How Powerful Taliban Are In Afghanistan. Urdu Explainer.
کیسے ہیں دوستو۔۔۔ اسی سال گیارہ اگست کی بات ہے کہ کابل میں رحیم اللہ حقانی جو کہ طالبان کے بہت بااثر رہنما تھے ان سے ملاقات کرنے ایک معذور نوجوان خالد آیا۔ رحیم اللہ حقانی ہزاروں طالبان فائٹرز کے استاد تھے اور کئی علما ان سے مذہبی تعلیم حاصل کر چکے تھے۔ یعنی وہ ایک مقبول سیاسی لیڈر اور استاد تھے۔ وہ کابل میں ایک جامعہ یعنی ایک مذہبی تعلیمی ادارے کے بانی اور سربراہ بھی تھے۔ کابل سے پہلے وہ پاکستان میں پشاور میں بہت عرصہ رہے تھے۔ یہاں پر بھی وہ بہت مقبول تھے بااثر تھے لیکن اتنے مشہور اور بااثر ہونے کے باجود ان پر کئی بار قاتلانہ حملے ہوئے۔ اس لیے جب وہ کابل میں گئے افغانستان میں جب طالبان کی حکومت آئی اس وقت تو ان کی سیکیورٹی وہاں بھی بہت سخت رہی ان سے کسی عام آدمی کا ملاقات کرنا خاصا مشکل کام تھا۔ مگر اس ٹانگوں سے معذور نوجوان خالد کو استاد حقانی سے ملاقات کی اجازت مل گئی۔ غالباً ملا حقانی کے کسی قریبی ساتھی کی سفارش پر یہ اجازت دی گئی تھی۔
اس نوجوان خالد کی رسمی تلاشی کے بعد انھیں اندر بھیج دیا گیا۔ مگر اندر پہنچ کر رحیم اللہ حقانی سے ملتے ہی یہ نوجوان دھماکے سے پھٹ گیا۔ اس نے خودکش حملہ کر دیا۔ ایک زور دار بلاسٹ ہوا اور جو کچھ وہاں تھا وہ بھک سے اُڑ گیا۔ ملا حقانی مارے گئے۔ یہ نوجوان جس نے خودکش حملہ کیا تھا، دراصل اپنی مصنوعی ٹانگوں میں بارود چھپا کر لایا تھا اسی لیے سرسری تلاشی میں جانچا نہیں جا سکا تھا۔
سوسائیڈ اٹیکر کا تعلق افغانستان کے صوبے لوگر سے تھا مگر یہ تنہا نہیں تھا۔ خالد کا تعلق اس تنظیم سے تھا جو آج افغان طالبان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ یہ تنظیم ہے داعش خراسان۔ جس طالبان رہنما کو حملہ آوور نے نشانہ بنایا تھا وہ سلفی مسلک کے خلاف بہت سخت موقف رکھتے تھے، تقریریں کرتے تھے اور افغانستان میں سلفی عقائد کو برداشت کرنے پر تیار نہیں تھے۔ وہ مبینہ طور پر اسلامی سلفی نظریات والی تنظیم داعش کا افغانستان سے مکمل خاتمہ چاہتے تھے۔
مگر دوستو عجیب بات آپ کو شاید یہ لگے کہ ایک مسلک کے خلاف شدت پسند رویے کے برعکس علامہ حقانی طالبان میں سب سے موڈریٹ رہنماؤں میں سے تھے۔ دوسرے الفاظ میں وہ طالبان میں ایک سیکولر اپروچ والے عالم دین تھے۔ وہ اس طرح کہ مولوی حقانی خواتین کی تعلیم کے حامی تھے اور الالعلان کہتے تھے کہ طالبان کی سابقہ حکومت کی مشکلات بھی سخت موقف ہی کی وجہ سے تھیں۔ انھوں نے امیر امارات اسلامی افغانستان ملا ہیبت اللہ اور دیگر علما کی سخت مخالفت اس وقت کی جب خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کی گئی۔ یاد رہے دوستو کہ افغانستان میں طالبان کا موقف تو ہے کہ وہ خواتین کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں لیکن عملاً وہاں صورتحال یہ ہے کہ سات سال سے زیادہ عمر کی بچیاں سکول نہیں جا پا رہیں۔ انھیں سکولز کے بجائے مذہبی تعلیم کے مدارس میں بھیجا جاتا ہے۔ وہ بھی ابتدائی تعلیم کے الگ مدارس میں۔ جبکہ کالجز اور یونیورسٹیز میں جہاں مرد و خواتین کے لیے الگ الگ بندوبست نہیں ہے، وہاں ابھی خواتین کو بین رکھا گیا ہے۔ اسی رویے کے مولوی رحیم اللہ حقانی اعلانیہ خلاف تھے۔ ان کے قدرے موڈریٹ خیالات کی وجہ سے کچھ اپنے اور زیادہ تر شدت پسند طالبان رہنما ان سے کافی ناراض رہتے تھے۔ مگر ان سے سب سے زیادہ ناخوش اور ناراض سلفی مسلک کے قریب سمجھے جانے والے وہ لوگ تھے جنھیں افغان طالبان داعش خراسان کہتے ہیں۔
اسی تنظیم کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ عماق نے مولوی رحیم اللہ کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ یہ خودکش حملہ دوستو صرف ایک مثال ہے کہ اِس وقت افغانستان میں طالبان کی ایک طاقتور حکومت تو قائم ہے لیکن زیرزمین طالبان اور آئی ایس آئی ایس، جسے عرف عام میں داعش کہتے ہیں ان کی جنگ جاری ہے۔ افغانستان میں داعش کے چیپٹر کو داعش خراسان یا "آئی ایسیس کے" کہتے ہیں۔ خراسان تاریخی طور پر اس ریجن کو کہتے ہیں جہاں آج افغانستان، ایران، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان واقع ہیں۔
