جب نواب آف دیر کے مظالم سے بھاگنے والی جوڑی کو چترال میں پناہ نہ ملی. تحریر: ارشد عرفان یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب پاکستان کے قیام کے بعد ریاست چترال میں مہتر مظفر الملک کی وفات ہوئی تو شہزادہ سیف الرحمن کو 7 جنوری 1949ء کو تخت پر بٹھایا گیا اور ریاست چترال کے اندر سیاسی شورش اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ یہاں پر مسلم لیگ کا نعرہ بلند ہوا تو لوگ جوق در جوق مسلم لیگ میں شامل ہو تے گئے۔ ان سب کی پشت پناہی پولیٹکل حکام کرنے لگے۔ ان حالات کو دیکھ کر ریاست پاکستان کی طرف سے شہزادہ سیف الرحمن کو ایک سال کے اندر ہی ملٹری اکیڈمی میں تربیت کے لیے بھیجا گیا اور یہاں پولیٹیکل حکام اور شہزادہ سیف الرحمن کی منظوری پر اس وقت کے اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ رحیم داد خان کی صدارت میں ایک بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیا جن کے ارکان شہزادہ شہاب الدین، اتالیق سرفراز شاہ اور سید نادر شاہ تھے۔ یہ بورڈ 9 دسمبر 1949ء سے لے کر 13 اپریل 1953ء تک قائم رہا۔ 16 مئی 1950 کو یہاں نئے اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ میر عجم خان کی تقرری ہوئی اور بورڈ کی صدارت ان کو ملی۔ اسی دوران چترال کی ملحقہ ریاست دیر میں ایک واقعہ رونما ہوا۔ واقعہ کچھ...
ملاکنڈ پیڈیا ۔ جب محمد عمر اتمانخیل آف سوال قلعہ اور عبد الطیف آفندی اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ سوال قلعہ باجوڑ میں سبھاش چندرا بوس کے ساتھ نازی جرمنی کا ساتھ دینے کے لئے صلاح مشورے کے عرض سے اکھٹے ہوئے بگھت رام تلوار کی کتاب ۔ The Talwar of pathan land and the great escape of Subhash Chandra bose سے ماخوذ ایک اقتباس 20 دسمبر 1942 کو محود عمرخان آئے اور میرے بھائی کِشوری لال کو بتایا کہ اجلاس سوال قلعہ میں 27 دسمبر کو طے ہوا ہے۔ لہٰذا، مجھے اس تاریخ سے پہلے وہاں پہنچنا تھا۔ چنانچہ، میں آننت رام، وارث خان، اور عبدالحکیم کے ساتھ رات کے وقت ٹانگے میں روانہ ہوا۔ ہم علی الصبح سخاکوٹ پہنچے، تانگہ چھوڑا اور آننت رام اور وارث خان کو واپس جانے کو کہا۔ پھر میں اور عبدالحکیم ایک ٹرک میں سوار ہوئے جو تھانہ جا رہا تھا۔ ہم ایک مناسب مقام پر ٹرک سے اترے اور پیدل روانہ ہو گئے۔ ہم 23 دسمبر کی شام سوال قلعہ پہنچے۔ میں سبھاش چندر بوس نے صنوبر حسین سے کہا تھا کہ وہ قبائلی صورتحال پر ایک رپورٹ تیار کریں، اس سے پہلے کہ میں بھارت کے لیے روانہ ہوں۔ رپورٹ تی...