Who Was Gilaman Wazir? Gelaman Wazir Life Story and Poetry. Sardar Jamal.
ګیله من وزیر څوک و؟
حضرت نعیم [ګیله من وزیر] د پښتون ژغورنې غورځنګ د مشر منظور پښتین نږدې ملګری، د دغه غورځنګ د مرکزي شورا غړی او پر دې سربېره د پښتو ژبې شاعر و.
ده اکثرآ په خپلو انتقادي او انقلابي شعرونو کې پښتانه یووالي ته رابلل او پر افغان خاوره به یې د تېرو کلونو د جګړو او ناخوالو یادونه کوله.
نوموړی همدا راز د دغو ناخوالو له کبله پر خواله رسنیو او د پيټيایم په غونډو او جلسو کې د پاکستان پر اېسټبلېشمنټ او وسله والو ډلو دواړو د توندو او ډانګپېیلو نیوکو له کبله مشهور و.
د یادونې ده، چې د پاکستان حکومت ګیله من وزیر د دا راز انتقادي څرګندونو له کبله څو ځله نیولی او څو میاشتې بند کې هم ساتلی و.
( د بي بي سي پښتوپاڼې نه )
گیلہ من وزیر او د ھغہ وجنہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیلہ من وزیر یو وزیرستانے زوان وو یعنی وزیرستان سرہ ئے تعلق ساتلو قبیلہ ئے وزیر وہ عمر ئے دا وخت د دیرشو کالو نہ کم وو خو د قام اولس درد ورتہ دومرہ فھم ورکڑے وو چے ذھنی عمر ئے د اتیا کالو نہ برہ لگیدو۔
گیلہ من لکہ د نورو پختنو زوانانو پہ شان پہ خپل غنی وطن کے د مسافرئ جوند تیرولو او سہ وخت چے محسود تحفظ موومنٹ جوڑ شو نو دغہ وخت گیلہ من پہ ملیشیا کے مزدوری کولہ۔
سہ وخت چے گیلہ من پہ ملیشیا کے د محسود زغورنے غورزنگ غگ واوریدو نو د ھلتہ نہ د پنجرے نہ پہ چغار شو او انقلابی شعرونہ ئے ووئیل چے د ھغے پہ جرم کے د پاکستانی ادارو پہ رپورٹس گرفتار کڑے شو او سہ بلھا مودہ ئے جیل کے تیرہ کڑہ او بیا د یو باغی پہ طور ئے ویزہ ختمہ کڑے شوہ او پاکستان تہ د جیل نہ راولیگلے شو۔
دا د گیلہ من د چغے زور وو چے یو وڑوکے غوندے تحریک محسود تحفظ موومنٹ پہ یو غٹ تحریک پختون تحفظ موومنٹ کے بدل شو او گیلہ من پکے تر اخری سلگئ پورے ڈیر اھم رول ادا کڑو۔
چونکہ د گیلہ من غگ د جیلونو د سختو نہ سختو سزاگانو قلار نہ کڑے شو نو زکہ اغیار سرہ بلہ لار نہ وہ چے مرغوٹ ورتہ تاو کڑی او دغہ غگ ھمیش ھمیش دپارہ غلے کڑی
تر سو چے د یو اتل د مرگ خبرہ وی نو پہ ظاھرہ د ذاتی دشمنی رنگ ورکڑے شی خو پہ شا ئے پٹ لاسونہ وی لکہ سنگہ چے د علی وزیر خاندان پہ ذاتی دشمنئ کے مڑ دے خو پہ شا دشمنانو سرہ پٹ لاسونہ ضرور دی۔
تر سو چے د گیلہ من خبرہ دہ نو د ھغہ ازاد داوڑ سرہ تو تو میں میں ضرور شوی وو کوم چے د پختنو د جوند جواک یوہ عام خبرہ دہ او بیا د دوی پہ مینز کے صلح صفائی ھم شوے وہ خو بل وخت چے ازاد داوڑ تہ پٹو لاسونو ملہ ڈبولے دہ او ورتہ ئے وئیلی دی چے ماما سترگے دے سرے دی نو بل وخت د سرو سترگو ماما پہ سر خار اسلام اباد کے پہ گیلہ من قاتلانہ حملہ کڑے دہ او ھغہ دومرہ جوبل کڑے شو چے بیگاہ ئے پہ پمز ھسپتال اسلام اباد کے ساہ ورکڑہ
پہ گور ئے نور شہ
نوٹ۔۔۔باچاخان بابا چے د پیرنگی خلاف تحریک شورو کولو نو د ٹولو نہ اول ئے د پختنو پہ مینز کے ذاتی دشمنئ ختمے کڑے او دا زکہ چے پختون د خپل پختون ورور خلاف ڈیر پہ
سردارجمال
ګیله من وزیر څوک و؟
حضرت نعیم [ګیله من وزیر] د پښتون ژغورنې غورځنګ د مشر منظور پښتین نږدې ملګری، د دغه غورځنګ د مرکزي شورا غړی او پر دې سربېره د پښتو ژبې شاعر و.
