوچ ہی اس ریاست کے حکمران بنتے رہے ہیں۔سندھ جس کو رائے خاندان کے دور حکومت میں سیوستان بھی کہاجاتا تھا، جو شیواستھان یعنی شیو کے رہنے کی جگہ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ جن کا اقتدار قبل از اسلام یعنی622 عیسوی کو سندھ میں ختم ہوتا ہے، اس کے بعدتاریخ کے اوراق میں بلوچستان کے ملحقہ علاقوں میں سیوانامی کسی حکمران کے آثار بھی نہیں ملتے ، جن کی لڑیاں متشرقین کے اس دعویٰ کو سچ میں تبدیل کرسکیں۔ملک سعید احمد دہوار لکھتے ہیں،”یہ معلوم نہیں کہ وہ کون سا سیاسی وسماجی پس منظر تھا جس کی بنیاد پر ایک ہندوخاندان کو عہد وسطیٰ میں کلات میں اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کا موقع ملا“۔ اسی طرح راورٹی بھی بحث کرتے ہیں،”عربوں کے فتح کے بعد کوئی تاریخ یاشہادت کا کوئی معمولی نشان موجود نہیں جس کی رو سے یہ ظاہر ہوسکے کہ کسی بھی ہندو مملکت کا اسلامی علاقے کے کسی حصے میں وجود تھا“۔میر گل خان نصیر لکھتے ہیں،” کوچ وبلوچ سے قبل کلات سطح مرتفع میں قدیم براہوئی یا سیوائی قبائل کے لوگ آباد تھے، وہ دراوڑ نہیں تھے، بلکہ سائتھی آرین نسل کے کوشی یا کوشانی تھے“۔ میسن بیان کرتا ہے،” ایک مسلمان خاندان صحرائی یا سہرائی کلات پر حکومت کرتا تھا جس کو سیوا ہندو نے اکھیڑدیا“۔اسی طرح کو ردگال نامگ میں اکراد بلوچوں کے طائفوں میں سیوائی طائفے کا ذکر ملتا ہے، جبکہ الفت نسیم لکھتے ہیں،” لانگوں ایک قدیم طائفہ شالی کی روایت ہے کہ سہرائی یا سیرائی ان کے آباواجداد کا طائفہ رہا ہے جو کلات پر بالادستی رکھتے تھے۔ ان کا قدیمی علاقائی تعلق پنجگور کے موضع گچک سے رہا ہے، ان کا ایک سردار یا حاکم راہو سیرائی رہا ہے“۔کلات چوںکہ پہاڑ ی علاقہ ہے اس لیے یہاں پر آباد طائفے یا قبیلے یا ان کے سربراہ کاخطاب یا نام صحرائی تو نہیں ہوسکتا،اور نہ ہی سیرائی لفظ کوئی معنیٰ رکھتا ہے۔تاہم لفظ سرائی موجود ہے جو کہ ”کاروان سرا“ یا ”کاروان سری“ سے نکلا ہے۔ جس کے معنیٰ فارسی زبان میں”خان“ اور ترکمن زبان میں”حان“ کے ہیں اور اسی طرح ”حان“ بلوچ اپنے نام کے ساتھ عزت کے طور پر استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔کچھ ماہرین لسانیات کی سرائیکی زبان کے بارے میں رائے ہے کہ یہ بھی سرائی سے نکلی ہے۔ اس کے علاوہ بہاولپور اور خیر پور میرس(جوپہلے آزاد ریاست رہے ہیں، بہاولپور ریاست میں آج بھی بلوچ کثیر تعداد میں آباد ہیں جب کہ والیانِ ریاست یعنی عباسی دور میں اہم عہدوں پر فائز رہے اور خیر پور میرس تو ٹالپور خانوادوں کی ریاست رہی ہے، جوکہ نسلاً بلوچ ہیں) کے متعدد علاقوں میں سرائیکی زبان بولنے والے اکثر معتبرین کا خطاب بھی سرائی ہے، مندرجہ بالا حقائق واضح کرتے ہیں کہ میر کمبر رئیس کے کلات آمد سے قبل یہاں پر سیوائی، ” سری“ یعنی پہلے سے آباد یا سرائی بلوچ یعنی عزت داراور رتبے والے بلوچ آباد تھے۔اب آتے ہیں، کلات بلوچ کے قدیم نام کی طرف، نامور مورخ میر نصیر خان احمد زئی لکھتے ہیں،”براخوئی اکراد کے توران پہ قبضہ کے بعد854 ق م میں امیر کیکان نے بحیثیت حکمران مسند توران پر جلوس کیا، سب سے جس اہم مسئلہ پر اس نے توجہ دی، وہ آٹھ براخوئی طائفوں پر ملک کی تقسیم کا مسئلہ تھا، جسے اس نے براخوئی اکراد کے آٹھ طائفوں پر تقسیم کیا۔ توران ملک کوتین حصوں میں تقسیم کیا، خطہ شمالی ،خطہ وسطی،خطہ جنوبی ،خطہ شمالی طائفہ گورانی وکیکانی کو دیا گیا جو اس دور میں”بنجیران“ کے نام سے موسوم تھا۔ یہ شہادت واضح کرتی ہے کہ میدین دور854 ق م میں میدکردوں کے امیر کیکان کےبینکے کلات کے میرِ میران (حاکم) بننے سے قبل یہشہر وعلاقہ ”بنجیران“ کے نام سے مشہور تھا اور ان کے حکمران بننے کے بعد اس کا نام کیکان پڑگیا۔ واضح رہے کہ بلوچ قبائل میں بوجیران، بوژیران اور بوہیران نام رکھا جاتا ہے، جوکہ اسی بنجیران کا تسلسل ہے، اس کے علاوہ سندھ کے علاقے سیوہن سے لے کر جام شوروتک کے درمیانی علاقے کے پہاڑی سلسلوں میں قدیم بلوچوں کا طائفہ بوجیری آباد ہے، جو آج تک بلوچی زبان بولتے ہیں ۔کوردگال نامک میں امام حسینؓ کے شہادت پر جن اکراد بلوچ طائفوں نے سوگ میں حصہ لیا ان میں بجوری،بجیریی اوربوزیری طائفوں کا ذکر ملتا ہے۔ آئینِ اکبری کے مورخ ابوالفضل نے بھی اس علاقے کا نام کلاتِ نیچارہ لکھا ہے۔الفت نسیم بھی اس کو کلات ِ نیچارہ کا نام دیتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق یہ بتاتے ہیں کہ نیچارہ اور پندران یہاں کے قدیم قصبے ہیں۔ڈاکٹر شاہ محمد مری لکھتے ہیں،” نیچارہ اور پندران کے علاقہ میں کئی کئی پہاڑوں، چٹانوں اور قبرستانوں میں زرتشتی آثار موجود ہیں“۔ راورٹی بھی لکھتے ہیں کہ کلاتِ بلوچ کا نام حاصل کرنے سے قبل اس قلعے کا نام کلاتِ نیچارہ تھا،اسی طرح ڈسٹرکٹ گزیٹیئر کے مورخ بتاتے ہیں کہ” نیچارہ جھالاوان کا قدیم گاوں ہے جہاں پر ایک کلات تھا“ واضح رہے کہ آج بھی نیچاری، براہوئی زبان بولنے والوں بلوچوں کا ایک نامور طائفہ ہے۔تاریخ کے اوراق یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب چچ نے سندھ میں حکمرانی کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی اور پنجگور تک کے علاقے کو قبضہ کیا تو وہ توران اور کندابیل پر حملہ کرکے ان کے باسیوں سے خراج وصول کرنے کا وعدہ لے کر اپنے وطن عازمِ سفر ہوئے، اب اگر مورخین اس واقعات کو بنیاد بنا کر ان علاقوں کو سندھ کاحصہ قرار دیتے ہیں تو یہ تاریخی غلطی ہوگی کیوںکہ سندھ کے کلہوڑہ حکمران بھی کچھ عرصہ کلاتِ بلوچ کے احمد زئی خاندان کے حکمرانوں کے باج گزار رہے ہیں۔مندرجہ بالا حقائق یہ واضح کرتے ہیں،کلاتِ بلوچ پر احمد زئی خاندان کے چشم چراغوں کی حکمرانی سے قبل یہاں پر مید، کرد، نیچاری، سرائی یاسیوائی، میرواڑی اور رند بلوچوں کی حکمرانی رہی ہے۔ ہاں یہ البتہ ماننے کی بات ہوسکتی ہے کہ بلوچوں کے چھوٹے بڑے اتحادیوں اور مرکزیت کی کم زوری کی وجہ سے یہ علاقہ کسی زور آور کےزیر اثر رہا ہوگا، لیکن یہ 854ق م سے قیام پاکستان تک بلوچوں کا مرکز رہا ہے۔متشرقین کا یہ دعویٰ کہ یہ کلات سیواتھا، یا ہندو سیوا خاندان کے زیر اثر رہا ہے، انتہائی غلط ہے۔ جس طرح کہ وہ بلوچ قوم کی تاریخ کو مسخ کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل کی اسی طرح وہ بلوچوں کی مرکزیت کے متعلق بھی من گھڑت خیالات کو فروغ دیتے ر ہے۔مندرجہ بالا شہادتوں سے بہت سے قباحتیں واضح ہوئی ہیں ،تاہم اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے،تاکہ تاریخ کے اوراق پرجمی دھول کو مکمل طور پر ہٹایا جاسکے۔ 

