Jagirdari Nizaam, Govt Of India Act and Fudal System. Land Allotments In Peshawar By British Indian Govt.
Urdu Info Blog about Landlords Of Peshawar.
«سابقہ ضلع پشاور کے انگریزوں کے دور کے جاگیرداروں کا حال»
تحریر: سید ضیاءاللہ شاہ
***
پشاور گزیٹئیر 1898-1897 کے منسلکہ ضمیمہ صفحات 381 تا 389, کے مطابق تاج برطانیہ نے ضلع پشاور میں 54 جاگیرداروں کو متفرق جاگیریں دی تھیں. پھر ان جاگیروں کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ اور دوسرے لیٹرز کے ذریعے تحفظ دیا گیا تھا. ان میں ایسی جاگیریں بھی تھیں جو دائیمی تھیں اور بعض کو تاحیات رکھا گیا تھا اور بعض ایسی بھی تھیں؛ جنکو تاج برطانیہ کے صوابدید پر رکھا گیا تھا اور اسکو جاگیردار کے فرمان برداری سے مشروط کیا گیا تھا.
جب ملک آزاد ہوا تو ملک میں قانون ساز ادارے کا پہلا کام یہ ہونا چاہئیے تھا کہ وہ مذکورہ گورنمنٹ انڈیا ایکٹس اور لیٹرز وغیرہ کو غیر قانونی و غیر آئینی قرار دے کر ختم کرتے اور جملہ جاگیریں قوم کو واپس کرتے. کیونکہ یہ جاگیریں ایک قابض غیر قوم نے اپنی مفادات اور حاکمئیت کو مستحکم کرنے کے لئیے جبرا, ناجائز طور و بلا معاوضہ مالکان سے لیکر یہاں کے ان لوگوں کو دی تھیں جو انگریزوں کے دلال اور مخبر تھے اور قوم کے دشمن تھے. چاہئیے تو یہ تھا کہ ان دلالوں پر قوم و وطن کے خلاف سازش کے مقدمات چلتے اور جو دولت تاج برطانیہ نے لوٹ لیا تھا, اسکے واپسی کا مطالبہ برطانوی حکومت سے کیا جاتا. لیکن ایسا نہ ہوسکا. کیونکہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد اقتدار عوام کو منتقل نہ ہوسکا. اسکی کئی وجوھات میں سے بنیادی وجہ وہ جاگیردار تھے جو پہلے انگریزوں کے حق میں تھے اور بعد میں انکی بنائی ہوئی سیاسی سیٹ اپ میں جذب ہو کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے. اس سیٹ اپ کو استحکام دینے کے لئیے ضروری تھا کہ اقتدار مرکز کے پاس رہے , لہذا ون یونٹ کے تحت دو بڑے حصے یعنی مغربی اور مشرقی معرض وجود میں آگئیے
ہماری پسماندگی کی کئی وجوھات میں سے بنیادی وجہ زرعی اصلاحات کا نہ ہونا ہے, جس کی راہ میں یہی جاگیردار اور اسکے پیش رو رکاوٹ بن کے چلے آرہے ہیں. ہندوستان میں بعض ریاستوں میں اسکا الٹ ہوا, وھاں آزادی کے بعد کامریڈ
Zihannasheen Jaatheen
کے مطابق مزدور تحریکوں کی وجہ سے الگ الگ ریاستوں میں ذرعی اصلاحات کرنے پڑے۔ سب سے پہلے جموں و کشمیر میں یہ اصلاحات ہوئے۔ اس کی پورے بھارت کے جاگیرداروں نے مخالفت کی۔ اور اسی کی وجہ سے کشمیر کی عوامی حمایت یافتہ حکومت کو بر طرف کیا گیا، اور شیخ محمد عبداللہ اور دیگر عمائدین کو جیل میں ڈالا گیا.
