Who Was Sartoor Faqir of Buner Swat. Sartur Faqir against British Imperials.
سر تور فقیر!
ملک حمداللہ خان کا بیٹا سعداللہ خان عرف سرتور فقیر 1830 کے لگ بھگ "ریگا" بونیر میں پیدا ہوئے تھے۔ جوانی میں ہندوستان، کابل اور تاجکستان کا سفر کیا۔ دورانِ سفر انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کا جذبہ موجزن ہوا۔ اسی جذبۂ حریت کی بدولت واپس آکر بونیر کی بجائے سوات میں سکونت اختیار کی اور فتح پور میں میں رہنے لگے۔ کیوں کہ ان کے مطابق یہی جگہ لشکر تشکیل دینے کے لیے موزوں تھی۔ آپ نے لوگوں کی نفسیات کے مطابق اپنے آپ کو پیری اور بزرگی کی شکل میں آشکارا کیا،جس سے انکےعقیدت مندوں میں اضافہ ہوا۔
پختونخوا میں جہاں انگریز حکومت کے حمایت یافتہ جاگیردار اور خوانین موجود تھے، وہاں سر تور فقیر جیسی شخصیت کو دشمنی میں ’’میڈملا‘‘ کا خطاب ملا تھا کیونکہ انہوں نے اپنے وقت کے سپر پاور "برطانیہ"کو للکارا تھا۔
آپ ’’ملامستان‘‘ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔
سرتور فقیر، ایک مجاہد، ایک فقیر اور عظیم انقلابی شخصیت تھے۔
سرتور فقیر جوانی میں کبڈی کا ماہر اور زبردست کھلاڑی تھا۔ اس نے بچپن سے مذہبی تعلیم حاصل کرنے کا عمل شروع کیا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اجمیر (ہندوستان) تک گیا۔ وہ ہندوستان کے علاوہ افغانستان بھی گیا تھا۔
سرتور فقیر کچھ عرصہ کے لیے اجمیر اور ہندوستان کے دیگر علاقوں میں رہا ا ور 1895ء میں بونیر واپس آیا۔ یہاں بہت جلد اس کی بزرگی اور تقویٰ کی بات مشہور ہوئی۔ وہ سیدھا سادھا آدمی تھا اور سیاسی چالوں سے ناواقف تھا۔ہندوستان کے علاقہ اجمیر اور دوسرے شہروں میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد جب وہ بونیر واپس آیا، تو اس نے وہاں لوگوں کو جہاد کرنے کا کہا۔
سنہ1887ء کو اس نے لنڈاکی میں ڈیرہ ڈال دیا ۔
ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ اس کے روابط سے یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا ہندوستانی مجاہدین کے ساتھ تعلق بھی تھا ۔ ھڈئ ملا کے ساتھ بھی گہرے تعلقات تھے جو کہ والی افغانستان نے ملک بدر کرکے چمر کنڈ آ گئے تھے۔
سر تور فقیر نے اپنا ڈیرہ لنڈاکی میں ڈالا تھا۔
لنڈاکی میں اس کے ڈیرہ ڈالنے کا ذکر ایک لوک گیت میں ایسے ہوا ہے :
پہ لنڈاکی ورتہ دیرہ سرتور فقیر دے
ڈینگ فرنگے د زان پہ ویر دے۔
جنگ ملاکنڈ بارے ھڈئ ملا چمر کنڈ سے,سنڈاکئ ملا اورحاجی ترنگزئ بابا بمعہ اپنے دست راست عبداللہ جان خوگیانی کے مابین ایک طویل اور تفصیلی ملاقات لنڈاکی کے مقام پر ہوا تھا۔
اس ملاقات میں ھڈئ ملا نے ترنگزو بابا جی کو اپنا خلیفہ بھی مقرر کیا تھا اور ترنگزو بابا جی نے انگریزوں کے خلاف سنڈاکئ بابا کی مدد کے لئے عبد اللہ جان خوگیانی کو جنگ ملاکنڈ کے بعد سوات بھیجنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔
18جولائی سنہ 1897ء کو انگریزو ں تک یہ خبر پہنچی کہ ایک ناآشنا فقیر نے لنڈاکی میں ڈیرہ ڈالا ہوا ہے۔
