World Transgender Day. Transgender Of KP and Pakistan. Zamarut Khan Story
خواجہ سراء
(Kilnefelter Syndrome)
یہ زماروت ہیں۔پشاور سے تعلق ہے اور خیبر پختونخواہ کی خواجہ سراء کمیونٹی میں نہ صرف اپنی خوبصورتی بلکہ دانائی کی وجہ سے نمایاں نام رکھتی ہیں۔ یہ
Kilnefelter Syndrome
کے ساتھ پیدا ہوئیں۔ ہمارے تئیسواں کروموسوم کا جوڑا جنس کا تعین کرتا ہے۔ XX ہو تو لڑکی اور XY ہو تو جسمانی خدوخال اور ساخت لڑکوں کی ہوتی ہے۔ اس سنڈروم میں تئیسویں کروموسوم کے ساتھ ایک X کروموسوم اضافی جڑ جاتا ہے۔ اگر XY کے ساتھ جڑ جائے تو اسے XXY 47 کہتے ہیں۔ یعنی ہے وہ لڑکا ہی مگر جنسی تعین والے کروموسوم میں ایک ایکس کی ایکسٹرا کاپی ہونے کی وجہ سے جسمانی ساخت اور ہارمونز میں قدرتی طور پر تقریباً 33 فیصد لڑکیوں والے کام آجاتے ہیں۔۔ یوں سمجھیں دو حصے مرد اور ایک حصہ عورت۔ ایک تو جسمانی ساخت کا مسئلہ ہوتا دوسرا نفسیات میں 33 فیصد رجحان فی میل سائیکالوجی کا ہوتا ہے۔
ایک ایکس زیادہ ہونے کی وجہ سے ہی اس سنڈروم کا شکار Male
کو X فی میل کروموسوم کی وجہ سے
Shemale بھی کہا جاتا ہے۔ بس ایک آپریشن کروا کر شادی بھی کر سکتی ہیں۔ مگر اسکے بعد ہارمونل بیلنس رکھنے کے لیے کچھ دوائیں کھانا ہوتی ہیں جو حمل وغیرہ اور جنسی صحت کو متاثر کر سکتی ہیں۔ چندی گھڑ کرے عاشقی ایوشمن کھرانہ کی حالیہ ریلیز ہوئی فلم اسی موضوع پر ہے۔
گذشتہ برس زماروت پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا گولیاں پیٹ میں لگیں۔ الحمدللہ ان کی جان بچ گئی مگر گھر والوں سے ملے جو زخم روح کو گھائل کر گئے وہ کبھی بھی بے درد نہ ہو سکیں گے۔
آج اکتیس مارچ کو پوری دنیا میں خواجہ سراء کمیونٹی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس کمیونٹی کو کئی نام دیے جاتے ہیں جو سب کے سب غیر انسانی اور ہتک آمیز الفاظ ہیں۔ ہیجڑہ، کھسرہ، تیسری جنس ، وغیرہ
لفظ خواجہ کا مطلب ہے افسر اور سرائے کا مطلب ہے رہنے کی جگہ۔ مغلیہ دور میں بادشاہوں نے اپنے درباروں میں اپنی بیویوں کے رہنے کی جگہوں پر اس کمیونٹی کو ملازمت دی اور ان کو سرا کا افسر یعنی خواجہ سراء کہا جانے لگا۔ تب سے اب تک ان کے لیے یہ لفظ قدرے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ مگر اب یہ خواجے یعنی افسر تو نہیں ہیں۔ بس سرائے میں ہی قید ہو کر رہ گئے ہیں۔
پاکستان میں صحت کی سہولیات کا فقدان ہے۔ ایک تو ان لوگوں کا علاج نہیں ہو پاتا ۔ دوسرا والدین ان بچوں کے مسائل کو سرے سے سمجھ ہی نہیں پاتے ۔ XXY 47 ہوتا تو دکھنے میں لڑکا ہی ہے مگر رجحان عادات و اطوار لڑکیوں والے ہوتے ہیں۔ میک اپ کرنا بال لمبے کرنا اور لڑکیوں جیسی باتیں کرنا انکی سرشت میں ہوتا ہے جسے نظر انداز کرکے ان بچوں پر جسمانی و ذہنی تشدد و ظلم کیا جاتا ہے۔ کہ وہ ان چیزوں کا اظہار نہ کریں۔ اور خود کو مرد ظاہر کریں۔ ایک وقت آتا ان لوگوں کو گھر سے نکال دیا جاتا اور یہ خواجہ سراء کمیونٹی میں جا کر پناہ لے لیتے۔ وہاں انکی گرو انکی بڑی بہن اور ماں کا درجہ حاصل کر لیتی۔
زماروت
Kilnefelter Syndrome
سنڈروم کی وجہ اور آپریشن نہ ہونے کیوجہ سے گھر سے نکالی جا چکی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ایک بار بھی وہ غلط فعل نہیں کیا جسے ہماری کمیونٹی سے جوڑا جاتا ہے۔۔ اور اکثریت ایسا دھندہ نہیں کرتی۔ جب بھوکوں مر رہے ہوں تو جان بچانے کی غرض سے اس لعنت کو قبول کیا جاتا ہے۔ کہ ہمارے ساتھ نا انصافی تو گھر سے ہی شروع ہو جاتی پھر سکول کالج یونیورسٹی اور ورکنگ پلیسز سب ہمارے لیے سرکس کا روپ دھار لیتی ہیں ۔ اور ہم اپنی شناخت ظاہر کرکے جوکر یا سیکس ورکر سمجھے جاتے۔