افغانستان داعش خراسان اس وقت سے بہت زیادہ ایکٹیو نظر آنے لگی ہے جب پندرہ اگست ٹونٹی ٹونٹی ون کو ٹوپوائنٹ تھری ٹریلین ڈالرز کی مدد سے کھڑی افغان حکومت دھڑام سے زمین بوس ہو گئی تھی۔ طالبان نے کابل میں ایک فاتحانہ مارچ کیا تھا اور مارچ بھی ایسا کہ دنیا تو حیران تھی ہی، طالبان خود بھی خوشگوار حیرت میں تھے کہ سب کچھ ان کی توقع سے بہت پہلے اور بہت آسانی سے کیسے ہو گیا۔ طالبان نے اقتدار میں آتے ہی جلدی جلدی افغانستان میں آپٹکس بھی بدلنا شروع کر دئیے تھے
آپ آج اگر افغانستان میں آئیں تو آپ دیکھیں گے کہ امیریکن ایمبسی کے گیٹ پر افغانستان کا نیا جھنڈا بہت بڑے سائز میں پینٹ کر دیا گیا ہے۔ یہ ایریا کبھی ریڈ زون تھا اور یہاں تصویر لینے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اب یہاں کسی کو آنے جانے سے نہیں روکا جاتا اور تصاویر بھی جتنی چاہیں آپ بنا سکتے ہیں، کوئی نہیں روکتا۔ ویسے امریکی سفارتخانے کی اسی دیوار پر ابھی چند ماہ پہلے تک ایسے میورلز پینٹ تھے، جن میں طالبات کو روبوٹس بناتے اور سیلفی لیتے دکھایا گیا تھا۔ پھر جہاں منسٹری آف وومن افیر تھی، اب وہاں شیخ محمد خالد کی وزارتِ امربالمعروف و نہی عن المنکر ہے، پروموشن آف ورچو اینڈ پریونشن آف وائیس۔ طالبان وزیر شیخ خالد لوگوں کو مذہبی اچھائیوں کی طرف بلاتے ہیں اور عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہیں۔ ویمن منسٹری چونکہ بند کی جا چکی ہے، اس لیے کابل سے زیادہ تر خواتین کی نوکریاں بھی ختم ہو چکی ہیں۔
بازاروں میں خواتین کی تعداد بہت کم نظر آتی ہے اور ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد سر سے پاؤں تک سیاہ برقعوں میں چھپی ہوتی ہیں۔ یہ خواتین عام طور پر کچن وغیرہ کی دکانوں پر کام کرتی یا خریداری کرتی نظر آتی ہیں۔ ایک بظاہر معمولی لیکن دلچسپ تبدیلی یہ بھی ہے کہ کابل کے بش بازار کا نام بدل دیا گیا ہے۔ بش بازار امریکی صدر جارج بش جونئیر کے نام پر ایک مارکیٹ تھی، اب اس کا نیا نام مجاہدین بازار رکھ دیا گیا ہے اسی طرح جس جگہ امیریکن بگرام ائر بیس تھی اور میرین کمانڈوز گھومتے تھے وہاں اب بھی کمانڈوز ہی گھومتے ہیں۔ لیکن اب یہ طالبان کی سپیشل فورسز ہیں جو امریکیوں کی چھوڑی ہوئی انسٹالیشنز کی حفاظت کر رہی ہیں۔ اسی طرح شہروں میں جو دیہاڑی دار بلیک، ریڈ اینڈ گرین کلر کے تین رنگے افغان پرچم بیچتے تھے انھوں نے ہی سفید کپڑوں پر کلمہ طیبہ لکھ کر نئے پرچم بیچنا شروع کر دئیے ہیں۔ کہ ان کا کیا ہے، انھیں تو روز پیٹ بھرنے کو روٹی چاہیے، کیسے بھی ملے۔ پھر دوستو حسن کو دو آتشہ کرتے سیلونز پر لگی حسیناؤں کی تصاویر ویسی کی ویسی ہیں بس ان کے ہونٹوں، آنکھوں اور گالوں پر اچھی طرح رنگ مل دیا گیا ہے ایسا رنگ کہ اب وہ خوبصورت چہرے خوفناک لگتے ہیں۔ سو یہ تو دوستو کچھ آپٹکس تھے، سامنے نظر آنے والی ایسی تبدیلیاں تھیں جو کوئی بڑا چیلنج نہیں تھا۔ جو اصل چیلنج تھا وہ بہت ہی مختلف نوعیت کا تھا۔ یہ چیلنج تھا طالبان کے اپنے سابقہ نظریاتی ساتھی۔
کیونکہ اسلامی شریعت کے حوالے سے سخت موقف رکھنے والے افغان مجاہدین آئے روز، داعش خراسان جوائن کر رہے تھے۔ یہ تنظیم ویسے افغانستان میں اس سے بہت پہلے سے موجود تھی۔ لیکن پندرہ اگست کو جب امریکی فوج نے کابل چھوڑنا شروع کیا تو ان کی موجودگی بہت واضح ہو کر سامنے آئی عام لوگوں کو بھی اس کے بارے میں پتہ لگنا شروع ہو گیا۔ اگر آپ نے ہماری مسلم کولڈ وار کی انتہائی سنسنی خیز شاندار وی لاگ سیریز دیکھی ہے تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ آئی ایسس یا داعش کویت کے بارڈر پر کیمپ بوکا جیل میں قائم ہوئی تھی۔ ابوعمر البغدادی اس کے پہلے سربراہ تھے ان کے دوہزار دس میں ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد ابوبکر بغدادی دوسرے سربراہ بنے۔
