Skip to main content

Bughdadi Peer By Naseer Ahmad Ahmadi Translated Into Urdu. Bughdadi Pir Noval.

 Bughdadi Peer By Naseer Ahmad Ahmadi Translated Into Urdu. Bughdadi Pir Noval.


بغدادی پیر ( ڈیوڈ جونز )


بغدادی پیر پشتو میں افغان مصنف مرحوم نصیر احمد احمدی کا لکھا ہوا ایک شاہکار ناول ہے ، جسے اردو میں ظفر افغان نے ترجمہ کیا ہے ۔ اور یہ کتاب ، کتاب کور پرنٹرز اینڈ پبلشر نے پشاور سے شائع کی ہے ۔ 

اس ناول میں افغان روشن خیال اور فارن کوالیفائیڈ بادشاہ غازی امان اللہ خان کے دور کے سال انیس سوانیس سے لے کر آخر لمحے افغانستان چھوڑنے تک کے واقعات تخلیقی حقیقت نگاری اور فنی لحاظ سے بڑے دلخراش اور کافی حد تک دلچسپ انداز سے بیان کئے گئے ہیں ۔ 

اس ناول میں برطانوی سامراج افغانستان کو آزادی حاصل کرنے کے بعد اس کی سزا کی قیمت چکانے پر کمر بستہ ہو جاتی ہے ۔ برطانوی چانسلر ہند سے ڈیورنڈ لائن کے راستے ڈیوڈ جونز ( بغدادی پیر ) پیر کرم شاہ ( لارنس ) ٹام  ( مقدم شاہ ) سمیت سینکڑوں جاسوس مختلف مسلمان ناموں سے مختلف کاموں کے ماہرین کے بھیس میں امان اللہ خان کی مترقی اقدامات اور عوامی مقبول بادشاہت کو ملیامیٹ کرانے کےلئے بھیج دیتے ہیں ۔ لیکن ان میں زیادہ تر بلکہ کامیاب بھی وہی جاسوس ہوتے ہیں جو پیر ملا اور دوسرے مذہبی یا روحانی شخصیات کے بھیس میں وارد  ہوتے ہیں اور اپنی مزموم کارروائیاں کرتے ہیں ۔ 

یہ لوگ کیسے پہلے افغانستان کے دور دراز پہاڑوں کے غاروں میں اپنا مسکن بناتے ہیں ، ریڈیو ٹرانزسٹر  ، لاؤڈ سپیکر ، دوائیوں اور روحانی علاج کے زریعے لوگوں میں خود کو پیر یا روحانی شخصیت منواتے ہیں ۔

پھر کس طرح عوام میں مقبولیت حاصل کر کے لوگ نذرانے اور چڑاوے ادھر لاتے ہیں ، لنگر کا چھل چھلاؤ شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ جعلی پیر کس طرح لوگوں کی ہر قسم کی بیماریوں کا علاج دم درود سے کرواتے ہیں  اور جھوٹے جنات کو قابو کرنے سے ان پر دباؤ ڈال کر ڈرایا جاتا ہے ۔ ٹرانزسٹر کی تاروں اور لاؤڈسپیکرز کے آپس میں رابطوں کی وجہ سے ان جعلی پیروں کا علم غیب کا دعوی کیسے ان سادہ لوح لوگوں کو لپیٹ میں لیتے ہیں ۔ یہ جعلی پیر کس طرح با اثر لوگوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں ، کس طرح گاوں اور شہروں کا رخ کرتے ہیں ، کس طرح صاف اور شفاف پشتو بولتے ہیں ، کس طرح مقامی لوگوں کے لئے عزت اور تکریم کے بابے بنتے ہیں ۔ کس طرح مقامی مساجد میں امامت کرواتے ہیں ۔ کس طرح لوگوں کے زریعے اندر کی باتیں اور چیزیں معلوم کرواکر٫٫ کانے جن ،، کے زریعے سامنے لانے کا ڈرامہ رچاتے ہیں ۔ کس طرح دنیاوی تعلیم سے لوگوں  کو کنارہ کش کرواتے ہیں۔ کس طرح جاری ترقی کے منازل کو طے کرنے سے رکواتے ہیں ۔ کس طرح چور ، لٹیروں ، ڈاکوؤں ،  بد معاشوں  اور ان پڑھ جاہل بچہ سقاؤں کا ایک جم غفیر جمع کراتے ہیں اور بلآخر کس طرح غازی امان اللہ خان کے خلاف کفر اور الحاد کے فتوے مقامی پیروں اور  بچہ ثقاؤں سے لگواتے ہیں اور ان کو بادشاہت چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ یہ سب کچھ  اس ناول میں پلاٹ ،  کہانی در کہانی ،  کرداروں اور مکالموں کی شکل میں موجود ہے ۔ کس طرح موجود ہے اس کے لئے ناول کو پڑھنا پڑے گا یا ناول کی کچھ جھلکیاں دیکھ کر ناول کی طرف رغبت جوڑ سکتی ہے ۔ جیسے کہ :-

