عیاری اہل مزاہب کا لازمہ ہوتا ہے
دسمبر 1978 میں جلاوطنی سے ایران واپسی سے قبل خمینی نے مغربی میڈیا میں بیان دیتے ہوۓ کہا تھا کہ ”خواتین جیسا لباس چاہیں، شرعی حدود کے اندر رہتے ہوۓ زیب تن کرنے پر آزاد ہونگی۔ ھم خواتین کو ہر قسم کی آزادی دیں گے۔ انفرادی آزادی اور اخلاقیاتی اصولوں کے حوالے سے مرد و عورت میں کوئی تفریق نہیں ہوگی۔“
خمینی کے ان اعتدال پسندانہ بیانات کا مقصد مغربی مبصرین کے ساتھ ساتھ شاہِ ایران کے خلاف متحرک ان ایرانی لبرلز کی حمایت حاصل کرنی تھی جن میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔
اور ان بیانات کی وجہ سے خمینی نہ صرف مغربی میڈیا میں ایک معتدل چہرہ بنانے میں کافی حد تک کامیاب ہوا، مغرب میں مشل فوکو جیسے دانشور بھی خمینی کے اِس جال میں آگیا تھا۔ فوکو بھی سمجھنے لگا تھا کہ شاہ کے خلاف یہ مزاحمت عوامی انقلاب ہے، یہ انقلاب لوگوں کو آزادی کی ضمانت دے گا، اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جاۓ گا اور ایران سے پرے مشرق وسطی اور مغرب میں بھی اس کے مثبت اثرات پہونچیں گے۔ جبکہ کٹھ ملائیت کی حقیقت سے واقف کچھ ایرانی دانشور اور فیمینسٹس مغرب کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ مغربی میڈیا اور دانشوران جس کو عوامی انقلاب اور ایران کی بیماری کا علاج سمجھ رہے ہیں، یہ علاج اس بیماری سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا۔
A cure that is perhaps worse than the disease.
ایک فروری 1979 کو پانچ ملین ملّا، لبرلز، کمیونسٹس ایرانی ملک کے دارالحکومت تہران میں خمینی کے استقبال کے لیے جمع ہو چکے تھے۔ جونہی خمینی پہونچا اور فروری کے آخر تک اسلامی انقلابی کونسل کا قیام ہوا۔ زمامِ اقتدار ملّاؤں کے ہاتھ میں آیا تو خمینی اور اس کی اعتدال پسندی کی حقیقت نے سب کی نظروں کو خیرہ کر دیا۔
بمشکل ایک ماہ گزرا تھا کہ تین مارچ کو خمینی نے اعلان کر دیا کہ کوئی خاتون جج نہیں بن سکتی۔ اور بعد ازاں 2003 میں نوبیل انعام پانے والی خاتون شیریں عبادی جو تب جج تھیں، خمینی نے ان کو عہدے سے فارغ کر دیا۔ چار مارچ کو اعلان ہوا کہ طلاق کا اختیار صرف مرد کے پاس ہوگا۔ آٹھ مارچ کو خواتین کے لیے پردہ لازمی قرار دیا گیا۔ پردے سے انکار پر سرعام 74 کوڑے لگانے کا قانون لاگو کیا گیا۔ نو مارچ کو اعلان ہوا کہ خواتین کھیل کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے پائیں گی۔ فنون لطیفہ کے دشمن کٹھ ملائیت نے خواتین گلوکاروں پر پابندی لگا دی۔ اور ظلم، جبر، تشدد، قتال کی وہ داستانیں خمینی کی ”اعتدال پسندانہ“ طرزِ حکومت نے بدنام زمانہ ایرانی جیلوں میں آگے جا کر رقم کیں کہ انسانیت شرما جاۓ۔
جو دوغلا چہرہ خمینی اور اس کے ہمنواؤں نے پچاس سال قبل دنیا کے سامنے پیش کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ آج طالب اور ان کے حلیف دنیا کو بالکل اسی طرح باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
زندگی میں امن واحد شئے نہیں۔ امن محض بندوقوں کی عارضی خاموشی کا نام بھی نہیں ہے۔ آزادی وسیع مفاہیم رکھتی ہے
بشکریہ : حبیب کریم۔
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.