لیکن اس تنظیم کی نظریاتی بنیاد رکھنے والے اور اسے القاعدہ سے الگ گروپ بنانے والے ابومصعب الزرقاوی تھے۔ یہ تفصیلات ان وڈیوز میں ہم دے چکے ہیں۔ تو دوستو دوہزار پندرہ کے بعد امریکہ اور عالمی اتحادیوں نے آئی ایسس کو اکھاڑنا شروع کیا تو یہ اپنے آخری سٹرانگ ہولڈ الباغوز میں قید ہو کر رہ گئی تھی۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں دریائے فرات شام سے عراق میں داخل ہوتا ہے۔ لیکن آخر کار مارچ دو ہزار انیس، ٹونٹی نائنٹین الباغوز کو بھی کلیئر کر لیا گیا تھا۔ باغوز چھن جانے کے چند ماہ بعد اکتوبر ٹونٹی نائنٹین میں ان کے لیڈر ابوبکر بغدادی بھی مارے گئے تھے۔
تو جب عراق اور شام سے آئی ایسیس کے تمام کیمپس ختم ہو گئے، ان کے جنگجوؤں کے لیے وہاں رہنا ناممکن ہو گیا تو وہ افغانستان، ایران، پاک افغان سرحدی علاقوں اور عرب کنٹریز میں روپوش ہو گئے جہاں ان کے کچھ چیپٹرز پہلے سے کام کر رہے تھے۔ افغانستان میں اسی تنظیم کے چیپٹر کا نام داعش خراسان تھا اس چیپٹر کو ٹی ٹی پی، تحریک طالبان پاکستان کے سابق کمانڈر ملا حافظ سعید اورکزئی نے قائم کیا تھا اور انہوں نے ہی داعش سربراہ کی بیعت کی تھی۔ لیکن دوہزار نو میں، ملا سعید امریکی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے اور داعش خراسان کے امیر بدل گئے۔ بدلتے رہے اس کے بعد بھی اور کچھ نشانہ بنتے رہے امریکی حملوں کا۔ آج کل ویسے دوہزار بیس سے ان کے لیڈر شہاب المہاجر ہیں جن کا اصل نام ثنا اللہ غفاری ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ ان کا تعلق عراق سے ہے اور کچھ کے مطابق یہ حقانی نیٹ ورک کے سابقہ مڈ لیول کمانڈر ہیں مطلب غالباً افغان شہری ہیں۔ تو خیر ان سے اب طالبان کی جھڑپیں جاری ہیں۔ مگر یہ لڑائیاں آج شروع نہیں ہوئیں۔ بلکہ جب سے طالبان کے منحرف اراکین نے داعش خراسان قائم کی تھی تب سے طالبان اور ان کے درمیان جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ اس کی وجہ دونوں کے نظریات میں ایک بنیادی فرق ہے۔ اب دیکھیں مائی کیورئیس فیلوز کہ بظاہر تو دونوں ہی امریکہ کے دشمن ہیں اور دونوں ہی اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں
۔ لیکن طالبان کا مقصد صرف اپنے ملک افغانستان تک محدود ہے وہ بس امریکیوں کو نکال کر، ان کی کٹھ پتلی حکومت کو ہٹا کر اپنی امارت اسلامیہ تھیوکریٹک سٹیٹ قائم کرنا چاہتے تھے۔ لیکن داعش کا ایجنڈا تو انٹرنیشنل تھا، پین اسلام ازم جسے کہتے ہیں وہ ہے۔ یعنی ساری دنیا پر اسلامی خلافت کا قیام۔ تو یہ بنیادی اختلاف تھا اور افغان طالبان کا اعتراض تھا کہ ہماری سرزمین کسی عالمی جنگجو ایجنڈے کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ پھر امریکہ سے معاہدے میں بھی انھوں نے یہ بات لکھ کر دستخط کر رکھے ہیں۔ کہ ہماری سر زمین کسی عالمی ایجنڈے کے لیے خاص طور پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں ہوگی تو وہ پھر ظاہر ہے داعش کو برداشت نہیں کر سکتے تھے وہ اس معاملے پر سینسیٹیو اس لیے بھی تھے کہ اسی وجہ سے تو پہلے بھی ان پر عالمی پابندیاں لگیں اور باقاعدہ فوج کشی کر کے ان کی حکومت ختم کر دی گئی تھی۔ پھر انہیں بیس سالہ جنگ لڑنا پڑی۔ جس کی کہانی آپ جان چکے ہیں
۔ سو دوستو طالبان کی داعش خراسان سے کئی جھڑپیں دوہزار انیس سے بھی پہلے سے ہو رہی ہیں۔ دوہزار پندرہ میں دنیا بھر کے اخبارات میں یہ خبریں چھپنے لگیں تھیں کہ آئی ایسیس اور طالبان میں جھڑپیں جاری ہیں۔ یہ اس وقت ہوا تھا جب افغان صوبے لوگر میں آئی ایسیس خراسان نے طالبان کمانڈر عبدالغنی کو قتل کر دیا تھا۔ اس کے بعد یہ ایک معمول بن گیا تھا کہ اکثر شہروں اور صوبوں پر قبضے کے لیے اور بھرتیوں کے لیے دونوں میں خونریز جھڑپیں ہونے لگی اور پھر اس کی خبریں بھی آنے لگیں۔ بلکہ دوہزار اٹھارہ کی مشہور بیٹل آف درزاب تو آپ کو یاد ہی ہو گی۔ جس میں افغان صوبے جوزجان پر قبضے کے لیے تین ہفتوں تک داعش اور طالبان میں جنگ چلتی رہی تھی۔ آخر کار طالبان نے اس لڑائی میں فتح پائی اور داعش خراسان کے سیکنڑوں جنگجوؤں نے ہتھیار ڈال دیے تھے
