Skip to main content

Khattak Tareekh Kay Ayenay Main. History Of Khattak Pashtun Tribes

Khattak Tareekh Kay Ayenay Main. History Of Khattak Pashtun Tribes


خٹک تاریخ کے آئینے میں


ابتدائی تاریخ 

ابتداء خنک جنوبی وزیرستان میں کوہ وشوال جوکوه سلیمان کے شمال مغربی سلسلہ کا نام ہے کے آس پاس آباد تھے ۔ شوال کی وادی بنوں کے مغرب میں واقع ہے جو طول میں سولہ اور عرض میں آٹھ میل ہوگی وہاں سے قریبا" چھ سوسال کا عرصہ ہوتا ہے کہ یہ موجودہ صوبہ سرحد سے ضلع بنوں کے علاقہ میں آۓ اور وہاں ہونی اور منگلی قبائل کے ساتھ جو  ان ہی کی طرح کر لانی  تھے بودوباش اختیار کی ۔ کچھ مدت بعد ایک دوسری کر لانی قبیلہ شیتک نے جواب بنوچی کہلا تا ہے شوال ہی کی طرف سے علاقہ بنوں کی جانب کوچ کیا اور مذکور بالا ہونی اور منگلی قبائل کو وہاں سے نکال کر خود آ باد ہوا۔ خنک بھی انہی کے ساتھ رہنے سہنے لگے ۔ نہر صدرون ( سد راونڑ ) اور اس کے قرب و جوار کا علاقہ خٹکوں کے تصرف میں تھا مگر کچھ عرصہ بعد شیتکوں کے ساتھ عداوت کے سبب یہ وہاں سے نقل مکانی کر کے جانب شمال مشرق علاقہ کوہاٹ کی طرف بڑھے اور موجودہ ضلع کوہاٹ کے جنوب مغربی ، جنوبی اور جنوب مشرقی حصوں میں آباد ہوۓ ۔علاقہ کو ہاٹ کے میں ھے چوترہ، ٹیری ، لاچی ، کربوغہ اور شکر درہ وغیرہ کی وادیوں اور علاقہ جات پرمشتمل ہیں


۔ اول الذکر موجود ضلع کوہاٹ کے صدر مقام شہر کو ہاٹ کے جنوب میں کوہ بہا در خیل ( جو سلسلہ کوہ نمک واقعہ ضلع کوھاٹ کی جنوب مغربی شاخ ہے ) اور کوہ لواغر کے درمیان ایک زرخیز وادی ہے ۔کرک اس وادی کا مشہور قصبہ اور نمک منڈی ہے ۔ ٹیری کو ہاٹ شہر سے جانب جنوب قدرے غر با“  ۳۶ میل کے فاصلہ پر ایک مشہور قصبہ ہے اور ضلع کوہاٹ کی ٹیری تحصیل اسی سے اپنا نام حاصل کرتی ہے لاچی کو ہاٹ شہر سے ۷ امیل دور جانب جنوب برلب سڑک واقع ہے 


کربوغہ علاقہ ٹیری کے شمال مغرب میں اور قصبہ تیری کے مغرب میں قدرے شمالا“ ایک وادی ہے جس میں اسی کا قصبه هے یه علاقے کوهاٹ کی تحصیل ٹیری میں شامل ہے خٹکوں نے  پٹیالہ کا علاقہ اورکزیوں سے چھینا ہے یہ قبضے پندرویں اور سولہویں صدی کے آخیر میں ہوئی خٹک زیڑہ اور وادئ خوڑہ نیلاب تک قابض ہوئے نیلاب وادی کا کچھ حصه پشاور اور کچهه کوهاٹ میں ہے اس کا شمار وادئ پشاور کے سلسلہ کوہ چراٹ اور کوہ نیلاب کے درمیان واقع ہے


قلعہ اٹک کی تعمیر سے پہلے جب شہنشاہ اکبر میرزا حکیم کے تعاقب میں آیا تھا۔ (۹۸۹ ہجری/ 1581 ء ) تو اس نے نیلاب میں گردونواح کے افغان سرداروں کو راستہ کی حفاظت کے متعلق ان سے بات چیت کرنے کے لئے بلایا انہوں نے شہنشاہ سے ملک اکوڑے کا ذکر کر کے عرض کیا کہ اس نے علاقہ میں بڑا نام پیدا کیا ہے چنانچہ شہنشاہ نے اس کو بلا کر اس پر بہت زیادہ مہربانی کر کے اس کی قدرافزائی کی۔ اور ملک اکوڑے نے بھی ملازمت شاہی اختیار کر کے اپنے قبیلہ سمیت وفاداری و خدمت گزاری کا عہد کیا۔ (۱۳)