ده اکثرآ په خپلو انتقادي او انقلابي شعرونو کې پښتانه یووالي ته رابلل او پر افغان خاوره به یې د تېرو کلونو د جګړو او ناخوالو یادونه کوله.
نوموړی همدا راز د دغو ناخوالو له کبله پر خواله رسنیو او د پيټيایم په غونډو او جلسو کې د پاکستان پر اېسټبلېشمنټ او وسله والو ډلو دواړو د توندو او ډانګپېیلو نیوکو له کبله مشهور و.
د یادونې ده، چې د پاکستان حکومت ګیله من وزیر د دا راز انتقادي څرګندونو له کبله څو ځله نیولی او څو میاشتې بند کې هم ساتلی و.
( د بي بي سي پښتوپاڼې نه )
گیلہ من کی کہانی، حالات کی زبانی
#شازار جیلانی
زخمی ہوجانے کی خبر ملنے اور ابتدائی معلومات لینے کے بعد، میں نے گیلہ من کے بارے میں اپنی پہلی پوسٹ میں لکھا، کہ "میں نے دعائیں مانگنی چھوڑ دی ہیں، ورنہ گیلمن کیلئے دعا ضرور کرتا، خواہش ہے کہ وہ لمبی، محفوظ، اور خوشحال زندگی جیئے"۔
دعائیں اس کیلئے کی جاتی ہیں، جس میں زندگی کی کوئی رمق موجود ہو، گیلمن زندہ نہیں تھا، زندہ رکھا گیا تھا۔ پہلی سرجری کے بعد، کلینکلی اس کی موت کب کی واقع ہوچکی تھی، لیکن اس کے باوجود تحریک کا سربراہ اور گیلہ من کے ساتھی آخری کوشش کے طور پر ڈاکٹروں کے بین الاقوامی ٹیم کے ذریعے یقینی بنانا چاہتے تھے، کہ گیلہ من کی صحت اور زندگی کے بارے میں کہیں کوئی معمولی چانس ہو، کہیں پر کوئی دستِ مسیحا موجود ہو، تو وہ بروئے کار لایا جائے۔ ورنہ پمز کے ڈاکٹر بہت پہلے سے مایوسی کا اظہار کر چکے تھے۔
میں نے دوسری پوسٹ میں لکھا "وہ پنجاب میں ہوتا تو مشاعرے لوٹتا اور وی آئی پی ہوتا۔ لیکن وہ اسلام آباد میں ہے۔ اس کا جسم زخم زخم، پنبہ پنبہ ہے۔ اس کی کھوپڑی چٹخی ہوئی ہے۔ اس کی نبض کی دھمک اور دل کی دھڑکن مشینوں کے ذریعے ماپی جا رہی ہیں۔ اس کی سانسیں وینٹی لیٹر کی مرہون منت ہیں"۔ میرے الفاظ، 'اس کی سانسیں وینٹی لیٹر کی مرہون منت ہیں'، سے صاف ظاہر تھا کہ اس کی زندگی کا انحصار ایک مشین کی موجودگی پر ہے، ورنہ وہ نہیں ہے۔
"اس کے دوست اور دلدار، اس کی شاعری کے دیوانے، اس کی مزاحمت کے پرستار، اس کے چاہنے والے اور بہی خواہ، خوفزدہ کونجوں کی طرح ایک دوسرے کی گردن میں گردن ڈالے ایک ایک حرکت، ایک ایک سرسراہٹ پر سہم جاتے ہیں۔ وہ سب رونا چاہتے ہیں، لیکن اس کی بجائے ایک دوسرے کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں"۔
درج بالا پیرگراف میں، خوفزدہ کونجوں سے لیکر جھوٹی تسلیوں تک میں نے یہی حقیقت بیان کی تھی کہ قریبی لوگ سب جانتے ہیں، کہ گیلہ من کی حقیقی حالت کیا ہے؟ وہ جانتے تھے اس لیے ہر آہٹ اور سرسراہٹ پر خوفزدہ ہوجاتے تھے کہ خدا خواستہ آنے والا کیا خبر لیکر آئے۔