ایک قوم کی ترقی کے لئیے جاگیرداری کا مرحلہ عبور کرکے سرمایہ داری کے مرحلے میں جانا ضروری ہوتا ہے, جو یہاں کماحقہ نہ ہوسکا. اب بھی ہمارا پرانے جاگیرداری سیٹ اپ پر انحصار ہے. جس کے لئیے پھر ان روایات اور قوانین کو بھی رکھنا ضروری ہے, جو اس سیٹ اپ کو تقوئیت دینے میں ممد و معاون ہیں. اسکے لئے پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارا درس و تدریس کا نظام
stagnant
رہ کر نہ بدلے.اور نہ سماجی قوانین میں کوئی بنیادی تغیر و تبدل آسکے. اس کے لئیے پھر یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ سیاسی عمل کو ناکارہ بنایا جائے اور اسکو پھلنے پھولنے نہ دیا جائے.
اس لیے پھر ہمیں بھی یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ آگاہی کی خاطر ھم یہ معلوم کریں کہ انگریزوں نے یہاں آکر کسطرح جاگیرداری نظام کو مضبوط کیا تھا اور وہ کون لوگ تھے جو اس کے مراعات یافتہ تھے اور بعد میں برسراقتدار آگئیے. اور آج انکی اولاد کس مقام پر کھڑی ہے?
Jagirdari Nizaam, Govt Of India Act and Fudal System. Land Allotments In Peshawar By British Indian Govt. Urdu Info Blog
Jagirdari Nizaam, Govt Of India Act and Fudal System. Urdu Info Blog
اس لئیے مذکورہ جاگیروں اور جاگیرداروں کی تفصیل درج ذیل درج کی جاتی ہے
ضمیمے کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ خان بھادر محمد ابراھیم خان آف مردان کو انکے سیاسی خدمات کے عوض تا حیات بکیانڑہ, شیخ یوسف, شاہ بیگ, فیروز پور, ساڑو شاہ, آخر آباد, فتح آباد, میاں کلے, رحمت آباد, نرار, جلالہ کے مواضعات دی گئیں
محبت خان خان بھادر آف طورو کو موضع طورو سمیت کل 9 مواضعات گورنمنٹ انڈیا ایکٹ نمبر 2102 مورخہ یکم اگست 1877 کے مطابق الاٹ کی گئیں. مذکورہ ایکٹ میں لکھا گیا ہے کہ یہ مواضعات بوجہ خدمات گرانٹ کی گئیں. جنکو پھر حکومت کی صوابدید پر رکھا گیا.
اسی طرح بھرام خان آف طورو تا حیات مواضعات شامت پور, طورو, کوٹ اسماعیلزئی, کھنڈر, کوٹ داودزئی, گھڑی داودزئی کا مالک قرار پایا
اسی طرح خواجہ محمد خان خان بہادر آف ہوتی کو ہوتی سمیت چمتار ڈھیری, ماھو ڈھیری اور خزانہ ڈھیری کے مواضعات سے مالا مال کیا گیا
صوبیدار میجر حبیب خان آف کھنڈہ کو کھنڈہ, جنگی ڈھیر اور شیخ ڈھیری تحصیل لاھور کے مواضعات ملٹری خدمات کے عوض بطور پینشن دی گئیں
عبد الغفور خان آف زیدہ کو تاحیات بطور خدمات موضع زیدہ اور شاہ منصور کے مواضعات دی گئیں
محمد عمر خان آف شیوہ کو چک خلیل, خلیل اور شیوہ کے مواضعات دی گئیں
اسماعیلہ کے میاں گان کو حکومت کی صوابدید پر گاوں نذر الاٹ کیا گیا.
حسین شاہ میاں کاکاخیل کو ولئ اور زیارت کاکاصاحب دئیے گئیے.
میاں عنوان الدین کاکاخیل آف سرخ ڈھیری اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو مواضعات سوڈھیر اور سرخ ڈھیری تاحیات بطور سروس گرانٹ عطا کی گئیں. اسی طرح محمد افضل خان آف ملئ نزد اٹک کو شگے, کاہی, کمر میلا, گاڑو, لاشوڑے توتکئ, مامی خیل, نیمل, سارا توئی کے مواضعات وفاداری, خدمات اور اچھے روئے کی وجہ سے غیر معینہ مدت کے لیے دی گئیں
میاں رحیم شاہ کاکاخیل کو اسکے دیر اور سوات میں سیاسی خدمات کے عوض مواضعات ترلاندی, زڑہ مینہ, مصری بانڈہ اور مغلکی بطور جاگیر دی گئیں. اس پر ان مواضعات کے سلسے میں آمدنی کا ٹیکس کیش کی صورت میں 2500 روپے لگا گیا تھا. شرائط میں ذکر ہے کہ
He has probably selected these villeges as owing to the poverty of the estates, the revenue was reduced and he hopes for an inhancement at the next settlement. His collection must be wached.