 شہنشاہ نے خیر آباد( جواب  تک  پنجاب سے تھوڑے فاصلہ پر صوبہ سرحد میں دریائے سندھ اور دریائے کابل کے مھم کے قریب ایک قصبہ ہے ) سے نوشہرہ تک کا علاقہ اکوڑے کو بطور جاگیر عطا کیا۔ نیز اموال و مواشی کی آمد ورفت پر محصول وصول کرنے کا اختیار بھی دیا۔  اور شاہی سڑک کی حفاظت بھی اس کے سپر د کر دی ۔ قصبہ سراۓ اکوڑہ جو علاقہ اکوڑہ خٹک کا صدر مقام ہے ۔ ملک اکوڑے ہی نے آباد کیا اور آج تک اس کے نام سے منسوب ہے۔ اس زمانہ میں اسے ملک پور بھی کہتے تھے 


بقول افضل خان صاحب تاریخ مرصع ملک اکوڑے تلوار کا دھنی اور مروخی و جری تھا۔ اس کی سخاوت و فیاضی کا یہ عالم تھا کہ جو صبح اس کے پاس ہوتا وہ شام تک نہ ہوتا ۔اور جو شام کو آتے

صبح تک خرچ ہو جاتا وہ جو کچھ کھاتا یاروں دوستوں اور فقراء غرباء کی نذرہوتا ۔ (۱۲) ملک اکوڑے اپنے بیٹے یوسف خان اور چند دیگر جوانوں سمیت ناز و خان بولاق خٹک کے ہاتھ سے قتل ہوا 


ملک اکوڑے کا بیٹا یحیا خان سینی خٹکوں کے ھاتوں قتل ہوا شھباز خان یوسفزیوں کے ھاتھوں قتل ہوا تاریخدان خواجه محمد سائل کے مطابق خوشحال بابا جو که یوسفزیو سے لڑ رہا تھا پسپائی کے دوران اٹک دریا میں چلانگ لگائی تھی پانی گہرا تھا خوشحال بابا کو اپنی موت کا یقین ہو چلا تھا اس وقت وہ دل میں کہہ رھے تھے میرے اباؤ اجداد بھی شہادت کی موت مرے ہے تو میرا وقت بھی اگیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک چینجو بھی کسی کے ہاتھوں قتل ہوئے ہے خوشحال بابا کی تحریروں میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ ملک چینجو کی موت کیسے ہوئی پر قیاس یہی ہے کہ وہ بھی خٹکوں کی باھمی دشمنی میں مارے گئے ہے 

ملاحظہ ہو خوشحال بابا کی یہ نظم 


خټک چه په آس سور شی

درسته وتړی په کُــــــــونه 

شمله د دستار پریږدی 

په تندی کښ اُوږده پلنه

سایه د شملی ګوری

د خپل اس په ترَپَوَنه

چینجو ته کا کنځلی 

په کولک کاندی پوښتنع

دعوه د خانئ واخلی 

په فساد کاندی جستنه


او یو بل ځایی وایی 


زویه که هسی وی لکه چه زه لرم 

که هر څو ډیر دی یو زویه نه لرم 

یو یحیا  خان نشو یو اکوړے نشو

چنجو،  منجو دی پټ به یی څه  لرم


خوشحال بابا کی اس تحقیر آمیز تحریر سے هم کیا اخذ کرسکتے 

هے بظاهر تو ایسا لگتا ہے کہ خٹک قبیلہ ملک چنجو سے کسی حد نفرت کرتے تھے پھر ان میں اور اکوڑ خیلوں میں جنگ و مجادلہ اور اکوڑ خان اور یحیا کا قتل ساغری اور سینی خٹکوں کے ھاتوں ذھن میں کئ سوالات  پیدا کرتے ہے

یہ کہانی لمبی ہے 

سمجھنے کے لئے درج ذیل کتب کا مطالعہ ضروری ہے 

خوشحالیات اور حقائق از خواجه محمد سائل مومند  مرحوم 

سیف الرحمان سید کی دو کتب 

د اکوړ نه تر شیدا 

او

کتمان شهادت 

وغیره


ساغری پٹھانوں کا ذکر

پنڈی گھیپ،  اٹک، جهلم میں ساغری خٹک،  یوسفزئ اور عام پٹھان خلیل اور مومند وغیرہ


پنڈی گھیپ میں اعوانوں کے بعد پٹھانوں کا نمبر ہے۔ کیوں کہ وہ تعداد میں اعوانوں سے زیادہ ہیں اور ان کی آبادی 42000 ہے جو کہ پورے ضلع کا 8.1 فی صد ہے۔ ضلع میں پٹھانوں کے دو اہم علاقے ہیں ۔ان میں سے ایک پنڈی گھیب تحصیل کے جنوب مغربی کونے مکھڈ اور نرڑہ کا پہاڑی علاقہ ہے اور دوسرا تحصیل اٹک میں زیادہ تر چھچھ کے علاقے میں ہیں۔


