Mansoor Helaj. Life Of Mansoor Sarmad Hilaj. Mansoor Helaj Koon Tha?
منصور حلاج کی کہانی مِہر کی زبانی
میں نے کچھ دنوں قبل آپ سے وعدہ کیا تھا کہ منصور کے بارے چیدہ چیدہ معلومات آپ کو پیش کروں گا۔ نکمے بندے کی مصروفیت کبھی ختم نہیں ھوتی بس میں بھی اسی طرح کی مصروفیت کے سبب تاخیر کرنے کا عادی ھوں۔
منصور حلاج ایک ” متنازغہ ” شخصیت ہے ۔ منبر و مسجد و علماء ان کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ صوفیاء ان کی موافقت کرتے ہیں ۔
شریعت بھی ہم وہی پسند کرتے ھیں جو بس ھمیں ہی پسند ھو۔
اپنے مسلک اور فرقہ کا بندہ مسلم اور باقی سب کافر
ایک طرف تصوف۔ طریقت اور معرفت ہے
دوسری طرف شریعت اور مولوی حضرات۔
اور یہ ہر دو مسلک کے لوگ حسین بن منصور حلاج کی شخصیت کو اپنی حق گوئی کی مثال ٹھہراتے ہیں ۔ مجموعی طور پر یہ ایک ” متنازعہ ” شخصیت ہیں ۔
(منصور سرمد کی پیدائش 858ء اور وفات 26 مارچ 922 ء کو ھوئی۔
وہ ایک فارسی صوفی اور مصنف تھے۔
پورا نام ابو المغیث الحسین ابن منصور الحلاج تھا۔ والد منصور پیشے کے لحاظ سے دھنیے تھے اس لیے نسبت حلاج کہلائی۔ فارس کے شمال مشرق میں واقع ایک قصبہ الطور میں پیداہوئے۔
عمر کا ابتدائی زمانہ عراق کے شہر واسط میں گزرا۔
پھر اہواز کے ایک مقام تستر میں سہل بن عبداللہ اور پھر بصرہ میں عمرو مکی سے تصوف میں استفادہ کیا
264ھ میں بغداد آ گئے اور جنید بغدادیؒ کے حلقہ نشین ھو گئے۔
عمر کا زیادہ حصہ سیر و سیاحت اور طویل مسافری میں گزار دیا۔
وہ اتحاد ذاتِ الہی کے قائل تھے۔ اور اناالحق یعنی میں ھی حق ھوں کا نعرہ لگایا کرتے تھے۔
سنہ 297 ھ میں ابن داؤد الاصفہانی کے فتوے کی بنیاد پر پہلی مرتبہ گرفتار ہوئے
301ہجری میں دوسری مرتبہ گرفتار ہوئے اور آٹھ سال مسلسل اسیر رہے
309ھ میں مقدمے کا فیصلہ ہوا اور 18 ذیقعد کو سولی دے دی گئی۔ وفات کے بعد علماءکے ایک گروہ نے اسے کافر قرار دیا جبکہ
شیخ فریدالدین عطارؒ ، مولانا رومیؒ اور علی ہجویری المعروف داتاؒ صاحب نے انھیں حق گو اور شہید قرار دیا۔
حلاج نے تصوف و طریقت پر کئی کتابیں اور رسائل قلمبند کیے جو تقریباً سنتالیس کے قریب ھیں۔
اس کا عقیدہ تین چیزوں پر مشتمل ہے۔
1۔ ذات الہی کا حصول ذات بشری میں۔
2۔ حقیقت محمدیہﷺ کا اقدام
3۔توحید ادیان
جہاں تک منصور کا نعرہ ” انا الحق ” کی بات ہے ۔ تو اس نعرے کی ہزار تاویلات کی جا سکتی ہیں ۔ ” انا الحق ” یعنی ۔۔۔ میں ہی سچ ہوں )
وحدت الوجود و الشہود کے فلسفے کی بنیاد اسی کلمے پر استوار ہوئی ۔
ہو الظاہر ہو الباطن ۔ اور اللہ نورالسموات والارض کی آیات اس فلسفے کو تقویت دیتی ہیں
علامہ اقبالؒ نے ان کی کتاب ” طاسین ” کو جاوید نامہ میں استعاراتی طور پر ذکر کیا ہے ۔
