Skip to main content

Abu Tabela – Peshawar’s Forgotten General. History Of Peshawar.

Abu Tabela – Peshawar’s Forgotten General. General Of Maha Raja Ranjeet Sing. Urdu English Info


ابو طبیلہ - مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج کا اطالوی کمانڈر جو پشاور کا حاکم بنا.


تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو خیبر پختونخوا کا صوبائی دارالحکومت پشاور متعدد مرتبہ بیرونی حملہ آوروں کا نشانہ بنا اور بظاہر اس کی بنیادی وجہ یہی لگتی ہے کہ یہ شہر براستہ درہ خیبر ہندوستان پر حملہ آور ہونے والوں کی گزرگاہ تھا۔ سنہ 1818 میں شمال مغربی سرحدی صوبے (خیبرپختونخوا) پر سکھوں کے حملے کا آغاز ہوا اور سنہ 1826 میں رنجیت سنگھ پختونوں کی اِس سرزمین کے حاکم بن گئے۔


اطالوی فوجی پاؤلو آویتابلے (جنھیں پشاور کے مقامی لوگوں میں ابو طبیلہ کے نام سے جانا جاتا ہے) کا کردار بھی رنجیت سنگھ کے دور میں ہی سامنے آتا ہے، جنھیں رنجیت سنگھ نے پشاور کا گورنر مقرر کیا۔ مگر یہ اطالوی فوجی پشاور تک کیسے پہنچے اور اُن کے گورنر راج کے دوران پشاور اور اِس کے شہریوں پر کیا بیتی، یہ ایک دلچسپ داستان ہے۔


پاؤلو آویتابلے (ابوطبیلہ) پشاور کیسے پہنچے؟


نپولین دور کے خاتمے کے بعد گرینڈ آرمی کے بہت سے سابق فوجی خوش قسمتی کی تلاش میں ہندوستان آئے۔ ابو طبیلہ بھی انھی فوجیوں میں ایک تھے جنھوں نے بعدازاں فارس اور پنجاب میں فوجی مشیر کے طور پر خدمات سرانجام دیں. یہاں انھیں وزیرآباد اور پھر پشاور کا گورنر مقرر کیا گیا۔ پشاور میں انھوں نے مقامی رسم و رواج اور یورپی اصولوں کو یکجا کرتے ہوئے یہاں بسنے والے قبائل پر اپنی گرفت مضبوط کی۔


اس سٹریٹیجک پوزیشن کے کنٹرول کے نتیجے میں وہ پہلی اینگلو، افغان جنگ کے دوران برطانوی فوج کے ساتھ رابطے میں آئے اور ابوطبیلہ نے 400 بہترین فوجیوں کی مدد فراہم کر کے اہم سہولت کار کا کردار ادا کیا اور پولیٹکل افسروں میں بہت زیادہ شہرت حاصل کی۔ ابوطبیلہ کے حالاتِ زندگی پر تحقیق کرنے والے محکمہ آرکیالوجی کے سب ریجنل آفیسر نواز الدین کے مطابق پشاور کے گورنر کے طور پر ابو طبیلہ نے درہ خیبر کے جنوبی دروازے کو کنٹرول کیا، اگرچہ مہاراجہ نے انگریزوں کو سکھ سلطنت سے گزر کر درہ خیبر تک جانے کی اجازت نہیں دی تاہم انھوں نے ابوطبیلہ کو حکم دیا کہ وہ درہ خیبر تک انگریزوں کی مدد کریں۔


نواز الدین کے مطابق سنہ 1839 میں انگریزوں کی پیش قدمی کے دوران پشاور میں اُن (انگریزوں) کا خیرمقدم کیا گیا اور ان کے افسروں کے ساتھ شاہانہ سلوک کیا گیا۔ انگریز افسر کیپٹن ہیولاک نے پشاور میں ایک مہینہ گزارا، اور اپنی یادداشتوں میں ابوطبیلہ کو کچھ یوں بیان کیا ہے کہ ’وہ گورنر کے طور پر ایک سازگار شخصیت ہونے کے علاوہ ایک بے تکلف، خوش مزاج اور ہنر مند افسر ہیں۔‘


دوسری جانب اُن کے دو سوانح نگاروں، جولین جیمز کاٹن اور چارلس گرے، نے ان کی کیریئر مہم جوئیوں اور مقامی ریاستوں کے درمیان تعلق کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کی شبیہ ایک ظالم، بے رحم اور تقریباً اداس حکمران کے طور پر بڑی حد تک قائم کی ہے۔


