End Of The Church Rule In Europe. Urdu Article About Black Death
یورپ، برطانیہ میں کلیسا کی بالادستی کا خاتمہ
چودھویں سے انیسویں صدی تک وسیع سطح پر جو انسانی قتال مذہب کی بنیاد پر شروع ہو چکا ہوا تھا، اس میں ایک "بلیک ڈیتھ" جو کہ تیرہ سو اڑتالیس میں پورے زوروں پر تھی اس میں خدا کے حضور سب سے بڑی نیکی کے حصول کا طریقہ کار، بقول برٹرینڈرسل، یہ تھا کہ یہودیوں کو قتل کر دیا جائے۔ خدا کو خوش کرنے کے لیے بیویریا میں بارہ ہزار یہودی قتل کیے گئے۔ ارفرٹ میں تین ہزار اور سٹراسبرگ میں دو ہزار یہودی ہلاک کر دئیے گئے۔ چودہ سو پچاس اور پندرہ سو پچاس کے دوران صرف جرمنی میں ایک لاکھ عورتوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا، یہ کہہ کر کہ یہ جادوگرنیاں، چڑیلیں اور بھوتنیاں ہیں۔ اس تمام قتال کا محرک بائبل کی یہ آیت تھی کہ تم کسی چڑیل کو زندہ نہیں چھوڑو گے۔
Thou shalt not suffer a witch to live. (Exod. xxii. 18).
لوگ ثواب کمانے کی غرض سے باقاعدہ چڑیلوں کی تلاش میں نکلتے تھے۔ بائبل کی رو سے مرد عورت سے برتر ہے اس لیے، ان کا خیال تھا کہ چڑیلیں صرف عورتوں میں ہی جنم لیتی ہیں۔ بوڑھی عورتیں، بیمار، بدشکل وغیرہ کو چڑیلیں سمجھا جاتا تھا۔ عورتوں کے قتال کو باقاعدہ بائبل کی آیات کی روشنی میں قانونی تحفظ حاصل تھا
سترھویں صدی میں ڈیکارٹ اور دیگر فلسفیوں کی تشکیک نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ بقول برٹرینڈرسل عقلی تشکیک نے بائبل کے احکامات کی جڑیں کھوکھلی کرنی شروع کر دی تھیں۔ فرانس میں ژاں میسلیئر جیسا پادری جو مسیحیت سے منحرف ہوا، اس نے "ٹیسٹامنٹ" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جسے اس کی موت کے دن شائع کیا گیا تھا۔ اس نے وضاحت کی کہ چرچ ایک بڑا فراڈ اور سفاک ادارہ ہے، اور "عہد نامہ قدیم" سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ اس نے کلیسا کے پرخچے اڑا دیے۔ بعد ازاں ہولباخ، والٹیئر، جیسے عظیم لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے کلیسا کی برتری کے خیال کو تباہ کر دیا۔ چڑیلوں کے زندہ جلائے جانے کے خلاف باقاعدہ قانون سازی ہونی شروع ہوئی، لیکن قانون سازی کے بعد بھی ہجوم لوگوں کو زندہ جلا دیا کرتا تھا، اور یہ سلسلہ اٹھارویں صدی تک چلتا رہا۔ یوں عقلیت پسندی کی مضبوط فکری روایت نے یورپ اور برطانیہ سے مسیحیت اور چرچ کی بالادستی کو نیست و نابود کر دیا۔
نوٹ: اس میں اعداد و شمار رسل کے مضمون سے ہیں۔ لیکن میسلیئر کی کتاب "ٹیسٹامنٹ" اور ہولباخ کی "دی سسٹم آف نیچر" کا مطالعہ میرا اپنا ہے۔
( دسمبر 29، 2020)
Imran Shahid Bhinder
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.