البرٹ نے دیر سے آنے پر شاہ سے معذرت کی شاہ نے اپنا سر ہلایا اور ساتھ دوسرے آدمی کا تعارف کروایا کہ یہ میرا سسر اور ( ارگ ) کا،سیکرٹری محمود طرزی ہے ۔ 

البرٹ نے شاہ کو چانسلر کا دیا ہوا خط تھمایا جس میں شاہ سے درخواست کی گئی تھی کہ ہمارے کچھ لوگوں کو کابل میں رہنے کی اجازت دی جائے ۔ شاہ نے خط پڑھا اور پھر دیر تک مختلف اشوز پر باتیں ہونے لگی تھیں ۔ اور پھر ہماری ملکہ کا نام احترام سے لے کر کہا کہ ہم برطانیہ بشمول تمام ایشیائی ممالک سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں ۔ خاص کر برطانیہ افغانستان اقتصاد اور سرمایہ کاری میں ایک دوسرے کی بھرپور مدد کر سکتے ہیں بشرط یہ کہ برطانیہ افغانستان کو ایک آزاد ملک تسلیم کرے۔  

جارج نے کہا: میں نے بادشاہ کی آنکھوں میں آزادی حاصل کرنے کی چمک اور لگن دیکھی ہے ۔ بہتر یہ ہوگا کہ برطانوی حکومت افغانستان کی ازادی کی لہر روکے جو صرف افغانستان تک محدود نہیں بلکہ اٹک کی سرحد تک بات پہنچ جائے گی ۔ 

وہ افغانستان جس کی داخلہ اور خارجہ پالیسی ہمارے ہاتھ میں تھی وہ ہم نے تسلیم کیا۔ کوئی چارہ نہیں تھا حالات بد تر ہوتے جارہے تھے ۔ قبائلی علاقوں کے لوگ اٹھتے اور ہمارے لیے مزید مشکلات پیدا کرتے ۔

ملکہ برطانیہ مجبور ہوگئیں کہ ہنری دابس کی سربراہی میں ایک اعلی سطح وفد کو ( کابل) بھیجے ، دابس نے شاہ امان اللہ خان سے معاہدہ دستخط کیا اور افغانستان کو ایک آزاد مملکت تسلیم کیا گیا۔ 

 کاش صرف افغانستان ہوتا راجستان ، کشمیر اور کوئٹہ میں بھی مختلف قبائلی لوگ انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ یہ لوگ اتنے پر جوش نہیں تھے کہ انگریزوں کے خلاف لڑتے کیونکہ انگریزوں سے لڑنا شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا اب سب لوگوں پر امان اللہ خان کی باتوں کا اثر تھا کیونکہ پورے ہندوستان میں لوگ شاہ امان اللہ خان کو آزادی کا سمبل سمجھتے تھے ۔ 

مسجدوں مندروں اور کلیساؤں میں افغانستان کی آزادی کی باتیں ہو رہی تھیں ۔ کیونکہ اس آدمی ( امان اللہ خان ) نے لوگوں کو جگایا اور سب لوگوں کو یہ ممکن لگ رہا تھا کہ ہم برطانیہ سے آزادی لے سکتے ہیں ۔ اگر ہم نے امان اللہ خان کو سبق نہیں سکھایا تو ہندوستان ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے گا ۔ 

