Bacha Khan Baba In Jail As Freedom Fighter. Reply To Fawad Chaudhry.
By Rashid Yousafzai.
ہاتھ پیچھے سے باندھے، کچھ سکھ ،کچھ پشتون، کچھ پنجابی سپاہی ان کو کابلی تھانہ ، قصہ خوانی بازار پشاور لے ائے۰
یہ اپریل 1919 کا پہلا ھفتہ تھا۰ ابھی دو ھفتے قبل 18 مارچ 1919 کو برٹش راج نے ھندوستان میں ازادی اور انقلاب کی روح و تحریک کچلنے کیلئے
Anarchical and Revolutionary Crimes Act
کا قانون پاس کیا تھا۰ بل کے ارکیٹیکٹ انگریز قانون دان سڈنی رولٹ
Sidney Rowlatt.
تھا۰ آج تک برصغیر کے تاریخی درسی کتب میں یہ کالا قانون رولٹ ایکٹ
Rowlatt Act
کے نام سے مشہور ہے
کابلی تھانے میں ہاتھ باندھ کر لائے گئے اس تیس سالہ جوان عبدالغفار خان کا جرم برٹش سرکار کے خلاف سب سے بڑی بغاوت تھی۰ کچھ دوسرے ھم خیال انقلابی ، حریت پسند اور آزادی پرست جوانوں کو جمع کرکے چارسدہ کے اس نوجوان خانزادے نے اس قانون ہی کے خلاف شورش برپا کی تھی جو قانون ھر قسم کی آزادی اور حریت کے سوچ کی قلع قمع کیلئے تشکیل دیا گیا تھا۰
تیس سالہ خانزادہ عبدالغفار خان تھانے لایا گیا تو خاندانی عظمت اور مرتبے کی مناسبت سے ، وہاں موجود ایک سپاہی اور اس واقعے کے راوی ،گوجر گھڑی کے اول شاہ نے عبدالغفار خان کو تھانے کی محرر اور حوالدار تھانیدار کی کارروائی کی انتظار میں بنچ پر بٹھایا۰ ۰۰۰۰۰ورنہ ملزم کیلئے تھانے میں کرسی پر بیٹھنا نہ تب جائز تھا، نہ اب ہے۰
اتنے میں تھانے کے سکھ تھانیدار اپنے جاہ و جلال میں مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے نمودار ہوا۰ عبدالغفار خان کو بنچ پر بیٹھا دیکھ کر آگ بگولہ ہوا۰ غصے سے چیخیں مارنے سے تھانے کے در و دیوار ہلا دئے۰ جو گالی ،جو گندی لفظ زبان پر آئی ساتھ کھڑے سپاہیوں کو دینے لگا۰
سپاہیوں کا جرم یہ تھا کہ انہوں برٹش سرکار کے خلاف تحریک چلانے والے خطرناک مجرم عبدالغفار خان کو بنچ پر کیوں بٹھایا ہے! ایسے مجرم کی تو ھر قسم تذلیل ہونا چاہیے تھی اور بس۰ بنچ پر اس کو بٹھانا ایک الگ قابل سزا جرم تھا۰
سردار جی کی غضب سپاہیوں سے مڑ کے اصل مجرم کی طرف موڑ گیا۰ چیخ مار کے سپاہیوں کو حکم دیا:“ جاؤ میرے کمرے سے فلاں رسی اور فلاں بینت ( مارنے کی بانس) لے آؤ!”
تاہم سردار جی کی غضب بانس اور رسی آنے کی کب انتظار کرسکتی۰
عبدالغفار خان کو سر کے بالوں سے پکڑ کر نیچے فرش پر گرا دیا۰ لات برسانے لگے۰ ہر لات کے ساتھ طنزیہ پوچھتا ہے:” تو سرکار کی خلاف بغاوت کرتا ہے! تو انگریز سرکار سے ازادی کیلئے اکساتا ہے!” ۰۰۰۰ساتھ ایک سانس میں ایک درجن گالیاں ۰
سردار جی ،عبدالغفار خان کو گالیاں دیتے اور لات مارتے تھک گئے۰ ایک سپاہی کو پینے کا پانی لے آنے کا کہا۰ اسی بنچ پر بیٹھ گئے پانی کے چند گھونٹ لئے۰ سامنے کھڑے سپاہی کے ہاتھ میں رسی اور بانس پر نظر پڑی۰ بانس لی اورغفار خان کو الٹا کرکے مارنے لگے۰ وہی طنز ، وہی گالیاں وہی ، گندے الفاظ کا سلسلہ!
پھر تھک گئے۰
سردار جی پھر تھک ۰ پھر بیٹھ گئے۰ پانی کے ایک دو گھونٹ لئے اور کچھ تازہ دم ہوکر دوسرے سپاہیوں کی مدد سے عبدالغفار خان کو زمین سے اٹھا کر رسی سے چھت سے لٹکایا۰
اول شا کاکا کہتے تھے :
“اس زمانے میں شلوار بڑے اور پائنچے کھلے ہوتے تھے اور قمیص کے دامن کوتاہ۰ عبدالغفار خان کو لٹکایا گیا تو قیمص اور اوپر گئی۰تھانیدار سردار جی کو اچھی اذیت دینے کی حساس جگہ نظر آئی اور پورے زور سے رانوں کے درمیان مارنے لگے۰ ساتھ وہی گالیاں، وہی طنزیہ سوال: تو سرکار کے خلاف بغاوت کرتا ہے؟ تو انگریز سرکار سے ازادی مانگتا ہے؟ خود کو مجھ سے آزاد کرکے تو دکھا! لیکن ایک بات تھی۰ عبدالغفار خان غیرتی پشتون خان تھے۰ اتنی اذیت میں ھم نے ان کی منہ سے آہ کی آواز تک نہ سنی۰ بالآخر شدت درد سے عبدالغفار کی منہ سے پانی انا شروع ہوا۰ بے ہوش ہوگئے! “
تب تھانیدار صاب نے لکڑی رکھ دی اور کمرے سے نکلنے کیساتھ غراتے ہوئے کہا:
“اب اس کو مارنے کا فائدہ نہیں۰ یہ بے ہوش ہے۰اس کو درد کا احساس نہیں ہوگا۰ اور میں ویسے ہی مارتے مارتے تھکتا چلاؤں جاؤں گا!”
یہ سامراج دشمن ، یہ باغی ، یہ انقلابی، یہ حریت پسند ، یہ خپلہ خاور ہ خپل اختیار کا عظیم نعرہ لگانے والا، یہ عدم تشدد کا پیامبر، یہ پشتونوں کیلئے ازادی اور امن اور عزت و سربلندی کی زندگی کا زندگی بھر بھیک مانگنے والا جوان بعد میں پشتون تاریخ کا سب بڑا اور پیارا لیڈر بنا جنہیں پشتون باچا خان اور پشتون دشمن “غدار “کے نام سے پکارتے ہیں!
رشید یوسفزئی
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.