Professor Jordan Peterson, Clinical Psychologist Explained In Urdu.
یہ پروفیسر ڈاکٹر جارڈن پیٹرسن ہیں پچھلے چھ سات سال سے میرے فیورٹ کلینیکل سائیکالوجسٹ ہیں ان سے بہتر میرے خیال سے آج کی تاریخ میں کوئی سائیکالوجسٹ زندہ نہیں ہے۔
انکی زندگی کے متعلق اپروچ حد سے زیادہ مثبت اور حوصلہ افزاء ہے۔ خاص کر انکے پرسنالٹی پر دئیے گئے یونیورسٹی آف ٹورونٹو کے لیکچر کسی بھی سائنس کے طالب علم کو ضروری سننے چاہیں۔ وہیں انکے یہ لیکچر ان لوگوں کے لئے سننا بھی اہم ہیں جو زندگی میں کسی قسم کی ڈپریشن یا پر پریشانی سے گزر رہے ہیں اور ایک استاد کی شکل میں ایگزٹ چاہتے ہیں۔
انکی زندگی کو لے کر چلنے والی اپروچ بہت ہی عمدہ ہے۔ پروفیسر پیٹرسن کا کہنا ہے کہ اپنا خیال ویسے ہی رکھیں جیسا آپ کسی اپنے پیارے کا رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ انکی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر آپ ڈپریشن میں ہیں تو سب سے پہلے اپنا بستر درست کرنا شروع کریں۔ یہ سادہ سی بات ہمیں بہت سی پریشانیوں سے بچا سکتی ہے۔
مختلف شارٹ ویڈیوز میں پیٹرسن کی وجہ شہرت فیمنزم اور پوسٹ ماڈرنزم کے لتے لینے سے ہوئی ہے لیکن ہم جو انہیں ایک دہائی سے سن رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ پروفیسر سائیکالوجی میں ایک بہت قابل نام ہیں اور انہوں نے خود آگاہی پہ جو کام کیا ہے وہ قابل دید ہے۔
یوٹیوب پہ ایک مشہور سلیبرٹی ہونیکے ساتھ ساتھ یہ ایک جید سائنسدان ہیں جس کی سائٹیشنز کی تعداد بیس ہزار اور ایچ انڈیکس 57 ہے مطلب وہ ایک قابل سائنسدان بھی ہیں۔
انسانی پرسنالٹی کے بارے میں انکی تمام باتیں سائنسی حقائق پہ مبنی ہیں اور اگر آپ کسی قسم کی ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں تو آپ کو انہیں سننا چاہیے یہ آپ کو منجدھار سے نکال باہر لائیں گے۔
جہاں البرٹ ایلس جیسے سائیکالوجسٹس نے ہمیں فرائیڈ کے نظریات سے نکال کر جدید سائیکالوجی سے متعارف کروایا اور CBT جیسی تکنیک متعارف کروائی وہیں پیٹرسن نے البرٹ ایلس سے آگے جاکر سائیکالوجی میں ارتقائی علم کے استعمال کیساتھ ساتھ سینٹ فوکالٹ کے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کنٹرول کرکے پوسٹ ماڈرن نظریات سے نوجوان نسل کے ذہن پراگندہ کرنے کے ایجنڈے کو ناکام بنایا ہے۔ جس کا مقصد نئی نسل کے ذہن سے اقدار کو ختم کرنا ہے مگر پیٹرسن جیسی مزاحمتی آواز نے اس ایجنڈے کو پورا ہونے سے روک رکھا ہے اور یہ انکی انسانیت کے لئے کی گئی سب سے بڑی نیکی ہے۔
by Zaigham Qadeer.
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.