تو خیر دوستو دونوں گروپس میں یہ لڑائیاں امریکی روانگی سے پہلے سے جاری تھیں اس بات کے باوجود کہ دونوں کا مشترکہ دشمن امریکہ بھی میدان میں تھا۔ مگر جب ٹونٹی ٹونٹی میں امریکہ نے افغان سرزمین چھوڑنے کی تاریخ کا اعلان کر دیا اور معاہدے کے مطابق طالبان نے بھی امریکہ اور افغان جمہوری حکومت کے خلاف جنگ بندی کا اعلان کر دیا تو آئی ایسیس نے اس جنگ بندی کو مسترد کر دیا۔ انھوں نے امریکیوں پر اور مختلف فرقوں پر اقلیتوں پر حملے جاری رکھے۔ یعنی اقلیتی مذہبی فرقے جو تھے یہاں تک کہ پچیس اگست ٹونٹی ٹونٹی ون کو جب امریکی جہاز کابل ائرپورٹ سے پرواز کر رہے تھے تو عین اسی وقت ائرپورٹ پر ایک بہت بڑا حملہ ہوا۔ اس میں تیرہ امریکیوں سمیت ایک سو ستر سے زائد لوگ مارے گئے تھے۔ جبکہ سینکڑوں زخمی ہونے والے اس کے علاوہ تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی داعش نے ہی قبول کی تھی اور کہا تھا کہ ہم نے صرف امریکیوں کو اور ان لوگوں کو نشانہ بنایا ہے جو امریکیوں کے لیے مددگار تھے یعنی ٹرانسلیٹرز اور افغان پروفیشنلز وغیرہ۔ جو ایک سو ستر سے زیادہ عام لوگ اور امریکی مرے ان کے بارے میں ان کا موقف یہ تھا
۔ سو دوستو امریکہ کے چلے جانے کے بعد سے طالبان کے لیے اب داعش خراسان ہی اندرونی طور پر سب سے بڑا خطرہ ہے۔ کتنا بڑا خطرہ ہے یہ داعش حراسان طالبان کے لیے؟ اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ امریکہ کے جانے سے ایک سال بعد تک دو سو چوبیس، ٹو ٹونٹی فور ایسے اٹیکس ہوئے ہیں جن کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ اور ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں، جن میں طالبان حکومت سے ہی منسلک لوگوں یا اداروں کو ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ پھر دوسری طرف ان کی افرادی قوت بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔
ایک یہ کہ طالبان نے جب کابل اور دوسرے بڑے شہروں پر قبضہ کیا تو وہاں کی جیلوں سے بڑے پیمانے پر قید طالبان جنگجو رہا کر دیا گیا یا وہ کیاؤس کا فائدہ اٹھا کر جیل توڑ کر نکل گئے۔ ان فرار ہونے والوں میں بہت سے جنگجو دراصل افغان طالبان نہیں بلکہ داعش کا حصہ تھے۔ امارت اسلامیہ کی حکومت اس بات کو اب تسلیم بھی کرتی ہے۔ دوسری وجہ ہے افغانستان کی کمزور اکانومی میں داعش کے ڈالرز۔
جی ہاں داعش کو نامعلوم راستوں سے فنڈز آ رہے ہیں جن کی مدد سے افغانستان میں حالیہ بیروزگاری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھرتیاں کرتے جا رہے ہیں۔ یونائیٹڈ نیشنز کی مانیٹرنگ ٹیم کے مطابق ابھی پچھلے سال داعش کی مرکزی لیڈرشپ نے افغانستان میں داعش خراسان کو پانچ لاکھ ڈالرز فنڈ دیا ہے۔ اسی فنڈ سے وہ بھرتیاں بھی کر رہے ہیں اور حملے بھی۔ مقامی سطح پر جو وہ خود اپنے فنڈز جمع کرتے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ اچھا اب یہ سب تو ہو گیا وہ چیلنج جو اب امارت اسلامیہ کو درپیش ہے۔ لیکن آپ پوچھیے کہ طالبان اس خطرے سے نمٹ کیسے رہے ہیں؟ وہ کتنے سیریس ہیں؟ تو مائی کیورئیس فیلوز طالبان حکومت آئی ایسیس کے خطرے کو اتنا سیریس لیتی ہے کہ انھوں نے حکومت سنبھالتے ہی، داعش خراسان کے خلاف سخت ترین کاروائیاں شروع کر دیں تھیں۔
