Khan Abdul Ali Khan, Son Of Bacha Khan, An Educationist And Working Farmer.
خان عبدالعلی خان'سابقہ وائس چانسلر' پشاور و گومل یونیورسٹی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خان عبدالعلی خان،نامی گرامی ماہر تعلیم،10اکتوبر 1922کو اتمانزئی چارسدہ میں پیدا ہوئے۔اسوقت انکے والد محترم باچاخان'جیل میں تھے۔انہوں نے آٹھویں تک تعلیم واردھا پھر کرنل براؤن سکول ڈیرہ دون ہندوستان میں حاصل کی۔اس کیبعد انہوں نے اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور سے گریجویشن کی۔مزید تعلیم کیلئے انگلستان چلے گئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سےایم اے کیا۔
انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز اسلامیہ کالج پشاور سے ہسٹری اور پولیٹیکل سائنس کے لیکچرار کے طور کیا۔ اس کیبعد انکا گورنمنٹ کالج سرگودھا تبادلہ ہوا جہاں وہ دو 2 سال تک رہے اس کیبعد وہ گورنمنٹ کالج میانوالی میں دو 2 سال تک پڑھاتے رہے ۔
1961 میں ان کو مشہور ادارے ایچیسن کالج لاہور کا پرنسپل مقرر کیا گیا جہاں وہ دس 10 سال تک اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔1971میں وہ سیکرٹری ہیلتھ'ایجوکیشن اینڈ سوشل ویلفیئر مقرر ہوئے'جہاں دو تین 2/3 برس کام کرتے رہے ذوالفقار علی بھٹو کےدورحکومت میں وہ پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے اور وہاں تین 3 سال تک کام کیا۔اس کیبعد وہ فیڈرل سیکرٹری ایجوکیشن اسلام آباد کے منصب پر مقرر ہوئے اور وہاں تین 3 برس تک کام کرتے رہے۔بعد ازاں انہیں گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان میں وائس چانسلر مقرر کیا گیا جہاں وہ دو 2 برس تک رہے اس کیبعد ایک مرتبہ پھر انہیں پشاور یونیورسٹی کا وائس چانسلرمقررکیا گیا۔مجھے بجا فخر ہے کہ انہوں نے مجھے میری رہائشگاہ پلوسی آکر پشاور یونیورسٹی میں ملازمت کی دعوت دی جو میں نے قبول کرتے ہوئے نومبر سنہ 1981کو بحیثیت ڈپٹی ٹرثرر کام شروع کیا۔اس سےقبل جب وہ گومل یونیورسٹی میں تھے،تو بھی مجھے وہاں ملازمت کی دعوت دی جبکہ میں نے'اسوقت معذرت کی تھی۔
وہ دسمبر1981میں اسوقت کے گورنر فضل حق سے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے،اختلاف کے تحت مستعفی ہوئے اور اپنےبنجر زرعی اراضی کو خود ٹریکٹر چلاکر آباد کرنا شروع کیا۔انکی صاف، معقول زندگی اور شفاف ملازمت کا اندازہ اسوقت لوگوں کو اشکارہ ہوا جب اسنے اپنی اراضی پر کام شروع کرنے سے قبل ادھار کا سہارا لیا۔مجھے اسکی خود اعتمادی نے بہت ہی متاثر کیاتھا۔وہ پگھڑی باندھ کر زمینوں پر از خود سخت گرمی میں کام کرتے رہے۔کچھ عرصہ رخصت پر ہوتے ہوئےریٹائرڈ ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کیبعد بھی انہوں نے ایک سال اپنے گاؤں اتمانزئی میں اپنےبنجر اراضی کو قابل کاشت بنایا۔
گورنر سرحد جنرل ریٹائرڈ فضل حق نے مردان میں ایک کالج بنام فضل حق کالج مردان قائم کرنا چاہا تو انکو وہاں کا پرنسپل اور بعد میں وائس چیرمین مقرر کیے گیے۔ انہوں نے 1982 میں فضل حق کالج مردان کا سیٹ اپ کیا۔مجھے انکی ہمت کو سلام پیش کرنا پڑا،جب مجھے اس نے یونیورسٹی فون کرکے ردی میں پڑے فرنیچر اور سٹیشنری کا کالج کیلئے مدد کیلئےکہا۔وہاں وہ دس 10سال تک کام کرتے رہے اور پھر اس جکہ کی ترقی اور معیارکو دیکھ لوگ اپنے بچوں کو وہاں داخلہ کیلئےحسرت ہی کرتے رہے۔مجھے وہاں اکثر جاتے ہوئے مثالی کارکردگی پرحیرت ہی رہتی۔
درحقیقت وہ میرے لئے ایک رول ماڈل ہی رہے۔مجھے ملازمت کے دوران اسکی طرز عمل پر عمل پیرا رہتے ہوئے'اکثر مواقع پر تکالیف کا سامنا توکرناپڑتا مگر بحرحال'مجھےاسکی نقش قدم پر کام کرتے ہوے احسن کارکردگی کا صلہ ضرور ملا اور جس پر مجھے بجا فخر اور اطمینان رہا۔
ان کی تعلیمی میدان میں قابل رشک خدمات اور ایک اعلی پائے کا منتظم ہونے پر'حکومت پاکستان نےانکو ستارہ امتیاز سےنوازا'جو انکےبرخوردار ذوالفقار خان نے صدر مملکت فاروق احمد خان لغاری سے اس کیلئے بعد از مرگ'وصول کیا۔
علالت کےدوران جب وہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال،بولٹن بلاک میں زیر علاج تھے' تو باوجود علالت وہ وہاں بھی دفتری امور نبھاتے۔
یہ عظیم منتظم اور ماہر تعلیم 19فروری 1997کو تقریبا 75برس کی عمر میں وفات پا گئے انکو آبائ گاوں اتمانزئی میں سپردخاک کیا گیا۔
دعا ہے کہ انکی مغفرت ہو۔آمین
افتخارحسين ، سابقه کنټرولرUOP
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.