Krave Mart Investment In Pakistani Apps. Start Up. Explained In Urdu
ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم مر گئے، لٹ گئے، برباد ہو گئے۔ جبکہ باقی ساری دنیا عیش کر رہی ہے، ان کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ اس لئے آپ کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی مثال دے رہا۔
امریکا میں اس وقت افراط زر کی شرح ساڑھے چھ فیصد ہے۔ اور یہ بھی اوسط شرح ہے۔ وہاں کی بعض کمزور ریاستوں میں یہ شرح 8 فیصد تک بھی پہنچ رہی ہے۔ ہمیں یہ اپنی نسبت کم لگتی ہے مگر گزشتہ ایک سال میں دنیا بھر میں برازیل اور ترکی کے بعد سب سے زیادہ تیزی سے افراط زر امریکا میں بڑھی ہے۔ وہاں کے عوام بدترین گرانی کی اس چکی میں اس بری طرح پس رہے ہیں کہ ان کی محاورتاً نہیں عملاً چیخیں نکل رہی ہیں۔ لیکن وہاں میں اور یہاں میں دو باتوں کا فرق ہے۔
ایک، وہاں وفاقی حکومت کو جو بھی مسائل اور پریشانیاں لاحق ہوں؛ وہاں کی خودمختار اور بااختیار ریاستی اور مقامی حکومتیں بڑی حد تک اپنا اپنا کام کر رہی ہیں۔
دوسری وجہ وہاں کے عوام کا رویہ ہے۔ انہیں بڑی اچھی طرح یہ معلوم ہے کہ یہ کیپیٹلزم ہے اور بنیادی شہری سہولیات سے بڑھ کر ہمیں جو کچھ بھی درکار ہے، اس کا انتظام ہم نے خود ہی کرنا ہے۔
وہ یہ انتظام کیسے کر رہے ہیں اور ہم اس سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں؟ آج اسی پہ بات کرنی ہے۔
وہاں ملینئیلز میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اگر ہم نے تیس برس کی عمر تک اپنے معاشی اہداف حاصل نہیں کئے تو ہماری زندگی تباہ ہے۔ وہ بڑے ہوں گے تو انہیں احساس ہو جائے گا ان کی یہ سوچ غلط تھی۔ آپ ساٹھ برس کی عمر میں بھی فریش سٹارٹ لے سکتے ہیں۔ مگر اس سے آپ اس مسابقت اور سختی کا اندازہ لگا لیں جو وہاں کی نوجوان نسل برداشت کر رہی ہے۔
ادھیڑ عمر اور بزرگ افراد کے مسائل اس سے بھی کہیں زیادہ گھمبیر ہیں۔ کیونکہ گرانی کی بدترین لہر میں ان کا عمر بھر کا سرمایہ برف کی مانند پگھل رہا ہوتا ہے۔
امریکی بنکوں میں سیونگ اکاؤنٹ پر منافع کی شرح 0.6 فیصد ہے جو ہمارے ہاں چار سے چھ فیصد ہوتی ہے۔ ٹرم ڈپازٹس پر وہاں معیاد کے لحاظ سے 2 سے 6 فیصد منافع ملتا ہے جو ہمارے ہاں 6 سے 10 فیصد تک ہوتا ہے۔
لیکن ہمارے ہاں افراط زر بھی ڈبل ڈیجیٹس کے آس پاس رہتی تو صورتحال کم و بیش ایک جیسی ہے۔
یعنی سیونگ اب سیونگ نہیں رہی۔ آپ کی بچت کو افراط زر کی دیمک لگی ہوئی ہے جو اسے چاٹ چاٹ کر ختم کر رہی ہے۔
تو امریکیوں نے اس کا کیا حل ڈھونڈا ہے؟
انہوں نے کمائی سے بچت اور بچت سے سرمایہ کاری والے فارمولے میں سے بچت کو باہر نکال پھینکا ہے۔
اسے یوں سمجھیں کہ آپ کی ماہانہ آمدنی بالفرض پچاس ہزار ہے اور آپ اس میں پانچ ہزار ماہانہ بچا لیتے ہیں، یہ سوچ کر کہ جب ایک لاکھ ہوں گے تو کہیں انویسٹ کر دیں گے۔ اب بیس ماہ بعد جب ایک لاکھ پورے ہوتے ہیں تو ان کی حقیقی قدر ستر اسی ہزار رہ گئی ہوتی ہے۔
تو امریکی ہر ماہ یہ پانچ ہزار براہ راست انویسٹ کر دیتے ہیں۔
یہ ریٹیل انویسٹمنٹ retail investment کہلاتی ہے اور ایسا کرنے والے ریٹیل انویسٹر۔
اور اس رجحان سے فائدہ اٹھانے کیلئے امریکا میں بہت سے کاروباری ادارے ایسے وجود میں آ چکے جو ریٹیل انویسٹمنٹ کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ مثلاً رئیل اسٹیٹ میں لاکھوں کی انویسٹمنٹ درکار ہے مگر وہاں ایسی ایپس اور بزنس ہیں جو آپ کو فی مربع فٹ انویسٹمنٹ کا موقع فراہم کرتے۔ آپ ہر ماہ اپنی انویسٹمنٹ بڑھاتے جائیں، آپ کا رقبہ بڑھتا جائے گا۔
سٹاک مارکیٹ کو امیروں کا کھیل سمجھا جاتا رہا ہے مگر اب امریکا میں پانچ سو ڈالر سے بھی انویسٹمنٹ ممکن ہے اور یہ میں انویسٹمنٹ کی بات کر رہا، ٹریڈنگ کی نہیں۔
ان دونوں شعبوں میں اب پاکستان میں بھی چند ایک ادارے وجود میں آ چکے مگر ابھی مارکیٹ میں بہت گنجائش ہے۔
تیسرا شعبہ سٹارٹ اپس فنڈنگ ہے جس میں امریکی ریٹیل انویسٹرز سب سے زیادہ سرگرم ہیں۔
کل میں نے کریو مارٹ
Krave Mart
نامی جس پاکستانی ایپ میں ساڑھے چھ ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا تذکرہ کیا۔ اس میں زین کیپیٹل لیڈ کر رہا تھا لیکن مجموعی طور پہ 92 انویسٹرز نے مل کر سرمایہ کاری کی ہے۔
Let that sink in.