ابو طبیلہ کون تھے؟


پاؤلو آویتابلے (ابوطبیلہ) کے سوانح نگاروں نے اُن کے ابتدائی کیریئر اور زندگی پر کچھ روشنی ڈالی ہے جس کے مطابق ابوطبیلہ کی پیدائش 25 اکتوبر 1791 کو اٹلی کے ایک چھوٹے سے گاؤں اجیرولا میں ایک کسان کے گھر ہوئی۔ محض سولہ سال کی عمر میں ہی انھوں نے فرانسیسی جنگجو نپولین کی فوج کی آرٹلری برانچ میں شمولیت اختیار کی۔


سنہ 1810 میں فرانسیسی فوج کے توپ خانے میں شامل ہو کر وہ پانچ سال کی قلیل مدت میں ہی لیفٹیننٹ کے عہدے پر پہنچ گئے۔ ایک سال بعد یعنی سنہ 1816 میں برطانوی جنگجو لارڈ ویلنگٹن کے ہاتھوں نپولین کی فوج کو ملنے والی شکست کے بعد ان کا عہدہ چھین لیا گیا جس کے بعد وہ ریزرو انفنٹری رجمنٹ میں آدھی تنخواہ کے عوض کام کرنے پر مجبور ہوئے۔


نپولین کی فوج میں کیریئر میں بڑھوتری کے مزید امکانات نظر نہ آنے پر وہ مستعفی ہو گئے اور ایشیا میں فوجی ملازمت کی تلاش میں سنہ 1817 میں قسطنطنیہ پہنچے۔ وہاں انھیں فارسی بادشاہ فتح علی نے ایلچی رکھا جہاں انھوں نے 1818 سے 1826 تک فارس میں ایک فوجی انسٹرکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ آٹھ سال تک اس عہدے پر خدمات انجام دینے کے بعد وہ سنہ 1826 میں اپنے ملک اٹلی واپس چلے گئے۔ اٹلی میں ابو طبیلہ کے قیام کی مدت کم رہی اور فقط ایک سال بعد ہی یعنی 1827 میں ایک بار پھر انھوں نے رختِ سفر باندھا اور اس بار ان کی منزل ایشیا تھی۔ وہ فارس میں اپنے دو سابق ساتھیوں، جین فرانکوئس ایلارڈ اور جین بپٹسٹ وینٹورا، کی تجویز پر، جو اُس وقت پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ماتحت فوجی کمانڈر کے طور پر ملازمت کر رہے تھے، ہندوستان چلے آئے۔


یہ دور پنجاب میں سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کا تھا جس کی فوج میں ابو طبیلہ نے بطور ’کرائے کے کمانڈر‘ تعیناتی اختیار کر لی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ رنجیت سنگھ کی فوج میں بطور توپ خانہ انسٹرکٹر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔ انھوں نے جلد ہی اپنی شاندار انتظامی صلاحیتوں سے توپ خانے کو مکمل منظم کیا اور انفنٹری بریگیڈ کو یورپی ماڈل پر استوار کیا۔


رنجیت سنگھ، ابوطبیلہ کے معترف.


رنجیت سنگھ کو ابوطبیلہ کی عسکری اور انتظامی خوبیوں کا ادراک بخوبی ہو چلا تھا لہذا دسمبر 1829 میں ابو طبیلہ کی زندگی نے اس وقت ایک نیا موڑ لیا جب رنجیت سنگھ نے ابو طبیلہ کو پنجاب میں وزیر آباد کا گورنر مقرر کر دیا۔


بطور گورنر ان کا اصل کام یورپی فوجی اصولوں پر پیادہ فوج کو منظم کرنا تھا۔ انھوں نے پنجاب میں تجارت کے فروغ اور استحکام کے لیے یورپی نظام لاگو کرنا شروع کیا ایک منفرد طرز حکمرانی تشکیل دی، جس کے تحت ریونیو اور تجارت کے انتظام میں یورپی نظریات کو مقامی روایات کے ساتھ ضم کیا۔


انھوں نے شہر کو نئی چوڑی گلیوں اور بازاروں کے ساتھ دوبارہ تعمیر کیا۔ اُن کی گورنری مثالی نظریات نہیں بلکہ عملیت پسندی سے متاثر تھی، جو بہت سے نسلی گروہوں، مذاہب اور رسوم و رواج کے حامل ملک پر مؤثر طریقے سے حکومت کرنے کے لیے ضروری تھی۔ ان کی حکمرانی میں وزیرآباد میں امن اور معاشی ترقی میں زبردست اضافہ ہوا جسے بہت سے برطانوی اور ہندوستانی مبصرین نے بھی سراہا تھا۔ لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپنے اقتدار کے باوجود انھوں نے مذہبی ثقافتی و روایتی رسم ورواج کو چھیڑنے یا ان میں ترامیم کی کوشیش نہیں کیں۔


پشاور میں گورنر.


