Weight Management. Foods, Eating, Diet And Weight Gaining. Urdu Info. Urdu Health Blogs
میری یونیورسٹی کے زمانے کی ایک دوست کی یہ حسرت ہی رہی کہ اس کا وزن دوچار پونڈ ہی بڑھ جائے.
موٹاپے سے بچنے کیلئے جن چیزوں کے کھانے پینے سے منع کیا جاتا ہے، اس نے وہ سب کھائیں، چاول، آلو.. دن میں دس دس بارہ بارہ کوک اور پیپسی کی بوتلیں اور پتہ نہیں کیا کیا، بدہضمی ہوجاتی لیکن وزن وہی 95 پونڈ کا 95 پونڈ...
لوگوں نے کہا شادی ہوگی تو وزن بڑھے گا....شادی بھی ہوگئی لیکن وزن اتنا کا اتنا رہا... حتیٰ کہ دلہا کا وزن بھی اب تک نہیں بڑھا.
پھر کہا گیا کہ بچہ ہوگا تو وزن بڑھے گا. امید سے ہوئی تو ظاہر ہے کچھ وزن بڑھا. لیکن بیٹا پیدا ہوا تو وزن پھر وہی 95 پونڈ رہ گیا.
آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ بہت زیادہ کھانے والے بعض افراد بھی موٹاپے کا شکار نہیں ہوتے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟
امریکا کی رہوڈ آئی لینڈ یونیورسٹی کی فوڈ سائنسز کی پروفیسر کیتھلین میلنسن کے مطابق اس سوال کا جواب سادہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جینیاتی، غذائی اور رویوں جیسے عناصر اس عمل کا حصہ ہوتے ہیں۔ اکثر لوگوں کو لگتا ہے کہ متعدد افراد ایسے ہیں جو اپنی مرضی سے کچھ بھی کھاتے ہیں مگر ان کا وزن نہیں بڑھتا، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لوگ ہم سے زیادہ غذا جزوِ بدن نہیں بناتے۔
اس حوالے سے پینینگٹن بائیومیڈیکل ریسرچ سینٹر کے چیف میڈیکل آفیسر ڈاکٹر فرینک گرین وے نے بتایا کہ اگر آپ ایسے افراد کی کیلوریز کی جانچ پڑتال کریں، تو معلوم ہوگا کہ وہ اتنا نہیں کھاتے، جتنا آپ کو لگتا ہے، بس وہ اپنی مرضی سے زیادہ کیلوریز والی غذاؤں کا استعمال کرتے ہیں۔
جسمانی سرگرمیاں بھی اس حوالے سے اہم ہیں مگر ایسا نہیں کہ جم جاکر ورک آؤٹ کیا جائے۔
پروفیسر کیتھلین میلنسن کے مطابق کچھ افراد دیگر کے مقابلے میں زیادہ متحرک یا چلنے کے عادی ہوتے ہیں، جبکہ ایسے شواہد بھی موجود ہیں کہ کچھ افراد جینیاتی طور پر ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے جسموں کو ہروقت متحرک رکھنا پسند کرتے ہیں۔
یہ اضافی جسمانی سرگرمیاں میٹابولزم کی رفتار کو بھی بڑھا دیتی ہیں، آسان الفاظ میں جتنا زیادہ چلیں گے اتنا زیادہ میٹابولزم تیز ہوگا اور جسمانی توانائی کے لیے کیلوریز کو جلائے گا۔
برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر آئنز باروسو کے مطابق کچھ شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ ورزش کے بغیر بھی کچھ افراد دیگر کے مقابلے میں زیادہ کیلوریز جلاتے ہیں۔
پروفیسر کیتھلین میلنسن کا کہنا ہے کہ کچھ افراد قدرتی طور پر معتدل مقدار میں غذا کا استعمال کرتے ہیں جن کو جلانا بھی ان کے لیے آسان ثابت ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اعصابی نظام کے سگنلز اور خون میں گردش کرنے والے ہارمونز ہمیں بھوک یا پیٹ بھرنے کے بارے میں بتاتے ہیں، یہ نظام کچھ افراد میں دیگر کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوتا ہے۔
اس حوالے سے ایک اہم ہارمون لیپٹین ہے جو اس بات میں مدد دیتا ہے کہ کتنی مقدار میں غذا کا استعمال کیا جائے۔ تو زیادہ حساس نظام والا فرد کم مقدار میں غذا جسم کا حصہ بناتے ہیں کیونکہ یہ نظام انہیں کم مقدار میں ہی بتا دیتا ہے کہ بس اتنی غذا توانائی کے لیے کافی ہے۔
گزشتہ سال سوئٹزر لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ قدرتی طور پر دبلے پتلے رہنے والے افراد کا وزن اس لیے معمول پر رہتا ہے کیونکہ ان کی چربی کے خلیات جینیاتی طور پر زیادہ موثر طریقے سے کام کرتے ہیں۔
تحقیق کے دوران محققین نے ایسے افراد کے گروپ کا جائزہ لیا جن کا جو دل کرتا ہے کھاتے ہیں مگر ان کا وزن نہیں بڑھتا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ ان کے معدے میں موجود چربی کے خلیات ایسے افراد کے مقابلے میں حجم میں 50 فیصد کم اور زیادہ متحرک ہوتے ہیں، جو اوسط جسمانی وزن کے حامل ہوتے ہیں۔
نتائج سے اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے کہ دبلے پتلے افراد کو جسمانی وزن کو معمول پر رکھنے کے حوالے سے دیگر لوگوں کے مقابلے میں کچھ جینیاتی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق جسمانی وزن میں اضافے یا صحت مند سطح پر اسے برقرار رکھنا پہلے سے طے نہیں ہوتا مگر یہ مکمل طور پر ہمارے ہاتھ میں بھی نہیں ہوتا۔
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.