حلاج نے کبھی الوہیت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اس نے خالق و مخلوق کے باہمی “حلول کی بات کبھی نہیں کی۔ نہ اپنی ذات کے خدا میں گم ہو جانے کا اعلان کیا۔
حلاج عبد رہا یا معبود ؟
یہ بات اقبال ؒ سمجھ گئے تھے اور “جاوید نامہ” میں سمجھا بھی گئے ہیں۔
حلاج پر جو مقدمہ دائر کیا گیا تھا اس کے پردے میں الجھی ہوئی سیاسی سازشیں کارفرما تھیں۔
916 عیسوی میں اپنا آخری حج کرنے کے بعد جب حلاج بغداد واپس آیا تو ایک طرف عباسی دربار میں خلفشار کی کیفیت تھی اور دوسری طرف اس کے منہ سے دیوانگی عشق میں عجیب دعائیں نکلتی تھیں،
مثلاً “اپنی امت کے لئے خدا میری موت کو مطعون کر۔”
اے خدا میرے خون کو دین والوں پر حلال کر دے۔
916 عیسوی کے دور میں ایک مخصوص مکتبہ فکر کے بعض راہنماؤں نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ اب جو عتاب نازل ہوا، اس کی لپیٹ میں حلاج بھی آگیا۔ اس لئے کہ اس کوشش میں اس کے بہت سے مرید بھی شامل تھے۔
حلاج کو گرفتار کر کے بغداد لایا گیا۔ اس فاقہ زدہ صوفی کو، جس کی پسلیوں پر بس ایک جھلی سی رہ گئی تھی۔ ایک شکنجے میں جکڑ دیا گیا اور یہ شکنجہ بازار کے عین بیچ میں رکھا گیا۔
گلے میں ایک تختی اور اس تختی پر “قرمطی ایجنٹ” لکھا ہوا تھا۔
یہاں نہ تو کوئی تذکرہ انا الحق کا تھا اور نہ حلول و الوہیت کی بات تھی، نہ لاہوت و ناسوت کا حوالہ تھا۔
الزام کی نوعیت سراسر سیاسی تھی۔ مقدمے کی کاروائی کے دوران اس کے صوفیانہ اقوال کو سیاسی رنگ دے دیا گیا۔ ۔ اسی طرح حلاج کا سفرِ ہند بھی الزام کا بہانہ بنا۔
ابتدائی کاروائی کے بعد حلاج کو نظر بند کر دیا گیا اور آٹھ سال سے زیادہ عرصے تک محل کی جیل میں قید رہا۔ اس کے بعد مقدمے کی کاروائی دوبارہ شروع ہوئی،
دربار کے تنخواہ دار علماء اور سرکاری قاضی سے فتوٰی لے لیا گیا اور حلاج نے لکڑی کے ٹکڑے کو اپنے لہو سے واقعی سرخ کر دیا۔
تاریخ میں منصور حلاج کے قتل کے فتوٰی پر دستخط کرنے والوں میں جنید بغدادیؒ کا ذکر بھی آتا ہے لیکن ایک محقق یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہے کہ جنید بغدادیؒ کی وفات بھی اس واقعہ سے 10 سال قبل ہو چکی تھی۔
روایت ہے کہ جب آپ کو دارکے نزدیک لے گئے تو اول آپ نے دار کو بوسہ دیا۔ پھر سیڑھی پر قدم رکھ کر آگے بڑھ گئے۔ اس کے بعد قبلہ کی طرف منہ کر کے کچھ کہا۔
اس کے بعد مریدوں نے کہا کہ ہمارے متعلق کیا حکم ہے اور منکروں کے متعلق کیا
ارشاد ہے؟
فرمایا کہ منکروں کو دو ثواب ہوں گے اور تم کو ایک
کیونکہ تم لوگ میرے ساتھ حسنِ ظن رکھتے ہو اور منکر لوگ توحید اور شریعت کے ساتھ حسنِ ظن رکھتے ہیں