وزیر آباد میں چھ سال تک گورنر تعینات رہنے کے بعد سنہ 1835 میں انھیں پشاور کے گورنر ہری سنگھ نلوہ کا ریوینیو افسر (افسر مال) تعینات کر دیا گیا۔ اپریل 1837 میں ہری سنگھ نلوہ کے جمرود قلعہ میں قتل کے بعد, مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ابو طبیلہ کو پشتونوں کو زیر کرنے کے لیے لامحدود اختیارات دیتے ہوئے حاکم پشاور (گورنر) کے عہدے پر فائز کر دیا۔ ابوطبیلہ کے حالاتِ زندگی پر تحقیق کرنے والے محکمہ آرکیالوجی کے سب ریجنل آفیسر نواز الدین کے مطابق سکھوں نے خیبر پختونخوا کے بڑے علاقوں پر طویل عرصہ سخت گیر حکمرانی کی۔ اُس دور میں پشاور میں بسنے والوں سمیت قبائلیوں میں بھی سکھوں کے سخت طرز حکومت کے خلاف شدید غم و غصہ اور نفرت پائی جاتی تھی۔


نواز الدین کے مطابق تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پشتونوں نے بھی اسی نفرت کے تحت سکھ فوجیوں اور شہریوں کو لوٹنے یا قتل کرنے کا کوئی موقع نہیں گنوایا، بس موقع ملنے کی دیر ہوتی اور وہ اُن پر حملہ آور ہو جاتے اور چونکہ ابو طبیلہ بھی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لیے ہی خدمات انجام دے رہے تھے سو فطری طور پر اُن کی ہمدردیاں اور نرم گوشہ سکھوں کی جانب تھا۔ چنانچہ شہر میں اپنا سکہ جمانے اور سکھوں پر ہونے والے حملوں کے خاتمے کے لیے انھوں نے انتہائی سخت قوانین بنائے حتی کہ اس سلسلے میں بنایا گیا ان کا عدالتی انصاف کا نظام دنیا کے متنازع ترین نظاموں میں گنا جاتا ہے۔ ابو طبیلہ نے بیرونی حملہ آوروں کی پسپائی اور شہر کی حفاظت کے لیے فصیل شہر بنوائی اور اسی فصیل شہر کے باہر پھانسی گھاٹ بھی قائم کیے۔


مختلف تاریخی حوالوں کے مطابق قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر ان پھانسی گھاٹوں پر 50 سے 60 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا اور یہاں لٹکتی لاشیں اس بات کا نقارہ ہوتیں کہ بغاوت یا عداوت کرنے والوں کا انجام عبرتناک موت کے سوا کچھ نہیں۔ سر ہنری لارنس کے مطابق لوگوں کو مسجد مہابت خان (جو سنہ 1630 میں تعمیر کی گئی) کے میناروں سے پھینکنا اور پھانسی دینا اُن (ابوطبیلہ) کا ایسا معمول تھا جو پشاور کے دورے پر آئے یورپین شہریوں کے لیے بھی بربریت کی علامت تھا۔ ابو طبیلہ جھوٹ بولنے والے کو سزا زبان کاٹنے کی صورت دیتے۔ 


معروف لوک داستانوں میں درج ہے کہ پشاور میں وہ دور بھی گزرا جب ’مائیں بچوں سے کہتیں سو جاؤ ورنہ ابو طبیلہ آ جائے گا۔‘ ابوطبیلہ چونکہ گورنر بننے سے قبل پشاور میں ٹیکس افسر کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے تھے اسی لیے وہ ٹیکس وصولی میں بھی بلا کے کٹر تھے۔


