By Muhammad Nasar Saddiqi
ماڈرن سعودی عرب اور فحاشی
6
اکتوبر 1973 کو ایک بار پھر عرب اس*رائیل جنگ شروع ہو گئی جس میں شام اور مصر نے عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر حملہ کیا ۔ اس جنگ کے دوران امریکہ اور کچھ دیگر ممالک نے عرب جارحیت کی مذمت کی اور اس*رائیل کا ساتھ دیا۔
17
اکتوبر 1973 کو شاہ فیصل نے جوابی ردعمل میں ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ انھوں نے عرب ممالک کی جانب اس*رائیلی اتحادیوں کےلیے تیل کی ترسیل پہ پابندی عائد کر دی جس سے دنیا میں تیل کی قیمتیں چار گنا بڑھ گئیں۔ یہ ایک کارآمد ہتھیار تھا جس کا بہترین استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد امریکہ نے ایسا پلان ترتیب دیا کہ تیل کے لحاظ سے عرب ممالک پہ انحصار ختم کیا جائے۔ ویسے بھی خود سعودی عرب میں تیل نکالنے والی کمپنی امریکی تھی
مارچ 1938 میں اس کمپنی کا نام کیلیفورنیا اریبیئن سٹینڈرڈ آئل کمپنی رکھا گیا جو بعد میں عربیئن امیریکن آئل کمپنی یعنی آرامکو بن گیا۔ خود امریکہ اپنے ملک میں اس سے بھی قریب ایک صدی قبل تیل دریافت کر چکا تھا۔ کرنل ایڈورڈ ڈریک نے امریکہ کی ریاست پینسلونیا میں 27 اگست 1859 کو تیل کے ذخائر دریافت کیے جو صرف 12 میٹر گہرائی پر تھے۔
یہ ویژن کی بات ہوتی ہے کہ امریکہ تیل میں خودمختاری کی جانب گامزن ہو گیا جب سعودی عرب نے اپنی نوے فیصد معیشت کا دارومدار تیل پہ رکھا ۔ بدلتے وقت کے لحاظ سے نئے سٹیپ نہ اٹھانا ہمیشہ نقصان دہ ہوتا ہے ۔ آج سعودی عرب کے پاس تیل بطور ہتھیار نہیں رہا۔ اگر مزید کچھ سالوں تک اس کی معیشت کا دارومدار تیل پہ رہا تو اکانومی کریش کر جائے گی۔ آج امریکہ روزانہ سعودی عرب سے بیس لاکھ بیرل زیادہ تیل پیدا کرتا ہے ۔ سعودی عرب کی تیل پہ اجارہ داری ختم ہو چکی ہے۔ سب سے زیادہ خام تیل کے ذخائر لاطینی امریکہ کے ملک وینیزویلا کے پاس ہیں۔ امریکہ کے پاس دنیا کا سب سے بڑا ایمرجنسی تیل کا ذخیرہ ہے۔ 640 ملین سے زائد بیرلز کی شکل میں ٹیکساس اور لوئیزیانا کی ریاستوں میں نمک کے غاروں میں ذخیرہ کیا گیا ۔ ایسے میں سعودی عرب اب تیزی سے معیشت کے دوسرے ذرائع ڈھونڈ رہا ہے۔ اس کےلیے سعودی ویژن 2030 شروع کیا گیا ہے۔
سعودی ویژن 2030 کے مطابق 2030 تک سعودی عرب کو
عصری تقاضوں سے لیس کرنا ہے تا کہ دنیا کے مقابلے میں اپنا آزاد وجوث برقرار رکھا جا سکے۔ معیشت میں پیداواریت اور سرمایہ کاری کے ذریعے نئی توانائی شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے آزاد پالیسیاں متعارف کرائی جارہی ہیں
خواتین کو بااختیاربنانے اور اقتصادی شہروں کی بحالی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ غیر ملکی سیاحوں کو راغب کرنے کےلیے کلب ، شراب خانے ، موسیقی ، تھیٹر ، سینما ، بیچ وغیرہ جیسی تمام سہولیات کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ عورت کو آزاد کیا جا رہا ہے تا کہ وہ خودمختار ہو کر ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس پہ الباکستانیوں کو ہمیشہ کی طرح مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ پوری دنیا کو ہمارے حساب سے چلنا چاہیے ۔ سعودی عرب کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ۔ وہ اپنے ملک کی ترقی کےلیے لانگ ٹرم پلاننگ کر رہے ہیں ۔ مالی ترقی ہی دنیا میں بقا کی ضامن ہے ۔ وہ یہ بات سمجھ چکے ہیں۔ دوسروں پہ تنقید کرنے کے بجائے اپنی فکر کریں ۔ عورت کی خودمختاری ، موسیقی ، رقص اور لٹریچر سے نفرت ابنارمل انسان کرتے ہیں ۔ آپ کے نزدیک یہ فحاشی ہو گی لیکن نارمل انسانوں کے نزدیک نہیں ہے ۔
نشر مکرر
تحریر محمد ناصر صدیقی
Its always awesome to read you thank you
ReplyDelete