جارج نے کہا : البرٹ اپنا وقت ضائع مت کرو ۔ ڈیوڈ جونز جاسوسی کی ڈیوٹی پر معمور  ہے ۔ چانسلر اور ملکہ برطانیہ کے علاوہ اس نے اپنی والدہ کو بھی سچی بات نہیں بتائی ہوگی ۔ کابل میں پورے دو سو کے لگ بھگ برطانوی جاسوس مامور تھے جو ہر طبقے کے نظریات اور خیالات سے برطانوی سفیر کو باخبر کرتے رہے ان جاسوسوں میں انگریز کم تھے یعنی صرف وہ انگریز تھے جو پشتو بولتے تھے اور شکل سے افغانوں جیسے لگتے تھے باقی سب افغان ، ہندو ، سکھ ، پنجابی تھے جو سب صاف پشتو میں بات کر سکتے تھے ان سب کی تنخواہیں برطانوی سفارت خانے سے ملتی تھیں ۔

سفیر کی نظریں نیچے تھیں ۔۔۔

بادشاہ نے کہا ! یہ تین آدمی ثبوت کے ساتھ پکڑے گئے ہیں یہ تینوں آپ کے سفارت خانے کے ہیں یہ لوگ ہمارے نظام کے خلاف لوگوں کو ورغلا کر حکومت کے خلاف بغاوت کروا رہے تھے حتی کہ عطااللہ کے نام کسی  ( خان )  کو بائیس بندوقیں بھی دی ہیں ۔ 

بادشاہ کھڑا ہو کر کہنے لگا ! تمھارے پاس صرف بہتر گھنٹے کا وقت ہے بہتر گھنٹے کے اندر اندر افغانستان سے نکل جاؤ ۔۔۔۔۔

میں گیٹ کیپر کی کرسی پر چڑھا دیکھا تو بادشاہ ( امان اللہ خان ) نے خوبصورت پگھڑی اور کندھاری کپڑے اور واسکٹ پہنی تھی اور لوگوں کو گلے مل رہا تھا ۔ 

میں جب سفیر سے کہا " ارے یہ تو بادشاہ ہے " سفیر فورا" کہنے لگا کہ یہ بادشاہ پاگل ہے بغیر سکیورٹی کے بازار میں نکلا ہے تو میں نے کہا پاگل نہیں ہے بلکہ اسے اپنی عوام پر بھروسہ ہے۔ سفیر کہنے لگا اس طرح تو ہمارے برطانیہ میں بھی ملکہ نہیں نکلتی جو کہ بہت پر امن ملک ہے ۔ 

امان اللہ خان کے والد کے دور میں لوگ صرف اچھے گھوڑوں ، اچھے باغات اور دوسری تیسری شادی کے بارے میں باتیں کرتے تھے اور ہر کوئی اپنے لیے آرایش کی زندگی کو پسند کرتا تھا ۔


سفیر نے کہا ! امان اللہ خان نے افغانوں کی ہزار سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ آئین بنوایا میں نے بہت ملکوں بالخصوص یورپی ملکوں کے قوانین پڑھے ہیں مگر اس قانون میں انسانوں کے بنیادی حقوق اور طرز زندگی پہلی بار پڑھ رہا ہوں جو یورپی ملکوں کے قانون میں بھی نہیں ۔ 

سفیر نے دوبارہ اخبار کو دیکھا اور کہا کہ اس آئین میں لکھا یے کہ سب افغانوں کے حقوق ایک جیسے ہیں ،کسی کو کسی پر کوئی برتری حاصل نہیں خوا وہ کسی بھی رنگ ، مذہب یا نسل سے ہو ۔ ملک میں میڈیا اور نشریاتی ادارے آزاد ہیں ، ہر انسان کو تعلیم ، روزگار اور ہنر فراہم کیاجائے گا ۔ اس آئین میں سب اقلیتوں کو افغانوں کا خطاب دیا تھا ، جتنا افغان مسلمان کااس وطن ہر حق ہے اتنا ہی حق ہر اقلیتی قوم کو بھی اس وطن پر ہے ۔ اور نئے آئین میں یہ بھی لکھا تھا کہ آج کے بعد سکھوں اور ہندوؤں کے بچے عام سکولوں اور کالجوں میں پڑھیں گے مسلمان بچوں کے ساتھ کیوں کہ ہم سب افغان ہیں ۔اور یہ بھی لکھا تھا کہ آج کے بعد اقلیتی برادری آزادی اور اپنی مرضی سے اپنے مذہب کی رسومات ادا کر سکتے ہیں ۔