اور شرع میں توحید اصل اور حسنِ ظن فرع ہے۔ اس کے بعد ہر شخص نے آپ کو پتھر مارنے شروع کر دیے۔
شبلیؒ نے بھی آپ کو ایک پھول مارا جس پر آپ نے آہ کی۔
لوگوں نے پوچھا کی یہ کیوں؟
آپ نے کہا کہ وہ لوگ جانتے نہیں ہیں کہ معذور ہیں مگر شبلیؒ جانتے ہیں اس لئے ان کا پھول مجھ پر گراں گزرا۔
اس کے بعد آپ کے ہاتھ، پاؤں کاٹ دیے گیے اور آنکھیں نکال دی گئیں۔ اس کے بعد آپ کی زبان کو کاٹنا چاہا مگر آپ نے فرمایا ذرا صبر کرو پھر یہ کہا کہ
الہٰی یہ محض تیرے لئے مجھے تکلیف دے رہے ہیں۔ تو آپ فضل و کرم سے ان کو محروم نہ رکھ۔ کیونکہ انہوں نے شریعت کی خاطر مجھے تکلیف دی ہے۔
جب آپ کی روح جسدِ خاکی سے پرواز کر گئی تو آپ کے جسم سے “انا الحق” کی آوازیں آنے لگیں
لوگوں نے کہا کہ یہ بہت خطرناک حالت ہے۔ پھر آپ کی لاش کو جلا دیا گیا اور اس میں سے بھی “انا الحق” کی آوازیں آنے لگیں۔ آخر آپ کی راکھ کو دجلہ میں ڈال دیا گیا اور راکھ کے ڈالتے ہی دجلہ کے پانی میں سے بھی “انا الحق” کی آوازیں آنے لگیں اور دریا جوش مارنے لگا۔
آپ نے پہلے ہی اپنے خادم کو نصیحت کر دی تھی کہ جب یہ حالت ہو تو میرا خرقہ دریا کی طرف کر دینا۔ چنانچہ خادم نے آپ کا خرقہ دریا کی جانب کر دیا اور جس کو دیکھتے ہی دریا کا جوش ٹھنڈا ہو گیا اور پانی اپنی اصلی حالت میں آ گیا۔
عقیدۂ حلول کیا ھے ؟
عقیدۂ حلول کا نظریہ رکھنے والوں کے مطابق
انسان اپنے آئینۂ دل کو اتنا لطیف اور صاف بنا لیتا ہے کہ خدا کی ذات خود اس کے جسم میں داخل ہو جاتی ہے یا حلول کر جاتی ہے۔
حسین بن منصور حلاج اس عقیدہ کے علمبردارِ اعلیٰ تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ہر چند کہ ان سے پہلے بھی ایسے صوفیاء گزرے ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے تھے مگر اپنے سینوں میں چھپائے رکھتے تھے۔
اس عقیدہ کو شہرتِ دوام حلاج سے ہی ہوئی۔
منصور حلاج کا دعویٰ تھا کہ : خدا اس کے اپنے اندر حلول کر گیا ہے
منصور حلاج اپنے اسی عقیدے کے سبب ” انا الحق ” کا نعرہ لگاتا تھا۔
جبکہ اسے یہ بھی خوب معلوم تھا کہ اس کا یہ عقیدہ مسلمانوں کے متفقہ عقیدہ کے سراسر خلاف ہے۔ اس سلسلے میں اس کے اپنے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں
عَقَدَ الخلائقُ في الإلهِ عقائدا
وانا اعتقدت جميع ما اعتقدوة
اللہ کے بارے میں لوگوں کے بہت سے عقیدے ہیں اور میں ان سب عقیدوں پر عقیدہ رکھتا ہوں۔
صوفیاء کی اکثریت نے حلاج کو حق پہ گردانتے ھیں۔
حضرت علی ہجویری المعروف داتا صاحبؒ فرماتے ھیں۔
انہیں میں سے ایک مستغرق معنیٰ ابوالغیث حضرت حسین بن منصور حلاج رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ سرمستان بادۂ وحدت اور مشتاقِ جمالِ احدیث گزرے ہیں اور نہایت قوی الحال مشائخ تھے۔
