فقیر ایپی: جنگِ آزادی کا ’تنہا سپاہی‘ جس نے پاکستان کے خلاف ایک آزاد مملکت ’پختونستان‘ کے قیام کا اعلان کیا
فقیر ایپی (مرزا علی خان):
فقیر ایپی (1897ء تا 1960ء) جن کا اصل نام مرزا علی خان تھا، شمالی وزیرستان کے ایک پشتون تھے۔ ان کے معتقدین ان کو حاجی صاحب کہتے تھے۔
حاجی میرزاعلی خان جو بعد میں فقیر آف ایپی مشہور ہوئے قبیلہ طوری خیل وزیر سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ موضع اپپی میں ارسلا خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدا ہی سے طبعیت میں سادگی، درویشی اور خلوص پایا جاتا تھا۔ دینی شوق انہیں بنوں لے آیا۔ علاقہ نورڑ بنوں میں حصول دینی تعلیم کے لیے ایک دینی مدرسے میں داخل ہوئے۔ انہیں دنوں اسلام بی بی کا واقعہ پیش آیا۔ وہ بہت ٹھنڈے دل او رمعتدل مزاج کے انسان تھے۔ وہ جلد اشتعال میں آنے والے انسان نہ تھے انہوں نے اس واقعے پر فوری جذباتی رد عمل نہ دکھایا۔ وہ انہیں دنوں نورڈ سے شہر بنوں آ رہے تھے کہ شہر بنوں کی ایک مسجد (ٹانچی بازار) کے بڑے دروازے کے سامنے جم غفیر جمع تھی وہ ادھر متوجہ ہوئے معلوم ہوا کسی غیر مسلم نے تحریر کردہ کلمہ طیبہ پر غلاظت ملی ہے وہ سمجھا کہ یہ ہنود اور عیسائیوں کی مشترکہ شرارت ہے اب ان سے رہا نہ گیا۔ فیصلہ کیا کہ ان حالات میں جب وطن کو حقیقی خطرہ لاحق ہو۔ چپ سادھ لینا اور کچھ نہ کرنا جرم اور گناہ ہے۔ چنانچہ اسی لمحہ اپنے مسکن ایپی میں واپس ہوئے اپنے عزیز و اقارب کو اپنے عزام اور ارادے سے آگاہ کیا اور خود دشمن کے خلاف آواز اٹھائی اور اعلانِ جہاد کیا۔
یوں اگر دیکھا جائے تو حاجی امیر ز علی خان کی مزاحمتی کاروائیوں نے شمالی وزیرستان میں دشمن پر زندگی تنگ کر دی۔ وہ شب و روز فوجی دستوں پر شب خون مارتے رہے۔ اور گوریلا جنگ کا آغاز کرکے سرکاری فوجوں کو زبردست مالی اور جانی نقصان پہنچاتے رہے۔ انہوں نے بہت سارے محازوں پر انگریزوں کا سامنا کیا۔ اورکامیاب مقابلہ کیا۔ لیکن وہ ایک عکسری مزاحمت کار اور حریت پسند ہی نہ تھا بلکہ لوگوں کو ان سے روحانی واستگی بھی رہی۔ پاکستان بننے کے بعد ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم تو سسٹم کے خلاف لڑنے والے لوگ تھے۔ لیکن آزادی تو مل گئی لیکن ایسی آزادی کا کیا فائدہ کہ ہم لوگ اپنا نظام یہاں لاگو کرنے میں ناکام رہے۔ حاجی امیر ز علی خان کے مزار پر آج بھی ان کے عقیدت مندوں کی بھیڑ رہتی ہے۔ ان کا عرس بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے۔
فقیر ایپی نے 1930ء سے لے کر 1947ء تک برطانوی سامراج کے خلاف گوریلا کارروائیاں جاری رکھیں اور ان کی ناک خاک میں ملائے رکھی۔ ایک وقت میں تو 40،000 برطانوی افواج بھی ان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ صرف 1000 افراد اور معمولی اسلحہ کے باوجود انہوں نے گوریلا کارروائیاں کامیابی سے جاری رکھیں۔ فقیر ایپی کو انگریز بھی ایک قابل عزت دشمن اور اصول پرست شخص مانتے ہیں۔ انہوں نے موجودہ دور کے برخلاف کسی غیر ملکی طاقت کی مدد قبول نہ کی۔ مارچ 1936ء میں ایک ہندو لڑکی رام کوری جس کا اسلامی نام اسلام بی بی رکھا گیا نے ایک مسلمان سید امیر نور علی شاہ سے شادی کی جن کا تعلق بنوں سے تھا۔ انگریزوں نے اپنے روایتی تعصب سے کام لیتے ہوئے طوری خیل قبائل اور مدہ خیل قبائل پر نہائت دباؤ ڈالا کہ اس لڑکی کو واپس کیا جائے۔ پشتونوں نے کہا کہ لڑکی اپنی مرضی جرگہ کے سامنے بتائے مگر انگریز خفیہ طور پر اس لڑکی کو اغوا کرنے میں کامیاب ہو گئے اور بنوں کے انگریز ڈپٹی کمشنر نے سید امیر نور علی شاہ کو گرفتار کر کے انگریزی قوانین کے مطابق سزا دلوائی۔ اس سے وزیرستان میں آگ بھڑک اٹھی اور فقیر ایپی نے انگریزوں کے خلاف بڑی کارروائیاں کیں۔
#PTMNEWS
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.