افغانستان نے اپنا ریڈیو سٹیشن بنایا ہوا تھا ، وہ مختلف پروگرام کر رہے تھے ۔ جن میں اکثر پروگرام ملک کی ترقی اور وطن می محبت کے ترانوں پر مشتمل تھے ۔ قندھار اور جلال آباد میں بجلی کے گریڈ بنے ہوئے تھے ۔ جرمنی اور فرانس کی کمپنیاں افغانستان کے شمال سے جنوب تک ریل پٹڑی بچھانے پر کام کر رہے تھے سارے صوبے مرکز کے ساتھ ٹیلی فون اور ٹیلی گراف کے ذریعے رابطے میں تھے ۔ کابل مرکزی بینک نوٹ چھاپ رہا تھا اور  ملک کے دیگر بڑے شہروں میں ائیر پورٹ بن رہے تھے ۔ 

اس وقت تک افغانستان کے پاس بارہ ہوائی جہاز تھے جس کے پائلٹ جرمن تھے لیکن بادشاہ نے پچیس نوجوانوں کو پائلٹ کورس سکھانے کے لئے ماسکو بھیجا تھا ۔ ہر زون کا اپنا اخبار تھا جس میں وطن دوستی ، اتحاد اور ترقی کی خبریں نشر ہوتی تھیں ۔ بادشاہ کے حکم پر بڑے شہروں میں لائبریریاں بنی ہوئی تھیں جس سے لوگ امانتا" پڑھنے کے لئے کتابیں لے جاتے تھے ۔ 

ہم ایک سو اسی آدمیوں نے دو مہینے ایک تہہ خانے میں گزارے ، زندگی کی ضرورت کی ہر چیز اسی تہہ خانے میں دستیاب تھی ، دو مہینے تک ہم لوگ صرف خبریں سنتے رہے خبریں بوجھ نہیں تھیں بلکہ دلچسپ تھیں ، ہم  لوگوں نے ان دو مہینوں میں بہت کچھ سیکھ لیا ہمارے پاس انگریز ، عربی ، ہندوستانی اور افغان استاد آتے تھے ۔ یہ لوگ ہمیں افغانستان کے لوگوں کے رسم و رواج ، عادات اور ان کے دینی جذبات کے بارے میں لیکچر دیتے تھے ۔اس کے ساتھ انہوں نے ہمیں جاسوسی کی معلومات اور آلات بھی سکھائے تھے ۔ دو مہینے کی تربیت کے بعد ہمارے مختلف نام رکھ دئے گئے ۔ 

مارگیر آغا ، غیبکو ، پیر کرم شاہ ،مدینے کا خواجہ ، یعنی ہر نام میں پیر ، خواجہ خلیفہ اور حضرت کا ہونا لازمی تھا کیونکہ ہم ایک ایسی قوم میں جارہے تھے جو مذہب کے ساتھ سب سے زیادہ مخلص تھی ۔ 

میرے لیے " پیر بغدادی "  کے نام کا انتخاب کیا گیا ۔ 

ہر کسی کو دو زبانیں  آنا لازمی تھا ۔ جس میں ایک پشتو اور دوسری فارسی لیکن دو آدمیوں کے علاوہ باقی کسی جو یہ زبانیں بولنے اور سیکھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوئیں۔ 

کسی کو پشتو آتی اور کسی کو فارسی ، پہلے ایک اونچے اور خوبصورت انگریز کو پیر گونگ یعنی گونگے پیر  جا نام دیا کوئی اور چارہ نہیں تھا کیونکہ نہ تو اس کو پشتو آتی تھی اور نہ ہی فارسی اس کے ساتھ ایک افغانی جاسوس کی ڈیوٹی لگا دی گئی تاکہ وہ لوگوں کو پیر صاحب کے اشاروں کا مطلب سمجھا سکے ۔ 

دوسرا ایک داڑھی والا ہندو تھا جس کو ہندی جے علاوہ کوئی اور زبان نہیں آتی تھی تو اس کو دیوبند پیر کا لقب دے دیا گیا ۔ 