چند لوک داستانوں میں یہ دعوے بھی موجود ہیں کہ ابو طبیلہ ٹیکس چوروں کو دیوار میں چنوا دیا کرتے، یعنی ٹیکس ادائیگی نہ کرنے والوں کا انجام بھیانک موت تھا۔


کتاب ’ضلع پشاور کا گزٹ‘ میں درج ہے کہ ٹیکس وصولی کے لیے انھوں نے ’ریکارڈ بُک‘ کا نظام شروع کر رکھا تھا اور ایک مقررہ شرح ٹیکس متعارف کروائی۔ اس کتاب میں تاریخ کے کئی معتبر حوالوں کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ اُس دور میں پشاور کی آمدنی میں بتدریج اضافہ ہوا، جو کہ درانی دور حکومت کے محصولات سے کئی زیادہ تھا، مالی خوشحالی اپنی جگہ تو دوسری جانب ان کے دور میں مقامی لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کرنا عام سی بات تھی۔ ’سٹارم اینڈ سن شائن آف اے سولجر لائف‘ میں کولین مکینزی لکھتے ہیں کہ معمولی باتوں پر سرِعام کوڑوں اور جوتوں سے مارنا معمول تھا اور کہا جاتا ہے کہ 1842 میں آفریدی قبائل کے ہاتھوں شکست کھانے والے سکھ فوجیوں کو ابو طبیلہ نے پشاور کے بازاروں میں جوتوں سے پیٹا۔


ابو طبیلہ کا فارسی میں لکھوایا گئے ایک ’فرمان بنام قمر الدین خان مہمند‘ کے مطابق دو گاؤں، گھڑی چندن اور شمشتوں، کی جاگیر اس شرط پر قمر الدین کو حوالے کی گئی کہ ’وہ ہر سال پچاس آفریدیوں کے سر کاٹ کر دربار میں پیش کریں گے بصورت دیگر انھیں جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔‘


ڈائریکٹرآثار قدیمہ خیبر پختونخوا ڈاکٹر عبدالصمد کے مطابق تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طبیلہ پشاور کی تحصیل گور کھٹری میں روزانہ کی بنیاد پر عدلیہ کونسل (دربار) لگاتے جہاں ظلم و جبر کی نئی داستانیں رقم کی جاتیں۔ اس موقع پر مسلمان قاضی، سکھ جج، ہندو جج، غرض تمام مذاہب کے منصفوں اور پیشواؤں کی موجودگی یقینی بنائی جاتی جن کی مدد سے وہ مجرموں کو اُن کے مذہب میں رائج سزائیں تجویز کرتے۔ انھوں نے بتایا کہ چوری اور ڈکیتی کے ساتھ ساتھ قتل کے لیے سزائے موت اور مسخ کرنے کا رواج بھی عام کیا اور فوجداری انصاف میں اسلامی قوانین کے سخت استعمال اور پولیس کی انتہائی موثر کارروائیاں مجرمانہ شرح میں بنیادی کمی کا باعث بنیں۔


کولن مکینزی اور سر ہنری لارنس دونوں نے ابو طبیلہ پر لکھی اپنی تحریروں میں بیان کیا ہے کہ سکھوں پر حملہ کرنے والے مسلمانوں کے لیے ابو طبیلہ نے مغل دور کی تعمیر کردہ مسجد مہابت خان کو دہشت کی علامت بنا دیا جس کے مینار سے جرم سرزد کرنے والوں کو کئی کئی دنوں تک لٹکائے رکھا جاتا، باغیوں کی سزا پاؤں سے الٹا لٹکانے اور گلے میں پھندا لگانے کی صورت ہوتی، پشاور شہر کے اندر بیرونی قبیلوں سے داخل ہونے والوں کو بھی پھانسی کے گھاٹ چڑھا دیا جاتا اور بعض حوالوں کے مطابق دہکتے تندور میں بھی پھینکوا دیا جاتا۔ اور اس سارے عمل کا مقصد قبائلیوں پر اپنی دھاک بٹھانا تھا۔ غرض یہ کہ اپنے قوانین کی عملداری کے لیے وہ سخت سے سخت سزا کے نفاذ میں رعایت نہ برتتے اور اس ضمن میں وہ سکھوں کو بھی خاطر میں نہ لاتے۔ تنخواہوں کی بندش پر سکھوں کے احتجاج کرنے پر ابو طبیلہ نے ان پر بھی حملہ کروانے سے دریغ نہ کیا۔ ابو طبیلہ نے ’ازل سے سرکش‘ پشتونوں پر بھی ہیبت طاری کیے رکھی۔


