Iqbal Love Letters To Emma Wegenast
'I can't write or say much, you can imagine what's in my soul. I really wish I could talk to you again and see you, but I don't know what to do. It is not possible for a person who has befriended you to live without you. ' This letter is one of the many letters written in German to Allama Muhammad Iqbal's Emily Emma Wegenast. Iqbal met Emma in Heidelberg, a town full of lush landscapes on the banks of the Neckar River.
سوشل میڈیا اور خاص کر فیس بُک کی مقبولیت اور ہر خاص و عام تک اسکی رسائی کے سبب اب ان موضوعات پر کھل کر لکھا جا رہا جو کبھی شجر ممنوعہ ہوتے تھے۔انہی میں علامہ اقبال کی نجی زندگی اور خاص کر جرمنی میں اُنکی زندگی کے کچھ پہلوؤں پر کھل کر مکالمے کا آغاز بھی پچھلے دو تین سالوں سے شروع ہو چکا ہے۔جرمنی کی ایما ویگے اور دیگر خواتین کے ساتھ، پاکستان کی عطیہ فیضی کے حوالے سے بی بی سی کے آرٹیکل اور دیگر کُتب کے ریفرنسز کی بھرمار ہے جو فیس بُک پر شیئر کیے جا رہے ہیں۔لوگوں کا بڑا یہ اعتراض سامنے آ رہا کہ اپنی شاعری کے ذریعے مغربی تہذیب سے نفرت اور ہمیں خودی کا درس دیا جب کہ اُنکا اپنا عمل اس کے برعکس تھا۔برصغر کو چھوڑ کر خود جرمنی شفٹ ہونا چاہتے تھے اور شاعری میں اس کے الٹ تعلیمات کا پرچار کرتے تھے۔اُن کے بیٹے جاوید اقبال کی سوانح عمری کے بھی ریفرنس پوسٹ کر کے کسی حد تک نازک سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔اک طبقہ انکو اتنا مقدس سمجھتا کہ اسطرح کے سوالات اُنکی نظر میں غداری اور وطن دشمنی جب کہ مخالفِ طبقے کا انداز تضحیک آمیز ہے۔اک جزبات و احساسات رکھنے اور محبت کرنے والے گوشت پوست کے بنے انسان کو جو کبھی فلسفے کو شاعری کا اوڑھنا بچھونا بناتا ہو تو کبھی فطرت، رنگوں ،خوبصورتی اور نیلے آكاش کی وسعتوں سے اپنی شاعری کا خمیر اٹھاتا رہا ہو کو دیوتا بنانے میں کس کا قصور ہے؟میرا خیال ہے کہ ہمارا اپنا ہی ہے۔ہم خود ہی بت تخلیق کرتے ہیں اور پھر اُنکی دل و جان سے پوجا کرتے ہیں۔تاریخ سوال پر خاموش رہ سکتی،غلط جواب دے سکتی لیکن سوال اٹھنا یقینا بند نہیں ہوتے۔۔۔
علامہ اقبال کی شاعری کے دو پہلو تھے۔ایک قومی بیداری اور مسلمانان ہند کے سیاسی شعور کو ارتقائی مراحل میں ڈھالنا تھا۔جب کہ دوسرا وہی خوبصورت پہلو جو کسی بھی شاعر کے پہلو میں محبت کی کونپل بن کر دھیرے دھیرے اپنا رنگ جماتا ہے۔انصاف تو یہ ہے کہ انہوں نے دونوں سے انصاف کیا۔شاعر کی زندگی سے فطرت کا عکس اور محبت کا لطیف جذبہ نکال دیا جائے تو پیچھے جنگجو شاعر ہی بچتا جو جذبات و احساسات سے یکسر بنجر ہوتا۔اُنہیں اگر دیوتا بنا کر پیش کیا گیا تو یہ ہماری آرٹ اور فنون لطیفہ سے نہ واقفیت تھی جو اُنہیں اس روپ میں قبول کر لیا۔علامہ اقبال کی زندگی سے اگر لطیف جزبات اور جرمنی کے رنگ نکال دئیے جائیں تو پیچھے زندگی کی حرارت سے خالی پند و نصائح ہی بچتا ہے۔جعفرحسين
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.