Omicron Variant In Urdu.
Omicron, New Variant of Corona Virus explained in Urdu. Urdu Info about New Variant of Covid 19, Omicron evolved in South Africa.
"اومی کرون ویریئنٹ"
جنیٹکس میں ڈی این اے کے سیکویئنس میں تبدیلی کو میوٹیشن کہتے ہیں
یعنی آسان الفاظ میں انسانی جین میں ہونے والی تبدیلی کو میوٹیشن کہتے ہیں
مثلا والدین کا قد اگر 5 فٹ 9 انچ ہے تو اولاد کا قد 5 فٹ 9 انچ سے کم یا زیادہ ہے
تو یہ قد کے جین میں میوٹیشن کی وجہ سے ایسا ہوا ہے-میوٹیشن عام طور پر یا
تو اینوائرمینٹ میں کسی تبدیلی کی وجہ سے ہوتی ہے یا پھر ری پروڈکشن کی وجہ ہوتی ہے-
میوٹیشن فائدہ مند، نقصان دہ اور بے ضرر تینوں ہوتی ہے- سائنسدانوں کے مطابق آن اے ایوریج ایک ڈٰی این اے میں ہر مہینہ 100 سے 200 میوٹیشن ہوتی ہیں اور میوٹیشن سے بننے والی نئی چیز کو ویری اینٹ کہتے ہیں ان میں میجورٹی ویری اینٹ بے ضرر ہوتے ہیں یعنی نہ ان کا کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ نقصان- جینز میں ان 3 طرح کی تبدیلیوں کی وجہ سے ان ویری اینٹس کو عام طور پر 2 کیٹگریز میں تبدیلی کیا جاتا ہے-
1-ویری اینٹ آف انٹرسٹ
2- ویری اینٹ آف کنسرن
پہلی قسم والا ویری اینٹ پھیلاؤ میں بہت تیز ہوتا ہے لیکن ایک فائدہ مندہ چیز یہ ہوتی ہے کہ اس کیٹگری میں آنے والے تمام ویری اینٹس پر ویکیسن ایک جیسا ہی اثر کرتی ہے- جبکہ دوسری قسم کے ویری اینٹ میں پھیلاؤ پہلی قسم بھی تیز ہوتا ہے اور اس کیٹگری میں ویری اینٹس پر ویکسین کا اثر آہستہ آہستہ کم ہوتا جاتا ہے
کرونا کا اوریجنل وائرس چین کے شہر ووہان سے نکلا تو اس کا نام کووڈ-19 کا نام دیا گیا- یہ کرونا کی پہلی لہر تھی کرونا کی اوریجنل لہر تھمی تو کرونا کا پہلا ویری اینٹ آیا- جس کا نام ایلفا ویری اینٹ رکھا گیا- جیسا کہ اوپر میں بتاچکا ہوں کہ ویری اینٹ جین میں میوٹیشن یعنی تبدیلی کی وجہ آتا ہے- لہذا کرونا وائرس کے جین میں تبدیلی ہوئی اس نے اپنی ہیئت بدلی اور ایلفا ویری اینٹ کہلایا- یہ ایلفا ویری اینٹ انگلینڈ سے شروع ہوا
اس کے بعد کرونا کا دوسرا ویری اینٹ جس کو بیٹا ویری اینٹ کہا گیا یہ ساؤتھ افریقہ سے شروع ہوا- اس کے بعد کرونا کا تیسرا ویری اینٹ شروع ہوا اور یہ پہلی دفعہ برازیل میں رپورٹ ہواجس کو گیما ویری اینٹ کہتے ہیں- اس کے بعد کرونا کا چوتھا ویری اینٹ جس کو ڈیلٹا ویری اینٹ کہتے ہیں یہ رپورٹ ہوا- یہ پہلی دفعہ ہنندوستان میں رپورٹ جس کے بعد کرونا کی چوتھی لہر آئی
اب کرونا کا اگلا ویری اینٹ جس کو فی الحال اومی کرون کہا جارہا ہے یہ رپورٹ ہے جو کہ ساؤتھ افریقہ سے رپورٹ ہوا- اس ویری اینٹ کا پہلا کیس کے سیمپل 9 نومبر 2021 کو لیا گیا اور 11 نومبر 2021 کو یہ نیا ویری اینٹ رپورٹ کیا گیا اور اس دن سے لیکر اب تک ساوتھ افریقہ میں کرونا کی لہر پچھلے 10 ،12 دنوں میں بہت حد تک بڑھ چکی ہے- اور پچھلے 1 ہفتے سے کرونا کے روپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 1000 پر ڈے سے زیادہ ہوچکی ہے
اس کے بعد اگلا سوال ہمارے ذہن میں یہ آتا ہے کہ کرونا کے ویری اینٹس کا کرونا کے اوریجنل وائرس میں کیا فرق ہوتا ہے- ؟؟ کرونا کے ویری اینٹس میں جو تبدیلی رپورٹ ہوئی ڈبلیو ایچ او کے مطابق کرونا کے وائرس کے سپایئک میں تبدیلیاں واقع ہوئی جس کی وجہ سے کرونا کا وائرس اپنی ہر ویری اینٹ کے بعد اپنی ہیئت تبدیل کرلیتا ہے- سپایئک (بال) بنیادی طور پر کرونا کے وائرس کا وہ حصہ ہے جس کی مدد سے وہ ہوسٹ کے ساتھ اٹیچ ہوتا ہے-
میوٹیشن کے بعد کرونا کے ایلفا ویری اینٹ کے پھیلنے کی شرح کرونا کے اوریجنل وائرس سے 60 فیصد زیادہ تھی- جبکہ کرونا کے ڈیلٹا ویری اینٹ کے پھیلنے کی شرح ایلفا ویری اینٹ سے 60 فیصد زیادہ تھی- اور یہ جو ہفتہ پہلے ساؤتھ افریقہ میں ویری اینٹ دریافت ہوا اس کے پھیلنے کی شرح ڈیلٹا ویری اینٹ سے 70 فیصد زیادہ ہے-