پھر پچاسی آدمیوں سے چالیس گروپ بنائے ، ہر کسی کے ساتھ ایسے دو آدمی کی ڈیوٹی لگائی جو علاقے سے واقف ہوں ۔ ہمارے لئے کوئی دشواری نہیں تھی صرف دو گھوڑے اور جاسوسی کے آلات کے ساتھ ایک دوربین ، دو پسٹل ، کچھ ادویات اور خوراک کے سامان کے ساتھ دینی کتابیں بھی ہمیں دی گئیں جو ہمارے لئے محافظ تھیں کیونکہ ان کے ہوتے ہوئے کسی کو ہم پر شک کرنے کا کوئی جواز نہیں ملتا ۔ یہاں تک کہ وزیر کے علاقے کی ایک مسجد میں بغیر قرآت کے نماز بھی پڑھائی ۔

اچانک موٹی آواز  میں ایک شخص نے کہا ! پیر نے اپنی شلوار تک الٹی پہنی ہے ، جس کواپنی شلوار کا پتہ نہیں وہ وہ بچھڑا ہوا بکرا کیا خاک ڈھونڈے گا ۔


کبھی کبھار پیر کرم شاہ ( لارنس ) سے بھی باخبر ہوتا رہا مگر لارنس مجھ سے ڈیڑھ سوا دو کلو میٹر دور تھا ۔ پھر بھی اسکی کرامات مجھ سے زیادہ اثر ناک ہوتیں ۔ اسی علاقے سے ایک آدمی آیا اوروہ قسمیں کھا رہا تھا کہ پیر کرم شاہ ( لارنس ) نے میرے سامنے خود کو پرندہ بنایا اور اڑ گئے ۔ 

میں نے دو تین بندوں کو تنخواہ پر رکھ کر لنگر کھول دیا بہ یک وقت دو ڈھائی سو لوگ لنگر میں چھوٹا گوشت کھاتے۔

لوگ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ جو لوگ شکرانے کے لیے دنبے لاتے ہیں وہ واپس وہیں ذبح کر کے ہم لوگوں کو کھلا دیتء تھے ۔ لیکن پھر بھی حیران تھے اور یہ کہتے تھے کہ یہ پیر بغدادی کی کرامات ہیں جو بی یک وقت اتنے لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور آہستہ آہستہ ایک دوسرے کو یہ بھی بولتے تھے کہ پیر بغدادی کا لنگر جنات چلاتے ہیں ۔

مائیکل سے معلوم کیا امان اللہ خان کی قراردادوں میں اضافہ ہوا تھا ، معدنیات پر کام ہو چکا تھا ، صنعت ترقی کر کی تھی ، کابل شہر میں لوکل ریل گاڑی چل رہی تھی اور سینکڑوں۔ نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے لیے فرانس ، جرمنی ، اور ترکی جا چکے تھے ۔ 

بس مجھے بھی بھروسہ چاہیے تھا جو مل گیا سارے علاقے میں میرا اختیار تھا حتی کہ پیر بغدادی کے حکم کے بغیر چڑیا بھی آسماں میں نہیں اڑ سکتی تھی گھروں ،ندیوں ،مسجدوں اور پورے علاقے میں پیر بغدادی کے کرامات کے قصوں کی چرچے ہو رہے تھے میں زمین پر تھا مگر لوگ آسمان میں کسی سفید کبوتر کو دیکھ کر کہتے تھے کہ دیکھو پیر بغدادی اپنے اپ کو سفید کبوتر بنا کر اپنے مریدوں پر چکر لگا رہا ہے جو بھی مجھے دیکھتا تو وہ اپنے اپ پر دوزخ کی آگ کو حرام سمجھتا ۔

اب اصل ہدف کا وقت اگیا تھا بادشاہ کی محبت کا تذکرہ بھی کرتا تھا مگر اخر میں ( اگر )  کا لفظ استعمال کرتا جسے بادشاہ اچھا انسان ہے لیکن اگر وہ داڑھی رکھتا تو اور بھی بہتر ہوتا ۔  پھر بعد میں ہنس کر  بولتا خیر ہے ، بادشاہ جوان ہے ۔ ایک دن سمجھ جائے گا ۔ ہر جگہ پر میں بادشاہ ( امان اللہ خان ) کی صفات بیان کرتا رہا لیکن اخر میں ( اگر ) کا لفظ استعمال کر کے بادشاہ کی ساری صفات پر پانی پھیر دیتا تھا ۔