سنہ 2020 میں پاکستان کے 50 جید مفتیان کرام نے ایک فتویٰ جاری کیا۔ جس میں یہ کہا گیا ان کو تیسری جنس کہنا حرام ہے۔ اور مردانہ یا زنانہ واضح خصوصیات والے افراد اپنی مخالف جنس سے دین محمدی کے تحت نکاح کر سکتے ہیں۔ جنکی جنس واضح نہیں وہ اپنا علاج کروا کر نکاح کر سکتے ہیں۔ اور ان کو حق حاصل ہے وہ خود کو باقاعدہ علاج کے بعد اپنی جسمانی ساخت کے اعتبار سے لڑکا یا لڑکی کے طور پر متعارف کروا سکتے ہیں۔
اس ضمن میں شعور بہت ہی کم ہے۔ خواجہ سراء کمیونٹی کی شادی پر انکے اپنے ہی گھر والے پولیس کا چھاپا ڈلوا کر ہم جنس پرستی کی دفعہ لگوا کر ان کو ذلیل کرتے ہیں۔ یعنی ایک تو گھر سے نکال دیا اور جب وہ لوگ اپنی فیملی شروع کرنے کا سوچیں تو اسکا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔
اس بارے میں اپنی قانونی طور پر کئی سقم موجود ہیں۔ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت بہت ضروری ہے۔
یہ لوگ شادیوں میں ناچتے گاتے ہیں۔ تماشا کی جگہوں پر لوگوں کے سامنے ناچتے ہیں۔ ہمارے بچے پیدا ہونے پر خوشیاں بکھیرنے آتے ہیں۔ ہماری ہر خوشی میں خوش ہوتے ہیں۔ مگر ان کی اپنی زندگی میں خوشی دور دور تک نظر نہیں آتی۔ انکی زندگی میں سالگرہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کہ عیدوں شبراتوں اور دیگر مذہبی تہواروں پر بھی انکے اپنے ان سے نہیں ملتے۔ وہ لوگ مسجد مندر چرچ بھی جائیں تو نفرت سے دیکھے جاتے ہیں۔ پھر اپنی سالگرہ کو ہی سال بھر کی خوشی کا تہوار سمجھ کر منا لیتے ہیں۔
میں بحیثیت سپیشل ایجوکیشن ٹیچر سمجھتا ہوں۔ کہ ان لوگوں کو کسی الگ شناخت یا پہچان یا علاحدہ اداروں کی ضرورت نہیں ہے۔ مجموعی شعور اور قبولیت کے ساتھ معیاری صحت کی سہولیات انکی زندگی میں بے حد آسانیاں لا سکتی ہیں۔ والدین کی کاؤنسلنگ اور اساتذہ و علماء کا اس شعور کو عام کرنا انکے ذمے ایک قرض ہے۔۔
آئیے اپنا قرض ادا کرتے ہیں۔۔اور اپنے آس پاس ان درد کے ماروں کے قریب ہوکر انکے لیے اس رمضان میں جو بھی آسانی کر سکتے وہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ اکثریت میں روزہ رکھتے ہیں۔۔کوشش کریں کسی قریبی جگہ پر رہائش پذیر خواجہ سراء کمیونٹی کی سہری و افطاری کا بندوست کر سکیں۔ یہ جہاں بھی رہتے ہیں چند لوگ ملکر رہتے ہیں۔۔ کوشش کریں کہ ان کو اس رمضان روزے کے ساتھ چوک چوراہوں میں اور ہمارے بچے پیدا ہونے کی تقریبات میں جا کر ناچنا نہ پڑے۔ یہ لوگ کچن چلانے کی پریشانی کی نکل کر اپنے رب سے لو لگا سکیں۔ پھر باقی گیارہ ماہ تو وہی ہونا ہے جو ہم ان کے ساتھ ہوتا دیکھتے ہیں۔
میں نوشہرہ ورکاں اور گوجرانولہ شہر کی خواجہ سراء کمیونٹی کے پاس ایک دو دن میں اپنی تنخواہ آنے کے بعد ان شاءاللہ راشن دینے خود جاؤں گا۔ آپ پلیز کل پرسوں میں خود ان لوگوں کو تلاش کرکے انکے پاس ضرور جائیں۔ یہ ہی آج کا دن منانے کا مقصد بھی ہے۔ یا میرے دوست میرے ساتھ ملکر ہی اس ضمن میں کچھ مالی تعاون کر سکیں تو وہ بھی ان شاءاللہ اس کمیونٹی تک رمضان راشن کی مد میں پہنچ جائے گا۔
خطیب احمد
World Transgender Day. Transgender Of KP and Pakistan. Zamarut Khan Story
Zamarud, A Transgender From Peshawar. Story Of Khwaja Sara Zamarud Khan. Urdu Story Of Transgender. World Transgender Rights Day. Urdu Blogs.
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.