پنڈی گھیب تحصیل میں پٹھانوں کی تعداد 6500 اور عموما تمام ساغری پٹھان جو کہ بولاقی خنک کی ایک شاخ ہے ۔ بنگی خیل کی بابر  فیملی جو کہ ساغری قبیلہ میں ایک آزاد اور خود مختار ذات ہے میانوالی اور بنوں کے علاقے میں آباد ہے ۔ یہ بھی نرڑہ کی پہاڑیوں کے علاقے میں شمار ہوتے ہیں اور یہاں پر جمال خیل ذات کے بھی تقریبا چھ سو افراد آباد ہیں۔ کسی شک وشبہ کے بغیر یہ تصدیق شدہ امر ہے کہ ساغری پٹھان کوھاٹ سے آۓ تھے اور دریا کو عبور کر کے اعوانوں کو اس علاقے سے نکال دیا جو یہاں قابض تھے ۔ کہا جا تا ہے کہ ان پٹھانوں نے تقریبا“ جہلم تک کا علاقہ اعوانوں سے لے لیا تھا۔ لیکن سترھویں صدی کے وسط میں ان لوگوں نے اس علاقے کا بہت سا علاقہ چھوڑ دیا۔ وہ ضلع میں نسبتا“ دیر سے داخل ہوئے ۔ پندرھویں صدی کے آخر تک خٹک قوم نے کوہاٹ میں رہائش مستقل نہیں کی تھی اور ان کی پہلی فتح کوہاٹ سے شمال اور جنوب کی طرف کے علاقے کی تھی جو دریاۓ سندھ کے مغربی کنارے کا علاقہ ہے۔


مکھڈ کی موجودہ فیملی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ احمد شاہ درانی کے دور میں یہاں آباد ہوئے ، ختک دریاۓ سندھ کے آر پار آباد ہو گئے تھے درانی حملے سے پہلے ان لوگوں کا ضلع کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ جہلم تک کے علاقے پر قبضہ کرنے کی کہانی کا کچھ پتہ نہیں۔ غالبا“ کبھی کبھار کے حملے ہی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ سکھوں کے دور سے پہلے اور جنگ وفساد کے دور سے پہلے ہی وہ اپنی موجودہ حدود میں آباد ہو گئے تھے اور جنگ وفساد کے دنوں اور گھیبوں کے دور تک بھی یہاں ہی رہے ۔ ضلع میں ان کی مستقل آباد کاری اٹھارہویں صدی کے نصف سے کچھ پہلے وجود میں آئی ۔ ان کے پاس سات گاؤں ہیں جن میں سے مکھڈ اور نرڑہ نسبتا“ بڑے ہیں۔ مشرق کی طرف عدو والی تک اس کی حدود میں جہاں اعوان ان کے پڑوی ہیں اور اسی وجہ سے اس کا نام حدو والی ہے ۔ پورے علاقے میں وہ قابض ہیں غیر پٹھان