کچھ دیر تک ہم گاؤں کے ملاؤں  اور بزرگوں کے ساتھ بیٹھے رہے ۔ کھانا کھا کر سب وگ نماز کے لیے گئے اور پیر سکون سے بیٹھ گیا کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ پیر صاحب سے نماز کے بارے میں بات کرے ۔

چانسلر کہنے لگا " اس شخص کا نام حبیب اللہ کلکانی ہے مگر بچہ سقاؤ کے نام سے مشہور ہے " کچھ عرصہ پہلے اس نے پشاور میں سونے کی ایک دوکان کو لوٹا تھا کیونکہ یہ اس سونے کی دوکان کے سامنے چائے کی پتی بیچتا تھا ، یہ شخص یہاں سے بھاگ کر پارہ چنار میں چوری کے الزام میں گرفتار ہو گیا ہے اور پارہ چنار کے انگریز میجر نے بتایا کہ یہ شخص افغانستان کے بادشاہ امان اللہ خان سے سخت نفرت کرتا ہے اور اسکے پاس دیگر ڈاکوؤں کا ایک بہت بڑا گروہ بھی ہے اور ہم اس شخص سے بہت بڑا اور خاص کام لے سکتے ہیں ۔ 

میجر نے اس کو چھوڑنے سے پہلے ایک جاسوس کو راستے میں تعینات کر دیا کہ میں اس شخص کو چھوڑ رہا ہوں تم راستے میں درویش بن کر اس کو یہ بولو کہ تم ایک دن ضرور افغانستان کے بادشاہ بنو گے اور ہمارے جاسوس نے بھی ایسا ہی کیا ۔ 

بچہ سقاؤ ( حبیب اللہ ) سیدھا کابل کے کلکان گیا اور وہاں ساتھیوں کے ساتھ بڑے ڈاکے ڈالنا شروع کر دیا کبھی کبھار حکومتی کاروان کو بھی لوٹا کرتا تھا اس شخص نے کچھ ہی عرصے میں بڑا نام بنا لیا اور یہ بات امان اللہ خان تک پہنچ گئی ۔ 

بچہ سقاؤ کی ساری باتیں روایتی ،جنات اور غیبی مدد کے بارے میں تھیں وہ ابھی سے اپنے آپ کو افغانستان کا بادشاہ سمجھتا تھا ۔ وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ سارے دھوکے باز ،پیر ، ملا ، درویش ، رشوت خور حکومتی اور مختلف محکموں میں غلط کام کرنے کے جرم میں نوکری سے برخاست لوگ یہ سب امان اللہ خان کے خلاف اور بچہ سقاؤ کے حامی تھے ۔ 

ہمارے تبلیغات نے اتنا اثر کیا ہوا تھا کہ اگر کوئی غلطی سے بھی  امان اللہ خان کے نام کے ساتھ ( غازی ) کا لقب لگاتا تو اس کا سر قلم ہو جاتا حتی کہ فوج میں بھی  وہ لوگ امان اللہ خان کے خلاف تھے جو غبن کرنے کے حق میں تھے اور بچہ سقاؤ نے ان لوگوں میں خادم رسول کا لقب پایا تھا سب لوگ بچہ سقاؤ کے ظلم اور ڈاکے دیکھتے تھے مگر ڈر کی وجہ سے کوئی آواز نہیں اٹھا سکتا تھا ۔ 

اب اگ بھڑکانے کا وقت آگیا تھا بچہ سقاؤ کی قیادت میں ہزاروں لوگ کابل کی  طرف روانہ ہوگئے دو دن بعد اطلاع ملی کہ امان اللہ خان کابل سے صوبہ غزنی کی طرف روانہ ہوگیا ہے  میں نے سکون کا سانس لی کیونکہ ہمارے چھڑکائے ہوئے تیل پر لگی آگ آسمان کو چھو رہی  تھی ۔ 

ایک ہفتے بعد میں کابل گیا ۔

اہ ! اہ!  پورا شہر ویران تھا ۔ امان اللہ خان کے دفتر گیا پوری جگہ کو آگ لگا دی گئی تھی ۔ 

