Flood 2022 And Kalabagh Dam. Urdu Analysis Of Dams And Floods
اکثر احباب کو شکوہ ہے کہ سیلاب کی پیشگی اطلاع کے باوجود اس کا حل نہیں نکالا گیا تو یہ حکومت کی نااہلی ہوئی ۔۔
موجودہ سیلابی ریلے کی پیش گوئی گزشتہ 30 برسوں سے گلوبل وارمنگ کے خطرے کے بیان کی صورت میں ہورہی ہے، یہ وہ روایتی سیلاب نہیں ہے کہ دریا اوور فلو ہوئے اور پانی بستیوں میں آگیا، یہ صرف بارشوں کا پانی ہے جس نے شہر کے شہر تباہ کردئیے اور اب دریاؤں کے بھی اوور فلو ہونے کا خدشہ ہے۔
بارشوں کا یہ پانی کسی ڈیم یا دریا میں ذخیرہ نہیں ہوسکتا، ایسی صورت میں ڈیم اور دریا کی موجودگی زیادہ خطرناک ہوجاتی ہے کہ وہ اوور فلو ہوکر آس پاس کی بستیوں کو تباہ کردیتے ہیں جیسے ابھی نوشہرہ میں ہوا اور اب مختلف مقامات سے دریائے سندھ کے اوور فلو ہوکر اطراف کے علاقوں میں پانی آنے کا بھی امکان ہے، اگر ملک میں ایک کالا باغ ڈیم ہوتا تو درجنوں شہر زیر آب آچکے ہوتے، پانی کے ذخیرے سیلاب کی ہولناکی کو مزید بڑھادیتے ہیں۔
قدرتی آفت کو اگر آپ قدرتی آفت نہیں سمجھیں گے تو اس کا مقابلہ بھی نہیں کرسکیں گے، پاکستان میں بارشوں کی جو پیش گوئیاں ہوئی ہیں، ان پیش گوئیوں سے بھی سینکڑوں ملی میٹر زیادہ بارش ہوئی ہے، ریسکیو چند ہزار یا چند لاکھ کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کرکے کیا جاسکتا ہے تاہم جب کروڑوں انسان متاثر ہوں تو ان کو آپ کہاں منتقل کریں گے، یہ سیلاب کسی ایک صوبے یا ایک حکومتی جماعت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک کا ہر صوبہ اس سے متاثر ہے۔
خدارا سیاست سے بالاتر ہوکر ملکی مفاد میں اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں، کروڑوں انسان اس مصیبت کی گھڑی میں ہماری ہمدردی کے بولوں کے مستحق ہیں، انہیں امداد چاہئیے، انہیں ہمارا ساتھ چاہئیے۔
عثمان غازی
پانی کے امور کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس کی تحقیق کے مطابق جب سے دنیا بنی ہے، ہمارے خطے کو ایک خاص میکنزم سے پانی ملتا ہے اور اس پانی کے حصول کے تین ذرائع ہیں۔
جنوب میں بحرہند، آسمان پر سورج اور شمال کی جانب ہمالیہ، کوہ ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑی سلسلے ۔۔
جب سورج سمندر پر چمکتا ہے تو بادل بنتے ہیں، یہ بادل شمال کی جانب سفر کرتے ہیں کہ جہاں پہاڑی سلسلے ہیں، ان کے پہاڑوں سے ٹکرانے پر بارش اور برف باری ہوتی ہے، یہ بادل گلیشئیر بننے کی بھی وجہ ہیں اور انہی گلیشئیرز کا پانی دریائے سندھ میں شامل ہوکر پورے ملک تک پہنچتا ہے۔
لاکھوں سال گزرگئے، ہمارے خطے میں فراہمی آب کا یہ نظام چل رہا ہے اور یہ اسی صورت میں ختم ہوسکتا ہے کہ جب سمندر خشک ہوجائے، سورج کی روشنی گل ہوجائے یا پہاڑ اُڑ جائیں۔
