Islamic Banking VS Conventional Banking In Pakistan. Banking With Islamic Touch
آپ عام بینک سے ایک سال کے لیے ایک لاکھ روپیہ قرضہ لیں تو سال بعد بینک آپ سے ایک لاکھ پندرہ ہزار لیتا ہے، یہ رقم انگریزی میں سود کہہ کر وصول کی جاتی ہے، یہ خالص سود اور حرام ہے۔
آپ اسلامی بینک سے ایک سال کے لیے ایک لاکھ روپیہ قرضہ لیں جس کے بورڈ میں مفتی صاحب بیٹھے ہیں تو سال بعد بینک آپ سے ایک لاکھ پندرہ ہزار نہیں لیتا کیونکہ یہ تو حرام ہے بینک آپ کا بزنس پارٹنر بنتا ہے حالانکہ ایک لاکھ سے بزنس آپ نے کرنا ہے منافع آپکو طے کرنا چاہیے لیکن بینک منافع خود طے کرتا ہے اور ایک لاکھ اٹھارہ ہزار سے لے کر ایک لاکھ پچیس ہزار تک آپ سے وصول کرتا ہے، اماؤنٹ فکس نہیں کرتا کیونکہ مفتی صاحب اور شریعہ بورڈ کی بھاری بھرکم تنخواہ بھی تو دینی ہے، یہ سود نہیں اور حلال ہے کیونکہ یہ سودی بینکوں سے بھی زائد رقم عربی لفظوں میں وصول کی جاتی ہے۔
اب آپ عام بینک سے گاڑی لیز پر لیتے ہیں، بیس لاکھ کی کار بینک آپکو خرید کر اسکا مالک بناتا ہے، اور ہر ماہ اس پر سٹیٹ بینک کی دی گئی شرح سود کائبر وغیرہ کے مطابق سود ، انشورنس اور قسط وصول کرتا ہے جس کی مالیت 43 ہزار روپے ماہانہ ہوتی ہے، معاہدے کی مدت پوری ہونے پر آپ کار کے مالک آپ ہیں اور یہ حرام ہے۔
آپ وہی بیس لاکھ کی کار اسلامک ٹچ والے بینک سے لیز کرواتے ہیں، بینک کار خرید کر اپنے نام پر رجسٹر کروا کے کار کا مالک خود
بنتا ہے اور آپکو کار کرایے پر دیتا ہے اب آپکو سٹیٹ بینک کی شرح سود اور کائبر پلس کے مطابق ہر ماہ 46 ہزار روپے “کرایہ” اور کفالہ یا تکافل (اسلامک انشورنس) بینک کو دینا ہے، معاہدے کی مدت مثلا پانچ سال مکمل ہونے پر کار بینک کی ملکیت ہونے کی وجہ سے بینک کو واپس کرنی ہے یا پھر کچھ رقم (جو پہلے سے طے تھی جو کار کی کل رقم کا پانچ فیصد سے پچاس فیصد کے درمیان ہو سکتی ہے) وہ دے کر کار بینک سے خریدنی ہے۔
یہ والی کار حلال اور بابرکت ہے۔
عزیر سالار
اضافہ:
سود حرام اس لیے ہے کہ اس سے مقروض کا استحصال ہوتا ہے ، اس بات کا فیصلہ اپ خود کریں کہ کونسا بینک کم کھال اُتارتا ہے؟
عام بینک یا ختنے والا بینک
Tags To Find This Blogpost.
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.