یہاں تک کہ اگست میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی اور تیسرے ہی مہینے نومبر ٹونٹی ٹونٹی ون میں انھوں نے ایک پوری فورس افغانستان کے مختلف علاقوں میں خصوصا ننگرہار اور لوگر کے علاقوں میں بھیج دی۔ اس فورس کا مشن داعش کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنا، سلیپر سیلز کو ڈس مینٹل کرنا اور مددگاروں کو سہولت کاروں کو جان سے مار دینا تھا۔ دراصل داعش خراسان سے نمٹنے کے لیے افغان طالبان دو اینگلز سے کام کر رہے ہیں۔ ایک تو انٹیلی جنس لیول ہے جس میں ان کی مدد پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی بھی کر رہی ہے۔ ایسا انٹرنیشنل میڈیا میں چھپا ہے آئی ایس آئی کی مدد سے غالباً وہ داعش کی کالز وغیرہ ٹیپ کرتے ہیں اور خفیہ لوکیشنز کا پتا لگاتے ہیں
۔ یاد رکھیں کہ داعش خراسان کا خطرہ صرف افغانستان کے لیے تھریٹ نہیں ہے، پاکستان کے لیے بھی ہے۔ تو پاکستان کی افغانستان کی مدد دراصل اپنی مدد بھی ہے۔ تو خیر یہ ایک اینگل انٹیلی جنس کا ہو گیا جبکہ دوسرا اینگل جس سے افغان طالبان، داعش سے نمٹ رہے ہیں وہ سکورچڈ ارتھ تکنیک ہے۔ اس تکنیک میں دشمن کو مدد دے سکنے والی ہر چیز کو بے دردی سے کچل کر رکھ دیا جاتا ہے اسے لیے اسے سکورچڈ رتھ تکنیک کہتے ہیں۔ پھر اس کے مددگاروں کو مار کر لٹکا دیا جاتا ہے اور اس بات کو اتنا پھیلایا جاتا ہے کہ کوئی اور آئندہ ایسی حرکت کا سوچے بھی ناں۔ جیسا کہ ابھی ونٹرز میں جلال آباد میں طالبان کے لوکل کمانڈر نے داعش کے مبینہ سپورٹرز کو قاضی یا جج کے سامنے لانے سے پہلے ہی مار دیا تھا
۔ پھر ان کی لاشیں بازار میں بارونق جگہوں پر لٹکا دیں تھیں تا کہ ہر کوئی دیکھ لے کہ داعش کوجوائن کرنے سے کیا ہوگا۔ اسی طرح جولائی ٹونٹی ٹونٹی ٹو میں مشرقی افغان صوبے ننگرہار کی ایک نہر سے ایک سو کے قریب ایسی لاشیں ملیں ہیں جنھیں طالبان نے سرچ آپریشن کے دوران مار دیا تھا۔ ان کے بارے میں ہیومن رائٹس واچ ویب سائٹ نے لکھا کہ یہ سب وہ ہیں جو داعش کے ممبرز یا مقامی سپورٹرز تھے ان سب کوششوں کی وجہ سے آئی ایسیس خراسان کمزور ہوئی ہے، مگر اس کے حملے کم نہیں ہوئے۔ اپریل میں پہلے اکیس اور پھر اٹھائیس تاریخ کو شمالی افغانستان کے اہم علاقے مزارشریف پر حملے ہوئے۔ ان حملوں میں افغانستان کی مائنورٹی شعیہ ہزارہ کیمیونٹی کو ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ اس حملے میں چالیس سے زائد انسانوں کی جانیں چلی گئیں اسی طرح اکتوبر ٹونٹی ٹونٹی ون میں قندوز میں ایک صوفی مرکز پر خودکش دھماکا کیا گیا اور پچاس سے زائد بے گناہ انسان مارے گئے۔ اس کی ذمہ داری بھی داعش خراسان ہی نے قبول کی۔
پھر سترہ اگست کو اسی سال کابل کی ایک مسجد میں بم دھماکا ہوا اور اس میں پھر اکیس قیمتیں جانیں ضائع ہو گئیں یہ صرف چند ایسے سانحات ہیں جن کی ذمہ داری ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ داعش نے قبول کی تھی۔ اب آپ سوچیں کہ داعش ایسا کیوں کر رہی ہے؟ دراصل اپنے مسلسل حملوں سے آئی ایسیس خراسان دو مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ پہلا یہ کہ وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم کہیں نہیں گئے ہم موجود ہیں، ایکٹیو ہیں اور اپنا اثرورسوخ بڑھا رہے ہیں۔
دوسرا مقصد اس سے ان کا یہ ہے کہ وہ طالبان کو ڈس کریڈٹ کر سکیں۔ وہ افغان عوام اور دنیا کو دکھا سکیں کہ طالبان جس امن کی بات کرتے تھے اسے قائم کرنے میں یہ ناکام ہیں۔ خراسانی جنگجو سوشل میڈیا پر بھی افغان طالبان کے خلاف مسلسل بھرپور مہم چلا رہے ہیں اس مہم میں وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اصل اسلامی حکومت تو ابھی قائم ہی نہیں ہوئی۔ طالبان کا اسلام صحیح والا اسلامی نظام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے دوستو کہ داعش نے امریکی انخلا کو افغانستان کی آزادی یا فتح قرار دینے سے انکار کیا ہے وہ اسے فتح نہیں مانتے