اس بات کو ذرا اپنے دماغ کی تہہ میں بیٹھ جانے دیں۔
92
انویسٹرز جو شاید ایک دوسرے کو بھی نہیں جانتے تھے۔ سات سمندر پار واقع پاکستان کو تو بہت ہی کم جانتے ہوں گے اور کریو مارٹ کے فاؤنڈرز کا تو انہیں نام ہی فنڈنگ راؤنڈ میں پتہ چلا ہوگا۔
لیکن ان میں سے کسی نے پانچ، کسی نے دس اور کسی نے پچاس ہزار ڈالرز اکٹھے کئے اور پاکستانی سٹارٹ اپ کو تھما دیے۔
وینچر کیپیٹل فنڈز میں کچھ ہی ایسے ہیں جو کسی ایک یا دو چار کروڑ پتیوں یا ارب پتیوں نے مل کر بنا رکھے۔ بہت بڑی تعداد میں ریٹیل انویسٹرز ہیں جو مل کر فنڈز تشکیل دے رہے۔ اور اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں آزادانہ سرمایہ کاری کرنے والے جو اینجل انویسٹر
angel investor
کہلاتے ہیں۔
اس سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
1- ریٹیل انویسٹمنٹ کرنا سیکھیں۔ اس انتظار میں نہ رہیں کہ آپ کے پاس دس، بیس یا پچاس لاکھ ہوگا تو انویسٹ کریں گے۔ موجودہ حالات میں ہونے سے نہ ہونے کا خدشہ بہت زیادہ ہے۔ اس خدشے کا سدباب صرف ریٹیل انویسٹمنٹ کر سکتی ہے۔
2- ایسے سٹارٹ اپ بنائیں جو ریٹیل انویسٹرز کو سرمایہ کاری کی سہولیات مہیا کریں۔ میدان کھلا پڑا ہے۔ کچھ کھلاڑی میدان میں اتر چکے، بہت سوں کی گنجائش ہے۔
3- مقامی وینچر کیپیٹل فنڈز قائم کئے جائیں تاکہ مقامی ریٹیل انویسٹرز کرپٹو میں پیسے پھنسانے کی بجائے مقامی معیشت میں سرمایہ لگائیں۔
آپ کو مضاربہ اور ڈبل شاہ سکینڈل یاد ہی ہوں گے۔ ان کے کروڑوں اربوں روپیہ اکٹھا کر لینے میں مذہبی استحصال، لالچ اور ترغیب کے علاوہ جو عنصر سب سے اہم تھا وہ یہی کہ مفتیان اور ڈبل شاہ نے سرمایہ کاری کی کوئی کم سے کم حد نہیں رکھی تھی۔ میں ایسے دکانداروں کو جانتا جو بیچارے ہر ماہ پانچ ہزار دس ہزار مفتی کو بھینٹ چڑھا آتے تھے۔
کرپٹو ٹریڈنگ میں بھی اسی ریٹیل انویسٹمنٹ کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ میں اسے مضاربہ سکینڈل سے تشبیہہ نہیں دے رہا لیکن بہرحال ملک سے سرمایہ باہر جا رہا ہے۔
اگر حکومت وینچر کیپیٹل فنڈز قائم کرنے کا عمل تھوڑا آسان بنا دے اور ان کی انویسٹمنٹ کو صرف سٹارٹ اپس فنڈنگ کیلئے مخصوص کر دے تو ملک میں معاشی انقلاب آ سکتا ہے۔
اس برس اندازہ ہے کہ پاکستانیوں نے تین ارب ڈالرز کرپٹو میں سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ تین ارب ڈالرز اب واپس کب آتے ہیں اور آتے بھی ہیں یا نہیں، ہم میں سے کوئی نہیں جانتا۔
اگر یہی تین ارب ڈالرز پاکستانی سٹارٹ اپس کو مل جائیں تو سوچیں کیا منظر ہو گا پاکستان میں؟؟؟
By Muhammad Ishfaq
Krave Mart Investment In Pakistani Apps. Start Up. Explained In Urdu
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.