Capitalism, Ideologies, Oxygen, Swimming Pole, Mineral Water.
جس طرح ہر اچھی، قیمتی اور نایاب چیز صاحب ثروت لوگوں کی ملکیت ہوتی ہے اسی طرح ہر نظریہ بھی سرمایہ دار سامراجیت خرید لیتی ہے اور بوقت ضرورت اس کا چورن بیچ کر مفادات کا حصول ممکن بناتی ہے۔ مذہب، سائنس، آرٹ، فلسفہ، ھنر، محنت ، مادہ اور مادی اشیا سب کچھ سرمایہ دار کی مٹھی میں ہوتا ہے۔ حتی کہ سامراجیت نے اب سانس لینے کے لئے ضروری ایلیمنٹ آکسیجن پر بھی تصرف حاصل کر لیا ہے۔ جاپان میں پانی کی بوتلوں کی طرح آکسیجن کی بوتلیں بھی ملتی ہیں جن میں فیوجی پہاڑی سلسلے کی پلوٹڈ فری آکسیجن بند ہوتی ہے جسے عام جاپانی خرید کر استعمال کرتا ہے۔ جیسے ہمارے ہاں لوگ پانی خرید کر استعمال کرتے ہیں ویسے ہی جاپان میں آکسیجن بھی استعمال ہوتی ہے۔ آکسیجن اور پانی سے یاد آیا کہ یہ جو بوتل بند پانی ہوتا ہے اس کو لانگ پریزرو رکھنے کے لئے بھی ایکسٹرا آکسیجن استعمال کی جاتی ہے تاکہ اس میں کائی نہ جمے
بات ہورہی تھی نظریات اور سامراجیت کی تو برسبیل تذکرہ دوسری جانب نکل گئی۔ وہ بھی ضروری معلومات تھیں۔ راقم کی کوشش ہوتی ہے کہ مضمون میں زیادہ سے زیادہ معلومات دی جائیں تاکہ قارئین کے ساتھ جنرل نالج بھی شیئر ہوتا رہے۔
خیر موضوع کی جانب واپس آتے ہیں تو بات ہو رہی تھی نظریات کی کہ سرمایہ دار کیسے نظریات یعنی دانش بھی خرید لیتا ہے۔ آئیں میں آپ کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں!
کبھی آپ نے غور کیا یا معلوم کرنے کی کوشش کی کہ پانی کا مصنوعی تالاب جسے سوئمنگ پول کہتے ہیں کیسے معرض وجود میں آیا؟ آپ کی دلچسپی کے لئے اس کی کہانی سناتا ہوں جس سے آپ کو معلوم ہوگا کہ سرمایہ دار کیسے نظریات خرید کر اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتا ہے۔
یہودیت میں دریائے اردن ایک مقدس دریا ہے جس میں یہودی ڈبکی لگانے کو پاکیزگی حاصل ہونے کا زریعہ سمجھتے تھے۔ یہی ڈبکی آہستہ آہستہ مذہبی رسم بن گئی جس کا نام ببتیسمہ لینا پڑ گیا۔ یہ رسم آج بھی ہر چرچ میں نومولود بچےکو پانی کے ٹب میں ڈبکی دے کر ادا کی جاتی ہے اور یہ عیسائیت میں ویسے ہی اہم ترین رسم ہے جیسے مسلمانوں کے ہاں نومولود بچے کے کان میں اذان دینا اور ختنہ کروانا ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے حضرت زکریا علیہ السلام لوگوں کو ببتیسمہ دیا کرتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کی منادی بھی کرتے رہتے تھے۔ بعد میں حضرت زکریا علیہ السلام نے عیسیٰ علیہ السلام کو دریائے اردن میں عین اسی جگہ ببتیسمہ دیا تھا جہاں آج بھی اس مقام پر بطور برکت لوگوں کو ببتیسمہ دیا جاتا ہے اور ایک وسیع چرچ نما مقدس عمارت بنی ہوئی ہے یہاں دریا کی اس جانب اسرائیل کا شہر مشرقی یروشلم واقع ہے اور اس جانب اردن کا علاقہ ہے۔ مشرقی یروشلم فلسطین کا حصہ نہیں بلکہ اردن کا سرحدی شہر ہے جس پر 1967 میں اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔
اسی ببتیسمہ کی رسم کی ادائیگی کے لئے رومن چرچ نے ایک بڑا سا مصنوعی تالاب بنوایا تاکہ مقدس دنوں میں جب یاتریوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے اور پوپ کے لئے سب کو فرداً فرداً ببتیسمہ دینا ممکن نہیں ہوتا تو لوگ اس تالاب میں ڈبکی لگا کر ببتسمہ لے لیا کریں۔ یاد رہے عیسائیوں کے لئے پوپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جانشین ہوتا ہے۔ یہ مقدس ترین بزرگ کہلاتا ہے۔ اور اس کے منہ سے جو بات نکل جائے وہ مقدس ہوتی ہے۔ نیز انکا عقیدہ ہے کہ پوپ میں مقدس روح یعنی روح القدس ہوتی ہے
آپ مسلمانوں میں اس کی شکل اسماعیلی فرقے میں دیکھ سکتے ہیں۔ وہ بھی آغا خان کو حاضر امام سمجھتے ہیں۔
اسی مقدس تالاب کی اقتداء میں مختلف چرچوں میں تالاب بنائے گے پھر یہ تالاب گھروں میں بننے شروع ہوئے اور بعد میں سرمایہ دار نے اچک کر انہیں سوئمنگ پول بنا لیا جو آج پیراکی کا بزنس بن چکے ہیں۔
رسوم بذات خود آگے چل کر کاروبار بن جاتی ہیں۔ آپ مزار پر دیا جلاتے ہیں تو اس ایک چھوٹے سے دیئے میں تین کاروبار ہو رہے ہوتے ہیں، ایک روئی بنانے والے کا، دوسرا تیل بنانے والے کا اور تیسرا دیا بنانے والے کا۔ اسی طرح آپ دیگر رسوم کی پڑتال کرتے جائیں تو ایک بزنس مافیا آپ کو ملوث نظر آئے گا۔ یہی بزنس مافیا آگے چل کر سرمایہ دار میں مدغم ہو جاتا ہے۔ اسی کے مفادات ہوتے ہیں جو نظریہ کو خالص نہیں رہنے دیتے۔ آپ مسجد کو لے لیں۔ بیسووں کاروباری حضرات کا مسجد سے کاروبار وابستہ ہوگا۔ چٹائی والا، نلکے ٹوٹی والا، سیمنٹ ریت بجری لوہے والا کھڑکی دروازے کی لکڑی والا، ترکھان پلمبر، الیکٹریشن، غرض آخر میں ،،پس تحقیق کہ مسجد بھی ایک عمارت ہے،، نتیجے نکلے گا۔ یوں آپ دیکھیں گے کہ مذہب کے ہر شعبے میں ایک کاروباری سرمایہ دار ںیٹھا ہوا ہے۔ یہی مسجد کو شعیہ سنی دیو بندی وہاںی اہل حدیثی بناتا اور چلاتا ہے۔ اب آپ ذرا عمیق نگاہی سے دیکھیں تو مذہب کو چورن بناکر بیچنے والا سرمایہ دار ہی نکلے گا۔
پاکستان میں دو چورن بہت بکتے ہیں، ایک مذہب کا چورن دوسرا مردانہ کمزوری کا چورن۔ آپ ان دنوں میں سے ایک دکان کھول کر بیٹھ جائیں دنوں ہفتوں میں آپکے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ ثابت ہوا کہ ہر نظریے کے پیچھے مفاد پرست سرمایہ دار کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ جو مارا ماری آپ دیکھ رہے ہیں کیا صرف پاکستان میں ہی ہے، نہیں پوری دنیا میں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سامراج جنگ کے نام پر یہ ہنر آزماتا ہے اور ہم باہم دست و گریباں ہوتے ہیں۔ دونوں جانب ہاتھ سامراجیت کا ہی ہوتا ہے۔
تحریر برکت حسین شاد۔۔۔
.
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.