Khattak, Khatakiat. By Arif Khattak
خٹکیات
By Arif Khattak
متحدہ عرب امارات کے باسی بھی عجیب الخلقت مخلوق ہیں۔ نہ ہنستے ہیں نہ ہنساتے ہیں۔ بقول پطرس بخاری کے کہ جانور کو لطیفہ سنانا بذات خود ایک لطیفہ ہے۔
پوچھا کسی نے کہ وہ کیسے؟۔
کہا
"انسان کیلے کے چھلکے پر پھسل کر گرجائے تو آس پاس کھڑے لوگ سب ہنسنا شروع کر دیں گے مگر اسی چھلکے پر کوئی بھینس آکر پھسلے تو باقی بھینسیں نہیں ہنستیں"۔
یہی حال امارات میں مقیم پاکستانی دوستوں کا ہے۔ آپ کوئی بھی بات کریں یہ ٹس سے مس نہیں ہوں گے۔ لکیر کے فقیر۔ ٹریفک سگنلز کو نہیں توڑیں گے۔ غیر قانونی کام کرنا تو دور الٹا آپ کو منع کریں گے۔ ہمارے گاوں کے ذری گل کو پرسوں میں نے سڑک کنارے ایک فاختہ کی مرہم پٹی کرتے ہوئے دیکھا۔ حالانکہ ادھر اپنے وطن میں چار قتل کے کیسوں میں مفرور ہیں۔
عرب امارات میں تین چیزیں آپ کو وافر مقدار میں ملتی ہیں۔ ایک کیرالہ کے ہندوستانی، دوسرا پٹھان اور تیسرا بینگولی۔ کیرالہ کے ہندوستانی اتنے شریف النفس ہیں کہ راہ چلتے ہوئے ہوئے بھی آپ پہچان جاتے ہیں۔ آس پاس کے لوگ سڑک پر جس گاڑی کو گالی دیتے ہوئے نظر آجائیں سمجھو وہ ملواری بھائی ہے۔ ایک سو بیس کلومیٹر کی اسپیڈ والے روڈ پر یہ بے ضرر ہندوستانی ساٹھ کی اسپیڈ سے گاڑیاں چلاتے ہیں۔
شریف اتنے کہ دبئی کے پارکنگ لاٹ میں شراب کے نشے میں دھت میرے ساتھ کار میں بیٹھی خاتون کو گھور گھور کر دیکھنے لگا۔ قریب آکر مجھ سے پوچھا
"بھایا ہم آپ کا عورت کو ہاتھ لگاوے؟"۔
دل میں آیا کہ اس معصومیت پر ساتھ بیٹھی ہوئی خاتون قربان کردوں مگر وہی روایتی ضد، غیرت اور ہٹ دھرمی آڑے آگئی۔سو نہایت خندہ پیشانی سے ان کے منہ پر ایک مکا جڑ دیا۔ بیچارا سر جھکا کر آگے چلا گیا۔
پاکستان میں رہنے والے دانشور یہاں کے پاکستانی دانشوروں سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔ ہمارے والے دانشور تو امریکہ سے لیکر افغانستان پر ایسے ایسے تجزئے کریں گے کہ خود جوبائیڈن بھی سر پکڑ کر بیٹھ جائیں۔ اور یہاں کے دانشور جنہوں نے فیس بک پر ایک دو گروپ بنا رکھے ہیں۔ روز انہی گروپوں میں ایک دوسرے پوچھتے رہیں گے۔
"کوئی بتا سکتا ہے کہ پاکستان کی فلائٹس کب کھول رہی ہیں؟۔ پاکستانی آم کہاں سے ملیں گے؟ جہاز کے کرائے کے کیا بھاو ہیں اور فری کورونا ٹیسٹ کہاں سے ہوگا"۔
اس دن ایک دانشور کو اپنی ویڈیو گروپ میں لگاتے دیکھا۔۔ویڈیو میں اپنی بیوی کو نئی کار کا تحفہ دیکر گلے لگایا اور کہا "یہ کار میری جانو کیلئے"۔ بیڑہ غرق ہو میرے کچھ فالورز کا۔ جنہوں نے دبئی میں رہ کر بھی اخلاقیات نہیں سکیھیں۔ جھٹ سے کمنٹ داغ دیئے۔
"بھیا کار کے بعد والی ویڈیو بھی اپلوڈ کردو پلیز"۔
امارات میں آپ کسی بھی پڑھے لکھے پاکستانی سے ملیں گے تو آپ کے کان کے پاس منہ لاکر ایک دفعہ ضرور پوچھے گا
"خان نے پاکستان بدل لیا؟ یا ہم اپنا ویزہ مزید آگے بڑھا دیں؟"۔
عرب امارات میں نسوار کی شدید قلت ہے۔ ایسی بات نہیں کہ نسوار ملتی نہیں۔ ملتی ہیں مگر وہ نسوار نہیں ہوتی۔ منہ سے عجیب قسم کے گندے بھبکے اٹھتے ہیں۔ اگر آپ نے نسوار منہ میں رکھی ہے تو دوسری عورتوں کو چھوڑ اپنی عورت بھی منہ نہیں لگاتی۔
پچھلے دنوں العین میں قلت نسوار کا سامنا ہوا تو انڈسٹریل ایریا صناعیہ میں کسی نے بتایا کہ وہاں کچھ افغانی پشتون چوری چھپے نسوار بیچتے ہیں۔ ہم وہاں پہنچ گئے۔ جینز اور کالی ٹی شرٹ پہنی انکھوں پر سیاہ چشمہ لگائے اور منہ پر عربی رومال کا ڈھاٹا باندھ کر ہم مطلوبہ جگہ پہنچ گئے۔ گاڑی سے جیسے ہی اترے۔ آس پاس افراتفری مچ گئی۔ دیکھا، لونڈے لاونڈے نسوار کی تھیلیاں ہاتھوں میں تھامے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ میں بھی ایک کمزور بندے کے پیچھے بھاگا جس کا پکڑنا بظاہر آسان تھا۔ بالاخر گلی کے نکڑ پر جالیا۔ گھگھیاتے ہوئے اس نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑے۔
"عفوأ۔ أنا مسکين"
مطلب میں غریب ہوں مجھے معاف کردو۔
جوابا میں نے بھی ہاتھ جوڑے۔
"عفوآ. جیب نسوار"
مطلب مجھے بھی معاف کردو۔ نسوار چاہیئے۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ خونخوار نظروں سے دیکھ کر کہنے لگا۔ یار میری جان نکال دی میں سمجھا سی آئی ڈی والے ہیں۔
Urdu Satire by Arif Khattak
Pashto Times
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.