لوگوں سے کوئی خاص تعلق نہیں رکھتے ۔ وہ اچھے زمین دار مں اگر چہ ان کا علاقہ پتھریلا اور کم زرخیز ہے ۔ ان کی جسمانی ساخت بہت اچھی ہے اور وہ علیہدہ کردار کے مالک ہیں۔ وہ اچھے سپاہی بنتے ہیں اور آزادی سے فوج میں بھرتی ہوتے ہیں۔ ہر گاؤں میں اکثریت پنشنرز کی ہے اور مقامی افسران کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ ان میں بہت سے سوداگر بھی ہیں اور اب بھی وہ بھیڑ ، بکریوں کی تجارت کرتے ہیں۔ لیکن یہ کاروبار اب تقریبا" موقوف ہو چکا ہے۔ ان کا علاقہ پنڈی گھیب سے بھی غریب ہے لیکن تنخواہ اور پنشن اور تجارتی منافع کی وجہ سے وہ اچھی زندگی گزارتے ہیں ۔ ان کی بول چال صاف ہے اور تقریبا پشتو کا مغربی لہجہ ہے۔ اگر چہ تمام لوگ اپنے ضلع کی پنجابی بول بھی سکتے ہیں اور سمجھتے ہیں ۔ پنجابی افسران ان کو پسند نہیں کرتے کیوں کہ ان کی اور ان کا رہن سہن نہیں سمجھتے پھر بھی وہ ضلع کا ایک اہم قبیلہ ہے ۔ ان کا سردار مکھڈ کا خان‘ ہے جو مکھڈ کا مالک ہے اور اس کی ایک بڑی جاگیر اور متفرق محصولات کی آمدن بھی ہے ۔اس خاندان کی سر براہی دونسلوں کے بعد اب نالائق ہاتھوں میں آ گئی ہے ۔ اور خان‘ کا اپنے قبیلے پر کچھ اثر رسوخ نہیں رہا۔ 1927 ء میں کچھ ماہ تک وہ لاہور کے ایک پاگل خانے میں زیر علاج تھا۔ اس کی جگہ اس کے بیٹے خان شیر احمد خان نے لے لی جو کہ ایک اچھا سمجھدار تنومند کالج کا نوجوان ہے ۔اس کے سامنے سب سے پہلے مشکل کام اپنے خاندان کی عزت و وقار کو بحال کرنا ہے ۔ اس نے عام معافی کا اعلان کیا اور دوست محمد کے بیٹے اور خان‘ کے چچازاد بھائی غلام سرور کو بھی معاف کر دیا جو کہ 1906ء میں ذیلدار تھا اور اچھی شہرت حاصل کر رکھی تھی۔ نرڑہ کا ذیلدار سردار بہادر صو بیدار میجر ارسلان خان ، جو کہ بہت بوڑھا ہو چکا تھا اور 35 سال سے اپنی اچھی سروس کی وجہ سے پنشن لے رہا تھا ۔ اس پر ضلع کو فخر ہے ۔ خان آف مکھڈ اور پیر آف مکھڈ کے درمیان ایک جھگڑا شروع ہوگیا۔ خان آف مکھڈ کا اعتراض تھا کہ پیر صاحب کی عوامی طاقت بڑھ رہی ہے اور شکایت کی کہ تقریبا اس کی شہرت ایک چوتھائی تک پہنچ گئی ہے۔


اٹک پٹھان


اٹک کے پٹھان جو تحصیل کے نصف مالیہ ادا کرنے والے ہیں تقریبا تحصیل کے 1/3 حصہ سے زیادہ کے مالک ہیں ۔ تقریبا ہر حصے میں رہتے ہیں ۔ لیکن سروالہ میں بہت ہی کم حصہ ہیں جب کہ چھچھ میں وہ تقریبا 78 فی صد حصے کے مالک ہیں۔ تمام اچھی زمینیں ان کے پاس ہے چچھ تحصیل میں یوسفزیو ں کی تعداد زیادہ ہے 

پنڈی گھیپ میں ساغری خٹکون کی تعداد زیادہ ہے ساغری خٹک ازادی پسند قبیلہ ہے جو مغل شاھجھان کے  دور میں اس وقت مغلوں سے نبرد آزما تھا جب ملک اکوڑ کے جان نشین مغلوں کے دربار سے منسلک تھے اس طرح سکھ اور انگریز کے خلاف بھی ساغری خٹکوں نے بارہا جھاد کیا ہے مغل شاھجھان کے دور میں یہ قبیلہ پنڈی گھیپ سے لیکر چھہچھ ھزارہ اور بھیرہ و خوشاب اور جھلم تک اباد تھا پر اب جھلم میں انکی تھوڑی سی جمعیت شاید باقی ھو پر وھاں اب گجر ـ راج پوت ـ اور اعوان بڑی تعداد میں آباد ہے جو کہ مسلمان ہو چکے ہے 


نیچے ٹیبل چارٹ میں اٹک ضلع اور پنڈی گھیپ میں پشتون قبائل کی تعداد دی گئی یہ1891 کی رپورٹ ہے 

خٹک قبیلے کی مزید تاریخ مندرجہ ماخذات میں مطالعہ کرسکتے ہے

جن سے اس مضمون کیلئے  راقم نے استفادہ کیا ہے

ماخذ

Gazateer of rawalpindi 1910

gazateer of attok 1930

خوشحالیات او حقائق اور پنجاب او پختانه ( سکهه شاهی دور)  از خواجه محمد سائل مومند  مرحوم

خوشحال خان خټک سوانح حیات 

مؤلف دوست محمد خان کامل مومند مرحوم


تحریر:  طارق خلیل تهکال بالا پشاور



Khattak Tareekh Kay Ayenay Main. History Of Khattak Pashtun Tribes. Khattak Pashtuns History. Khattak Pukhtana, Pukhtana Da Tareekh Pa Ranra Ki. Khattak Sook De. Khattak Pashtuno Ki Tarikh. Pashto Times

Comments

Popular posts from this blog

New Pashto Poetry Lines And Lyrics. Pashto Tappay In Written Text.