برٹش لائبریری میں موجود (انڈیا آفس ریکارڈ) آرکائیوز کے مطابق پشتون قبائل پہاڑی اور سخت علاقوں میں نیم خانہ بدوش طرز کی بستی میں رہتے تھے جو ببانگ دہل میدانی علاقوں اور شہروں پر مال و زر کے لیے حملہ آور ہوتے۔ ابو طبیلہ سے قبل کوئی بھی حکومت ان لاقانونیت پسند قبائل اور ان کی وادیوں پر کنٹرول کا دعویٰ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔


پشاور کے باسیوں کا ظالم حکمران، شہر کی دیواروں کا نگران.


ابو طبیلہ کا سفاکیت اور سخت گیر طرز حکمرانی کس حد تک غلط یا درست تھی، یہ ایک الگ بحث ہے تاہم پشاور میں ان کے دور گورنری میں ہونے والے تعمیراتی کاموں سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ نواز الدین کے مطابق ابو طبیلہ کو جب گورنر پشاور مقرر کیا گیا تو اس دور میں شہر دو الگ الگ دیواروں میں بٹا ہوا تھا اور تعمیر کے حوالے سے حالات دگرگوں تھے۔ ماضی میں اس خطے میں سکھوں اور پختونوں کی یورش کے سبب بھی تعمیری کام نہ ہونے کے برابر تھے اور ایسے میں ابو طبیلہ نے اس شہر کے لیے اپنے وزیر آباد حکومتی انداز کو ماڈل بنایا۔ ’سب سے پہلے سول اور ملٹری دونوں عمارتوں کے لیے ایک بہت بڑا تعمیراتی پروگرام شروع کیا اور پشاور شہر میں ٹاون پلاننگ کرتے ہوئے اسے نئے جدید انداز میں دوبارہ تعمیر کروایا۔ یورپی اصولوں کے مطابق: گلیوں کو چوڑا کیا گیا، پلوں اور سڑکوں کا نظام بہترین بنایا اور ایک نیا بازار بھی تعمیر کیا گیا۔‘


’فیصل شہر بنائی گئی اور اس کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی، قلعہ بالا حصار کی ابتدائی تعمیر سے شہر میں نکاسی آب کے بہترین نظام کے لیے شاہی کٹھہ متعارف کروانے کا سہرا بھی ابوطبیلہ کے سر ہے۔‘ ’یہاں تک کے پشاور میں درخت لگانے کی شروعات بھی ابوطبیلہ نے ہی کی۔ پشاور کے مشہور آثار قدیمہ کے مقام 'گور کھتری کمپلیکس' کو انھوں نے اپنی سرکاری رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا تھا۔‘


کرنل سی ایم ویڈ، جو اکثر پنجاب اور مہاراجہ رنجیت کے دربار میں جاتے تھے۔ اینگلو افغان مہم کی تنظیم کے دوران ایک تحریر میں انھوں نے لکھا کہ پشتون شہر میں ابوطبیلہ کا راج ہے۔ انھوں نے ابوطبیلہ کی طرف سے پیش کی جانے والی فوجی اور لاجسٹک امداد کی تعریف کی اور خیبر قبائل کے ساتھ لین دین میں اُن کی قابلیت اور علم کی بھی تعریف کی۔ اس سب کے باوجود بھی متعدد تاریخی حوالوں میں ابوطبیلہ کے نام کو ہمیشہ ظلم اور بربریت کے ساتھ منسلک کیا گیا۔


سب سے پہلے ان کی جلالی اور سخت گیر حکمرانی کا ذکر کرنے والے برطانوی افسران تھے جو پشاور سے گزرے، جن میں الیگزینڈر برنس، کرنل سی ایم ویڈ، کولن میکنزی اور ہنری منٹگمری لارنس شامل تھے۔ مختلف ادوار میں مختلف مؤرخین نے ابو طبیلہ کے دور حکومت اور شخصیت کا اپنے حالات کے مطابق تجزیہ کیا، جس میں کچھ نے انھیں منفی تو کچھ نے مثبت بھی پیش کیا۔


ابو طبیلہ کا انجام.


