Ayaz Amir, The Man Of Integrity And Uprightness. Haroon Malik
ایاز امیر صاحب کوئی عام صحافی نہیں بلکہ ایک خاص ذہن کے بُہت سپیشل اِنسان ہیں جو اپنی بات ہر صُورت میں کرنا جانتا ہے ۔ یہ کوئی ایوریج مائینڈڈ بندہ ہرگِز نہیں تھا جِس کو کل سر جی والوں نے تھپڑ مروائے اور ذلیل کِیا ۔ ایاز امیر صاحب سے پُرانی یاد اللہ ہے ۔ اِن سے بندہ ناچِیز نے انگریزی ڈکشن سیکھی گو آئی پھر بھی نہیں ۔ آپ انگریزی کالم نگاروں کے نام اُنگلیوں پر گِنوا سکتے ہیں جِن میں ارد شیر کاوس جی مرحوم ، ندیم پراچہ ، سرل المیڈا اور ایاز امیر سمیت چند نام اور ہیں جو بھاری بھرکم انگلش لکھتے تو ہیں لیکن بور نہیں کرتے باقی سب الفاظ کے چُوہے چھوڑتے ہیں ۔ ایاز امیر صاحب فوجی افسر رہے ، رُوس میں سفارت خانے میں بھی افسر رہے لیکن پھر سب چھوڑ چھاڑ کر سیاست اور صحافت میں دِل لگا لِیا ۔ نوے کی دہائی میں چکوال میں لگنے والی سیمینٹ فیکٹریز پر چند بولنے والوں میں ایاز امیر صاحب کا نام سب سے اُوپر تھا جو عِلاقے کا حُسن برباد کرنے ، واٹر ٹیبل بگاڑنے اور ماحول دُشمن پالیسیز کے خِلاف بولتے نظر آئے ۔ اکثر ن لیگ یعنی اپنی ہی جماعت کی پالیسیز پر تنقید کی ۔ ایک وقت میں کہا گیا کہ سیاست یا صحافت میں سے ایک چھوڑ دو تو سیاست سے خُود کو صحافت تک محدُود کر لِیا ۔
صحافی اسد طُور پر حملہ ہُوا تو بُہت شور مچا لیکن ایاز امیر پر اُس طرح ردِعمل نہیں دِیا گیا یا آسکا ۔ اِس کی بڑی وجہ تو ایک خاص سیاسی پارٹی کی صحافیوں میں کی گئی لمبی انویسٹمینٹ ہے اور دُوسرا خاکیوں کا خوف ہے ۔ ابھی دو دِن پہلے کی گئی تقریر میں جہاں عِمران خان صاحب بیٹھے ہُوئے تھے وہاں ایاز امیر صاحب نے عِمران خان صاحب اور باجوہ رجیم چینجر کے خُوب لَتے لیے ، وہیں آصف علی زرداری اور شہباز شریف صاحب بھی زیرِ بحث آئے ، پنجاب میں ہونے والی رسہ کشی بھی ایک انٹرویو کا حِصہ بنی ۔ ایاز امیر صاحب ایک لبرل اِنسان ہیں ، مذہب کو ذاتی معاملہ سمجھنے والے اور شام کے لیے اِنتظامات کی دہائی وُہ عشروں سے دے رہے ہیں ۔ پاکستان میں حالانکہ اِس طرح کوئی کُھل کر نہیں بولتا ۔ ایاز امیر صاحب سے لوگ اِس لیے بھی نالاں ہیں کہ وُہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت کیوں نہیں رکھتے اور ایک اور سیاسی جماعت کی طرف اُن کا جُھکاؤ کیوں زیادہ ہے ۔ یہ بُہت عجیب صُورتِحال ہے کہ جہاں کوئی اپنی سیاسی سوچ کا کُھل کر اظہار نہ کر سکے یا کرے تو اُس پر لیبل لگا دِیا جائے ۔ اِنسان کی اپنی پسند ناپسند ہوتی ہے اُس سے اُوپر اُٹھ کر دُرست اور غلط کا ساتھ دِیا جاتا ہے یا تنقید کی جاتی ہے ، خِلاف کھڑا ہُوا جاتا ہے لیکن نہیں ۔۔۔۔۔۔
ایاز امیر صاحب آپ اِس سلوک کے حقدار ہرگِز نہ تھے اور رہی ریاست تو وُہ آج بھی دولے شاہ کے چُوہے بنانے پر لگی ہُوئی ہے ۔ اُنھوں نے مذہب میں طارق جمیل جیسے لوگ پروموٹ کیے ، علامہ دُھر دُھر کتیو مرحوم جیسے خونخوار تو وہیں وُہ قاسم علی شاہ ٹائیپ ذہنیت بھی معاشرے میں عام بانٹتے ہیں ، اُدھر عُمیرہ احمد ، نمرہ یا ہاشم ندیم صاحب والی مذہبی اور تصوف کی سوچ کا مِکس اچار ہے تو وہیں فیوچر پالیسی میں حماد صافی موجود ہے ۔ آپ کو لگتا ہے کہ ریاست اور خاکی کبھی سوچ بھی رہے ہیں کہ مذہبی مائینڈ سیٹ اور ایوریج مائینڈڈ پالیسیز کو رَول بیک کرنا ہے ؟ ہرگِز نہیں ۔ ویسے تو دونوں الفاظ ہم معنی ہیں یعنی ریاست اور خاکی ۔ اِس لیے جہاں ریاست کا نام آئے آپ فوج سمجھ لیں اور فوج کو ریاست ؛ میں اکثر ایک بات کرتا ہُوں اور ہمارے یار دوست ناراض ہوجاتے ہیں کہ جی یہ تو خان صاحب کی حمایت ہے حالانکہ کِسی سیاسی پارٹی پر تنقید دُوسری سیاسی پارٹی کی حمایت کب سے ہو گئی ؟ لیکن پاکستان میں موجود سیاسی پارٹیز پر دو پیرے بعد میں سہی ۔ رہے ایاز امیر صاحب تو وُہ خاکیوں پر تنقید اور آزاد خیالات کے حامِل ہونے کی قیمت چُکا رہے ہیں اُس معاشرے میں جہاں ہر کوئی پارسائی کا لِبادہ اوڑھنا چاہتا ہے وہاں ایک گُناہگار کو کون برداشت کرے ۔
Haroon Malik.
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.