Missing Pilot Hi Speed Gul. 1971 War And Missing Pakistani Pilot.
حیرت انگیز سچے واقعات-19
( ستونت کور )
گمشدہ ہواباز
دسمبر 1971
جنوبی ایشیاء دو ازلی دشمن پڑوسی پاکستان اور بھا••رت دس دن سے حالتِ جنگ میں تھے
13
دسمبر
1971
کو بھا••رتی فضائیہ کے Mig طیاروں کے ایک سکوارڈن کو گجرات سے سندھ تک پرواز کرتے ہوئے بدین میں قائم پاکستانی افواج کے ایک زیرزمین ہیڈکوارٹر بنام "بدین کمپلیکس " کو نشانہ بنانے کا ٹاسک ملا
گزشتہ 10 دن میں بھا••رتی فضائیہ اس ہدف کو متعدد مرتبہ نشانہ بنانے کی کوشش کرچکی تھی لیکن تاحال انہیں کوئی مناسب کامیابی نہ مل پائی تھی جس کی دو وجوہات تھیں:
✓ یہ زیرزمین عسکری تنصیب کنکریٹ کی نہایت دبیز دیواروں اور دھری حفاظتی لائنوں کے اندر قائم تھی اور بھا••رتی فضائیہ کے مروج 57mm راکٹ اسے چھید پانے سے قاصر تھے ۔
✓ بدین کمپلیکس اور اس کے آس پاس پاکستانی افواج نے 8.8 سم کی طیارہ شکن فلیک گنز کا جال بچھا رکھا تھا ۔
۔
13 دسمبر کو بدین کمپلیکس پر حملے کے لیے روانہ کیے جانے والے 4 طیاروں پر مشتمل گروپ کے لیڈر "ونگ کمانڈر ہرسرن گل" عرف " ہائی سپیڈ گل" تھے ۔۔۔۔
ہائی سپیڈ گل 6 جولائی 1933 کو نوشہرہ میں پیدا ہوئے ۔ 1954 میں انہوں نے 20 سال کی عمر میں ائیر فورس جوائن کرلی اور بہت جلد ان کا شمار روسی ساختہ مِگ-21 طیارے کے پائلٹس میں ہونے لگا ۔
اب 38 سالہ ہائی سپیڈ گل 13 دسمبر 1971 کے روز بدین کمپلیکس پر راکٹ باری کے لیے بھیجے جانے والے 4 مِگ۔ طیاروں کے گروپ کو لیڈ کررہے تھے ۔ دیگر تین پائلٹس کے نام وینے کپلیا، بوپرائی اور سونی تھے ۔
بوپرائی نے بعد میں بیان کیا کہ " اس روز حملے پر جانے سے قبل ہائی سپیڈ گل اپ سیٹ تھا اور اس نے گروپ لیڈر ہونے کے باوجود اپنے طیارے کی جگہ تبدیل کرتے ہوئے اسے حملے میں دوسرے نمبر پر لے آیا اور سب سے آگے میں تھا ۔"
بوپرائی نے مزید بیان کیا کہ " بدین کمپلیکس پر حملے کے بعد جب ہم واپس مڑے تو کچھ فاصلے تک جانے کے بعد مجھے ہائی سپیڈ گل کا طیارہ نہیں نظر آرہا تھا ۔۔۔ چنانچہ میں خطرے کے باوجود پیچھے کو مڑا اور پھر سے ٹارگٹ ایریا کے قریب پہنچا جہاں میں نے قریب ہی زمین پر آتشزدگی اور دھواں اٹھتے دیکھا۔۔۔۔ صاف ظاہر تھا کہ ہائی سپیڈ گل کے طیارے کو پاکستانی طیارہ شکن گنرز نے مار گرایا تھا ۔۔۔ لیکن میں نے اسے ایجکٹ کرتے نہیں دیکھا
۔۔۔۔۔۔
اسی شام۔۔۔ حیدرآباد کے ایک ریڈیو سٹیشن پر یہ پیغام نشر کیا گیا کہ
" بدین کی فضاؤں میں دشمن کے ایک طیارے کو گرا دیا گیا ہے۔ اس کے پائلٹ کو #گرفتار کرلیا گیا ہے جس کا تعلق Hindon Air base
سے ہے
یہ بات حقیقت تھی ، جنگ سے قبل ہائی سپیڈ گل کی تعیناتی اسی ہوائی اڈے پر تھی
لیکن اسی روز پاکستان میں ایک اور ریڈیو نشریات پر یہ پیغام نشر کیا گیا کہ " تباہ شدہ طیارے کا پائلٹ ہرسرن گل طیارے کے ساتھ ہی جل کے ختم ہوگیا ہے اور اس کو پہچانا جانا ممکن نہیں ".... (تو پھر نام اور اس کے ائیربیس کا نام کیسے پتا چلا ؟)
3