سیتا رام کوہلی نے اپنی آخری کتاب ’سن سیٹ آف دا سکھ ایمپائر‘ سنہ 1839 میں بلوچوں کے ہاتھوں رنجیت سنگھ کے قتل کے بعد ابو طبیلہ نے لاہور میں بھی قیام کیا، رنجیت سنگھ کی بھیانک موت اور شورش زدہ صورتحال میں انھیں اپنے لیے حالات مزید سازگار دکھائی نہ دیے تو انھوں نے اپنے وطن واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا اور اپنے گاؤں لوٹ گئے۔ ایک یورپین سیاح گرے سِی نے اپنے سفرنامے میں ابوطبیلہ کی واپسی کی تصویر کشی کچھ یوں کی کہ اپنے وطن لوٹ جانے کے فیصلے کے بعد ابو طبیلہ پشاور آئے اور اپنے معاملات کو آخری شکل دی، عورتوں کا رسیا ہونے کے سبب اُن کے حرم میں درجنوں خواتین موجود تھیں جو سب انھوں نے اپنے دوستوں اور مصاحبوں میں بانٹ دیں۔ اپنی بیوی کو بھی ساتھ نہیں لیا اور سر پھرے اس قدر تھے کہ بیٹی کی شادی اپنے ہی خانساماں سے کروا دی۔


اب جانیے احوال ان کے آبائی شہر پہنچنے کا۔ سنہ 1843 میں ابو طبیلہ کی واپسی پر اس دور کے بادشاہ نے ان کے استقبال میں کوئی خاص گرمجوشی نہ دکھائی اور طویل عرصے تک اقتدار کی لذت اٹھانے والے ابوطبیلہ اپنے ہی شہر میں اجنبیوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ تاہم بادشاہ نے انھیں سرکاری مینشن (محل) کی تعمیر کی اجازت دے دی۔ یورپی مصنف جے جے کاٹن نے ابوطبیلہ پر لکھی سوانح ’این ایٹالین ایڈونچر‘ میں لکھا کہ محل بننے کے بعد انھوں نے اپنی انیس سالہ بھتیجی (بعض مؤرخین نے قریبی عزیزہ لکھا ہے) سے شادی رچا لی۔ تاہم اُن کی خانگی زندگی کے معاملات درست نہ رہے کیونکہ نوعمر بیوی کے غیر مردوں سے مبینہ تعلقات کی سُن گُن انھیں اکثر بے قرار رکھتی۔


آخر کار 28 مارچ 1850 کو ابوطبیلہ کی وفات ہوئی۔ ابو طبیلہ کی موت کے حوالے سے بھی متضاد آرا ہیں لیکن جس پر زیادہ اتفاق ہے وہ یہی ہے کہ مال و زر کی ہوس کے لیے وہ اپنی ہی جوان سال بیوی کے ہاتھوں زہر دے کر قتل کیے گئے۔ ان کی موت کے بعد اٹلی کے شہر اجیرولا میں ان کا مقبرہ بنایا گیا اور نیپلز میں ایک چوک کا نام ان کے نام پر رکھا گیا۔ پشاور میں گور کھٹری میں واقع ان کے مینشن، عدالت اور دربار کو مرمت و بحالی کے بعد آنے والی کئی صدیوں کے لیے آثار قدیمہ کا حصہ بنا کر حکومت کی جانب سے محفوظ کر دیا گیا ہے.


 تاریخ دان اُن کے انجام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ابو طبیلہ نے عسکری اور قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر شاندار زندگی گزاری، سفر اور مہم جوئی اُن کا شیوہ تھا، انھوں نے جنگیں لڑیں، بااثر راجوں مہاراجاؤں اور پشتون خوانین کو پسپا کیے رکھا، لیکن اپنی زندگی کی بازی اپنی آخری محبت کے ہاتھوں ہار گئے۔


Abu Tabela – Peshawar’s Forgotten General.


The narrow streets and dark alleys of Peshawar are a mirror to the architecture of the past as well as a reminiscent of an Italian governor of the city, General Paolo Avitabile, better known as Abu Tabela. Abu Tabela joined the army of Maharaja Ranjit Singh in 1827 and in 1837, took over as the governor of Peshawar. Though Abu Tabela has reputation of a ruthless ruler, he also did much of the town planning in Peshawar in his time.


Khyber-Pakhtunkhwa Archaeology Department Sub-Regional Officer Nawazud Din tells The News on Sunday that Abu Tabela had done a good job by combining the two parts of Peshawar city. “The Walled City in his time was divided into two parts. Abu Tabela combined the two and reconstructed the city wall making it a single whole. This way, he made the city more manageable, particularly in times of tribal raids as the city wall now protected the whole city,” says Nawazud Din, who looks after research related issues in Archaeology Department.


