دھتکار، پھنکار، للکار، مار اور فرار
یہ پانچ الفاظ چانکیہ کے ایکشن ورڈز Action Words ہیں جو چانکیہ کی فلاسفی کا نچوڑ ہیں. ہندوؤں میں آج تک صرف ایک سیاسی فلسفی پیدا ہوا ہے ۔ کوٹلیہ چانکیہ۔
فلسفئِ سیاسیات ہونے کے حوالے سے وہ اپنے آپ کو کوٹلیہ کہلانے پر فخر محسوس کرتا تھا کیونکہ کوٹِیلی کے معنی “مکار” اور “فریب کار” کے ہیں اور پھر سورج نے دیکھا کہ وہ واقعی کوٹلیہ تھا. ہندوؤں کی تصانیف میں چانکیہ کوٹلیا کی تحریر کردہ کتاب ارتھ شاستر کو بہت اہمیت حاصل ہے اس کے علاوہ چانکیہ نیتی بھی مشہور کتاب ہے۔
چانکیہ کا دور تین سو سے چار سو سال قبل مسیح کا ہے. چانکیہ کا تعلق چونکہ ہندوستان کی اعلیٰ ذات سمجھی جانی والی برہمن نسل کے جید علماء سے تھا، اسی لئے ہندوستان کے راجہ، مہاراجاؤں کے اولاد کی تربیتی ذمہ داریاں چانکیہ کو سونپ دی گئی تھیں- اپنے وقت کے چیفس کالج میں راجہ، مہاراجاؤں کی اولادوں کے علاوہ کسی کے داخلے کی اجازت نہیں تھی.
ایک دن درس و تدریس کے دوران چانکیہ نے اپنے شاگردوں کے سامنے ایک سیاسی مسئلہ رکھا اور اس کے بہترین حل کی تجویز مانگی تو کوئی بھی شاگرد چانکیہ کو مطمئن نہیں کر سکا – ایسے میں چانکیہ کی نظر مدرسے کے باہر ایک غلام پر پڑی ، جو ہاتھ ہلا ہلا کر چانکیہ کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا ، اسے بلا کر ہاتھ ہلانے کی وجہ پوچھ گئی تو اس نے پوچھے گئے سوال کا جواب نہایت مدلل انداز میں دیا – جواب سن کر چانکیہ حیران رہ گیا اور اس غلام کے استاد کا پوچھا تو بچے نے بتایا کہ وہ دیوار کے سوراخ سے روزانہ چانکیہ کے لیکچرز غور سے سنتا ہے – عین ممکن تھا اس غلام کو اس جرم کی پاداش میں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ، یا پھر کسی تنگ و تاریک تہ خانے میں قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا، مگر پہلی بار مدرسے کی روایات کے برعکس چانکیہ کی ذاتی سفارش کی بناء پر اس کنیز زادے کو راجہ ، مہاراجاؤں کی اولادوں کے ساتھ علم حاصل کرنے کی اجازت دی گئی- کنیز زادے کے ہم جماعتوں کا تو کسی کو نہیں معلوم لیکن تاریخ اس معمولی غلام کو ہندوستان کے مشہور سالار و بادشاہ چندر گپت موریا کے نام سے یاد کرتی ہے.
جی ہاں، چندر گپت موریا کا استاد چانکیہ کوٹلیہ تھا، یہ ہونہار شاگرد بڑا ہوا، معمولی سپاہی سے سپہ سالار تک کے منصب پر فائز ہوا اور ہندوستان میں سکندر اعظم کی فوجوں کو مار بھگایا اور ہندوستان میں موریا سلطنت کی بنیاد رکھی. چندر گپت موریا نے اپنے استاد چانکیہ کو وزیراعظم بنا دیا، بطور وزیر مشیر چانکیہ نے چندرگپت موریا کے لیے حکمرانی کرنے، حکمرانی برقرار رکھنے اور ریاست کے پڑوسیوں سے تعلقات کے بارے میں اصول و ضوابط وضع کیے، اور سب کچھ ارتھ شاستر میں لکھ دیا، وہ بلا کا ذہین اور چالاک تھا یہ بات ارتھ شاستر پڑھ کر بآسانی پتا چلتی ہے.