اومی کرون یعنی ساؤتھ افریقہ میں رپورٹ ہونے والا ویری اینٹ سب سے پہلے جس مریض میں رپورٹ ہوا وہ مریض ایچ آئی وی ایڈز کا مریض تھا اور ایچ آئی وی کے مریض میں چونکہ امیونٹی ہوتی نہیں لہذا اس بندے کے جسم میں کرونا وائرس میں میوٹیشن ہوئی اور وہ بندہ اس نئے ویری اینٹ کا پہلا کیئریر بنا- جس سے یہ ویری اینٹ ساؤتھ افریقہ میں تیزی سے پھیلنے لگا اور اس کے پھیلنے کی شرح ڈیلٹا ویری اینٹ سے 70 فیصد زیادہ ہے-
اب اگلا اور سب سے اہم سوال کیا کرونا کی ویکسین ان تمام ویری اینٹس پر یکساں اثر کرتی ہے تو اس کا جواب اوپر بتاچکا کہ ویری اینٹ اگر ویری اینٹ آف انٹرسٹ کیٹگری سے تعلق رکھتا ہے تو ویکسین تمام ویری اینٹ پر یکساں اثر کرتی ہے اور اگر ویری اینٹ "ویری اینٹ آف کنسرن" کیٹگری سے تعلق رکھتا ہے تو پھر ویکسین اس کیٹگری کے تمام ویری اینٹس پر یکساں اثر نہیں کرتی-
کرونا کے جو 4 ویری اینٹس کا میں اوپر ذکر کیا یہ سارے ویری اینٹس ویری اینٹ آف کنسرن" کیٹگری سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ ویکسین کے ایفیکٹیو ہونے کی شرح ہر نئے آنے والے ویری اینٹس پر کم ہوتی جارہی ہے مثلا ایک ریسرچ کے مطابق آسٹرا زنیکا کے اثر انداز ہونے کی صلاحیت ڈیلٹا ویری اینٹ پر کم ہوکر صرف 68 فیصد رہ جاتی ہے- جبکہ فائزر کی شرح 80 فیصد رہ جاتی ہے-
اگلا سوال کہ نئے اومی کرون ویری اینٹ پر کرونا کی ویکسین کا اثر کتنا کم ہوگا اور یہ ویری اینٹ کتنا خطرناک ہوگا؟؟ تو چونکہ اس ویری اینٹ کو آئے ابھی 10 سے 12 دن ہوئے ہیں لہذا اس کے خطرناک ہونے کے بارے میں ابھی سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن ایک اچھی چیز یہ ہے کہ پچھلے 4 ویری اینٹس پھیلاؤ کی شرح کے لحاظ سے بہت تیز تھے لیکن کم خطرناک تھے-
اور چونکہ اس نئے اومی کرون ویری اینٹ کو آئے ابھی 10، 12 دن ہوئے ہیں لہذا ویکسین کے اثر انداز ہونے کی شرح کی کمی کے بارے میں کچھ کہنا بھی قبل از وقت ہوگا- لیکن ایک مزیدار فیکٹ یہ ہے کہ جتنے بھی نئے ویری اینٹ آئے ہیں یہ سارے ان ملکوں میں آئے جہاں ماڈرنا، فائزر، آسڑازنیکا ویکسین لگائی گئی- ان خطوں سے ابھی کوئی نیا ویری اینٹ نہیں آیا جہاں چائینز ویکسین یا رشیئن ویکسین لگائی گئی-
ساؤتھ افریقہ میں فائزر اور آسٹرازنیکا ویکسین لگائی جارہی ہے اور ابھی صرف 24 فیصد آبادی کو لگائی گئی ہے- ساوتھ افریقہ سے یہ ویری اینٹ اس وقت تک 3 ملکوں میں پہنچ چکا ہے- جن میں اسرایئل ، بیلجیئم اور ہانگ کانگ شامل ہیں- اسرایئل اور ہانگ کانگ میں جن میں یہ ویری اینٹ رپورٹ ہوا انہوں نے ساؤتھ افریقہ کا سفر کیا تھا جبکہ اسرایئل میں جس میں یہ وائرس رپورٹ ہوا وہ مصر سے آیا تھا-
اومی کرون میں کرونا کی سپایئک میں 32 تبدیلیاں ہوئی ہیں اور یہ پھیلاؤ کے لحاظ سے اب تک رپورٹ ہونے والے تمام ویری اینٹس میں سے سب سے زیادہ پھیلنے والا ہے - اور ڈبلیو ایچ او نے دسمبر میں دنیا میں کرونا کی پانچویں لہر کے پھیلنے کی کال دیدی اور دنیا کو اس سے بچاؤ کے لیئے اقدامات کی ہدایات کردی ہیں- اور اس کرونا کے ویری اینٹ کا سب سے عجیب و غریب فیکٹ یہ ہے کہ یہ جوان لوگوں اور بچوں کو زیادہ ایفیکٹ کررہا ہے
کورونا وائرس میں ہونے والی تبدیلیاں ارتقاء کا عملی ثبوت ہیں۔ رہی بات کورونا کی اگلی لہر کی تو وہ جنوری کے آخر سے لیکر مارچ کے درمیان تک آ سکتی ہے اس کی وجہ ساؤتھ افریقی ویرینٹ نہیں بلکہ موجودہ لگائی گئی ویکسین سے ملنے والی امیونٹی کا متوقع طور پہ کم ہونا ہوگی۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا نا ہو۔
Zaigham Qadeer
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.