ملاکنڈکا جہاد بہت مشہور ہے ۔ تبھی تو اولسی ادب میں اس کے کئی ایک حوالے پائے جاسکتے ہیں۔ جیسا کہ اس ٹپے میں کہا جاتا ہے کہ
پہ ملاکنڈ تورہ تیارہ شوہ
ھارونہ تورہ زلوہ چے رنڑا شینہ
سرتور فقیر نے لنڈاکی سے انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ 26 تاریخ سنہ 1897ء کو وہ کچھ لڑکوں کے ساتھ لنڈاکی سے نیچے کی طرف روانہ ہوا۔
تین دنوں میں سرتور فقیر نے بیس ہزار افراد جمع کرلئے۔ یہ لشکر ایک ہزار افراد سے ہوتا ہوا ملاکنڈ میں بارہ ہزار اور چکدرہ میں آٹھ ہزار افراد تک پہنچ گیا۔ الہ ڈنڈ اور دوسرے علاقوں کے لوگ سرتور فقیر کے ساتھ مل گئے اور شام کو ملاکنڈ پہنچ گئے ۔ اس لشکر نے رات نو بجے ملاکنڈ پر ہلہ بول دیا اور کوارٹر گارڈ کو قبضے میں لے لیا اور سارے اسلحہ پر قبضہ جما لیا۔
اس حملے میں اُنیس مجاہد شہید ہوئےجب کہ ایک انگریز کرنل ایک میجر، ایک لیفٹیننٹ اور پانچ سو اکیس سپاہی مارے گئے اور ایک ہزار تیس سپاہی زخمی ہوئے۔ اسی رات سعد اللہ (سر تور فقیر) کی ہدایت پر مجاہدین قلعہ چکدرہ پر حملہ آور ہوئے۔ وہاں بھی سخت مقابلہ ہوا۔
ستائیس جولائی کو لندن اور شملہ کی سرکار کو ان حملوں کی نوعیت کا اندازہ ہوا اور انھوں نے تیس جولائی 1898ء کو ملاکنڈ فیلڈ فورس کی منظوری دے دی۔ ملاکنڈ اور چکدرہ پر حملے ایک وقت اور ایک ہی دن ہوئے تھے ۔
انگریز فوج نے اٹھارہ اگست 1897ء کو جدید انتظامات کے ساتھ پھر حملہ کیا۔ قدم قدم پر غازی مدافعت کرتے رہے، تاہم اُنیس اگست کو یہ لشکر مینگورہ پہنچ گیا۔
امپیریل گزیٹر کے مطابق اس جنگ میں قبائیلیوں کے مردوں کی تعداد تین ہزار سے کم نہ تھی اور برطانوی فوج کے تینتیس افراد مردہ اور ایک سو اسّی زخمی ہوئے تھے ۔ لیکن جیمز سپین کہتے ہیں کہ اس جنگ میں برطانوی فوج اور قبائیلی دونوں کے مردوں کی تعداد چند سو تھی۔ اس نے اس جنگ کو Great Tribal Rising کہا ہے ، تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ انگریزوں کو اس جنگ میں قبائیلیوں کے مقابلے میں زیادہ جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
گو کہ اس جنگ میں سر تور فقیر نے شکست کھائی مگر انہوں نے اس شکست کو تسلیم نہیں کیا۔ اس کے بعد وہ ہر سال انگریزوں پر حملہ کرنے کے منصوبے بناتے تھے۔ جس سے انگریز سخت مشکلات میں گھرے ہوئے تھے۔ اس لیے ان کو مارنے کا منصوبہ تیار کیا۔ ایک خان کو رشوت دی جس نے ایک بوڑھی عورت کے ذریعے شکر کدو میں زہر ملا کر فقیر بابا کو کھلایا۔ زہر کے اثر سے وہ بیمار پڑگئے اور آخرِکار 1917ء کو یہ عظیم مجاہد ہمیشہ کے لیے اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ آپ باغ ڈھیرئی کے قبرستان میں مدفن ہیں۔
(تھوڑا اضافے کے ساتھ باقی معلومات ڈاکٹر سلطان روم اور ڈاکٹر محمد علی دیناخیل کے تحقیقی مقالوں سے لئے گئے ہیں۔)
(ترتیب و انتخاب و اضافہ ڈاکٹر احمد رشید خوگیانی)
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.