نوٹ: یہ لیٹر شائد فیک ہو، لیکن قبضہ گیروں کو ننگا خوب کر رہا ہے
۔۔۔
خاندانی ریائش نور محل پر سے پاکستان آرمی کا ناجائز قبضہ چھڑوانے کے لئے نواب صلاح الدین عباسی کا کور کمانڈر بہاولپور لیفٹننٹ جنرل خالد ضیاء کے نام خط
تئیس اگست 2021
275-عباسی روڈ
صادق گڑھ پیلس 63360
احمد پور شرقیہ
پنجاب
اسلامی جمہوریہ پاکستان
خالد ضیاء صاحب،
جس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کا دریا 1857 میں برٹش ایمپائر کے سمندر میں جا گرا تھا اسی طرح پاکستان آرمی کا خون آلود دریا 2016 میں باجوہ ایمپائر کے سمندر میں جا گرا مگر جس طرح برٹش ایمپائر کا سورج غروب ہوا اسی طرح باجوہ ایمپائر کا سورج بھی غروب ہونے کو ہے اور ہر بجھتے ہوئے چراغ کی مانند جبری گمشدگیوں اور مالی کرپشن کی صورت میں اسکی حدت اب اطراف کو جلانے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کا حصہ بننے جا رہی ہے۔میرے بزرگوں نے نور محل بہاولپور 1875 میں اس وقت کے بارہ لاکھ روپے اور آج کے ایک ارب تینتیس کروڑ پینسٹھ لاکھ روپے کے عوض جرنیلوں کی داشتاوُں کے فیک آرگیزم کے لئے نہیں بلکہ اپنے ذاتی ذوق رہائش کی تکمیل کے لئے ایک اطالوی آرکیٹیکٹ سے تعمیر کروایا تھا مگر 14 اکتوبر 1955 کو میرے دادا حضور نواب صادق عباسی نے جب ریاست بہاولپور کا الحاق پاکستان کیساتھ کیا تبھی سے نور محل بیوروکریسی کی آنکھ میں چمک کر ٹھٹھک گیا اور 1971 میں مشرقی پاکستان ہارنے سے چند ماہ قبل آرمی نے نور محل کو اس حکومت پاکستان سے تین ہزار روپے سالانہ لیز پر حاصل کر لیا جسے بھی پاکستان آرمی ہی شراب کے نشے میں دھت اور فخر عالم کی نانی جنرل رانی کی بغلوں میں منہ دیتے یحییٰ خان کے ناپاک وجود کی سربراہی میں چلا رہی تھی۔1997 تک محل آرمی نے نام نہاد لیز پر رکھا اور پھر گیارہ کروڑ نوے لاکھ کا زیرہ ریاستی خزانے کے منہ میں ڈال کر اونٹ پر ہی قبضہ کر لیا اور آج اسے اپنی ملکیت بتاتے پھولے نہیں سماتی۔ہمارے خاندان کو وراثت کے دیوانی مقدمات میں الجھا کر اسٹیبلشمنٹ نے یہ سمجھا کہ بغداد کی طرح بہاولپور کے عباسی بھی تاریخ کے گم گشتہ نہاں خانوں کی زینت بن گئے مگر عباسی خاندان کی ماوُں کی چھاتیوں سے ہمارے اندر ڈبے کا دودھ نہیں بلکہ غیرت کا عرق اترا ہے اور آج اسی قرض کی وصولی کے لئے راقم آپ جیسے گریڈ اکیس کے سرکاری افسر کو یہ سطور لکھنے پہ خود کو طوعاُ و کرہاُ آمادہ کر سکا ہے۔میرے کم لکھے کو زیادہ جانیے اور یہ خط ملنے کے نوے دن کے اندر اندر اپنے اردلیوں سے سامان اٹھوا کر نور محل واپس میرے حوالے کر دیجئے کیونکہ ڈپلومیٹک نمبر پلیٹ،ڈپلومیٹک پاسپورٹ اور معمولی وظیفہ ہرگز ان درودیوار کے جاہ و جلال کی قیمت نہیں ہو سکتے جن کی ماش کی دال اور باریک اینٹوں سے بنی مضبوطی آج بھی میرے خاندان کے عزت و وقار کی انمٹ نشانی ہے۔بہاولپور عوامی نیشنل پارٹی تحریک انصاف کی اتحادی ضرور ہے اور تحریک انصاف کا سربراہ عمران خاب بھلے آپ کے لئے چابی والا بندر ہی کیوں نہ ہو مگر اپنے خاندان کی عزت کی بحالی مجھے کسی بھی سیاسی اتحاد کی نمو سے زیادہ عزیز ہے۔نہیں یقین آتا تو طارق بشیر چیمہ سے پوچھ لیجئے جس کے ساتھ مفت کی ولایتی شراب پینے آپ ہر ہفتے اس کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔آپ کے بچے تانیہ اور سعد بالترتیب سیکنڈ ائیر اور نائنتھ میں جس صادق پبلک سکول میں پڑھتے ہیں وہ بھی میرے دادا حضور ہی نے بنوایا تھا اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کا ساوُٹھ بلاک بھی ریاست بہاولپور کے خزانے کے دریادلی کا ہی منہ بولتا ثبوت ہیں۔ایسے علم دوست اور انسانیت دوست خاندان کے ورثاء سے بے اعتنائی یقیناُ قابل افسوس ہے۔ایسے محلات پوری دنیا میں نسل در نسل خاندان کی ملکیت ہوتے ہیں مگر آپ نے وردی والے ڈاکو بن کر میرے خاندان کی جائداد پر قبضہ کر رکھا ہے۔کیا نور محل بہاولپور کوئی عسکری قلعہ ہے جس میں فوج کی تعیناتی دفاع وطن کے لئے ناگزیر ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر اکیسویں صدی کے پاکستان کو نیو کولونیلزم کی تعبیر بنانے کی جگہ سویلین حکومت کی عملداری کی آماجگاہ بننے دیجئے جو خالی ہاتھ بھی آپ کے نوے ہزار فوجی چھڑوا لاتی ہے اور آپ بندوقیں تھام کر بھی مقبوضہ کشمیر کی طرف کین وڈ کے سپیکروں سے ساحر علی بگا کے نغمے چلانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔خیر اٹس نن آف مائی بزنس مجھے اپنا محل چائیے۔سیدھی طرح دے دینگے تو ٹھیک وگرنہ علاقے کے لوگ میری کتنی عزت کرتے ہیں وہ آپ کو ایک ہی گھیراوُ میں پتہ چل جائے گا۔
آپ کی جانب سے مثبت جواب کا منتظر
نواب صلاح الدین عباسی
As recieved
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.