۔ تو خیر دوستو یہ ہے طالبان کے سامنے اصل اور سب سے بڑا چیلنج کہ اپنے کیڈرز کو کیسے کسی عالمی تنظیم کا حصہ بننے سے روکیں اور کیسے ملک میں امن قائم کریں۔ کیونکہ انھیں بھی تو ثابت کرنا ہے ناں کہ وہ مغربی مدد سے قائم جمہوری حکومت سے بہتر شرعی نظام چلا رہے ہیں۔اور ان سے زیادہ امن قائم کر کے دیکھا رہے ہیں کیا طالبان یہ مقصد حاصل کر لیں گے
؟ اس کے جواب میں مائی کیورئیس فیلوز عرض یہ ہے کہ سو باتوں کی ایک بات کہ یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک افغان اکانومی ٹھیک نہیں ہو جاتی۔ ہر سال کم از کم چار سے چھ بلین ڈالرز جب تک افغانستان جمع نہیں کرتا پرڈیوس نہیں کرتا افغانستان کو پرامن طریقے سے گورن کرنا ایک دیونے کا خواب ہو گا۔
اب یہ اکانومی کیسے ٹھیک ہو گی؟ ظاہر ہے وہ ایکسپورٹس سے ہو گی۔ افغانستان ایکسپورٹ کیا کرتا ہے؟ افغانستان مائنز سے سونا نکالتا ہے۔ تھرٹی پرسنٹ سے زیادہ یہی سونا اس کی سب سے بڑی ایکسپورٹ ہے اس کے بعد ایکسپورٹس میں ٹین پرسنٹ سے زیادہ انگور گریپس کا حصہ ہے, پھر را کاٹن ہے، قیمتی پتھر ہیں اور قالین جیسی دوسری پراڈکٹس ہیں جو کل ملا کر ایک سو چالیس کا فگر بنتا ہے۔ یہی ون فورٹی پراڈکٹس کم و بیش ہیں جنھیں افغانستان ایکسپورٹ کرتا ہے اور زرمبادلہ اور ڈالرز کماتا ہے۔ کسے کرتا ہے ایکسپورٹ؟
دوستو فگرز دیکھیں تو افغانستان کی ساری تجارت تقریباً نوے فیصد ایکسپورٹس پاکستان، بھارت اور یو اے ای کے ساتھ ہیں۔ کیا یہ ایکسپورٹس بڑھ رہی ہیں؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بڑھ نہیں رہیں گھٹ رہی ہیں۔ افغانستان میں ہر پراڈکٹ کے ساتھ ایک ٹرک بزنس ہے جو الگ سے ایک پوری انڈسٹری بن جاتی ہے۔ ٹرکوں کا بزنس ایکسپورٹس سے لنکڈ ہے۔ جتنی زیادہ ایکسپورٹس اتنا زیادہ ٹرک بزنس۔
اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ تجارت کتنی تیز یا سست ہو رہی ہے کہ ٹرک کتنے جا رہے ہیں۔ تو الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک افغان ٹرانسپورٹر کا کہنا تھا کہ پہلے وہ ہر مہینے آٹھ سے نو مرتبہ سامان لے کر جاتے تھے، لیکن اب مہینے میں ایک آدھ چکر ہی لگ پاتا ہے۔ ان حالات میں افغانستان کو فوری طور پر چند بلین ڈالرز ہر صورت چاہیں تا کہ جلد از جلد پورے ملک پر قائم گرفت کو اور مضبوط کیا جا سکے۔ ویسے ابھی دو سال پہلے تک جب امریکہ اور مغربی مدد سے افغانستان کی کرزئی حکومت قائم تھی اس کا سیونٹی فائیو پرسنٹ فنڈ اور چالیس فیصد جی ڈی پی تو عالمی امداد سے آتا تھا بلکہ امریکہ سارا انتظام کرتا تھا۔ مگر وہ بجٹ بھی افغانستان کی اکانومی نہیں چلا پا رہا تھا۔ ظاہر ہے اس میں کرپشن اور مس مینیجمنٹ کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔
طالبان اگرچہ چیلنج کرتے ہیں کہ کوئی بھی عالمی ادارہ آ کر ان کا اڈٹ کر لے ہم ایک روپے کی کرپشن بھی ثابت نہیں ہوگی مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس دعوے کے باوجود نہ تو کوئی ان کا آڈٹ کر رہا ہے اور نہ ہی کوئی انھیں بجٹ ڈیفیسٹ میں مدد دے رہا ہے۔ ایسے میں ان کی امید وہ اربوں ڈالرز تھے جو سنٹرل بنک میں بظاہر تو موجود ہونے چاہیے تھے۔ کیونکہ جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تھا تو سینٹرل بنک کے ریزروز نائن پوائنٹ فور بلین ڈالرز تھے۔ طالبان ان سے اپنی مبینہ طور پر شفاف حکومت کے ابتدائی مسائل حل کر سکتے تھے۔ شروع کا ایک اچھا سٹارٹ مل سکتا تھا انھیں۔
لیکن ہوا یہ کہ امریکہ نے فغانستان کے تمام فارن ریزروز، کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد فریز کر دئیے۔ یہ بات اس لیے اہم تھی کہ ان نائن پوائنٹ فور بلین ڈالرز میں سے بہت بڑا حصہ سکسٹی ایٹ پرسنٹ حصہ سیون بلین ڈالرز تو امریکی بنکوں میں تھے کابل کے بینکوں میں نہیں۔ یہ ڈالرز طالبان کے لیے حاصل کرنا تقریباً ناممکن بن چکا ہے۔ یا کم از کم بے حد مشکل تو ضرور ہے۔ مشکل اس لیے کہ طالبان کو امریکہ ایک دہشتگرد تنظیم ڈکلیئر کر چکا ہے۔اور ابھی اس نے اس فہرست سے انہیں نکالا نہیں ہے۔
