Machines, Job Market, Technology And Future Jobs. Urdu Blog.
سوال:- اب جبکہ ساری دُنیا میں مشینیں روزگار کو چھین لیں گی تو ہمیں کونسا ہُنر سیکھنا ہوگا؟
جواب:- ہمیں مشینوں کو کنٹرول کرنا سیکھنا ہوگا۔
مستقبل کی زیادہ تر نوکریاں مشینوں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے ہونگیں۔ جس میں الگورتھم بنانے جیسے کمپیوٹر سائنس کے علم سے لیکر انکی نگرانی کرنے والے عملے کی نوکریاں پیدا ہونگیں۔ مجموعی طور پہ زیادہ تر نوکریاں ڈاٹا سائنس سے متلقہ ہونگیں جس میں ڈاٹا کس طرح کام کرتا ہے سے لیکر اس ڈاٹا سے کیا کام کرنا ہے تک شامل ہوگا۔
آج یہ پوسٹ لکھنے تک بوتلیں بنانے والی انڈسٹریوں سے لیکر کاریں بنانے والی انڈسٹری تک ہر جگہ اسی فیصد تک کام مشینوں نے سنبھال رکھا ہے۔ بس تھوڑا سا عملہ ان کی نگرانی پہ لگا ہوا ہے۔ یا پھر ان شعبوں میں جن میں مشینیں بالکل کام نہیں کر سکتی انسان کام کر رہی ہیں۔ مُستقبل قریب میں خود کار ٹرک تو روزگار کے ایک شعبے کو ختم کردیں گے۔ مگر اس کے نتیجے میں ان کی نگرانی کرنے والے ڈیپارٹمنٹ کی نوکریاں پیدا ہونگیں۔ اس لئے اپنے بچوں کو یہ نا سکھائیں کہ انہوں نے ایک ہی شعبے میں جانا ہے بلکہ انکو ہر طرح کے حالات کے لئے تیار رہنا سکھائیں۔
آج کے اس دور میں وہ کام سیکھنے کی کوشش کریں جو ایک مشین نہیں کر سکتی۔ کیونکہ مُستقبل میں یہ جو بچی کُچھی مزدوری والی نوکریاں ہیں اُن کو بھی مشینیں لے لیں گی۔
چونکہ ایک مشین کام کو تیزی، پرفیکشن اور کم لاگت پہ مکمل کرتی ہے اس لئے ایک مشین کو انسانی مزدور پہ ترجیع دی جارہی ہے اور آنے والی چند دہائیوں میں انسان مکمل طور پہ ایسے کاموں میں پسِ پُشت چلے جائیں گے۔ رہ جائیں گی تو صرف مشینیں ہی۔
آج لوگوں کے پاس جو ہُنر ہے وہ والی نوکریاں نہیں اور جو نوکریاں ہیں انکے لئے ہُنر مند نہیں۔ اس دور میں ایک ہی ڈگری یا ہنر ساری عمر نہیں کام آنا۔ بلکہ کامیاب وہی ہے جس کو طرح طرح کے کام آتے ہیں جو ہر سانچے میں ڈھل سکتا ہے اور یا پھر وہ جو کاروبار کرنا جانتا ہے۔
آن لائن کمائی؛ کسی بھی معیشت کا جدید سہارا ہے۔
آن لائن کام یا پھر فری لانسنگ نے نوکریاں کرنے کا انداز بدل دیا ہے۔ جہاں انڈیا ٹاپ فری لانسنگ مُلک بن کر 400 ارب ڈالر سے زائد آمدن اپنے گھر لا رہا ہے، وہیں بنگلہ دیش جیسا مُلک دوسرے نمبر پر ہے۔ اور انڈیا سے صرف چار سے چھ فیصد کم فری لانسر رکھتا ہے۔
اسوقت امریکہ کی 33 فیصد نوکریاں فری لانسنگ پہ چل رہی ہیں۔وقت کی اس دوڑ میں ہمارا مُلک کافی پیچھے رہ چُکا تھا۔ مگر پھر پنجاب حکومت نے PITB نامی ایک بورڈ کو تشکیل دیا اور اسکے ساتھ ساتھ ITU یونیورسٹی بھی بنائی۔ اب اس یونیورسٹی کے گریجویٹس مائیکروسافٹ سے لیکر گوگل جیسی کمپنیوں میں نوکریاں کررہے ہیں اور جن کی تعلیم جاری ہے وہ فری لانسنگ کرکے پیسہ بھی کما رہے ہیں۔
اسکے علاوہ پچھلی پنجاب حکومت نے جو سب سے زیادہ دور اندیش کام کیا وہ فری لانسنگ سکھانے والے پروگرام کا اجرا ء تھا جسکے تحت ہزاروں بچوں نے فری لانسنگ سیکھی اور ہمیں ایسے سینکڑوں کیس ملے جن میں کسی لڑکی نے ماہانہ لاکھ روپے کمایا تو کسی لڑکے نے کڑوڑوں ( عبدالولی نامی بلاگر نے سال میں اتنے پیسے یو ڈیمی نامی ویب سائٹ کے لئے کورس بنا کر کمائے)
فری لانسنگ اب کسی بھی مُلک کی معیشت کا اہم جزو بن چُکی ہے۔ پنجاب حکومت کے شروع کردہ پروگرام کے نتیجے میں پاکستان نے فقط ایک سال میں زیرو سے آکر ایک ارب ڈالر کمائے (2017 میں) اور اب یہ کمائی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ اسی طرح کے پی حکومت نے بھی اپنا روزگار پروگرام شروع کیا اور خاطر خواہ نتائج حاصل کئیے۔
اگر آپ اچھا لکھ سکتے ہیں، یا آپکو اچھے گرافک بنانے آتے ہیں، یا کوڈنگ آتی ہے تو آپ بھی فری لانسر یا اپ ورک نامی ویب سائٹس پہ کام کرکے روزانہ کے کم سے کم دو ہزار روپے کما سکتے ہیں ( شروع میں مُشکلات ہوتی ہیں مگر پھر پیسوں کی ریل پیل ہے) میرا خود کا اتنا فری وقت نہیں ہوتا ورنہ میں بھی فری لانسنگ کرتا کیونکہ میں اچھا لکھ لیتا ہوں۔ خیر اگلے ماہ تک میں بھی یہ کام شروع کروں گا اور ہوسکے تو آپ بھی شروع کرسکتے ہیں۔ اس آن لائن پیسہ کمانے کے طریقے یوٹیوب سے سیکھ سکتے ہیں۔ اور ہاں کبھی بھی کسی پونزی یا سکیم ویب سائٹ کو مت چلائے گا۔
آن لائن فراڈ کے متعلق پھر بات ہوگی۔
نوٹ
یہ پوسٹ 2 پہلے لکھی گئی تھی۔ جسے اب کچھ اضافے کے ساتھ دوبارہ شئیر کر رہا ہوں۔ آج کورونا کی وجہ سے تمام معیشت بند پڑی ہے مگر وہ لوگ جو آن لائن کاروبار سے منسلک تھے اللہ پاک کے فضل سے انکی آمدن پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ چکی ہے۔ ابھی بھی آن لائن مارکیٹ میں بہت کام پڑا ہے آپ وہ شروع کر سکتے ہیں۔ جزاکءاللہ
ضیغم قدیر
Future of Jobs With Technological Development, Online Earning and Learning Explained In Urdu. Data Related Jobs In Future. Algoritham if Computers and Blockchain Technology explained in Urdu.
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.