بحوالہ:
کشف المحجوب ، ص:300
مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ھیں۔
گفت فرعونے اناالحق گشت پست
گفت منصورے اناالحق گشت مست
لعنة اللہ ایں انارا درقفا
رحمة اللہ ایں انارا درقفا
ترجمہ :
فرعون نے “انا الحق” کہا تو ذلیل ہو گیا اور منصور نے “انا الحق” کہا (عشق و محبت میں) تو مست قرار پایا۔ فرعون کی خودی کے لیے تو بعد میں اللہ کی لعنت ہی رہ گئی اور منصور کی خودی کے لیے بعد میں اللہ کی رحمت رہی ہے۔
بحوالہ :
مثنوی روم
خواجہ نظام الدین اولیاؒ ، سال 725ھ میں حلاج کی بزرگی کے اس قدر قائل تھے کہ آپ نے فرمایا ۔۔۔۔
ذکر مشائخ کا ہو رہا تھا۔ بندہ نے عرض کیا کہ سیدی احمد (سید احمد رفاعی) کیسے تھے؟ آپ نے فرمایا : وہ بزرگ شخص تھے۔ عرب کا قاعدہ ہے کہ جب کسی کو بزرگی سے یاد کرتے ہیں تو اسے سیدی کہتے ہیں۔ وہ شیخ حسین بن منصور حلاج کے زمانے میں تھے۔ جب کہ ان کو جلایا گیا اور ان کی خاک دجلہ میں ڈالی گئی۔
سیدی احمد نے ذرا سی خاک اس میں سے تبرکاً اٹھا کر کھالی تھی۔ یہ ساری برکتیں اسی سبب سے انہیں حاصل تھیں۔
بحوالہ :
فوائد الفواد ، ملفوضات نظام الدین اولیاء صاحب ، مرتبہ: خواجہ حسن دہلوی ، ص:471
احمد رضا خان بریلوی سے سوال کیا گیا کہ
منصور تبریز سرمد نے ایسے الفاظ کہے جن سے خدائی ثابت ہے ، لیکن وہ ولی اللہ گنے جاتے ہیں اور فرعون ، شداد ، ہامان و نمرود نے دعویٰ کیا تھا تو مخلد و النار ہوئے ، اس کی کیا وجہ ہے؟
آپ نے جواب دیا کہ
ان کافروں نے خود کہا اور ملعون ہوئے اور منصور نے خود سے نہ کہا۔
بلکہ منصور میں اس مالک نے کہا جسے کہنا شایان ہے اور آواز بھی انہی سے مسموع ہوئی۔
جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخت سے سنا
‘ انی انا اللہ’ میں ہوں رب اللہ سارے جہاں کا ،
تو کیا یہ درخت نے کہا تھا؟
نہیں بلکہ اللہ نے کہا تھا۔
بعین ایسے ھی منصور جیسے صوفی یونہی اس وقت شجرِ موسیؑ ہوتے ہیں۔”
بحوالہ :
احکام شریعت ، ص:93
حلاج کے مخالف مکتبہ فکر کے لوگ کچھ اس طرح سے کہتے ھیں۔
امام ابن تیمیؒہ اور حافظ ابن قیؒم دونوں نے لکھا ہے کہ
وہ کافر تھا اور اس کے متعلق علماء کا فیصلہ بالکل ٹھیک تھا۔
امام ابن تیمیہؒ نے کہا کہ
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حلاج فنا میں ڈوب گیا اور باطنی حقیقت سے معذور تھا، مگر ظاہری طور پر اس کا قتل واجب تھا اور کچھ دوسرے اسے شہید ، فنا فی اللہ ، موحد اور محقق کہتے ہیں۔ یہ لوگ شریعت کی پرواہ نہیں کرتے۔
وہ کہتے ھیں کہ