New Pashto Poetry Lines And Lyrics. Pashto Tappay In Written Text. Pashto Poetry Two Lines. Pashto Tappay In Text. ‏د خوېندو لوڼو سوداګره کږه شمله چې په سر ږدې خندا راځينه ټپه# که د پیزوان خاطر دې نه وے تابه زما د غاښو زور لیدلې وونه #ټپه ‏ستا یارانۍ ته مۍ زړه کیږۍ په څه خبره به اشنا درسره شمه خلک پېزوان خونړی بولي تا په نتکۍ د کلا برج ونړونه  Pashto New Tapay On Images 2022. Pashto Tappay In Text. Eid Mubarak Pashto Tapay. Pashto Eid Poetry. اختر ته ځکه خوشالیګم چی مسافر جانان می کلی ته راځینه Eid Mubarak In Pashto Tapa. Folk Songs Akhtar. اختر پرون وو پرون تیر شو تا تر څنګلو پوري نن سره کړل لاسونه Akhtar Janan Aw Pukhto Tapay. Eid Mubarak Poetry Pashto. خلکو اختر کښی غاړی ورکړی زه بی جانانه ګوټ کښی ناست ژړا کوومه خپل د راتلو لوظ دې ياد دے؟ سبا اختر دے انتظار به دې کومه Eid Mubarak In Pashto Language. Akhtar Di Mubarak Sha. اختر دی مبارک شه مورې څلور کمڅۍ مې وکړه دوه مې د خيال او دوه د کچ اختر ټالونه په ما دې ورځ د لوی اختر کړه چې دې په سترګو راله کېښودل لاسونه يوه روژه بله غرمه ده جا

Zama Zargiya Meaning In Urdu. Pashto Words Meanings

Zama Zargiya Meaning In Urdu. Pashto Words Meanings. Learn Pashto Words and Meanings. Info Different Contextual Uses Of Pashto Phrase Zama Zargiya or Zama Zargia. Pashto Language Words Internet Is Searched For Pashto Words Meaning Daily as People Speaking Languages Other Than Pashto Want To Learn Some Basic and Most Used Phrases. Search For Pashto Phrase " Zama Zargiya " Increased By 1150 % Today. Zama Zargiya Meaning In Urdu.  میرا جگر یا میرے دل کا ٹکڑا میرا جگر،  میرا محبوب یا میرے محبوب The Phrase Simply Means My Darling Or Sweetheart In English. Pashto. Zama Zargiya زما زړګیه English. Darling Or My Darling Or My Dear Or My Sweetheart. In Urdu Zama Zargiya Means " Meray Aziz " Meray Mehboob" Or Meray Humnasheen. Best Phrase For Zama Zargiya In Urdu. Meray Jigaar Or Jiggar Pashto Word Zama Means Mera Or Meray.  Pashto Word Zargay Means Dil Or Jigar.  Pashto Language Words زما زړګیه میرے محبوب میرے ہم نشین میرے جگر کا ٹکڑا "Zama Zargia Endearment Urdu&qu

Pashto Calendar. Calendar Of Months In Pashto

Pashto Calendar. Calendar Of Months In Pashto. Pashto Names Of Calendar Year 2022, 2023, 2024, 2025 Pashto Calendar: Names Of Months And Its Span In Pashto بېساک              Besak       (Apr—May) جېټ                Jheet       (May—Jun) هاړ                  Harh           (Jul—Jul) پشکال.            Pashakal         (Jul—Aug) بادرو               Badro        (Aug—Sep) اسو                Asu         (Sep—Oct) کتک               Katak         (Oct—Nov) مګن               Magan        (Nov—Dec) پوه                Po         (Dec—Jan) ما                  Ma       (Jan—FebF) پکڼ               Pagan        (Feb—Mar) چېتر             Chetar         (Mar—Apr) Pashakal Starting Date Is 14 July 2022.  Pashakaal Ending Date Is 14 August 2022. د پشکال ګرمي پۀ زور ده  زلفې دې غونډې کړه چې نۀ دې تنګوينه ټپه۔ په مخ یې پَشم دَ خولو دې دَ لمر په خوا دَ ملغلرو پړک وهینه۔ په اننګو کښي قوتۍ دي د پشکال خولي پري ډنډ ولاړي دینه Badro Starting Date Is 15 August 2022. Badro Ending Date Is 14 September 2022. Aso