Hyderabad Dhakkan State. Why Hyderabad Occupied By India? Urdu Explainer.
حیدرآباد دکن
حیدرآباد دکن کوئی چھوٹی موٹی ریاست نہیں تھی۔ 1941 کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ سے زائد اور اس کا رقبہ دو لاکھ 14 ہزار مربع کلومیٹر تھا، یعنی آبادی اور رقبے دونوں لحاظ سے برطانیہ، ترکی یا اٹلی سے بڑی۔
ریاست کی آمدن اس وقت کے نو کروڑ روپے تھی جو اقوامِ متحدہ کے 20 سے زائد ملکوں سے زیادہ تھی۔
حیدرآباد کی اپنی کرنسی، ٹیلی گراف، فون، ڈاک کا نظام، ہوائی اڈے، ریلوے لائنیں، تعلیمی ادارے اور ہسپتال تھے۔ یہاں واقع جامعہ عثمانیہ ہندوستان بھر کی واحد یونیورسٹی تھی جہاں مقامی زبان میں تعلیم دی جاتی تھی۔
1947 میں تقسیم کے وقت برطانوی راج کے دائرے میں قائم پانچ سو کے قریب چھوٹی بڑی ریاستوں کو آزادی دی گئی تھی کہ وہ چاہیں تو انڈیا یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیں۔ریاست کے حکمران میر عثمان علی خاں نے انڈیا یا پاکستان کے ساتھ ملنے کی بجائے برطانوی دولتِ مشترکہ کے اندر خودمختار ریاست کی حیثیت سے رہنے کا فیصلہ کیا۔
لیکن ایک مسئلہ تھا۔ حیدرآباد میں مسلمانوں کی آبادی صرف 11 فیصد تھی، جب کہ ہندو 85 فیصد تھے۔ لازمی طور پر ہندوؤں کی بڑی اکثریت انڈیا کے ساتھ الحاق کی حامی تھی۔
Richest Person On The Earth. Nawab Mir Usman Ali Khan Of Hyderabad Daccan. Urdu Pedia
دنیا کے امیر ترین شخص
ساتویں نظام میر عثمان علی خاں اپنے دور میں دنیا کی امیر ترین شخصیت تھے۔ 1937 میں ٹائم میگزین نے ان کی تصویر سرورق پر چھاپی اور انھیں دنیا کا مالدار ترین شخص قرار دیا۔ اس وقت ان کی دولت کا تخمیہ دو ارب ڈالر لگایا گیا تھا جو اس وقت 35 ارب ڈالر کے لگ بھگ بنتا ہے۔
نظام کو تعلیم سے خاص دلچسپی تھی۔ وہ اپنے بجٹ کا 11 فیصد تعلیم پر خرچ کیا کرتے تھے۔ ریاست نے علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام سے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کے علاوہ ندوۃ العلما اور پشاور کے اسلامیہ کالج جیسے کئی تعلیمی اداروں کی تعمیر میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
بات صرف برصغیر تک محدود نہیں تھی۔ نظام عثمان علی خاں دنیا بھر کے مسلمانوں کے سرپرست تھے۔ حجاز ریلوے انھی کی امداد سے تعمیر کی گئی۔ وہ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد آخری خلیفہ عبدالحمید کو تاحیات وظیفہ دیتے رہے۔ یہی نہیں بلکہ 1931 میں انھوں نے اپنے ولی عہد شہزادہ اعظم جاہ کی شادی خلیفہ عبدالحمید کی صاحبزادی عثمانی شہزادی درِ شہوار سے کروائی۔
تاہم علمی اور ادبی سرگرمیوں کے اس ماحول میں نظام نے فوجی صلاحیتوں کے فروغ پر توجہ نہیں کی۔۔
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.