دن بعد اس جنگ کا اختتام ہوگیا۔
اس جنگ کے دوران بھا••رت نے پاکستان کے 92,753 افراد (فوجی و سویلینز) کو قیدی بنایا ۔
جبکہ
پاکستان نے بھا••رت کے 14 ہوابازوں سمیت 616 افراد کو جنگی قیدی بنایا تھا ۔
بھا••رتی فضائیہ کے مطابق " ہائی سپیڈ گل لاپتہ تھا" جبکہ پاکستان نے اسے پہلے گرفتار اور پھر "مقتول" قرار دے دیا تھا ۔
چنانچہ ان 616 قیدیوں کی فہرست میں ہائی سپیڈ گل کا نام شامل نہ تھا۔
" شملہ معاہدہ " کے طے پا جانے کے بعد ہر دو ممالک نے ایک دوسرے کے سبھی قیدیوں کو رہا کرتے ہوئے واپس اپنے اپنے ممالک بھیج دیا۔۔۔تاہم ظاہر ہے ان میں "لاپتہ ہائی سپیڈ گل" شامل نہ تھا
یہاں تک کہ اس کی باقیات کو بھی کبھی واپس نہیں بھیجا گیا
1979
میں پہلی مرتبہ بھا••رتی پالیمنٹ کے سامنے ان 40 بھا••رتی افسران و اہلکاروں کی فہرست پیش کی گئی کہ جو 1971 کی جنگ میں لاپتہ ہوگئے تھے اور اس فہرست میں ہائی سپیڈ گل کا نام بھی شامل تھا ۔
1972
میں لاپتہ گل کی بیوی بسنتی نے حکومت سے درخواست کی کہ وہ اس کے خاوند کی تلاش اور بازیابی میں مدد کریں ۔
چنانچہ بھا••رتی حکومت نے حکومت پاکستان سے ایک مرتبہ پھر سرکاری سطح پر ، ہائی سپیڈ گل سے متعلق استفسار کیا جس پر پاکستان کا جواب کچھ یوں تھا " ہٹ ہونے کے بعد طیارے کا پائلٹ ایجکٹ نہ کر سکا تھا اور اسی لیے طیارے کے ساتھ ہی ختم ہوگیا ۔ طیارے میں شدید نوعیت کی آگ بھڑک جانے کی وجہ سے اس کی باقیات کو نہیں ریکور کیا جاسکا ۔۔۔ پاکستان کو مقتول پائلٹ کے نام کا علم تب ہوا کہ جب بھا••رتی ریڈیو سٹیشنز پر اس کا نام، گمشدگی کی خبر کے ساتھ نشر کیا گیا
لیکن اس جواب میں ایک بہت ہی بڑا جھول موجود تھا ۔۔
کیونکہ بھا••رت نے 12 مئی 1972 سے قبل کبھی گمشدہ پائلٹ کی تفصیلات نشر ہی نہ کی تھیں ۔۔۔ پھر ایک سال قبل ہی پاکستان کو ان سب تفصیلات کا علم کیسے ہوا ہوگا ؟
۔۔۔۔۔۔۔
پھر چند برس بعد امید کی ایک کرن جاگی ۔۔۔
بستنی کی بہن برطانیہ میں بطورِ فلائیٹ اٹینڈنٹ کام کرتی تھی جہاں اس کی دوستی ایک پاکستانی فلائیٹ اٹنڈنٹ سے ہوئی اور اس فلائیٹ اٹینڈنٹ کا رشتہ بدین سے ہوا تھا
اس نے اپنے پاکستانی کولیگ کو اپنا مدعا بتاتے ہوئے اس سے مدد کی درخواست کی ، جس پر اس نے بدین میں اپنی منگیتر کے خاندان سے رابطہ کیا اور ان سے کسی ایسے ممکنہ دشمن ہواباز سے متعلق استفسار کیا کہ جسے 1971 کی جنگ میں قیدی بنایا گیا ہو۔۔۔۔ اور وہاں سے ملنے والی معلومات سنسنی خیز تھیں
پاکستانی فلائیٹ اٹینڈنٹ کی منگیتر نے اسے دسمبر 1971 کے ایک واقعہ سے متعلق بتایا کہ جب دشمن کا ایک طیارہ مارگرائے جانے کے بعد دشمن کے ہواباز نے پیراشوٹ کی مدد سے چھلانگ لگادی تھی اور اس نے ان کے گھر کے نزدیک ہی لینڈ کیا تھا جسے بعد ازاں گرفتار کرلیا گیا تھا۔۔۔ اس نے مزید بتایا کہ گرفتار دشمن ہواباز کا سر بالوں سے خالی تھا"
لیکن بسنتی کو ان معلومات سے اس لیے مایوسی کا سامنا کرنا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کا خاوند ہائی سپیڈ گل گنجا نہیں تھا