پہلی تقریر شور بازار کے حضرت مولانا مجددی نے کی جس نے اپنی تقریر میں بچہ سقاؤ کے کارناموں کا ذکر اور تعریف کی اور اخر میں بچہ سقاؤ کو غازی اور خادم دین کا لقب دے کر کہا کہ اس نے ہمارے وطن کو کفری نظام سے نچا کر ہم سب پر مہربانی اور رحم کیا ہے  پھر ایک لمبی دعا کر کے بیٹھ گیا ۔ 

پھر حبیب اللہ کلکانی ( بچہ سقاؤ ) اٹھا اور تقریر شروع کی ۔ پہلے اس نے اپنے کارنامے بیان کی پھر کہنے لگا کہ امان اللہ خان کی بت پرستی اور کفری نظام اسبات کاسبب بنی کہ میں اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ۔ شروع میں میرے پاس صرف چودہ ہزار روپے اور انیس نوجوان تھے جو آہستہ آہستہ سب کچھ بڑھتے ہوئے آخر آسمانی فرشتے بھی میری مدد اور امان اللہ خان کے خلاف زمین پر اتر گئے ۔ اور اسی طرح اس نے کہا کہ بیت المال کے پیسے اب میں اپنے مسلح لوگوں اور ملاؤں پر خرچ کروں گا ۔ لڑکیوں کی تعلیم پر مک۔ل پابندی لیکن لڑکوں کے لئے صرف شیطانی مضامین یعنی فزکس ، کیمسٹری ، بیالوجی اور ریاضی پڑھنے پر پابندی ہوگی ۔ اور انگریزی کے بجائے آج سے مدرسوں میں صرف دینی مصامین پڑھائے جائیں گے افغانستان میں جتنے بھی سکول ہیں ان سب کی جگہ مدارس کھلیں گے اور اسی طرح عدلیہ اور تعلیم کی وزارتوں کی بھی جوئی ضرورت نہیں ہے ۔ 

ہسپتال اور ڈاکٹروں کی بھی ضرورت نہیں کیوں کہ اج سے یہ علاج معالجہ ملا،اسر پیر کوگ تعویز کے زریعے کریں گے ۔ افغانستان میں صرف برطانوی سفارت خانے کی اجازت ہوگی کیونکہ ان لوگوں نے امان اللہ خسن کے خلاف ہماری مدد کی مگر باقی سب کفری ملکوں کے سفارت خانے بند کرنے کا اعلان کرتا ہوں پھر لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ جاؤ آج کے بعد مرغی اور چکور کڑا کر اپنے شوق پورے کرو کیونکہ آج کے بعد افغانستان بادشاہ میں ہی ہوں ۔ 

کچھ دن بعد پھر شاہی محل ( ارگ ) کا چکر لگایا دیکھا مہ بچہ سقاؤ ایک بڑی کرسی پر بیٹھا ہوا ہے اور سامنے کڑائی والے دو مرغے باندھے ہوئے تھے ، وہ کچھ پڑھ نہیں سکتا تھا صرف سن سکتا تھا کیونکہ وہ مکمل طور پر ان پڑھ شخص تھا ساتھ کھڑے لوگ اسے درخواست اور فائل وغیرہ پڑھ کر سناتے تھے ۔ 

سوزن واپس کمرے میں گئی اور کتابچہ اٹھا لیا۔ 


ڈیوڈ جونز نے اکتیس سال بعد چھ اپریل انیس چالیس کو لکھا تھا ۔ 

" پچھلے دن ڑی وی پر دیکھ رہا تھا کہ زندگی کے بہتر سال گزر گئے تھے کانوں سے ٹھیک سے سن بھی نہیں سکتا تھا اچانک ٹیلی وژن پر ایک خوبصورت چہرہ نظر آیا وہ چیرہ جانا پہچانا لگ رہا تھا میں نے دماغ پر زور ڈالا تو یاد آیا کہ یہ تو افغانستان کا بادشاہ امیر امان اللہ خان ہے ، فورا" اٹھا اور ٹیلی وژن کی آواز بڑھائی سنا تو امان اللہ خان سویزر لینڈ کے ایک ہسپتال میں جان کی بازی ہار چکا تھا " ۔

Comments

Popular posts from this blog

New Pashto Poetry Lines And Lyrics. Pashto Tappay In Written Text.

