Afghanistan Aryana. Ghandhara Grave Culture And Aryana. History
🌲 💓 افغانستان آریانہ 💓 🌲
یونانی جغرافیہ دانوں اور مورخین کے مطابق آریانہ قدیم افغانستان ، خراسان اور شمال مغربی ہند کے علاقوں پر مشتمل ایک وسیع ریاست تھی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی سرحدیں پھیلتی اور سکڑتی رہیں لیکن آریاوں کا مرکز یہی علاقے رہے ۔
حقیقت میں یہی آریاوں کی سرزمین تھی اور اسے آریانہ کہا جاتاتھا ۔ اس علاقے کا سب سے پہلا تذکرہ آریاوں کی مذہبی کتاب رگ وید میں ملتا ہے ۔ جس کے بھجنوں میں اس علاقے کے دریاوں ، دریائے کابل ، دریائے سوات اور دریائے گومل کا تذکرہ ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ آریا یہاں ہزاروں سال پہلے آباد تھے ۔ ہسٹوریکل سوسائٹی آف افغانستان کے مطابق آریا یہیں سے مشرق و مغرب میں پھیلے ۔ہسٹوریکل سوسائٹی آف افغانستان کے مطابق آریانہ کی تاریخ 3 ہزار قبل مسیح سے شروع ہو کر 997ء عیسوی تک جاتی ہے جب مملکت غزنویہ وجود میں آئی ۔
آریانہ ہی وہ خطہ ہے جہاں سے گندھارا تہذیب پروان چڑھی ۔اس علاقے میں جو آثار ملے ہیں انہیں گندھارا کی گورستانی تہذیب
(Gundhra Grave Culture
کا نام دیا گیا ۔ آریاوں کی قدیم کتب سے پتا چلتا ہے کہ گندھارا پر کوشالہ نامی حکمران کی حکومت تھی ۔ جس کے ایک بیٹے ٹکسا (Taksa)
نے ٹکاشیلہ
(Taksahshsila)
شہر کی بنیاد رکھی ۔ یونانی مورخین نے اس کو ٹیکسلو Taksailo لکھا ۔ جو آج ٹیکسلہ کہلاتاہے ۔ دوسرے بیٹے پوشکلا
(Poskda)
نے پوشکلا وتی
(Poshkalawati)
شہر کی بنیاد رکھی ۔ جو آج کل چار سدہ کہلاتاہے۔ گوتم بدھ (480قم تا 400 قم)کے زمانہ میں ٹیکسلہ کی شہرت ایک علمی مرکز کی تھی ۔ جہاں دور دور سے لوگ علم حاصل کرنے آتے تھے ۔
جب سکندر یونانی نے فارس کو فتح کرنے کے بعد 329ق م میں آریانہ کو بھی فتح کر لیا تو آریانہ پر یونانیوں کی حکمرانی قائم ہو گئی ۔327 قم میں ٹیکسلہ کے راجہ امبھی نے بھی سکندر کی اطاعت قبول کرلی اور 326 قم میں سکندر کا مقابلہ راجہ پورس سے ہوا ۔
اسی دور میں یونان سے
Eratosthenes
اراٹوستھینس (276قم تا 196قم )یہاں آیا
۔ وہ ماہر علوم فلکیات ہونے کے علاوہ سکندر یونانی کا چیف لائبریرین اور یونان کی جیوگرافکل فاونڈیشن کا صد ر بھی تھا ۔اس نے اس علاقے کو آریانہ ہی لکھا جہاں آج افغانستان موجود ہے ۔
آریانہ پر یونانیوں کی حکومت 275قم تک رہی ۔ اس کے بعد ہند کے موریا حکمران اشوک (304قم تا 232قم )نے آریانہ پر چڑھائی کرکے قبضہ کرلیا ۔
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.