حلاج اپنے کفر کی وجہ سے قتل کیا گیا ، وہ قرآن کا معارضہ کرتا تھا ، اس کا یہ بھی خیال تھا کہ اگر کسی کا حج فوت ہو جائے تو اپنے ہاں کعبہ بنا کر اس کا طواف کر سکتا ہے اور حج کے سوا تمام رسوم ادا کر سکتا ہے اور حج پر جتنی رقم خرچ ہو سکتی ہو اس کو صدقہ دے سکتا ہے۔
سید سلیمان ندوی نے ابن سعد قرطبی ، بغداد کے مشہور سیاح ابن موقل ، مورخ ابن ندیم ، ابو علی بن مسکویہ ، مسعودی ، علامہ ابن جوزی ، ابن اثیر اور امام الحرمین کی تواریخ کا حوالہ دے کر لکھتے ھیں کہ منصور ایک شعبدہ باز اور گمراہ شخص تھا۔
مِہربانو۔۔۔
مِہر العارض ہے کہ اوپر بیان کیے گئے تمام حالات کے باوجود ایک غیر جانبدار محقق کے لئے منصور حلاج کے متعلق کسی حتمی رائے پر پہنچنا امرِ محال ہے۔
کیونکہ تاریخ میں منصور حلاج کی شخصیت ایک افسانوی روپ اختیار کر چکی ہے اور مخالفین اور حمایت کرنے والوں نے آپ کی شخصیت کو عجیب شاعرانہ استعراتی و تمثیلی لباس سے مزین کر دیا ہے جس کی وجہ سے حقیقی تاریخی واقعات تک پہنچنا امرِ محال ہو چکا ہے۔
اگر منصور حلاج اہلِ حق میں سے ہیں تو ہمارے مردود کہنے سے اللہ کے ہاں وہ مردود نہ ہو جائیں گے اور اگر وہ اللہ کے ہاں اہلِ باطل میں سے ہیں تو ہمارے اہلِ حق کہنے سے اللہ کے ہاں اہلِ حق نہ ہو جائیں گے۔
صحیح راہ یہی ہے کہ منصور حلاج کے بارے میں توقف سے کام لیا جائے۔
اور بے شک میرا رب ہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔
میں جاہل گنوار تو بس اتنا سمجھ پایا ھوں کہ
کبھی کبھی عشق بھی مغالبہ ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ عشق ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ جس کو ہوجائے تو وہ مرجائے اور مٹ جائے اور نقش معشوق کی تصویر کر جائے
مالک جاگ رہا ہے اور ہم سو رہے ہیں ۔
یہ کہاں کا رواج ہے؟
کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ عشق کی معراج کیا ہوگی ؟
عشق کی ابتدا کہاں سے ہوگی ؟
اقبالؒ نے کہہ دیا عشق کی انتہا تو کوئی نہیں !
انتہا نہیں تو ابتدا بھی نہیں
یعنی ایک دفعہ دائرہ عشق میں داخل ہوجاؤ تو سمندر ہی سمندر جس کی گہرائی ایک سی ہے
مِہر کی سمجھ میں کبھی نہیں آیا کہ جو لوگ یہ بات مان سکتے ہیں کہ خدا درختوں اور پہاڑوں سے ہم کلام ہوا یا ہوسکتا ہے
انہیں اس بات میں کیوں اعتراض ہے کہ خدا انسان سے بھی ہمکلام ہوسکتا ہے؟
کیا یہ بات ناممکنات میں سے ہے؟
آخر میں مِہر فارسی کا یہ کلام آپ کی نظر کر کے اجازت چاہتا ھے کہ
من تو شدم- تو من شدی
من جان شدم- تو تن شدی
تاکس نہ گوید بعد ازین
من ویگرم تو دیگری
ترجمہ
میں تو ہوگیا- تو میں ہوگیا
میں جان ہوگیا- تو جسم ہوگیا
تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ
میں کچھ اور ہوں
تو کچھ اور ہے
از #مِہر لیاقت
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.