امریکی قانون کے مطابق جب تک طالبان کو ٹیررسٹ لسٹ سے نکالا نہیں جاتا کوئی امریکی بنک ان سے ڈیل نہیں کر سکتا۔ سو وہ فنڈز جو امریکہ میں تھے وہ فریز ہو گئے۔ پھر اسی پر بس نہیں دوستو، بلکہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس سات ارب ڈالرز کو بھی ایک ایگزیکٹیو آرڈر سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ سیون بلین ڈالرز میں سے ساڑھے تین ارب ڈالرز تھری پوائنٹ فائیو بلین ڈالرز ان لوگوں کے لیے مختص کر دئیے ان لوگوں کے لیے رکھ دیے جو نائن الیون کے متاثرین تھے اور ممکنہ طور پر کسی وقت ڈیمیج کلیم کر سکتے تھے۔ جبکہ باقی ساڑھے تین بلین ڈالرز افغان عوام کو، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دئیے جانے کے لیے محفوظ کر لیے گئے۔ مطلب جب بھی یہ ساڑھے تین ارب امریکہ جاری کرے گا، وہ افغان عوام کی فلاح کے لیے خود جاری کرے گا طالبان حکومت کو نہیں دے گا۔ کب جاری کرے گا؟ کچھ پتا نہیں۔
ویسے آپ کو بتائیں دوستو کہ جو بائیڈن کے اس فیصلے پر بہت تنقید بھی ہو رہی ہے کہ یہ اربوں ڈالرز جو انھوں نے نائن الیون کے مبینہ متاثرین کے لیے مختص کیے ہیں، وہ تو افغان عوام کے لیے ہیں۔ افغان عوام اور یہاں تک کہ طالبان کا بھی نائن الیون سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جس کا تعلق تھا، اس سے تو طالبان خود دوری اختیار کر چکے ہیں اور امریکہ اس تنظیم کے بنیادی ڈھانچے کو لیڈرز سمیت کافی حد تک ختم کر چکا ہے۔ اسی کی جگہ تو آئی ایسیس یعنی داعش اور افغانستان میں داعش خراسان پیدا ہوئی تھی۔ اچھا تو اب آپ کے ذہن میں یقیناً اپویئم یعنی افیون کی کاشت آ رہی ہو گی کہ ایسے میں کیا طالبان اس فصل سے اپنے بجٹ مسائل حل کر سکتے ہیں؟
یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ ملا عمر کے دور میں، نوے کی دہائی کے آخر میں بھی اور پھر امریکی قبضے کےدوران بھی وقفے وقفے سے افیون کی کاشت ہوتی رہی ہے کیونکہ افغانستان کے کسانوں کے ایک بہت بڑے حصے کا دارومدار ہی اس فصل پر ہے۔ یہ فصل بونے والے پھر ٖصل کاٹنے والے اسے ٹرک پر لے جانے والے پھر اس کا جو را مال ہے وہ بیچنے والے، ملطب ایک پورا سائیکل ہے اکانومی کا جو اس سے چلتا ہے دوستو مسئلہ یہ ہے کہ افیون کی کاشت پر سختی سے پابندی عائد ہے اب اور اس پر انٹرنشنل چیکس بھی بہت زیادہ ہیں۔
طالبان جس معاہدے کے تحت امریکیوں کو نکالنے میں کامیاب ہوئے تھے اس میں امریکیوں سے رسمی اور غیر رسمی طور پر یہ طے ہوا ہے کہ طالبان افیون کی کاشت کو روکیں گے۔ طالبان ویسے بھی نظریاتی اعتبار سے پوست کی کاشت کے خلاف ہی ہیں۔ حالانکہ ملا عمر کے دور میں یہ فصل کاشت بھی ہوئی اور اس سے انہوں نے کافی پیسے بھی کمائے۔ مگر اب نہ یہ فصل نہ تو کھلے عام کاشت ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس سے بڑے پیمانے پر ریزروز جمع ہو سکتے ہیں۔ کچھ فصل کاشت ہو رہی ہے لیکن وہ اتنی کافی نہیں کہ افغانستان کے بجٹ کو پورا کرنے میں خاطر خواہ مدد کر سکے۔
لیکن اس ناامیدی میں طالبان کے لیے ایک امید ہے کہ افغانستان اب چین، روس، ایران، پاکستان اور بھارت کے ساتھ ڈی فیکٹو تعلقات قائم کر چکا ہے۔ یعنی ان ممالک نے آفیشلی طالبان حکومت کو تسلیم تو نہیں کیا لیکن تجارت شروع کر دی ہے۔ بلکہ یہ ممالک امارات اسلامیہ سے نئے ٹریڈ ایگریمینٹس بھی کر رہے ہیں۔ جیسا کہ ایران سے آئل کا اگریمنٹ اور چین سے منرلز اور مائنز کے معاہدے حال ہی میں ہو رہے ہیں۔ یہ وہ واحد بڑی نشانی ہے جس میں طالبان کو حکومت چلانے کے لیے ایک روشنی کی کرن نظر آ رہی ہو گی۔