یہ قدرت کا اتنا زبردست سسٹم ہے کہ دنیا میں جتنی گلوبل وارمنگ ہوگی، ہمارے خطوں میں اتنی زیادہ بارشیں ہوں گی اور پانی کی فراہمی کا سلسلہ جاری رہے گا، اگر بارشوں کا ڈیٹا دیکھیں تو شمال میں اضافی بارشیں اسی بات کی دلیل بھی ہیں۔
مون سون کی بارشوں سے ڈیموں میں جمع ہونے والا پانی بھی فراہمی آب کا ایک بڑا ذریعہ ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہمارا انحصار صرف مون سون پر ہے، اگر ایسا ہوتا تو یہ خطہ اب تک مٹ چکا ہوتا۔
بھارت کو تین دریا دینے کے بعد پاکستان کو سالانہ 145 ملین ایکڑ فیٹ پانی ملتا ہے، جس میں سے 104 ملین ایکڑ فیٹ پانی ہم فصلوں کی اگائی میں استعمال کرتے ہیں، اس وقت پاکستان جتنا پانی کاشت کاری کے لئے استعمال کررہا ہے، اتنا ہی کیلی فورنیا میں استعمال ہوتا ہے مگر وہاں 50 فیصد زیادہ فصلوں کی پیداوار ہے اور اس کی وجہ ہمارا ایری گیشن سسٹم اچھا نہ ہونا ہے۔
اگر پاکستان اپنا ایری گیشن سسٹم بہتر کرلے تو ہم صرف 50 ملین ایکڑ فیٹ پانی سے موجودہ پیداوار حاصل کرسکتے ہیں۔
عالمی اسٹینڈرڈ کے مطابق ایک گھرانے کو 35 گیلن پانی یومیہ درکار ہوتا ہے، جس میں کھانے، پینے، نہانے اور کپڑے دھونے سمیت دیگر ضروریات پوری کی جاتی ہیں، اگر ہم پاکستان میں رہنے والے ہر فرد تک اس عالمی معیار کے مطابق پانی پہنچائیں تو ہمیں 17 ملین ایکڑ فیٹ پانی درکار ہوگا۔
اس وقت ہماری صنعتیں آٹھ ملین ایکڑفیٹ پانی استعمال کررہی ہیں جبکہ مستقبل میں یہ ضرورت بڑھ کر دس ملین ایکڑفیٹ تک ہوسکتی ہے، گویا ہمارے پاس ہماری ضرورت سے دگنا پانی موجود ہے۔
پاکستان میں پانی کے موجودہ بحران کی وجہ ترسیل کا نظام بہتر نہ ہونا ہے، کاشت کاری میں ضرورت سے تقریبا دگنا پانی ضائع ہورہا ہے۔
پاکستان میں پانی کے بحران کی ایک اور وجہ آلودگی اور کرپشن بھی ہے اور بڑے ڈیم بنانا ان تمام مسئلوں کا حل نہیں ہے۔
بڑے ڈیموں کی تعمیر میں تقریباً ایک دہائی لگتی ہے، ان کی عمر مختصر ہوتی ہے اور مٹی کی سطح بڑھنے پر رفتہ رفتہ یہ ختم ہوجاتے ہیں، اس لئے ماہرین کے مطابق ڈیم پانی کے مسئلے کا حل نہیں ہیں۔
سیلاب سے انتہائی زیادہ نقصان کی وجوہات بچاؤ کے سسٹم کی عدم موجودگی، سرکاری محکموں میں کام نہ کرنے کا رجحان، متعلقہ محکموں میں ہم آہنگی کا فقدان، بے انتہا کرپشن، وڈیروں کی زمینوں اور اثاثہ جات کو بچانے کے لئے سیلاب کا رخ غریب بستیوں کی طرف موڑنا، وزراء، مشیروں اور افسر شاہی کے لیے جواب دہی کا کمزور نظام، اقربا پروری شامل ہیں۔
ڈیموں اور شاہراہوں کی تعمیر میں گھٹیا میٹریل استعمال ہوا۔
غریب بستیوں کو بچانے کی کوششیں ہوئی ہی نہیں صرف ان کے اجڑنے پر مگر مجھ کے آنسو بہائے جا رہے ہیں۔ اس کام میں پی پی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی سب شامل ہیں
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.