New Pashto Poetry Lines And Lyrics. Pashto Tappay In Written Text. Pashto Poetry Two Lines. Pashto Tappay In Text. ‏د خوېندو لوڼو سوداګره کږه شمله چې په سر ږدې خندا راځينه ټپه# که د پیزوان خاطر دې نه وے تابه زما د غاښو زور لیدلې وونه #ټپه ‏ستا یارانۍ ته مۍ زړه کیږۍ په څه خبره به اشنا درسره شمه خلک پېزوان خونړی بولي تا په نتکۍ د کلا برج ونړونه  Pashto New Tapay On Images 2022. Pashto Tappay In Text. Eid Mubarak Pashto Tapay. Pashto Eid Poetry. اختر ته ځکه خوشالیګم چی مسافر جانان می کلی ته راځینه Eid Mubarak In Pashto Tapa. Folk Songs Akhtar. اختر پرون وو پرون تیر شو تا تر څنګلو پوري نن سره کړل لاسونه Akhtar Janan Aw Pukhto Tapay. Eid Mubarak Poetry Pashto. خلکو اختر کښی غاړی ورکړی زه بی جانانه ګوټ کښی ناست ژړا کوومه خپل د راتلو لوظ دې ياد دے؟ سبا اختر دے انتظار به دې کومه Eid Mubarak In Pashto Language. Akhtar Di Mubarak Sha. اختر دی مبارک شه مورې څلور کمڅۍ مې وکړه دوه مې د خيال او دوه د کچ اختر ټالونه په ما دې ورځ د لوی اختر کړه چې دې په سترګو راله کېښودل لاسونه يوه روژه بله غرمه د...

Zama Zargiya Meaning In Urdu. Pashto Words Meanings

Zama Zargiya Meaning In Urdu. Pashto Words Meanings. Learn Pashto Words and Meanings. Info Different Contextual Uses Of Pashto Phrase Zama Zargiya or Zama Zargia. Pashto Language Words Internet Is Searched For Pashto Words Meaning Daily as People Speaking Languages Other Than Pashto Want To Learn Some Basic and Most Used Phrases. Search For Pashto Phrase " Zama Zargiya " Increased By 1150 % Today. Zama Zargiya Meaning In Urdu.  میرا جگر یا میرے دل کا ٹکڑا میرا جگر،  میرا محبوب یا میرے محبوب The Phrase Simply Means My Darling Or Sweetheart In English. Pashto. Zama Zargiya زما زړګیه English. Darling Or My Darling Or My Dear Or My Sweetheart. In Urdu Zama Zargiya Means " Meray Aziz " Meray Mehboob" Or Meray Humnasheen. Best Phrase For Zama Zargiya In Urdu. Meray Jigaar Or Jiggar Pashto Word Zama Means Mera Or Meray.  Pashto Word Zargay Means Dil Or Jigar.  Pashto Language Words زما زړګیه میرے محبوب میرے ہم نشین میرے جگر کا ٹکڑا "Zama Zargia Endearment Urdu...

Understanding the UAE Visa Ban: Reasons and Implications

پاکستانیوں کے لیے یو اے ای ویزا پابندی کے بارے میں تفصیلی خبر اور وجوہات متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے پاکستانی شہریوں پر ویزا پابندی عائد کر دی ہے، جس کی وجہ ان سرگرمیوں کو قرار دیا گیا ہے جن سے یو اے ای کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ یو اے ای میں موجود پاکستانی سفارتخانے نے تصدیق کی ہے کہ یہ پابندی نافذ العمل ہے اور یہ تمام پاکستانی شہریوں پر لاگو ہوتی ہے، چاہے وہ کسی بھی مقصد کے لیے سفر کر رہے ہوں۔ یو اے ای حکومت نے پابندی پر کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا، لیکن پاکستانی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ یو اے ای حکومت کو درج ذیل سرگرمیوں پر تشویش ہے: یو اے ای حکومت کے خلاف مظاہرے کرنا سوشل میڈیا پر یو اے ای حکومت پر تنقید کرنا مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونا یو اے ای حکومت نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی ہے کہ ان سرگرمیوں میں ملوث پاکستانی شہریوں کی تعداد دیگر قومیتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پاکستانی سفارتخانے نے پاکستانی شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ یو اے ای کا سفر کرنے سے گریز کریں جب تک کہ ان کے پاس درست ویزا نہ ہو۔ سفارتخانہ یو اے ای حکومت کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو حل کرنے اور پابندی ہٹانے کے...