(تاریخ بلوچستان۔ بلوچ قوم اور اسکی تاریخ۔ مہتاک حال احوال۔ بلوچ تاریخ عرب تہذیب۔۔۔۔۔۔ )




Meri Qalaat Aur Balochistan. Kalat And Baluchistan History In Urdu. 

Tarekh Baluchistan. Tarikh Baluchistan Aur Baloch Qoom. Baluch Qoom Aur Is Ke Tareekh. Urdu History Books On Balochistan. Baluchistan Ki Tareekh. 

My Kalat And My Balchistan. Urdu History.


Comments

Popular posts from this blog

New Pashto Poetry Lines And Lyrics. Pashto Tappay In Written Text.

New Pashto Poetry Lines And Lyrics. Pashto Tappay In Written Text. Pashto Poetry Two Lines. Pashto Tappay In Text. ‏د خوېندو لوڼو سوداګره کږه شمله چې په سر ږدې خندا راځينه ټپه# که د پیزوان خاطر دې نه وے تابه زما د غاښو زور لیدلې وونه #ټپه ‏ستا یارانۍ ته مۍ زړه کیږۍ په څه خبره به اشنا درسره شمه خلک پېزوان خونړی بولي تا په نتکۍ د کلا برج ونړونه  Pashto New Tapay On Images 2022. Pashto Tappay In Text. Eid Mubarak Pashto Tapay. Pashto Eid Poetry. اختر ته ځکه خوشالیګم چی مسافر جانان می کلی ته راځینه Eid Mubarak In Pashto Tapa. Folk Songs Akhtar. اختر پرون وو پرون تیر شو تا تر څنګلو پوري نن سره کړل لاسونه Akhtar Janan Aw Pukhto Tapay. Eid Mubarak Poetry Pashto. خلکو اختر کښی غاړی ورکړی زه بی جانانه ګوټ کښی ناست ژړا کوومه خپل د راتلو لوظ دې ياد دے؟ سبا اختر دے انتظار به دې کومه Eid Mubarak In Pashto Language. Akhtar Di Mubarak Sha. اختر دی مبارک شه مورې څلور کمڅۍ مې وکړه دوه مې د خيال او دوه د کچ اختر ټالونه په ما دې ورځ د لوی اختر کړه چې دې په سترګو راله کېښودل لاسونه يوه روژه بله غرمه د...

Zama Zargiya Meaning In Urdu. Pashto Words Meanings

Zama Zargiya Meaning In Urdu. Pashto Words Meanings. Learn Pashto Words and Meanings. Info Different Contextual Uses Of Pashto Phrase Zama Zargiya or Zama Zargia. Pashto Language Words Internet Is Searched For Pashto Words Meaning Daily as People Speaking Languages Other Than Pashto Want To Learn Some Basic and Most Used Phrases. Search For Pashto Phrase " Zama Zargiya " Increased By 1150 % Today. Zama Zargiya Meaning In Urdu.  میرا جگر یا میرے دل کا ٹکڑا میرا جگر،  میرا محبوب یا میرے محبوب The Phrase Simply Means My Darling Or Sweetheart In English. Pashto. Zama Zargiya زما زړګیه English. Darling Or My Darling Or My Dear Or My Sweetheart. In Urdu Zama Zargiya Means " Meray Aziz " Meray Mehboob" Or Meray Humnasheen. Best Phrase For Zama Zargiya In Urdu. Meray Jigaar Or Jiggar Pashto Word Zama Means Mera Or Meray.  Pashto Word Zargay Means Dil Or Jigar.  Pashto Language Words زما زړګیه میرے محبوب میرے ہم نشین میرے جگر کا ٹکڑا "Zama Zargia Endearment Urdu...

Understanding the UAE Visa Ban: Reasons and Implications

پاکستانیوں کے لیے یو اے ای ویزا پابندی کے بارے میں تفصیلی خبر اور وجوہات متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے پاکستانی شہریوں پر ویزا پابندی عائد کر دی ہے، جس کی وجہ ان سرگرمیوں کو قرار دیا گیا ہے جن سے یو اے ای کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ یو اے ای میں موجود پاکستانی سفارتخانے نے تصدیق کی ہے کہ یہ پابندی نافذ العمل ہے اور یہ تمام پاکستانی شہریوں پر لاگو ہوتی ہے، چاہے وہ کسی بھی مقصد کے لیے سفر کر رہے ہوں۔ یو اے ای حکومت نے پابندی پر کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا، لیکن پاکستانی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ یو اے ای حکومت کو درج ذیل سرگرمیوں پر تشویش ہے: یو اے ای حکومت کے خلاف مظاہرے کرنا سوشل میڈیا پر یو اے ای حکومت پر تنقید کرنا مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونا یو اے ای حکومت نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی ہے کہ ان سرگرمیوں میں ملوث پاکستانی شہریوں کی تعداد دیگر قومیتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پاکستانی سفارتخانے نے پاکستانی شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ یو اے ای کا سفر کرنے سے گریز کریں جب تک کہ ان کے پاس درست ویزا نہ ہو۔ سفارتخانہ یو اے ای حکومت کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو حل کرنے اور پابندی ہٹانے کے...