عوامی نیشنل پارٹی کا مشن
باچا خان محض پختون نیشلسٹ نہیں تھے۔مہاتما گاندھی اور ابوالکلام آزاد کی طرح تمام مظلوم اقوام وطبقات کے حقوق کےلیۓ جدوجہد کرنا ان کا مشن تھا۔انیس سو تیس کے لگ بھگ جب انہوں نے خداٸ خدمت گار تحریک کی بنیاد رکھی تو اس کے منشور میں لکھ دیا گیا کہ ”خداٸ خدمت گار تمام انسانوں کی بلا لحاظ مذہب و عقیدہ خدمت کریں گے“۔عملی طور پر بھی انہوں ہر مظلوم قوم کےلیۓ آواز اٹھاٸ۔انیس سو چھیالیس میں جب کلکتہ میں مسلمانوں نے ہندٶں کا قتل عام شروع کیا تو باچا خان نے مظلوم ہندٶں کے حق میں آواز اٹھاٸ۔پھر جب بہار میں ہندٶں نے اردو بولنے والے مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا تو تو مسلمانوں کوہندٶں کے مظالم سے بچانے کےلیۓ باچا خان خود وہاں تشریف لےگیۓ۔یہ پختون قوم کا معاملہ نہ تھا بلکہ دیگر اقوام کا معاملہ تھا لیکن باچا خان نے اس میں کردار ادا کیا۔انیس سو سینتالیس کے فسادات کے دوران جب لوگ پشاور میں ہندٶں اور سکھوں پر حملہ آور ہونے کی کوشش کررہے تھے تو باچا خان نے ان کی حفاظت کےلیۓ ان کے علاقوں میں خداٸ خدمت گار تعینات کیۓ ۔
اسٹیفن نے اپنی کتاب ”دی سویلین جہاد“ میں اسی حوالے سے لکھا ہے۔
“more than one occasion, when Hindus and Sikhs were attacked in Peshawar,Khudai Khudmatgar memebers helped to protect their lives and property”
اپنے سفر حج سے واپسی پر وہ فلسطین گیۓ اور فلسطین کے باسیوں سے گزارش کی وہ اپنی زمینیں یہودیوں پر فروخت نہ کریں ۔فسطینیوں نے اگرچہ ان کی یہ نصیحت نہ مانی اور اپنی زمینیں دھڑادھڑ فروخت کرتے رہے جس کا بعد میں انہیں نقصان اٹھانا پڑا, لیکن باچا خان نے فلسطینیوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی کوشش بہرحال کی۔کشمیر کے بارے میں ان کا موقف رہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں غاصب قوتوں کو کوٸ حق نہیں کہ وہ کشمیر پر زبردستی قبضہ کریں۔اس ضمن میں شیخ عبداللہ سے انہوں نے ملاقات بھی کی تھی اور اپنے تعاون کا یقین دلایا تھا۔بلوچوں کے حقوق کےلیۓ انیس سو اڑتالیس اننچاس میں انہوں نے اسمبلی میں آواز اٹھاٸ۔یہ کسی بھی غیر بلوچ لیڈر کی طرف سے بلوچ قوم کے حقوق کےلیۓ اٹھنے والی پہلی آواز تھی۔انیس سو ستاٶن میں نیشنل عوامی پارٹی (NAP) قاٸم کی گٸ جس کا مقصد صرف پختونوں کے حقوق کےلیۓ جدوجہد کرنا نہیں تھا بلکہ پاکستان کی تمام مظلوم اقوام کے حقوق کی جدوجہد کرنا اسکے منشور میں شامل تھا۔نیپ میں بنگالی لیڈر مولانا بھاشانی,سندھی لیڈر جی ایم سید,بلوچ رہنما غوث بخش بزنجو, اور پرنس کریم آغاخان سمیت تمام اقوام کے لوگ شامل تھے۔انیس سو اکہتر میں جب پاکستانی فوج نے بنگالیوں کا قتل عام کرنے کےلیۓ آپریشن لانچ کیا تو مغربی پاکستان میں بنگالیوں کے حق میں اٹھنے والی سب سے توانا آواز باچا خان کی تھی۔اس جراءت مندی پر بنگلہ دیش کی حکومت نے دوہزار تیرہ میں باچا خان کو”فرینڈ آف بنگلہ دیش“ ایوارڈ دیا جسے اسفندیار ولی خان کے ریسیو کیا۔
نیپ پر جب پابندی لگ گٸ,تو 26 جولائی 1986 کو آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری کی رہائش گاہ پر مختلف اقوام کے نماٸندوں کا ایک اجلاس ہوا جس میں ”پاکستان میں چھوٹی اقوام کے حقوق کی جدوجہد“ کرنے کےلیۓ ایک نئی پارٹی عوامی نیشنل پارٹی وجود میں آئی۔عوامی نیشنل پارٹی کوٸ پختون قوم پرست پارٹی نہیں تھی بلکہ یہ نیپ کی طرح ”چھوٹی اقوام کے حقوق“ ّکی جدوجہد کرنے والی پارٹی تھی۔انور پاشا نے درست لکھا ہے کہ ” دراصل یہ (اے این پی)بھی نیپ کا ہی تسلسل تھا اور اس کا منشور بھی نیپ سے ملتا جلتا تھا“۔ باچا خان نے اے این پی کے اس تاسیسی اجلاس میں خصوصی طور پر شرکت کی۔اسکے تاسیسی اجلاس میں اسکے عہدیدران کا اعلان ہوا جو یہ تھے:
۔
خان عبدالولی خان (صدر)
فاضل راہو سندھی (ناٸب صدر)
رسول بخش پلیجو(جنرل سیکرٹری)
رحیم بخش بلوچ(ڈپٹی سیکرٹری جنرل)
بشیر احمد بلور (فنانس سیکرٹری)
اس کے بعد 28 جولائی 1986کو عوامی نشنل پارٹی کا پہلا جلسہ عام نشتر پارک کراچی میں منعقد ہوا جس میں مختلف اقوام کے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی ۔ان شواہد کی بنیاد پر رٹن برگ نے لکھا ہے کہ :
“KhdaiKhidmatgar saw less scope for Pakhtun Nationalism.They abandoned the separate ethnic ambitions in the interest of communal unity”(Ethnicity,Nationalism and Pakhtun,page .6)
یہ مجھے معلوم نہ ہوسکا کہ باچا خان کے پیروکار ”مظلوم اقوام کے حقوق کی جدوجہد“ کے بجاۓ صرف ”پختون قوم کے حقوق کی جدوجہد“ کرنے کی طرف کب ماٸل ہوۓ۔لیکن اتنا معلوم ہے کہ یہ حادثہ انیس سو نوے کے بعد ہی کسی وقت رونما ہوا ہے؟۔اس سے پہلے باچا خان اور ان کے پیروکاروں کا مشن صرف پختونوں کے حقوق کی جدوجہد کرنا نہیں رہا تھا۔بلکہ جیسا کہ بتایا گیا کہ پختونوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقوام کے حقوق کی جدوجہد بھی ان کا مشن تھا۔اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اب اے این پی صرف پختونوں کے حقوق کےلیۓ تگ ودو کو اپنی جدوجہد کا محور بناۓ رکھے گی یا دیگر مظلوم اقوام کے حقوق کےلیۓ آواز اٹھانے کا مشن وہ آگے لیکر چلے گی؟۔میری شدید خواہش ہے کہ اے این پی تمام مظلوم اقوام وطبقات کے حقوق کی جدوجہد کا نماٸندہ پلیٹ فارم بن جاۓ۔
گل رحمان ہمدرد
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.