"میں نہیں جانتا کہ اس تحریر کو کس طرح ختم کردوں۔ منظور پشتون کو حوصلہ دوں اور بتادوں، کہ قوم ایسی حالت میں لیڈر کی طرف دیکھتی ہے۔ سمندر بنو، یہ لیڈرشپ کا امتحان ہے، یا تمام پختونوں کو بتادوں کہ اجتماعی طور پر رونے کا اہتمام کردو، تاکہ گلے میں پھنسا ہوا درد آنسو بن کر بہہ نکلے"۔ یہاں میں نے منظور پشتون کو حوصلہ نہیں دیا تھا، اس کے ساتھ تعزیت کی تھی، اور مشورہ دیا تھا کہ بہت ہوگیا، اب اعلان کردو، کہ قوم اجتماعی طور پر رو لے، تاکہ گلے میں پھنسے ہوئے، گیلہ من کی جواں مرگی اور جدائی کا درد آنسو بن کر بہہ نکلے۔
مجھے یقین نہیں تھا کہ گیلہ من ان حالات میں زندہ رہ سکتا ہے، لیکن یہ میری خواہش تھی کہ وہ جیئے، اس لیے کسی اور جگہ لکھا کہ "وہ پیدائشی فائٹر ہے، وہ یہ لڑائی بھی جیتے گا، وہ زندہ رہے گا۔ یقین کریں"۔ یہ میری خواہش تھی، یہ آپکی بھی خواہش تھی، اس لیے، اس ککے بعد میں نے ایک پوسٹ لکھی، اور پھر مٹادی، جو پشتو کے ایک ٹپے پر مشتمل تھی۔ "پہ مرګ دې نہ مري جانان خوږ دې۔۔۔ کټ کې دې پروت وي چہ پوښتنې لہ ورځمہ" یعنی میرا یار موت کی بانہوں میں نہ چلا جائے، بیشک عمر بھر بیمار پڑا رہے اور میں اس کی عیادت کیلئے آتا جاتا رہوں۔ لیکن یہ گیله من کیلئے دعا نہیں بد دعا تھی، اس لیے میں نے پوسٹ مٹا دی۔
مشر منظور احمد پشتون نے اپنے دوسرے بیان میں گیلہ من کے سانحے کو عارف وزیر، ارمان لونی اور عثمان کاکڑ کے سانحات کے ساتھ نتھی کیا تو مجھے سو فیصد یقین ہوگیا، کہ گیلہ من اسی راستے پر جانے کیلئے تیار ہے، جس پر مذکورہ قافلہ بڑی شان کے ساتھ گذرا ہے۔
دبئی سے گیلہ من کے بھائی پہنچ گئے، اور گاؤں سے اس کی فیملی، تو مزید دل بیٹھ گیا، کہ گیلہ من بول سکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے، لیکن اسے دیکھنے کیلئے قافلے آ آ کر اتر رہے ہیں۔ نمازیں پڑھی جارہی ہیں، نفلیں ادا کی جا رہی ہیں، تہجد ادا کئے جا رہے ہیں، دعائیں اور فریاد کئے جا رہے ہیں، لیکن وہ پمز ہسپتال کی بلڈنگ سے اوپر نہیں جا رہی تھیں، کیونکہ گیلہ من موجود تو تھا، لیکن نہیں تھا۔ تبھی حاجی صمد نے آخری رات لکھا کہ میں اور گیلمن دونوں ایک ساتھ موجود ہیں، میں اس کے ساتھ گپ شپ کر رہا ہوں، لیکن وہ خاموش پڑا ہوا ہے جواب نہیں دیتا۔
پھر سرِ شام پی ٹی ایم کی ذمہ دار پیجز سے اعلانات آنے شروع ہوگئے، کہ بیرون ملک سے ڈاکٹروں کی ٹیم آنے والی ہے، ان کے معائنہ کے بعد اخری فیصلہ کیا جائے گا۔ "آخری فیصلہ"؟ اس کے بعد کیا رہ جاتا ہے؟ جنازے کا اعلان، مسافر کی رخصتی کا اہتمام!