He says Abu Tabela did some town planning as well. “The current structures of the streets and roads inside the Walled City of Peshawar were designed by him,” he says. Nawaz says the general used Gor Khatri complex, a famous archaeological site in Peshawar, as his official residence. “He was a multicultural kind of person. While he was a Roman Catholic Christian, he worked for the Sikhs, and demolished a mosque and built a temple for Hindus in the Gor Khatri complex,” he adds.


He says the Italian governor was regarded as a tyrant. “He ruled on behalf of Ranjit Singh, the Sikh ruler of Lahore. Soon his name had become synonymous with terror. He would order public hangings and leave the corpses of the executed there for days.


People were afraid of even mentioning his name.” Paolo Crescienzo Martino Avitabile was born in 1791 in Italy into a peasant family. He joined the military in 1807 and served there briefly. He then decided to head to the Ottoman Empire to try his fortune. From Constantinople, he was enlisted by the Persian Shah and served in Iran from 1818 to 1826. He then returned to Naples in 1826 before once again heading for Asia.


On the suggestion of two of his former comrades in Persia (Jean Francois Allard and Jean-Baptiste Ventura), now employed as military commanders under Ranjit Singh, he decided to reach India. After passing through Kabul and Peshawar, he arrived in Lahore in 1827.


He entered the service of Ranjit Singh as a military instructor and commander. For three years, he organised his infantry brigade on the European model. In 1829, he was appointed governor of Wazirabad, where he managed his affairs very well. Due to his successful management of Wazirabad, Avitabile was ordered by Ranjit Singh to serve in Peshawar under Hari Singh Nalwa. Avitabile looked after the revenue collection for a year before resigning and returning to Lahore.


After the death of Hari Singh Nalwa in the battle of Jamrud (April 1837), Avitabile was named governor of Peshawar. He was given almost unlimited authority to subdue the Pashtuns. Avitabile replicated his Wazirabad model of governance. In the first phase a huge construction programme was started, for both civil and military buildings. The city was almost rebuilt in a new modern fashion according to European principles of order: streets were widened and a new bazaar was built along with a mud wall surrounding the city. Bridges and roads were improved and went under maintenance.


The collection of the revenue and the general administration of the state were also improved. Avitabile used to collaborate with the former rulers of the province (the Barakzais of Peshawar) to exploit their know-how of the province social and economic situation and to legitimize his rule, maintaining continuity with traditional institutions. He also introduced some reforms including a fixed-rate tax, to be paid in silver, instead of payment in goods.


Despite his achievements, Avitabile’s name was always associated with cruelty. The first to mention his heavy-handed rule were British officers who passed through Peshawar, including Alexander Burnes, Col CM Wade, Colin Mackenzie and Henry Montgomery Lawrence. These officers saw how Avitabile was treating the native populace and commented on it.


In his novel, Adventures of an Officer in the Service of Runjeet Singh, Lawrence writes: “Under his rule, summary hangings have been added to the native catalogue of punishments, […] the ostentation of adding two or three to the string suspended from the gibbet, […] added to a very evident habitual carelessness of life, lead one to fear that small pains are taken to distinguish between innocence and guilt.” Local legends are full of how Abu Tabela used to execute people. It is said that he would have people executed by throwing them from the top of Mahabat Khan’s mosque. For a long time afterwards, unruly children in the city were brought to control by invoking Abu Tabela’s name.


Following the death of Ranjit Singh in 1839, the political situation at the Lahore Durbar started to deteriorate quickly. Most of the European mercenaries had already left the kingdom before the start of the First Anglo-Sikh war of 1845-46. Avitabile, too, succeeded in building a fortune and getting away with it to Europe. He returned to Naples, where he died in 1850.


Article Source Urdu & English 👇🏽

https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60995176

https://www.thenews.com.pk/amp/652678-abu-tabela-peshawars-forgotten-general



Abu Tabela – Peshawar’s Forgotten General. General Of Maha Raja Ranjeet Sing. Urdu English Info

Comments

Popular posts from this blog

New Pashto Poetry Lines And Lyrics. Pashto Tappay In Written Text.