چانکیہ کے نزدیک راج نیتی میں نیکی، اچھائی (Virtue) کی کوئی گنجائش نہیں ہے صرف اور صرف مفادات ہیں، اپنے مفادات۔ حکمران اصول و ضوابط، اخلاق، شرافت، نرمی اور معافی جیسی ”فضولیات“ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کامیابی کے لئے چالاکی، عیاری، فریب، دھوکہ جیسی اعلٰی و ارفع خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔
دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے، یہ مشہور زمانہ مقولہ بھی چانکیہ سے منسوب ہے. درخت مت کاٹو بلکہ اس کی جڑوں میں اُبلا ہوا پانی ڈال دو، یہ بھی چانکیہ کی فلاسفی ہے. کہتے ہیں کہ ایک دن چانکیہ راستے سے گزر رہا تھا اس کے پاؤں میں کانٹا چبھ گیا، اس نے پاؤں سے کانٹا نکالا، جا کر دو آنے کی سردائی (ٹھنڈا میٹھا دودھ) لی اور ببول کی جڑوں میں ڈال دی شاگردوں نے سوال کیا استاد محترم اس جھاڑی نے آپ کو کانٹا لگایا اور آپ نے اسے دودھ پلا دیا؟
چانکیہ بولا “اس دودھ اور شکر کے لیے چیونٹیاں آئیں گی اور جھاڑی کی جڑوں کو کھا کر ختم کر دیں گی، مجھے اپنے ہاتھ سے اکھاڑنے کی کیا ضرورت ہے”
چانکیہ کی سیاسی فلاسفی کے مطابق دشمن پر اپنے عزائم کبھی ظاہر نہ ہونے دو، اسے ہمیشہ اندھیرے میں رکھو، اس سے تلخ گفتگو نہ کرو، شیریں بیانی سے کام لو، اسے زہر سے نہیں گڑ سے مارو، دشمن کو کسی صورت وقت نہ دو، اسے سنبھلنے کا موقع نہیں ملنا چاہئے۔ دوست ہمیشہ طاقتور کو بناؤ، کمزوروں کے ساتھ دوستی کا محض ناٹک کرو، ہمیشہ دشمن کے قلب پر حملہ کرو۔ یمین و یسار خود بخود چت ہو جائیں گے۔ ہمسائے کو کبھی منہ نہ لگاؤ، ہمسائے سے دشمنی اور ہمسائے کے ہمسائے سے دوستی رکھو تاکہ وہ دو دشمنوں میں پھنس کر رہ جائے۔ ضرورت پڑنے پر دوست سے منہ پھیر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں بلکہ اسے قتل بھی کرنا پڑے تو کر گزرو۔ حصول اقتدار اور ملک گیری کی ہوس کبھی ٹھنڈی نہ ھونے پائے۔ ہمسایہ سلطنتوں سے وہی سلوک کیا جائے جو دشمنوں سے کیا جاتا ھے اور ان پر کڑی نظر رکھی جائے۔ غیر ہمسایہ سلطنتوں سے دوستانہ تعلقات رکھے جائے۔ جن سے دوستی رکھی جائے ان سے دوستی میں ہمیشہ اپنی غرض پیش نظر رھے اور مکارانہ سیاست کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹے، دل میں ہمیشہ رقابت کی آگ روشن رکھی جائے۔ ہر بہانے سے جنگ کی چنگاریاں سلگائی جائیں، جنگ میں انتہائی تشدد سے کام لیا جائے کہ خود اپنے شہریوں کے مصائب و آلام کی پرواہ نہ کی جائے۔
دوسرے ملکوں میں مخالفانہ پروپیگینڈا تخریبی کاروائیاں، بدامنی پیدا کرنے کی مہم جاری رکھی جائے۔ وہاں اپنے آدمی ناجائز ذرائع سے داخل کر کے خفیہ محاذ قائم کیا جائے جو حکومت کے خلاف سازشیں برپا کرے۔ رشوت اور دیگر ذرائع سے اقتصادی جنگ جاری رکھی جائے اور دوسرے ملکوں کے غداروں کو خریدنے کی کوشش کی جائے۔ امن کے قیام کا خیال دل میں نہ لایا جائے خواہ ساری دنیا تمہیں اس پر مجبور کرے...
یہ تو تھیں چانکیہ کی تعلیمات، پاکستان سے دشمنی لیکن افغانستان سے دوستی، چین سے دشمنی لیکن بنگلہ دیش اور ایران سے دوستی، سری لنکا سے دشمنی لیکن نیپال سے دوستی… یہ راج نیتی چانکیہ کوٹلیہ کی ہی سکھائی ہوئی ہے جسے بعد ازاں پنڈت جواہر لال نہرو نے دوبارہ جلاء بخشی..
علم کے متلاشی احباب کے لیے چانکیہ کی کتاب ارتھ شاستر کا لنک پہلے کمنٹ میں دے رہا ہوں جس کا ترجمہ سلیم اختر صاحب نے کیا ہے. ارتھ شاستر کوٹلیہ چانکیہ کی تصنیف ہے جو ایک برہمن گھرانے میں پیدا ہوا، اس کتاب کا زمانہ تصنیف 311 سے 300 قبل مسیح کے درمیان ہے۔ ’ارتھ شاستر‘ نے برصغیر کے تمدن اور اسلوب سیاست پر گزشتہ دو ہزار سال کے دوران جو اثرات مرتب کیے ہیں ان کے نقوش آئندہ کئی صدیوں تک بھی واضح رہیں گے۔ کوٹلیہ نے اس کتاب میں قدیم ہندوستانی تمدن کے ہر پہلو کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے۔علوم وفنون، زراعت، معیشت، ازدواجیات، سیاسیات، صنعت و حرفت، قوانین، رسوم و رواج، توہمات، ادویات، فوجی مہارت، سیاسی و غیر سیاسی معاہدات اور ریاست کے استحکام سمیت ہر وہ موضوع کوٹلیہ کی فکر کے وسیع دامن میں سما گیا ہے جو سوچ میں آ سکتا ہے ۔ علم سیاسیت کے پنڈت کہیں کوٹلیہ کو اس کی متنوع علمی دستگاہ کی وجہ سے ہندوستان کا ارسطو کہتے ہیں اور کہیں ایک نئے اور واضح تر سیاسی نظام کا خالق ہونے کے باعث اس کا موازنہ میکاولی سے کیا جاتا ہے ۔ بہرحال یہ کتاب اس کے افکار و نظریات کو سمجھنے کا معتبر مآخذ ہے۔
قمر نقیب خان
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.