یہاں معلوم ہوتا ہے کہ میاں صاحب نے فریاد کی ہوگی کہ فصلیں اچھی نہیں تھیں وغیرہ وغیرہ جس ضمن پھر ٹیکس کو مبلغ 2500 روپے تک کم کیا گیا. مگر چونکہ سرکار اسکے بیان سے مطمئن نہیں تھا اس لئیے اس پر کھڑی نگرانی مقرر کی گئی
اس طرح موضع مچنی کے تمام ترکزئی مالکان کو متنی, پسانی, یوسف خیل اور دیہ بھادر مواضعات دی گئیں, ان سے ماخذات مبلغ 11300 روپے مقرر کی گئیں جسکو پنجاب گورنمنٹ نمبر 949 مورخہ 22 جولائ 1873 اور پنجاب گرنمنٹ نمبر 1102مورخہ 27 اگست 1896 وغیرہ کے تحت تحفظ دیا گیا.
ان جاگیر داروں میں خان صاحب ارباب اعظم خان, ارباب محمد حسین خان, خان بھادر آف لودی یارگاجو, ارباب بھادرخان خلیل, ارباب دوست محمدخان خلیل, ارباب فرید خان خلیل قابل ذکر ہیں, جنکو خطیر جاگیریں دی گئیں.
ان میں سے اکثر کو تا مرضئ سرکار رکھا گیا مگر ارباب محمد حسین خان کو اسکے وفاداری اور خدمات کے عوض دائمی طور جاگیر دیا گیا.
ان 54 جاگیرداروں پر جو ٹیکس لگایا گیا تھا اپینڈکس کے مطابق اسکی کل مالیت 86746 روپے بنتی تھی. جو یہ غالبا سالانہ ادا کرتے تھے. یہ تو وہ رقم تھی جو جاگیرداروں نے تاج برطانیہ کو بھر حال دینا ہوتا تھا. مگر جو یہ اپنے لئے لیتے تھے اسکی تفصیل سرے سے معلوم ہی نہیں.
کل 54 مواضعات جو بطور جاگیر دی گئی تھیں صرف مواضعات نہیں تھیں بلکہ ان میں بسنے والے تمام انسان جاگیرداروں کے غلام بنائے گئیے تھے. مذکورہ بالاحساب تو تاج برطانیہ کا ٹیکس تھا جو بیرون ملک جاتا تھا. لیکن جو خدمات, بیگار کی شکل میں یہ جاگیردار رعایا سے لیتے تھے اسکاتو تصور محال ہے. اور پھر ان جاگیرداروں کے اپنے وضع کردہ قوانین الگ تھے. مثلا راھداری کا ٹیکس, فصل کی کٹائی کے وقت اجناس میں اور مویشیوں کا چارے میں جاگیرداروں کا حصہ وغیرہ وغیرہ.
مثال کے طور پر موضع زیدہ میں محلہ تاجو خیل کے حجرہ موسوم بہ "ڈپہ حجرہ" سے گزرتے ہوئے راستے پر جو بھی زمیندار شام کو مویشیوں کے لئے چارہ لاتا تھا, اس میں سے جاگیردار کو حصہ دینا ہوتا تھا.
اس زمانے میں انگلستان میں یہ رسم تھی کہ مضارع کی دلھن شادی کی پہلی رات جاگیردار کے ھاں گزارتی تھی, تب ایسی شادی قانونی قرار پاتی. یہ رسم ہمارے ھاں بھی تھا. یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بےزمین کاشتکار یا ہنرمند پیشہ ور اشخاص اپنے بیٹیوں کی شادی پر جاگیردار کو ٹیکس دیتے تھے, جسکو "حقتورہ" کہا جاتا تھا. نیز ان جاگیرداروں کے اپنے اپنے مقرر کردہ اور وضع کردہ اصول و ضوابط بھی تھے. جنکا حال مکمل تحقیق کی صورت میں منظر عام پر آئیگا.
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.