New Pashto Poetry Lines And Lyrics. Pashto Tappay In Written Text. Pashto Poetry Two Lines. Pashto Tappay In Text. ‏د خوېندو لوڼو سوداګره کږه شمله چې په سر ږدې خندا راځينه ټپه# که د پیزوان خاطر دې نه وے تابه زما د غاښو زور لیدلې وونه #ټپه ‏ستا یارانۍ ته مۍ زړه کیږۍ په څه خبره به اشنا درسره شمه خلک پېزوان خونړی بولي تا په نتکۍ د کلا برج ونړونه  Pashto New Tapay On Images 2022. Pashto Tappay In Text. Eid Mubarak Pashto Tapay. Pashto Eid Poetry. اختر ته ځکه خوشالیګم چی مسافر جانان می کلی ته راځینه Eid Mubarak In Pashto Tapa. Folk Songs Akhtar. اختر پرون وو پرون تیر شو تا تر څنګلو پوري نن سره کړل لاسونه Akhtar Janan Aw Pukhto Tapay. Eid Mubarak Poetry Pashto. خلکو اختر کښی غاړی ورکړی زه بی جانانه ګوټ کښی ناست ژړا کوومه خپل د راتلو لوظ دې ياد دے؟ سبا اختر دے انتظار به دې کومه Eid Mubarak In Pashto Language. Akhtar Di Mubarak Sha. اختر دی مبارک شه مورې څلور کمڅۍ مې وکړه دوه مې د خيال او دوه د کچ اختر ټالونه په ما دې ورځ د لوی اختر کړه چې دې په سترګو راله کېښودل لاسونه يوه روژه بله غرمه د...

Zama Zargiya Meaning In Urdu. Pashto Words Meanings

Zama Zargiya Meaning In Urdu. Pashto Words Meanings. Learn Pashto Words and Meanings. Info Different Contextual Uses Of Pashto Phrase Zama Zargiya or Zama Zargia. Pashto Language Words Internet Is Searched For Pashto Words Meaning Daily as People Speaking Languages Other Than Pashto Want To Learn Some Basic and Most Used Phrases. Search For Pashto Phrase " Zama Zargiya " Increased By 1150 % Today. Zama Zargiya Meaning In Urdu.  میرا جگر یا میرے دل کا ٹکڑا میرا جگر،  میرا محبوب یا میرے محبوب The Phrase Simply Means My Darling Or Sweetheart In English. Pashto. Zama Zargiya زما زړګیه English. Darling Or My Darling Or My Dear Or My Sweetheart. In Urdu Zama Zargiya Means " Meray Aziz " Meray Mehboob" Or Meray Humnasheen. Best Phrase For Zama Zargiya In Urdu. Meray Jigaar Or Jiggar Pashto Word Zama Means Mera Or Meray.  Pashto Word Zargay Means Dil Or Jigar.  Pashto Language Words زما زړګیه میرے محبوب میرے ہم نشین میرے جگر کا ٹکڑا "Zama Zargia Endearment Urdu...

Understanding the UAE Visa Ban: Reasons and Implications

پاکستانیوں کے لیے یو اے ای ویزا پابندی کے بارے میں تفصیلی خبر اور وجوہات متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے پاکستانی شہریوں پر ویزا پابندی عائد کر دی ہے، جس کی وجہ ان سرگرمیوں کو قرار دیا گیا ہے جن سے یو اے ای کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ یو اے ای میں موجود پاکستانی سفارتخانے نے تصدیق کی ہے کہ یہ پابندی نافذ العمل ہے اور یہ تمام پاکستانی شہریوں پر لاگو ہوتی ہے، چاہے وہ کسی بھی مقصد کے لیے سفر کر رہے ہوں۔ یو اے ای حکومت نے پابندی پر کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا، لیکن پاکستانی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ یو اے ای حکومت کو درج ذیل سرگرمیوں پر تشویش ہے: یو اے ای حکومت کے خلاف مظاہرے کرنا سوشل میڈیا پر یو اے ای حکومت پر تنقید کرنا مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونا یو اے ای حکومت نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی ہے کہ ان سرگرمیوں میں ملوث پاکستانی شہریوں کی تعداد دیگر قومیتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پاکستانی سفارتخانے نے پاکستانی شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ یو اے ای کا سفر کرنے سے گریز کریں جب تک کہ ان کے پاس درست ویزا نہ ہو۔ سفارتخانہ یو اے ای حکومت کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو حل کرنے اور پابندی ہٹانے کے...