اخری شام ایک اور عجیب سلسلہ شروع ہوا۔ عالمزیب محسود اور زکیم نے دو انٹرویو دیئے، اور دونوں میں گیلہ من کیلئے ماضی کا صیغہ استعمال کیا گیا۔ میں نے اس پر احتجاج بھی کیا کہ آپ کیوں گیلہ من کیلئے، ہے کی بجائے تھا لفظ استعمال کر رہے ہو؟ لیکن وہ گیلہ من کے غم کو قابلِ برداشت بنانے کیلئے جان بوجھ کر کیا جا رہا تھا۔ جس ذریعے نے ایک دن پہلے گیلہ من کی موت کی خبر پھیلائی تھی وہ صحیح تھا۔
فیض نے لکھا ہے جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔ اور باچا خان نے اپنی سوانح عمری میں ایک پشتو ضرب المثل لکھی ہے کہ کونی مری او فریاد ی پاتی کیگی، یعنی بزدل مر کر چلا جاتا ہے لیکن اس کی آہ و زاریاں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ مرتے تو اب ہیں اس لیے کوئی کیسے مرا یہ اتنا اہم نہیں ہوتا، اہم یہ ہوتا ہے کہ کوئی مرنے سے پہلے کیسے جیا۔
گیلہ من جوان تھا، بے خوف تھا، اپنے مقصد کے ساتھ مخلص اور کمٹڈ تھا۔
پختون روایتی اسطورے میں جوانی میں بہادری سے لڑتے ہوئے مرنا بہت اعلیٰ درجے کی موت شمار ہوتی ہے۔ سینے پر گولی کھانا، چھلنی سینہ لیکر گھر آنا، بزدلوں کی طرح لڑائی میں پیٹھ نہ دکھانا، قوم و وطن کی خاطر قربان ہونا، زلف کے دھاگے سے کفن سینا، ایسے موضوعات ہیں، جن پر بیشمار پشتو ٹپے کہے گئے ہیں۔ ٹپہ پشتو شاعری کا لوک موضوع ہے، جس کی وافر اکثریت عورتوں کی تخلیق ہے۔ جن میں عشق و محبت کے ٹپوں کو چھوڑ کر، اسی فیصد کے قریب ٹپے لڑائی میں بہادری دکھانے اور جنگ سے منہ نہ موڑنے کے طعنوں پر مشتمل ہے۔ پشتون خواتین اور دوسری اقوام کی خواتین میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پختون خواتین اپنے مردوں کو جنگ پر بھیجتی ہیں، جبکہ دوسری طرف عموماً ایسا نہیں ہوتا۔
لشکروں کے راستے میں رہنے کی وجہ سے پشتون کی زندگی مختصر، لیکن بھرپور ہوتی تھی۔ اسے پتہ ہوتا تھا کہ جنگ کی مڑی کیگی، یعنی جنگ میں اموات واقع ہوتی ہیں، اس لیے ایک طرف بیٹھ کر مرنے سے بہتر ہے کہ لڑ کر مرا جائے۔ اگر گیلہ من آج سے پچاس سال پہلے زندہ ہوتا تو ایسی موت مر کر تابندہ ہوتا۔ اگرچہ آج بھی لیجنڈ بن کر مرا ہے۔ اور آخر کس کی خاطر منظور پشتون اور علی وزیر نے اپنے ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ تین دن اور تین راتیں آنکھ جھپکائے بغیر ہسپتال کی لان میں گھاس پر بیٹھے گذارے ہیں؟ لیجنڈ اور کیا ہوتا ہے۔
میری ایک خواہش تھی کہ گیلہ من ایک دفعہ پمز کے باہر موجود لان پر نکل کر دیکھ لیں، کہ پختون اس سے کتنی محبت کرتے ہیں، اور سوشل میڈیا سکرول کرکے پڑھ لے، کہ پوری دنیا میں گیلہ من کا طرح ٹرینڈ کر رہا ہے، پھر بیشک چلا جائے تاکہ دوسری طرف وہ گیلہ من ہوکر نہ جائیں مطمئن ہوکر جائیں۔
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.