افغان میڈیا میں ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ جاپان اور یورپی یونین کے سفارتخانے بھی دوبارہ کابل میں کام شروع کرنے والے ہیں۔ افغان پروفیسر ڈاکٹر فیض نے دی پرنٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے حال ہی میں یہ بات دہرائی بھی ہے کہ جاپان واپس آ رہا ہے۔ طالبان اس سلسلے میں اس بار اتنے کلئیر تھے کہ انھوں نے سفارتخانوں کو چھیڑا تک نہیں تھا۔ امریکی اور انڈین سفارتخانے کی تو کرسیاں تک ویسی کی ویسی ہیں جیسی کہ عملہ چھوڑ کر گیا تھا۔ لیکن یہ سب کچھ ایک اچھی اکانومی میں تب ہی بدلے گا جب افغانستان میں امن قائم ہو گا۔ امن کے لیے ڈالرز کے ساتھ ایک اور چیز بہت ضروری ہے وہ ہے ڈی سنٹرلائزیشن ختم کرنا۔ جی ہاں آپ نے ہماری اس وی لاگ سیریز میں کہ طالبان نے امریکہ کو کیسے بیس سالہ جنگ میں شکست دی دیکھا ہو گا کہ طالبان الگ الگ گروپس میں لڑ کر ہی امریکہ سے جیتے تھے۔ یہ ان کی سٹریٹیجی بھی تھی اور کسی حد تک مجبوری بھی اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اگر امریکہ ایک گروپ کے کسی لیڈر کو ختم بھی کر دیتا تھا یا گرفتار کرتا تھا تو زیادہ سے زیادہ وہ ایک گروپ ڈسمینٹل ہوتا تھا۔ باقی گروپس جیسے قندھار شوریٰ، میران شاہ شوریٰ، کوئٹہ شوریٰ اور مشہد شوریٰ سمیت اور دوسرے تمام چھوٹے بڑے گروپس اپنی لیڈرشپ کے ساتھ متحرک رہتے تھے۔
لیکن اب یہی بات جو طالبان کی طاقت تھی، ان کی کمزوری بن رہی ہے۔ کیونکہ یہ سٹرکچر انھیں صرف میدان جنگ میں گوریلا وار میں مدد دے رہا تھا مگر آج نیشن بلڈنگ کے لیے بالکل ہی الگ تنظیمی سٹرکچر چاہیے، الگ طرح کا مائنڈ سیٹ چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں طالبان سے جو مطالبہ کرتی ہیں، معاہدہ کرتی ہیں وہ تو مرکزی لیڈرشپ سے کرتی ہیں۔ اور عالمی طاقتوں کا مطالبہ ہے کہ ان معاہدوں پر پورے افغانستان میں ویسےعمل ہو جیسے لکھا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نیچے کے بہت سے طاقتور طالبان گروپس نے امریکہ کے خلاف جنگ اپنے بل پر لڑی تھی اور وہ اب مختلف علاقوں میں حکومت بھی تقریباً آزادانہ ہی کر رہے ہیں۔
طالبان کی مرکزی قیادت کی ایک چھتری ہے بس جس کے نیچے سارے گروپس حکومت میں شامل تو ہیں لیکن ایک لوز ارینجمنٹ کے تحت۔ سو ایسے میں وہ سب گروپس ملا برادر یا قندھار سے افغان امیر ملا ہیبت اللہ کے اس طرح کنٹرول میں نہیں ہیں جیسے کہ ایک جدید ریاست میں ہوتا ہے۔ امریکہ اور مغربی اتحادی یہ بات جانتے ہیں۔ پھر بھی وہ نجانے کیوں ایسے ہی ایشوز کو بنیاد بنا کر طالبان پر پابندیاں ختم نہیں کر رہے اور امداد بھی نہیں ریلیز کر رہے۔ پھر آپ دیکھیں کہ طالبان پر پابندیاں ختم کرنے کے لیے مغربی طاقتوں نے خواتین کی تعلیم اور انسانی حقوق کی بات کو بھی لنک کر دیا ہے۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں کسی کو بھی طالبان سے یا ان کی آئیڈیالوجی سے تو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن وہاں بسنے والے کروڑوں انسانوں سے کسی کا کیا مسئلہ ہے؟ بی بی سی کو انٹرویو دینے والی ایک نرس خاتون فاطمہ کی بات اس ساری صورتحال کو ایک جملے میں سمو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے پہلے طالبان پر عالمی پابندیاں ہمارا عوام کا گلا گھونٹ دیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک لڑکی جسے زبردستی کی شادی پر مجبور کیا جا رہا ہے وہ اس شادی کے بعد بھی جیسے تیسے زندہ تو رہے گی ناں، لیکن خوراک اور ڈاکٹر نہیں ملا تو وہ ضرور مر جائے گی۔
جب کوئی زندہ ہی نہیں ہو گا تو انسانی حقوق اور خواتین کی تعلیم کس کو دیں گے؟ یہ فقرے دوستو اس نرس خاتون فاطمہ کہ ایک گہری سوچ کی دعوت دیتے ہیں عالمی طور پر۔ اس فقرے کی گونج ہزاروں سال تک پھیلی ہوئی ہے۔ تب سے جب افغانستان افغانستان نہیں بکٹریا ہوتا تھا اور سکندر اعظم کی فوجیں اسے فتح کرنے آئی تھیں۔ یہ کہانی آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں دیکھئے کہ پاکستانی اکانومی امریکی غلام کیسے بنی اور یہ ہے اس سوال کا جواب کہ انڈیا میں مارشل لاز کیوں نہیں لگتے جبکہ آزادی تو ہمیں ایک ہی سامراج سے ملی تھی؟
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.