لیکن ۔۔۔۔ کچھ ہی وقت بعد بستنی کا رابطہ بوپرائی سے ہوا جس نے یہ لرزہ خیز انکشاف کیا کہ آخری مشن پر جانے سے کچھ دن قبل ہی ہرسرن نے اپنے سر کے بال صاف کروا دیے تھے
اب صاف واضح ہوچکا تھا کہ ہائی سپیڈ گل فی الحقیقت اس دن بچ نکلا تھا اور بعد ازاں اسے گرفتار کر لیا گیا۔۔۔
لیکن
آخر پاکستان کے ہائی سپیڈ گل کی گرفتاری کو چھپانے کی کوشش کیوں کی ؟
اسے قیدیوں کے تبادلے کے دوران رہا کیوں نہ کیا گیا ؟
1979
میں بوپرائی بغداد میں ، عراقی افواج کی تربیت کے لیے بھیجے گئے ایک یونٹ میں شامل تھا اور 2 سال اس نے عراق میں گزارے ۔
واپس آکر بوپرائی نے ایک ایسا سنسنی آمیز انکشاف کیا کہ اگر وہ سچ ہے تو گرفتاری کے بعد ہائی سپیڈ گل پر کیا بیتی ؟ اس بات کا اندازہ کیا جاسکتا تھا ۔
بوہرائی کے مطابق " عراق میں قیام کے دوران ایک امریکی انسٹرکٹر سے میری دوستی ہوگئی تھی ۔۔۔ اس انسٹرکٹر نے ایک روز مجھے ایک ایسے بھا••رتی ہواباز کی کہانی سنائی کہ جسے 1971 کی جنگ کی بعد پاکستان نے امریکہ کے حوالے کیا تھا
لیکن۔۔۔۔ بوپرائی کے پاس اپنے اس دعوے کو درست ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہ تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
لیکن۔ یہ بات قطعاً خارج از امکان نہیں تھی
ان دنوں بھا••رت روس کا قریبی اتحادی تھا
اور پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا
دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے فوراً بعد سے ہی امریکہ و روس کے درمیان ایک خفیہ نوعیت کی سرد جنگ کا آغاز ہوچکا تھا
ہر دو ممالک عرصہ دراز سے ایک دوسرے کی جنگی ٹیکنالوجی میں نقب لگانے ، ایک دوسرے کے ہتھیاروں کے حصول ، انہیں ڈی-کوڈ اور ریورس انجینئرنگ کرنے اور ان کا توڑ پیدا کرنے کی ہر ممکن کوششوں میں مشغول تھے ۔
مِگ سیریز اس دور میں روس کے جدید ترین جنگی طیاروں پر مشتمل سیریز تھی ۔۔۔ اور ظاہر ہے روسی طیاروں کا توڑ کرنے کے لیے امریکہ کو ایسے طیاروں کے سیمپلز کے علاؤہ ان کے ماہرین یا پائلٹس تک رسائی بھی بیحد ضروری تھی ۔
لیکن امریکہ کا روس سے کسی روسی مگ پائلٹ کو اغواء کرنا بہت مشکل تھا ۔۔۔۔ چنانچہ بوپرائی کے مطابق امریکہ نے روس سے تربیت یافتہ بھا••رتی مِگ پائلٹ کی گرفتاری کی خبر ملتے ہی اس موقع کا فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی اور اس طرح ہائی سپیڈ گل کو امریکہ کے حوالے کردیا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہائی سپیڈ گل کا خاندان آج بھی اس کی واپسی کے لیے پرامید ہے ۔
اگر وہ اب تک زندہ ہے تو یقیناً امریکہ میں ہی ہوگا اور اس کی عمر 90 کے قریب ہوگی ۔
لیکن ظاہر ہے امریکہ نے اسے ہمیشہ حراست کی کیفیت میں ہی رکھا ہوگا اور اسے واپس بھیج کر امریکہ کبھی اپنے رازوں سے پردہ اٹھنا اور سبکی اٹھانا افورڈ نہیں کرسکتا ۔
اس لیے، شاید یہ راز ہمیشہ ایک راز ہی رہ جائے۔۔۔۔۔
#ستی
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.